اوصافِ نبی:

1.2.3.4-اللہ پاک کے پیارے نبی ﷺ نے ارشادفرمایا: جبریل نے حاضر ہو کر مجھے یوں سلام کیا: السلام علیک یا ظاھر،السلام علیک یا باطن !میں نے کہا:اے جبریل!یہ صفات تو اللہ پاک کی ہیں کہ اُسی کو لائق ہیں۔ مجھ سی مخلوق کو کیونکرہو سکتی ہیں! جبریل نے عرض کی:اللہ پاک نے آپ کو ان صفات سے فضلیت دی اورتمام انس ومر سلین ( علیہم السلام) پر انہیں خصوصیت بخشی اور اپنے نام و وصف(یعنی صفت و خوبی ) سے آپ کا نام و وصف نکالا ہے۔اللہ پاک نے آپ کا نام”اوّل“رکھا کیونکہ آپ سب انبیائے کرام سے پیدائش کے اعتبار سےاوّل یعنی پہلے ہیں اور آپ کا نام”آخر“ رکھا کیونکہ آپ سب انبیائے کرام کے زمانے سے آخرمیں تشریف لانے والے اور آپ آخری امت کے آخری نبی ہیں۔

اللہ پاک نے آپ کانا م باطن رکھا کیونکہ اللہ پاک نے اپنے نام کے ساتھ آپ کانام سنہرے نور سے عرش کے پائے پر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لکھا۔ پھر مجھے آپ پر درود شریف بھیجنے کا حکم دیا تو میں نے آپ پر ہزار سال درود اور ہزار سال سلام بھیجا یہاں تک کہ اللہ کریم نے آپ کو خوش خبری اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اُس کے علم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔اللہ پاک نے آپ کا نام”ظاہر“ رکھا کہ اس نے آپ کو تمام دینوں پر غلبہ عطافرمایا اورآپ کی شریعت وفضیلت کو تمام زمین و آسمان والوں پر ظاہر کیا تو کوئی ایسا نہ رہا جس نے آپ پر درود نہ بھیجا۔اللہ پاک آپ پر درود( یعنی رحمت) بھیجے۔پس آپ کا رب محمود(یعنی تعریف کیا گیا )ہے اور آپ محمد(یعنی تعریف کیے گئے ہیں۔ )آپ کا رب اول و آخر، ظاہر و باطن ہے اور آپ بھی اپنے رب کی عطاسے اول و آخر، ظاہر و باطن ہیں(یہ سن کر) میں نے کہا: تمام تعریفیں اسی کےلیے ہیں جس نے مجھے تمام انبیائے کرام(علیہم السلام )پر فضلیت عطا فرمائی یہاں تک کہ میرےنام و صفت میں (بھی سب پر فضلیت دی)۔

5- وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىؕ(۴) (پ 30، الضحی: 4) ترجمہ:اے محبوب آپ کی آنے والی ہر گھڑی آپ کی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے۔

6- اللہ پاک نے میرے لئے کمالِ اختصار فرمایا:تو ہم سب سے آخری اور قیامت کے دن ہم سب سے پہلے ہیں۔ حدیثِ پاک کے اس حصے(کمالِ اختصارفر مایا)کے ایک معنی یہ ہیں کہ مجھے اختصارِ کلام(یعنی خوبیوں بھری مختصر بات کرنے کا کمال) بخشا کہ تھوڑے لفظ ہوں اور معنی کثیر۔

7-پیارے آقا ﷺ نے فرمایا:مجھے چھ وجہ سے انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے اور مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں۔

8-میری مدد رُعب سے کی گئی ہے۔

9-میرے لیے غنیمتوں کو حلال کر دیا گیا ہے۔

10- تمام روئے زمین کو میرے لیے طہارت و نماز کی جگہ بنا دیا گیا ہے۔

11-مجھے تمام مخلوق کی طرف( نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے۔

12- اورمجھ پر نبیوں (کے سلسلے) کو ختم کیا گیا ہے۔

کتابِ حضرت موسیٰ میں وصف ہیں ان کے کتابِ عیسیٰ میں ان کے فسانے آئے ہیں

انہی کی نعمت کے نغمے زبورسے سن لو زبانِ قرآں پہ ان کے ترانے آئے ہیں


حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن کو بنظر ِایمان دیکھیں تو اس میں اول تا آخر حضور کے فضائل ہیں۔قرآن کا ہر موضوع اپنے لانے والے حبیبﷺ کے محامد اور اوصاف کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

1-قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) (پ6،المائدۃ:15) ترجمہ:بے شک اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور آیا اور روشن کتاب۔ اس آیتِ مبارکہ میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک وصف بیان ہوا اور وہ ہے نور۔اللہ پاک نے آپ کو نور فرمایا۔نو ر وہ ہوتا ہے جو خود تو ظاہر ہو اور دوسری کو ظاہر کردے۔دیکھو! آفتاب(سورج) نور ہے کہ سورج کو دیکھنے کے لیے کسی روشنی کی ضرورت نہیں وہ خود روشن ہے اور جس پر اس نے خود توجہ کردی وہ بھی چمک گیا۔دنیا میں کوئی اپنے خاندان،پیشہ،سلطنت کی وجہ سے مشہور ہوتا ہے۔لیکن حضور ﷺ کسی کی وجہ سے نہیں چمکتے، وہ تو خود نور ہیں !ان کو کون چمکاتا !بلکہ ان کی وجہ سے سب چمک گئے۔

سورج کی روشنی کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔صبح کو ہلکی،دو پہر کو زیادہ،شام کو پھر کم،رات کو غائب مگر نورِ محمدی کبھی کم نہیں۔سورج ہر وقت آدھی زمین کو روشن کرتا ہے۔مگر نورِ حبیب ساری زمین بلکہ فرش و عرش کو، سورج بدن کے ظاہر کو چمکاتا ہے اور نور ِرسول دل و دماغ کو خیال کو غرضیکہ سب کو ہی چمکاتا ہے۔( شانِ حبیب الرحمن،ص79تا81)

2- وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیا: 107) ترجمہ:اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر۔ اس آیت میں ایک خاص صفت رحمۃ للعلمین کا ذکر ہے۔ لیکن آیت کے طریقہ بیان اور طرزِ ادا پر غور کرو کہ حضور کی رحمت کی وسعت کتنی ہے! یہاں چار باتیں قابلِ بحث ہیں:(1) کون رحمت ہے؟ (2) کس پر رحمت ہے؟ (3) کب سے رحمت ہے؟(4) اور کب تک رحمت ہے؟

کون رحمت ہے ؟اس کو بیان فرمایا وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ نے یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت ہونا آپ ہی کی صفت ہے۔ اور کسی کو یہ درجہ عنایت نہ ہوا۔

کس پررحمت ہیں؟ اس کو لِّلْعٰلَمِیْنَ نے بیان کر دیا۔ رب کی صفت ہےرَبُّ الْعٰلَمِیْنَ اور حضورﷺکی صفت ہے رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ یعنی جس کا خدا رب ہے اس کے لیے حضور رحمت ہیں۔

