بلا شبہ قرآنِ کریم حضور ﷺ کی حمد و ثنا کا رنگا رنگ اور حسین وجمیل گلدستہ اور حضور کی مدح و ستائش کا ایک عظیم الشان دفتر ہے۔سارے قرآنِ کریم میں آپ کی نعت وصفات کی آیاتِ بینات اسی طرح جگمگا رہی ہیں جیسے سارا آسمان جھلملاتے ستاروں سے روشن ہے۔اس ضمن میں چند آیاتِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:

1-حضور رحمۃ للعلمین ہیں: حضور ﷺکا ایک وصف قرآنِ کریم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ حضور جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں جیسے سورۃ الانبیاء، آیت نمبر 107 میں ارشادِ باری ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجمہ:اورہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت بنا کر سارے جہان کے لیے۔اس آیتِ مبارکہ نے حضور ﷺ کی نعت کے وہ پھول کھلائے ہیں جس سے دماغ و ایمان معطر ہو گیا۔حضورﷺ کو رب نے بے شمار صفات سے نوازا ہے۔ انہی میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ رحمۃ للعلمین ہیں۔ اس آیت میں اس خاص وصف کا ذکر ہے۔

2-حضور خاتم النبیین ہیں:الله پاک سورۃ الاحزاب آیت نمبر40 میں حضور ﷺکا یہ وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمہ کنز العرفان:لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔آیتِ کریمہ کے اس حصے میں فرمایا گیا ہے کہ محمد مصطفٰے ﷺ آخری نبی ہیں کہ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو ہرگز نبوت نہیں مل سکتی۔ (شان حبیب الرحمن)

3-حضور بے مثال ہیں:حضور ﷺ کا ایک وصف قرآنِ پاک میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ بے مثل و بے نظیر ہیں۔سورۃ البقرہ آیت نمبر23میں ارشادِ ربانی ہے: فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-تر جمہ:تو تم اس طرح کی ایک سورت تو لے آؤ۔ مفسرین نے آیت کے اس حصے کے ایک معنی یہ بھی بیان کیے ہیں کہ مِثْلِهٖکی ضمیر حضورﷺکی طرف لوٹتی ہے تو آیت کے معنی یہ ہوئے کہ ایک سورت ہی ایسی لے آؤجو کہ محمد رسول اللہ ﷺ جیسی عظیم ذات کے دہنِ مبارک سے نکلی ہو، یعنی اولاً تو کوئی ایسی شان والا محبوب دنیا میں ڈھونڈوپھر اس کے منہ سے ایسی آیت پڑ ھوا کر سنو۔ (تفسیر خازن)( شانِ حبیب الرحمن، ص31)

4 -حضور الله کے رسول ہیں: الله پاک پارہ 26 سورۃ فتح کی آیت نمبر 29 میں ارشاد فرماتا ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- ترجمہ کنز العرفان: محمد الله کے رسول ہیں۔ اس آیت میں اللہ پاک اپنے حبیب کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفٰےﷺ اللہ پاک کے رسول ہیں۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر چہ حضور کی صفات بے شمارہیں لیکن رب کریم نے آیت کے اس حصے میں اپنے حبیب کو رسالت کی صفت سے یاد فرمایا ہے اور کلمہ میں بھی یہ ہی وصف بیان فرمایا ہے۔ (تفسیر صراط البنان،9/385)

5 -حضور نورہیں:قرآنِ کریم نے حضور ﷺکا ایک وصف نور بھی بیان فرمایا ہے،چنانچہ قرآن ِکریم کی سورہ مائدہ آیت نمبر 15 میں ارشادِ باری ہوتا ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ: بے شک اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور آیا اور روشن کتاب۔ یہ آیتِ کر یمہ حضور ﷺ کی عظیم الشان نعت ہے۔ اس آیت میں حضور ﷺ کو نور فرمایا گیا ہے۔نوروہ ہے جو خود تو ظا ہر اور چمک دار ہو اور دوسروں کو بھی چمکادے۔دنیا میں کوئی اپنے خاندان سے مشہور ہوتا ہے۔کوئی پیشے کی وجہ سے، کوئی سلطنت کی وجہ سے، لیکن حضور ﷺ کسی وجہ سے نہیں چمکے وہ تو خود نورہیں۔ ان کو کون چمکاتا؟بلکہ ان کی وجہ سے سارا عالم چمک گیا۔ (شان حبیب الرحمن،ص 77)

حضور نور ہیں، محمود ہیں، محمد ہیں جگہ جگہ نئے عنوان ہیں ثنا کے لیے

6-پیارے آقا شاہد ہیں: یہاں بھی حضور ﷺ کا ایک عظیم وصف بیان کیا گیا ہے کہ آپ شاہدہیں۔ سورۃ الاحزاب آیت نمبر 45 میں ارشادِ باری ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجمہ کنز العرفان:اے نبی بیشک ہم نے تمہیں گواہ بنا کر بھیجا۔آیت کے اس حصے میں نبیِ کریم ﷺ کو شاہد فرمایا گیا ہے۔شاہد کا ایک معنی ہے:حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے:گواہ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے شاہد کامعنی حاضر وناظر فرمایا ہے۔ اس بارے میں سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے کہ اگر اس کا معنی گواہ کیا جائے تو بھی مطلب وہی بنے گا کیونکہ گواہ کو بھی اس لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے اور سر کار ﷺ چونکہ د وعالم کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں اور آپ کی رسالت عام ہے۔ اس لئے حضور پر نور ﷺ قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال، افعال،احوال، ہدایت و گمراہی سب کا مشاہدہ فرمانے والے ہیں۔ (تفسیرصراط الجنان،6/56)

7-8 -حضور مبشرونذ یرہیں:یہاں حضور ﷺکے دو اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔سورۃ الاحزاب آیت نمبر45 میں فرمانِ رحمن ہے:وَ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵)ترجمہ کنز العرفان:اورخو شخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔ آیت ِکریمہ کے اس حصےمیں فرمایا گیا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیبﷺ کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری سنانے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔

9-10 -حضور داعی اور سراج منیر ہیں: سورۃ الاحزاب آیت نمبر 46 میں اپنے حبیب ﷺکے دو اوصاف ذکر کرتے ہوئے ارشادِ باری ہے:وَ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶)ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجاہے۔ آیت کے اس حصے میں فرمایا گیا کہ اے حبیب! آپ کو خدا کے حکم سے لوگوں کو خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجاگیا۔اسی طرح اللہ پاک نے سید العالمین ﷺکو” سراجِ منیر“یعنی چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا ہے کہ اللہ پاک نے آپ کی چمک دمک سے دو عالم روشن فرما دئیے۔ (صراط الجنان،8/ 59)