کب سے حضور رحمت ہیں؟اس کو بھی لِّلْعٰلَمِیْنَ نے بیان کیا کہ جب سے عالم ہے تب سےحضور رحمت ہیں۔ حضور کب تک رحمت ہیں؟اس کو بھی لِّلْعٰلَمِیْنَ نے بیان فرمایا کہ جب تک یہ عالم ہے تب تک رحمتِ مصطفٰے ہے۔ ( شانِ حبیبُ الرحمن،ص1 15 تا 154)

3– وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)(پ29،القلم:4)ترجمہ:اور بے شک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔ صاحبِ روح البیان نے لکھا ہے:اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ حضور کو شکرِ نوح، خلتِ ابراہیمی، اخلاصِ موسیٰ،حضرت اسمعیل کا سچ، حضرت یعقوب و ایوب کا صبر،حضرت داؤد کا عذر اور حضرت سلیمان و عیسیٰ کی تواضع اور سارے انبیا کے اخلاق عطا فرمائے۔ تمام انبیائے کرام کی صفات کے آپ جامع ہوئے۔بعض حضرات نے کہا:حضور کے اخلاق رب کو اختیار کرنا، مخلوق سے کنارہ کرنا ہیں۔( شانِ حبیب الرحمن،ص262)

4-یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ 21، الاحزاب: 45-46) ترجمہ: اے غیب کی خبریں بتانے والے بے شک ہم نے تم کو بھیجا حاضر و ناظر خو شخبر ی دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااور چمکا دینے والا چراغ۔

اس آیت میں تین صفتوں کا ذکر ہے: خوشخبریاں دینا، ڈرانا اوراللہ کی طرف بلانا۔اگرچہ پہلے انبیا نے بھی یہ کام انجام دئیے مگر ان کی اور حضور ﷺ کی تبلیغ میں تین فرق ہیں:(1)وہ انبیا سن کر تبلیغ کرتے اور حضور دیکھ کر۔ (2)وہ خاص امتوں کے نبی، بشر و نذیر تھے اور حضور تمام عالم کے بشیرو نذیر۔(3) پیغمبر خاص وقت تک مبلغ اور بشیر و نذیر رہے مگر حضور قیامت تک کے لیے۔

5-وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ(۱) مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ(۲) وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) (پ27،النجم: 1تا4) ترجمہ: اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اُترےتمہارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلےاور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتےوہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے۔مفسرین کا اس آیت میں اختلاف ہے کہ نجم سے کیا مراد ہے اور ھوی سے کیا مقصود ہے؟بعض نے فرمایا:نجم حضور کی صفت ہے۔ اس کا مطلب ہے ستارہ اور وہ سرکار ﷺ کی ذات ہے۔کیونکہ نجم کا کام ہے ہدایت دینا مسافروں کو دریا میں بھی اور جنگل میں بھی اور یہ ذاتِ کریم بھی ہادیِ خلق ہے۔

آیت میں ایک صفت وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىبیان ہوئی۔ہمارے نبی اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ رب کی وحی ہوتی ہے۔ (شانِ حبیب الرحمن،ص 239 تا 240 )

6- یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(۲) (پ29،المزمل:1تا2) ترجمہ: اے جھرمٹ مارنے والے ر ات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے۔اس آیت میں وصف مزمل بیان ہوا۔تفسیرروح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ رات کو محبوب چادر اوڑھ کر آرام فرما رہے تھے۔ رب العالمین نے چاہا کہ اس وقت ہمارے محبوب ہم سے مناجات اور راز و نیاز کی باتیں کریں تو آپ کو ندا دے کر جگایا کہ اے آرام فرمانے والے محبوب ہم سے باتیں کرو۔ (شان حبیب الرحمن،ص266)

7-یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْﭪ(۲) وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْﭪ(۳) وَ ثِیَابَكَ فَطَهِّرْﭪ(۴) (پ 29، المدثر: 1 تا 4) ترجمہ: اے بالا پوش اوڑھنے والےکھڑے ہوجاؤ پھر ڈر سناؤاور اپنے رب ہی کی بڑائی بولواور اپنے کپڑے پاک رکھو۔

اس آیت میں وصف مدثر کا تذکرہ ہوا۔حضور فرماتے ہیں کہ میں غارِ حرا میں تھا اور فرشتہ وحی لایا،اس وقت پیارے آقا ہیبت سے حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور حکم دیا کہ ہم کو چادر اوڑھا دو۔ جب چادر اوڑھی تب یہ وحی آئی کہ اے چادر اوڑھنے والے محبوب اٹھو اور کاموں میں مشغول ہو جاؤ۔ تبلیغِ دین کردو۔تکبیر پڑھو اور کپڑوں کو پاک رکھو۔ (شان حبیب الرحمن،ص 270 )

8- یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) (پ 22، یٰسٓ: 1-2) ترجمہ:قسم ہے قرآن کی جو حکمت سے بھرا ہوا ہے۔ (تفسیرمظہری) اس آیت میں حضورﷺ کا ایک وصف بیان ہوا۔کلمہ یٰسٓ مشابہات میں سے ہےیعنی اس کا صحیح معنی رب اور اس کا حبیب جانے مگر مفسرین نے کچھ تاویلیں فرمائی ہیں۔(اول) یٰسٓ حضورﷺ کا اسم شریف ہے اور اس میں ندا پوشیدہ ہے یعنی اے یٰسٓ۔(دوم) ندا کا حرف ہے۔ اس سے مراد سید العالمین ہیں یعنی اے جہاں والوں کے سردار۔(سوم) یہ سورۃ کا نام ہے۔ (شان حبیب الرحمن،ص211)


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ارشاد ہوتا ہے:اے محبوب ہمارے!میں جو کتاب نازل کروں گا کہ سننے والوں کے دل بے اختیار تمہاری طرف جھک جائیں اور نادیدہ تمہارے عشق کی شمع ان کے کانوں، سینوں میں بھڑک اٹھے گی۔

1-حضور نور ہیں:قرآنِ مجید حضور کے وجودِ مسعود کو سراپا نور قرار دیتا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)(پ5،المائدة:15) ترجمہ:بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور ( یعنی حضرت محمد ﷺ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآنِ مجید۔)(عقائد و مسائل) تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں نور سے مراد ذاتِ مصطفٰے ہے۔

2-نبی ِکریم کا خلقِ عظیم:کائنات میں سب سے اعلیٰ اخلاق پر فائز ذات بھی مصطفٰے ﷺ کی ہے۔جن کے اخلاق کے عظیم ہونے کی گواہی خود الله پاک نے دی۔اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۴) (القلم:4) ترجمہ:بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔(سیرتِ رسولِ عربی)

3-حضور کو جوامع الکلم کا عطیہ بخشا گیا:نبیِ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:اُعْطِیْتُ جَوَامِعُ الْکَلِم یعنی مجھے مختصر الفاظ اور معانی کا بحر بے پیدا کنار عطا کیا گیا۔ (مسلم،1/ 199)

4-آپ کو خزانوں کی کنجیاں دی گئیں:اللہ پاک نے اپنے تمام خزانوں کی کنجیاں حضور ﷺکو بخش دیں۔ دنیا اور دین کی سب نعمتوں کا دینے والا خدا ہے اور بانٹنے والے حضور ﷺ ہیں۔حدیث میں ہے:اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ مُعْطِی اللہ دینے والا اور میں بانٹنے والا ہوں۔(قانونِ شریعت)

5-حضور مبشر و نذیر ہیں:وَمُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (الاحزاب: 45 )ترجمہ:اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔ آیتِ مبارکہ کےاس حصے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو سچے دل سے ایمان لانے والوں کو جنت کی خوشخبری سنانے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

6-آپ رحمۃ للعلمین ہیں:ہمارے پیارے آقا ﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)(پ17،الانبیاء:107) ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

7-حضور کو معراج عطا فر مائی:اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔انہی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت سفرِ معراج بھی ہے۔جو منفرد معجزہ ہے۔آپ ﷺ کو عرش پر بلایا اور اپنا دیدار آنکھوں سے کرایا۔ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ(۹)(پ27،النجم:9) ترجمہ:تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہا تھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم۔ (دس اسلامی عقیدے)

8-حضور کو حوضِ کوثر عطا کیا گیا:فرمانِ باری ہے: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(۲) اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠(۳) (پ 30،الکوثر:1تا3)ترجمہ: اے محبوب !بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ بیشک جو تمہارادشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔

کوثر کا لفظ کثرت سے نکلا ہے۔ اس کا معنی ہے”بہت ہی زیادہ۔ لفظِ کوثر میں بہت کچھ داخل ہے۔ایک قوی قول یہ ہے کہ کوثر سے مراد جنت کی ایک نہر ہے اور یہ ہمارے آقا ﷺ کو عطا ہوئی۔

9-حضور شفاعت فرمانے والے ہیں: الله پاک فرماتا ہے:عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا (۷۹) (بنی اسرائیل: 79) ترجمہ:قریب ہے کہ تہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔

حدیث شریف میں ہے: نبیِ پاک ﷺ سے عرض کی گئی: مقام ِمحمود کیا ہے؟فرمایا:وہ شفاعت ہے۔

10-حضور کو علمِ غیب عطا فر مایا گیا:الله پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(۱۱۳) (پ5،النساء:113) ترجمہ کنز الایمان:اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور الله کا تم پر بڑا فضل ہے۔یہ آیتِ مبارکہ ہمارے نبیِ کریم ﷺ کی عظیم مدح اور تعریف پر مشتمل ہے۔اللہ کریم نے اپنے حبیب کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور آپ کو دین کے امور، شریعت کے احکام اور غیب کے وہ تمام علوم عطا فرمادئیے جو آپ نہ جانتے تھے۔

زندگیاں بیت گئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا

اس شان سے اللہ نے اتارے ہیں محمدﷺ                    ہر دور میں ہر شخص کو پیارے ہیں محمدﷺ

حضرت محمد،خاتم النبيين ﷺ امتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ، نورِ ہدایت،اندھیروں میں روشن چراغ کی مانند، حق کی طرف رہنمائی کرنے والے،اللہ کے چنے ہوئے خاص بندے اور رسول ہیں۔ آپ کی ذات مبارکہ بے شمار خوبیوں سے بھر پور ہے۔آپ معلم بنا کر بھیجے گئے اور ایسے بے مثال معلم کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:میرے ماں باپ آپ پر قربان!میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی معلم(سکھانے والا ) نہیں دیکھا۔(مسلم،حدیث: 1199) لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ- (اٰل عمرٰن:164) ترجمہ کنزالایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے۔

یہ اللہ پاک کا کروڑ ہا کروڑ شکر و احسان ہے کہ اس قدر بلند مرتبہ، شفیق و مہرباں ہستی کو ہم پر مبعوث فرمایا کہ آپ نہایت نرم دل اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ ترجمہ کنز الایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہو جاتے۔ (ال عمرٰن: 159) آپ ﷺ کے ساتھیوں کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو صحابہ کرام کو نبی کریم ﷺسے والہانہ عشق و محبت تھا اور یہ اللہ رحمن و رحیم کی مہربانی سے آپ کے حسنِ اخلاق کی بدولت ہی ہے۔ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (القلم:4)ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک یقیناً تم عظیم اخلاق پر ہو۔

آپ کا اخلاق ہو بہو قرآن کا آئینہ تھا۔حضرت سعد بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں بتائیے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے عرض کی:کیوں نہیں ! تو آپ نے ارشاد فرمایا:رسول اللہ ﷺ کا خلق قرآن ہی تو ہے۔( مسلم،ص374،حدیث: 476)

آپ کا ایک وصف خیر خواہی کا جذبہ ہے۔ آپ کی ذاتِ مبارک مومنوں پر انتہائی لطف و کرم فرمانے والی سرپا شفقت و رحمت ہے۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128)ترجمہ کنز العرفان:بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے،وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔

سید العالمینﷺ کی ذاتِ مبارکہ صبر،علم اور عفو و درگزر کا عملی نمونہ تھی۔کفار کے بے حد ظلم وستم کے باوجودحضور پر نور ﷺ نے فتحِ مکہ کے موقع پر انہیں معاف فرما دیا اور فرمایا کہ آج کے دن تم پر کچھ مواخذہ نہیں! تم سب آزاد ہو۔ (تفسیرصراط الجنان )

حضور پر نور ﷺ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور اپنی امت کو گمراہی میں دیکھ کر اپنی امت کے لیے شدید رنج و غم میں مبتلا رہے۔ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶) (الكہف: 6) ترجمہ کنز الایمان: تو کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے پیچھے اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں غم سے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میری اور میری امت کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے آگ جلائی تو مکھیاں اور پتنگے اس میں پڑنے لگے ( یہی حال تمہارا اور ہمارا ہے ) میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں (جہنم کی آگ میں ) بلا سوچے سمجھے گھسے چلے جا رہے ہو۔( بخاری، 4 / 232،حديث:6483)

رسول الله ﷺحقیقت پر مبنی دلائل اور نشانیوں کے ساتھ اللہ قادر مطلق کی حدود میں رہنے والوں کو باغات اور اللہ کی خوشنودی کی خوش خبری دینے والے اور گمراہی میں پڑ کر اپنی جان پر ظلم کرنے والوں کو جہنم کی دہکتی آگ اور اللہ پاک کی ناراضی سےڈرانے والے ہیں۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ- (البقرہ: 119) ترجمہ کنز الایمان:بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔

رسول اللهﷺ تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ آپ عذاب سے آڑ ہیں۔ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- (الانفال:33) ترجمہ: اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے۔

آپ اللہ پاک کی تمام مخلوقات پر کمال رحم فرمانے والے ہیں۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

حضور پر نور ﷺ بہت با حیا اور لحاظ کرنے والے تھے۔ آپ ﷺ کی ذات پر کوئی بات گراں گزرتی تو آپ اسے بیان فرمانے میں بھی حیا فرماتے۔ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘- (پ22، الاحزاب:53) ترجمہ: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ کی ایک صفت اُمّی ہے۔ آپ نے اللہ کے سوا کسی سے علم حاصل نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف اللہ پاک کی تعلیمات کا عملی نمونہ تھے۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب:21) ترجمہ: بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

ایسا امی کس لئے منت کشِ استاد ہو کیا کفایت اس کواِقْرَاْ رَبُّكَ الْاَكْرَم نہیں

رسولِ کریم ﷺ نے صبر و شکر کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔صبر کی بات کی جائے تو اپنے لختِ جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر آپ نے فرمایا: آنکھ آنسو بہا رہی ہے، دل غمگین ہے اور ہم وہی کہہ رہے ہیں جو ہمارے رب کو پسند آئے۔ (ابو داود، 3126)

اور شکر کا جذبہ دیکھا جائے تو حضور نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔ آپ سے عرض کیا گیا:اللہ پاک نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خلافِ اولیٰ باتوں معاف کر دی ہیں ! رسول مقبول ﷺنے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟(مسلم، حدیث:7124)

نیز زندگی کے ہر شعبے میں رسولِ امین ﷺ نے ہمارے لیے عظیم مثالیں قائم کی ہیں۔اللہ ہمیں رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین يارب العالمين


اے رضا خود صاحبِ قرآن ہے مدَّاحِ حضور                    تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآنِ مجید کو بنظر ِایمان دیکھا جائے تو اس میں شروع سے لے کر آخر تک حضور کے اوصاف ہی معلوم ہوتے ہیں۔حمدِ الہٰی ہو یا عقائد کا بیان،سابقہ قوموں کے واقعات ہوں یا احکام غرض قرآنِ مجید کا ہر موضوع حضور کے اوصاف بیان کرتا ہے۔حضور کو اللہ پاک نے ایسے فضائل کےساتھ مخصوص کیا ہے جس کا احاطہ ممکن نہیں۔ ان اوصاف میں سے بعض اوصاف وہ ہیں جن کی تصریح اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے۔چونکہ ہمارا موضوع اوصافِ سرکارہے۔لہٰذا دس اوصاف درج ذیل ہیں:

آیت نمبر1-مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاؕ(۸۰) (پ5،النساء: 80) ترجمہ کنز العرفان:جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ موڑا تو ہم نے تمہیں انہیں بچانے کیلئے نہیں بھیجا۔اس آیت میں اللہ پاک نے حضور کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ حضور کو بارگاہِ الٰہی میں وہ تقرب حاصل ہے کہ فرمایا:اے محبوب جس نے تیری پیروی کی گویا اس نے میری ہی اطاعت کی۔ اور حضورﷺ کی اطاعت کو شرط بنا کرپہلےبیان فرماکراور بعد میں اپنی اطاعت کو بطورِ جزاء بیان فرمایا۔

آیت نمبر2:وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) (پ9،الانفال:33) ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے۔جب تک اے حبیب تم ان میں تشریف فرما ہو۔اس آیت میں حضورﷺ کے رحمتِ عالم ہونے کا ذکر ہے۔ارشاد فرمایا:اے حبیب!جب تک تم ان میں تشریف فرما ہو تب تک کفار کو عذاب نہیں دیا جائے گا کیونکہ آپ رحمۃ للعلمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

اَنْتَ فِیْهِمْنے عدو کو بھی لیا دامن میں عیشِ جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست

آیت نمبر3: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)(پ17،الانبیاء:107) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔ آقاﷺ کی ایک صفت رحمۃ للعلمین بھی ہے جس کا اس آیتِ مبارکہ میں ذکر ہوا۔ آپ ﷺ رسولوں،نبیوں،فرشتوں،انسانوں، جنات،مومن کافر حتی کہ حیوانات، نباتات اور جمادات کیلئے بھی رحمت ہیں۔

آیت نمبر4:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ(پ21،الاحزاب:21)ترجمہ کنز العرفان: بیشک تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔اس آیت میں بھی آقا ﷺ کی تعریف بیان کی گئی کہ آپ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کی ہدایت کا طریقہ بھی بتایا گیا کہ اگر آخرت کی بہتری چاہیے تونبیِ کریم ﷺ کے نقشِ قدم پر چلو۔ (شانِ حبیب الرحمن،ص 176 )

آیت نمبر5:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-(پ22،الاحزاب:40)ترجمہ کنز العرفان:محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں۔لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔اس آیت میں اللہ پاک نے آقا ﷺ کو خاتم النبیین کے دلنشین لقب سے نوازا ہے اور آپ کا یہ وصف بیان فرمایا ہے کہ آپ انتہا میں سے آخری ہیں۔آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔

آیت نمبر6:وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۸) (المنافقون:8)ترجمہ کنز العرفان:عزت تو صرف اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے لئے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔ اس آیت میں حضورﷺکی عزت کا خطبہ ارشاد ہوا ہے اور ساتھ ہی آقا ﷺکے صدقے میں مسلمانوں کی عزت کا اظہار بھی فرمایا گیا۔(شانِ حبیب الرحمن،ص253 )

آیت نمبر 7:اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْۚ-(پ26،الفتح:10) ترجمہ کنز العرفان: بیشک جو لوگ تمہاری بیعت کرتے ہیں۔ وہ تو الله ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔یہ آیت حضور ﷺ کے اوصاف کا مجموعہ ہے کہ اللہ پاک نے اس آیت میں حضور کی اطاعت کو اپنی اطاعت،حضور کی بیعت کو اپنی بیعت بلکہ حضور کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قراردے دیا۔

آیت نمبر 8: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30،الم نشرح:4)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کیا۔ یہ آیت بظاہر مختصر ہے مگر اس میں آقا ﷺکی وہ نعت بیان ہے کہ جس کے بیان سے قلم قاصر ہے۔ فرمایا: اے ہمارے محبوب ! ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا کہ جہاں ہماری یاد ہوگی وہاں تمہارا بھی چرچا ہو گا اور ایمان بھی تمہاری یاد کے بغیر پورا نہ ہوگا۔

آیت نمبر9: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29،القلم:4)ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔ اس آیت میں بھی حضورﷺ کی صفت بیان کی گئی ہے اور حضور کے اخلاقِ کریمانہ کو عظیم فرمایا گیا ہے۔

تیرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تیری خِلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا تیرے خالقِ حسن و ادا کی قسم

آیت نمبر 10: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (پ30،الکوثر:1)ترجمہ کنز العرفان:اے محبوب!بے شک ہم نے تمہیں بےشمار خوبیاں عطافرمائیں۔ اس آیت میں حضو رﷺ سے فرمایا جا رہا ہےکہ اے محبوب!ہم نے آپ کو بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں اور کثیر فضائل عنایت کرکے آپ کو تمام مخلوق پر افضل کیا۔(تفسیرصراط الجنان، جلد0 1)آپ کے اوصاف بے شمار و لاتعداد ہیں۔ہم آپ کے اوصاف کا کروڑواں حصہ بھی بیان نہیں کر سکتیں۔ ہم تو بس اتنا کہہ کر خاموش ہو جائیں کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصۂ مختصر۔

بلا شبہ قرآنِ کریم حضور ﷺ کی حمد و ثنا کا رنگا رنگ اور حسین وجمیل گلدستہ اور حضور کی مدح و ستائش کا ایک عظیم الشان دفتر ہے۔سارے قرآنِ کریم میں آپ کی نعت وصفات کی آیاتِ بینات اسی طرح جگمگا رہی ہیں جیسے سارا آسمان جھلملاتے ستاروں سے روشن ہے۔اس ضمن میں چند آیاتِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:

1-حضور رحمۃ للعلمین ہیں: حضور ﷺکا ایک وصف قرآنِ کریم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ حضور جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں جیسے سورۃ الانبیاء، آیت نمبر 107 میں ارشادِ باری ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجمہ:اورہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت بنا کر سارے جہان کے لیے۔اس آیتِ مبارکہ نے حضور ﷺ کی نعت کے وہ پھول کھلائے ہیں جس سے دماغ و ایمان معطر ہو گیا۔حضورﷺ کو رب نے بے شمار صفات سے نوازا ہے۔ انہی میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ رحمۃ للعلمین ہیں۔ اس آیت میں اس خاص وصف کا ذکر ہے۔

2-حضور خاتم النبیین ہیں:الله پاک سورۃ الاحزاب آیت نمبر40 میں حضور ﷺکا یہ وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمہ کنز العرفان:لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔آیتِ کریمہ کے اس حصے میں فرمایا گیا ہے کہ محمد مصطفٰے ﷺ آخری نبی ہیں کہ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو ہرگز نبوت نہیں مل سکتی۔ (شان حبیب الرحمن)

3-حضور بے مثال ہیں:حضور ﷺ کا ایک وصف قرآنِ پاک میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ بے مثل و بے نظیر ہیں۔سورۃ البقرہ آیت نمبر23میں ارشادِ ربانی ہے: فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-تر جمہ:تو تم اس طرح کی ایک سورت تو لے آؤ۔ مفسرین نے آیت کے اس حصے کے ایک معنی یہ بھی بیان کیے ہیں کہ مِثْلِهٖکی ضمیر حضورﷺکی طرف لوٹتی ہے تو آیت کے معنی یہ ہوئے کہ ایک سورت ہی ایسی لے آؤجو کہ محمد رسول اللہ ﷺ جیسی عظیم ذات کے دہنِ مبارک سے نکلی ہو، یعنی اولاً تو کوئی ایسی شان والا محبوب دنیا میں ڈھونڈوپھر اس کے منہ سے ایسی آیت پڑ ھوا کر سنو۔ (تفسیر خازن)( شانِ حبیب الرحمن، ص31)

4 -حضور الله کے رسول ہیں: الله پاک پارہ 26 سورۃ فتح کی آیت نمبر 29 میں ارشاد فرماتا ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- ترجمہ کنز العرفان: محمد الله کے رسول ہیں۔ اس آیت میں اللہ پاک اپنے حبیب کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفٰےﷺ اللہ پاک کے رسول ہیں۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر چہ حضور کی صفات بے شمارہیں لیکن رب کریم نے آیت کے اس حصے میں اپنے حبیب کو رسالت کی صفت سے یاد فرمایا ہے اور کلمہ میں بھی یہ ہی وصف بیان فرمایا ہے۔ (تفسیر صراط البنان،9/385)

5 -حضور نورہیں:قرآنِ کریم نے حضور ﷺکا ایک وصف نور بھی بیان فرمایا ہے،چنانچہ قرآن ِکریم کی سورہ مائدہ آیت نمبر 15 میں ارشادِ باری ہوتا ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ: بے شک اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور آیا اور روشن کتاب۔ یہ آیتِ کر یمہ حضور ﷺ کی عظیم الشان نعت ہے۔ اس آیت میں حضور ﷺ کو نور فرمایا گیا ہے۔نوروہ ہے جو خود تو ظا ہر اور چمک دار ہو اور دوسروں کو بھی چمکادے۔دنیا میں کوئی اپنے خاندان سے مشہور ہوتا ہے۔کوئی پیشے کی وجہ سے، کوئی سلطنت کی وجہ سے، لیکن حضور ﷺ کسی وجہ سے نہیں چمکے وہ تو خود نورہیں۔ ان کو کون چمکاتا؟بلکہ ان کی وجہ سے سارا عالم چمک گیا۔ (شان حبیب الرحمن،ص 77)

حضور نور ہیں، محمود ہیں، محمد ہیں جگہ جگہ نئے عنوان ہیں ثنا کے لیے

6-پیارے آقا شاہد ہیں: یہاں بھی حضور ﷺ کا ایک عظیم وصف بیان کیا گیا ہے کہ آپ شاہدہیں۔ سورۃ الاحزاب آیت نمبر 45 میں ارشادِ باری ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجمہ کنز العرفان:اے نبی بیشک ہم نے تمہیں گواہ بنا کر بھیجا۔آیت کے اس حصے میں نبیِ کریم ﷺ کو شاہد فرمایا گیا ہے۔شاہد کا ایک معنی ہے:حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے:گواہ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے شاہد کامعنی حاضر وناظر فرمایا ہے۔ اس بارے میں سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے کہ اگر اس کا معنی گواہ کیا جائے تو بھی مطلب وہی بنے گا کیونکہ گواہ کو بھی اس لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے اور سر کار ﷺ چونکہ د وعالم کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں اور آپ کی رسالت عام ہے۔ اس لئے حضور پر نور ﷺ قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال، افعال،احوال، ہدایت و گمراہی سب کا مشاہدہ فرمانے والے ہیں۔ (تفسیرصراط الجنان،6/56)

7-8 -حضور مبشرونذ یرہیں:یہاں حضور ﷺکے دو اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔سورۃ الاحزاب آیت نمبر45 میں فرمانِ رحمن ہے:وَ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵)ترجمہ کنز العرفان:اورخو شخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔ آیت ِکریمہ کے اس حصےمیں فرمایا گیا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیبﷺ کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری سنانے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔

9-10 -حضور داعی اور سراج منیر ہیں: سورۃ الاحزاب آیت نمبر 46 میں اپنے حبیب ﷺکے دو اوصاف ذکر کرتے ہوئے ارشادِ باری ہے:وَ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶)ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجاہے۔ آیت کے اس حصے میں فرمایا گیا کہ اے حبیب! آپ کو خدا کے حکم سے لوگوں کو خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجاگیا۔اسی طرح اللہ پاک نے سید العالمین ﷺکو” سراجِ منیر“یعنی چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا ہے کہ اللہ پاک نے آپ کی چمک دمک سے دو عالم روشن فرما دئیے۔ (صراط الجنان،8/ 59)

اللہ پاک نے دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کو جو اوصاف و فضائل الگ الگ عطا فرمائے وہ تمام شرف و فضیلت والے اوصاف اپنے محبوب کی ذاتِ گرامی میں جمع فرما دیے۔نبیِ کریم ﷺ کے اوصاف بے شمار ہیں۔ جن کا احاطہ قلم میں لانا ممکن نہیں۔ جن کے اوصاف کا تذکرہ قرآنِ پاک میں بھی موجود ہے۔ جن کے اوصاف کا تذکرہ خود خالقِ کا ئنات کر رہا ہو تو پھر مخلوقِ خدا کیسے ان تمام اوصاف کو بیان کر سکتی ہے! جو وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں اور جب سے یہ دنیا وجود میں آئی تب سے محبوبِ خدا کے اوصاف بیان کیے جارہے ہیں۔ ان کے اوصاف کا شمار ناممکن ہے۔ لیکن قرآنِ پاک میں ذکر کیے جانے والے اوصاف میں سے دس اوصاف درج ذیل ہیں:

1-اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ-وَّ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ(۱۱۹) (البقرۃ: 119) ترجمہ کنز الایمان:بے شک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور تم سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہوگا۔ اللہ پاک نے حضور ﷺ کو حق کے ساتھ ایمان داروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو اللہ پاک کے عذاب سے ڈرانے والا بنا کربھیجا۔

2-لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲)(البلد: 1-2)ترجمہ کنز الایمان:مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔ ”سورہ بلد کی دوسری آیت میں گویا کہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب ﷺ مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔

3-وَ الضُّحٰىۙ(۱) وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰىۙ(۲) (الضحی: 1-2)ترجمہ کنز الایمان:چاشت کی قسم اور رات کی جب پردہ ڈالے۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ چاشت سے جمالِ مصطفٰے کے نور کی طرف اشارہ ہے اور رات سے آپ کے عنبرین گیسو کی طرف اشارہ ہے۔ (روح البیان )

4-وَ الْعَصْرِۙ(۱) (العصر: 1)ترجمہ کنز الایمان:اس زمانہ محبوب کی قسم۔ اس میں نبیِ کریم ﷺکے مقدس زمانے کی قسم ارشاد فرمائی ہے جو بڑا خیر و برکت کا زمانہ ہے۔

5-قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)(المائدۃ:15)ترجمہ کنز الایمان:بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ آپ ﷺ کا ایک وصف یہ بیان کیا کہ آپ نو ر ہیں۔ نور سے مراد قرآنِ پاک ہے جو حضور ﷺکے ذریعے ہمیں ملا۔

6-اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ(۱)ترجمہ کنز العرفان:بیشک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح کا فیصلہ فرما دیا۔ اس میں نبیِ کریم ﷺسے خطاب کیا جا رہا ہے کہ بے شک ہم نے آپ کے لیے ایسی فتح کا فیصلہ فرما دیا ہے جو انتہائی عظیم روشن اور ظاہر ہے جیسے مکہ، خیبر، حنین اور طائف وغیرہ کی فتوحات۔

7-فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪-(پ4،اٰل عمرٰن: 159)ترجمہ کنز الایمان: تو کیسی اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہو جاتے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ ﷺ کی صفات کو پہلی کتابوں میں دیکھا ہے۔آپ نہ تو تنگ مزاج ہیں اور نہ ہی سخت دل، نہ بازاروں میں شور کرنے والے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے ہیں بلکہ معاف کرنے والے اور درگزر فرمانے والے ہیں۔( تفسیر ابنِ کثیر، 2/ 130)

8-خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ(۳) عَلَّمَهُ الْبَیَانَ(۴)(الرحمٰن: 3-4)ترجمہ کنز الایمان:انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا۔ماکان وما یکون کا بیان انہیں سکھایا۔تفسیرِ خازن میں ہے:یہاں انسان سے مراد دو عالم کے سردار،محمد مصطفٰے ﷺ ہیں اور بیان سے ماکان وما یکون یعنی جو کچھ ہوا،آئندہ ہو گا کا بیان مراد ہے۔کیونکہ نبیِ کریم ﷺاولین و آخرین اور قیامت کے دن کی خبر دینے والے ہیں۔

9-وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-(النساء:113) ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے۔یہ آیتِ مبارکہ حضور اقدس ﷺ کی عظیم مدح پر مشتمل ہے۔اللہ پاک نے فرمایا:اے حبیب!اللہ پاک نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو دین کے امور، شریعت کے احکام اور غیب کے وہ علوم عطا فرمائے جو آپ نہ جانتے تھے۔ اللہ پاک کی عطا سے جن کا شمار اللہ پاک ہی جانتا ہے۔

10- وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ(۶)(النمل:6)ترجمہ کنز الایمان:اور بے شک تم قرآن سکھائے جاتے ہو حکمت والے علم والے کی طرف سے۔حضور پر نور ﷺنے اللہ پاک سے قرآن سیکھا ہے اور حضور کی طرح کوئی قرآن نہیں سمجھ سکتا۔ کیونکہ سب لوگ مخلوق سے قرآن سیکھتے ہیں اور حضور ﷺنے خالق سے سیکھا۔

1-اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں جہاں بھی اپنے حبیب ﷺ سے خطاب کیا تو حضور اقدس ﷺکے نام سے نہیں بلکہ اوصاف اور القاب سے یاد کیا۔(تفسیر صراط الجنان،جلد10)

2-اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اپنے حبیب ﷺکے شہر کی قسم، ان کی باتوں کی قسم،ان کے زمانے کی قسم اور ان کی جان کی قسم بیان فرمائی۔ یہ وہ مقام ہے جواللہ پاک کی بارگاہ میں آپ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں۔ (تفسیر صراط الجنان،جلد10)

3-دیگر انبیائے کرام سے کفار نے جو جاہلانہ اور بیہودہ گفتگو کی اس کا جواب ان انبیائے کرام نے ہی اپنے حلم اور فضل کے لائق دیا، لیکن جب اللہ پاک کے حبیبﷺ کی شان میں کفار نے زبان درازی کی تو خود اللہ پاک نےدیا۔ (تفسیر صراط الحبان، جلد10)

4-حضور اقدس ﷺاللہ پاک کے ایسے حبیب ہیں کہ اللہ پاک نے بن مانگے ان کا حق اس سینہ ہدایت اور معرفت کے لیے کھول کر انہیں یہ نعمت عطا فرمائی۔(تفسیر صراط الجنان،جلد10)

5- حضور پر نورﷺ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا مخلوق پر لازم کر دیا حتی کہ کسی کا اللہ پاک پر ایمان لانا اور اس کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی عبادت کرنا اس وقت تک قبول نہیں جب تک وہ تاجدارِ رسالتﷺ پر ایمان نہ لائے اور ان کی اطاعت نہ کرے۔ ( تفسیر صراط الجنان،جلد10)

6-حضور اقدس ﷺ کا ذکر اتنا بلند ہے کہ اللہ پاک کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ پاک نے اذان میں،اقامت میں،نمار میں،تشہد میں،خطبے میں اور کثیر مقامات میں اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا۔ (تفسیر صراط الجنان،جلد10)

7- نبیِ کریم ﷺ کے زمانہ والوں کو ایمان کے ذریعہ جو درجہ نصیب ہو سکتا تھا وہ بعد والوں کے لیے ممکن نہیں۔(تفسیرصراط الجنان،جلد10)

8-حضور اقدسﷺ اللہ کے ایسے محبوب ہیں کہ آپ کا دشمن اللہ پاک کا دشمن ہے کہ ابو جہل نے حضور ﷺکو دھمکی لگائی کہ وہ اپنی مجلس کے لوگوں کو بلائے گا تو حضور ﷺنے یہ نہ فرمایا کہ ہم صحابہ کی جماعت بلائیں گے بلکہ اللہ پاک نے فرمایا:ہم زبانیہ فرشتوں کو بلائیں گے۔(تفسیر صراط الجنان،جلد10)

9-نبیِ کریم ﷺکی شان ظاہر کرنے کے لیے فرشتوں کی فوج آنے کو تیار ہے ورنہ کفار کی ہلاکت کے لیے ایک ہی فرشتہ کافی ہے۔(تفسیر صر اط الجنان،جلد10)

10-بعض علما سےمنقول ہے: پوری عقل کے 100 حصے ہیں،ان میں 99 حصے حضور ﷺ میں ہیں اور 1حصہ تمام مسلمانوں میں ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، جلد10)


اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱)(الم نشرح: 1)ترجمہ کنز العرفان:کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کشادہ نہ کر دیا۔

اوصاف کا لغوی معنی: اوصاف وصف کی جمع ہے جس کا لغوی معنی خوبی،عمدگی،بھلائی و غیرہ کے ہیں۔ پیارے آقا ﷺ کے بے شمار اوصاف ہیں۔ الفاظ ختم ہو جائیں لیکن میرے کریم آقا ﷺ کے وصف ختم نہ ہوں۔ پیارے آقاﷺکے اوصاف درج ذیل ہیں:

1-اللہ فرماتا ہے: اے محبوب !اگر تمہیں نہ بنانا ہوتا تو میں اپنارب ہونا ظاہر نہ کرتا۔

2-قرآنِ پاک میں ہے: جس طرح سورج کو اس کےنور نے چھپا لیاکہ کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ پاتا اسی طرح حضور ﷺ کی نورانیت پر دہ بن گئی۔

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

3-پیارے آقاﷺکا نام عرش کے پائے پر، ہر ایک آسمان پر،جنت کے درختوں اورمحلات پر، حوروں کے سینے پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہے۔

4-میرے کریم آقاﷺکا وصف ہے کہ شیطان ان کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔( بخاری شریف)

اے کاش !کبھی ایسا بھی ہو خواب میں مرے ہوں جس کی غلامی میں وہ آقا نظر آئے

5- میرے کریم آقاﷺ نےجس کے ایمان کی گواہی دے دی وہ واقعی جنتی ہے۔صدیق و فاروق کا ایمان قطعی ہے، کیونکہ اس کی گواہی اللہ کے گواہ نے دے دی۔ اس کا منکر رب کا منکر ہے۔

6-حضور ﷺ خاتم النبین ہیں۔ ان کےبعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپ ﷺصاحبِ معراج ہیں۔ کسی پیغمبر کو ایسی معراج نہیں ہوئی۔

طور اور معراج کے قصہ سے ہوتا ہے عیاں اپنا جانا اور ہے ان کا بلانا اور ہے

7-میرے کریم آقا ﷺکو بچپن سے ہی سارا عالم جانتا تھا کہ پہاڑسلام کرتے تھے۔حجر خوشخبریاں دیتے تھے۔ چاند باتیں کرتا تھا۔کفار آپ کی نبوت کی گو اہیاں دیتے تھے۔ (شانِ حبیب الرحمن)

بالائے سرشنذہوشمند دی مے تافت ستادہ بلندی

8-اولیاء اللہ حضور ﷺ کا زندہ معجزہ ہیں۔ ان کے کمالات سے کمالِ مصطفوی کا پتا چلتا ہے کہ جب ان کی یہ شان ہے تو اس سلطانِ کو نین میں کیا طاقت ہوگی!(شان حبیب الرحمن)

9-قیامت کے دن شفاعتِ کُبریٰ کا سہر احضور ﷺ کے سر باندھا جائے گا۔ آپ کی امت تمام امتوں سے افضل ہے۔ (تفسیر)

10-اللہ اور اس کے رسول ﷺکی مدد اور دوستی تمام کے مقابلہ میں کافی ہے۔ (شان حبیب الرحمن)

کوئی ملے ملے نہ ملے مصطفٰے ملے وہ شے ملے کہ ملنے سے جس کے خدا ملے

اوصاف کے معنی: یہ وصف کی جمع ہے۔ لغوی معنی خوبی، عمدگی وغیرہ ہیں۔اللہ پاک نے اپنے محبوب کریم ﷺ کو بے شمار ولاتعداد اوصاف اور خوبیاں عطا فرما کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔ میرے اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:

سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے باغ ِخلیل کا گلِ زیبا کہوں تجھے

تیرے تو وصف عیبِ تنا ہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

1 -میرے آقا، مکی مدنی مصطفٰےﷺ کی زبانِ اقدس وحیِ الٰہی کی ترجمان اور سر چشمہ آیات و مخزنِ معجزات ہے۔ اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حدِّ اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فصحا وبلغا آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ آپ کی مبارک زبان کی حکمرانی اور شان کا یہ عالم تھا کہ جو فرما دیا آن میں معجزہ بن کر عالمِ وجود میں آگیا۔

تیرے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحاء عرب کےبڑے بڑے

کوئی جانے منہ میں زباں نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

2-اللہ کے آخری نبی،سید المرسلین ﷺ کا وصفِ مبارک یہ بھی ہے کہ حضور جانِ عالمﷺ کی تشریف آوری کے بعد اب قیامت تک کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ کیونکہ آپ اللہ کے آخری نبی ہیں اور ربِّ کریم نے آپ پر نبوت کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔

بعد آپ کے ہرگزنہ آئے گانبی نیا والله! ایماں ہے میرااے آخری نبی!

3- سلطانِ عرب و عجم،محبوبِ رب ﷺ کا وصف یہ بھی ہے کہ رب کریم نے حضور ﷺکو تمام رسولوں اور انبیائے کرام سے زیادہ عزت عطا فرمائی۔

4- حضورﷺ کو ربِّ کریم نے القابات سے یاد فرمایا،جبکہ اور انبیائے کرام علیہم السلام کو نام لے کر پکارا۔

5- حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی میں امانت و دیانت داری کا وصف بھی اعلیٰ پیمانے پر موجود تھا۔آپ کی امانت داری کے اپنے پرائے سبھی قائل تھے۔ آپ صادق و امین کےلقب سے مشہور تھے۔

6-حضور ﷺ جب کسی محتاج کو ملاحظہ فرماتے تو اپنا کھانا پیش فرمادیتے حالانکہ آپ کو اس کی ضرورت بھی ہوتی۔ کسی کو تحفہ دیتے، کسی کو کوئی حق عطا فرماتے، کسی سے قرض کا بوجھ اتار دیتے اور ا سے کئی گنا زیادہ انعام عطا فرماتے۔

ہم غریبوں کے آقا پہ بےحد درود ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام

آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایسا خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کا بھلا ہو

7-حضور ﷺ چلنے میں اطمینان سے قدم اٹھاتے، وقار کے ساتھ جھک کر چلتے،قدم لمبا رکھتے اور جب آپ چلتے تو یوں محسوس ہوتا کہ گویا اوپر سے نیچے اتر رہے ہوں۔

دوقمر دو پنجۂ خور، دوستارے دس ہلال ان کے تلوے پنجے ناخن پائے اطہرا یڑیاں

حضور ﷺکی مالکیت کے بارے میں اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:سچی مالکیت وہ ہے کہ جان و جسم سب کو محیط اور جن وبشر سب کو شامل ہے۔ یعنی اولیٰ بالتصرف ہونا کہ اس کے حضور کسی کو اپنی جان کا بھی اصلاً اختیار نہ ہو۔ یہ مالکیت حقہ، صادقہ،محیط،شاملہ،تامہ،کاملہ حضور ﷺ کو خلافتِ کبریٰ تمام جہاں پر حاصل ہے۔

9-حضور ﷺکی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ارشادِ ربانی ہے:جس نے رسول کا حکم جانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نےمنہ موڑا تو ہم نے تمہیں انہیں سے بچانے کیلئے بھیجا۔

10-حضور ﷺکی ازواجِ مطہرات کو مومنوں کی مائیں فرمایا گیا۔یہ حکم ان تمام ازواج کے متعلق ہے جن سے حضورﷺ نے نکاح فرمایا۔ اگر چہ ان کا انتقال حضور کی وفات ظاہری سے پہلے ہوا ہو یا بعد میں۔ یہ سب امتی کیلئے حقیقی ماں سے بڑھ کر لائقِ تعظیم اور واجبُ الاحترام ہیں۔

کہہ لے گی سب کچھ ان کے ثنا خواں کی خامشی چپ ہو رہا ہے کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے

اللہ پاک ہمیں اپنے حبیب کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیقِ رفیق مرحمت فرمائے اور حقیقی عشقِ محبوب عطا فرمائے۔ آمین

اوصاف وصف کی جمع ہے جس کے لغوی معنی کسی چیز کی عمدگی،خوبی اور بھلائی وغیرہ کے ہیں۔اگریہ لفظ آقا کریم ﷺ کے لئے استعمال کیا جائے تو اللہ کریم نے اپنے حبیب ﷺکو بے شماراوصاف و کمالات سے نوازا ہے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

اللہ کریم نے اپنے حبیب ﷺ کو جن اوصاف سے نوازا ہے ان میں سے چند یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:

1-قرآنِ پاک میں ار شادرب الانام ہے: اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا(پ22،الاحزاب:36) ترجمہ کنز الایمان: جب اللہ و رسول کچھ حکم فرما دیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آقاﷺ کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ اللہ کی عطا سے شرعی احکام میں خود مختار ہیں۔ آپ جسے جو حکم چاہیں دے سکتے ہیں اور جس کے لئے جو چاہیں جائز و ناجائز کر سکتے ہیں اور جس سے چاہیں جو چاہیں حکم الگ فرما سکتے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، 8/35)

2-سورۂ احزاب آیت نمبر 56 میں ہے:اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)ترجمہ کنز العرفان:بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پردرود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ علامہ احمد صاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس آیتِ مبارکہ میں اس بات پر بہت بڑی دلیل ہے کہ آقاﷺ رحمتوں کے نازل ہونے کی جگہ ہیں اور آپ کے اوصاف میں سے ہے کہ آپ علی الاطلاق ساری مخلوق سے افضل ہیں۔( تفسیر صاوی ملخصاً)

3-نبوت اللہ پاک کا خاص عطیہ ہے۔وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے عطافرمائے لیکن یاد رہے کہ آقا ﷺ کی تشریف آوری کے بعد اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی کہ آپ کے رب نے آپ کو یہ وصف عطا فرمایا ہے کہ آپ پر نبوت کا سلسلہ ختم فرما دیا۔(صراط الجنان، 8 / 371 )

4- آپ ﷺ کا ایک وصف زھد ہے کہ آپ نےکو نین کے شہنشاہ اور دو عالم کے تاجدار ہوتےہوئے بھی ایسی زاہدانہ اور سادہ زندگی بسر فرمائی کہ تاریخِ نبوت میں اس کی مثال نہیں ملتی۔(صراط الجنان،8 / 562)

5-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ(حم السجدہ: 34)ترجمہ کنز العرفان:بُرائی کو بھلائی کے ساتھ دور کر دو۔اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ برائی کو بھلائی سے ٹال دیتے ہیں۔(صراط الجنان، 8/640)

بدکریں ہردم بُرائی تم کہو ان کا بھلا ہو

6-وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ (ال عمرٰن:103)ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو۔ معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ اللہ کی سب سے اعلیٰ نعمت ہیں۔( صراط الجنان، 2 / 24)

7-آپ کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ کی مقدس زبان کی شان کی حکمرانی کا اعجاز یہ تھا کہ جو فر ما دیا وہ ایک آن میں معجزہ بن کر عالمِ وجود میں آگیا۔( صراط الجنان، 7 / 281)

وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام

8-حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:چلتے وقت حضور ﷺذرا جھک کر چلتے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں۔( شمائل ترمذی،ص 19)

9- آپ کے اوصاف میں سے ہے کہ آپ بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ نہایت ہی متانت اور سنجیدگی سے ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے تھے۔ ( صراط الجنان، 7 / 502)

10-آپ کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ غریب پرور تھے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا:اگر تم مجھے ڈھونڈنا چاہو تو مجھے اپنے غریب اور کمزور لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ تمہیں کمزور اور غریب لوگوں کے سبب رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔( ترمذی، 3/ 268)

کہہ لے گی سب کچھ ان کے ثناء خواں کی خامشی چپ ہورہا ہوں کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے 

لغوی معنی: اوصاف وصف کی جمع ہے جس کے معنی بھلائی اور عمدگی وغیرہ کے ہیں۔پیارے آقا ﷺ کے اوصاف مندرجہ ذیل ہیں:

1-اپنے محبوب کی شان الله پاک نے قرآنِ پاک میں کچھ اس طرح بیان کی: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

2-الله پاک نے جبریل امین کی طرف وحی فرمائی کہ میرے محبوب کو خوشخبری سنا دو کہ میں اس کی امت کے سلسلے میں اُسے رسوا نہیں کروں گا اور اسے بشارت دو کہ جب وہ لوگوں کو قبروں سے نکالے گا تو سب سے پہلے میرا محبوب باہر تشریف لائے گا اور جب تک اس کی امت جنت میں داخل نہ ہو جائے تمام امتوں پر جنت حرام رہے گی۔(احیاء العلوم،5/21)

3-اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ اپنے خطباتِ رضویہ میں حدیث نقل فرماتے ہیں: یعنی خبردار! جسے اللہ پاک کے رسول سے محبت نہیں اس کا ایمان کامل یعنی perfect نہیں۔(فتاویٰ رضویہ، ص10)

4- حدیثِ پاک میں ہے:اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ (شعب الایمان،1/199،حدیث:176)

5-رسولِ خدا ﷺنے فرمایا:تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اور اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔(بخاری،1/17، حدیث:15)

6 -حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ایک بار وضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے:میں نے ایک بار سر کار ﷺ کو اسی جگہ پر وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ (مسند امام احمد، 1/135، حدیث:415)

7-حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں جب حبیبِ رب ﷺ کا دیدار کرتا ہوں تو دل خوشی سے جھومنے لگتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں۔(شفا،الجزء الثانی،1/22)

8-حضرت داود علیہ السلام پر اتاری جانے والی مقدس کتاب”زبور شریف“میں ہے:احمدﷺ مالک ہوا ساری زمین اور تمام امتوں کی گردنوں کا۔(فتاویٰ رضویہ،30/445)

9- فرمانِ مصطفٰے ہے: یعنی اللہ پاک عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔ (بخاری، 1/42،حدیث:71)

10-مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:احکام تشریعیہ حضور ﷺکے قبضے میں کردیئے گئے کہ جس پر جو چاہیں حرام فرما دیں اور جو چاہیں حلال کر دیں جو فرض چاہیں معاف فرما دیں۔ (بہار شریعت، 1/84، حصہ:1)

11-آخری رسول ﷺ پر لبید بن اعصم نے جادو کیا تو حسنِ اخلاق کے پیکر، تمام نبیوں کے سرورﷺ نے اس کا بدلہ نہیں لیا۔یہودیہ کو بھی معاف کردیا جس نے آپ کو زہر دیا تھا۔ (المواہب اللدنیۃ،2/91)