1-اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں جہاں بھی اپنے حبیب ﷺ سے خطاب کیا تو حضور اقدس ﷺکے نام سے نہیں بلکہ اوصاف اور القاب سے یاد کیا۔(تفسیر صراط الجنان،جلد10)

2-اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اپنے حبیب ﷺکے شہر کی قسم، ان کی باتوں کی قسم،ان کے زمانے کی قسم اور ان کی جان کی قسم بیان فرمائی۔ یہ وہ مقام ہے جواللہ پاک کی بارگاہ میں آپ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں۔ (تفسیر صراط الجنان،جلد10)

3-دیگر انبیائے کرام سے کفار نے جو جاہلانہ اور بیہودہ گفتگو کی اس کا جواب ان انبیائے کرام نے ہی اپنے حلم اور فضل کے لائق دیا، لیکن جب اللہ پاک کے حبیبﷺ کی شان میں کفار نے زبان درازی کی تو خود اللہ پاک نےدیا۔ (تفسیر صراط الحبان، جلد10)

4-حضور اقدس ﷺاللہ پاک کے ایسے حبیب ہیں کہ اللہ پاک نے بن مانگے ان کا حق اس سینہ ہدایت اور معرفت کے لیے کھول کر انہیں یہ نعمت عطا فرمائی۔(تفسیر صراط الجنان،جلد10)

5- حضور پر نورﷺ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا مخلوق پر لازم کر دیا حتی کہ کسی کا اللہ پاک پر ایمان لانا اور اس کی وحدانیت کا اقرار اور اس کی عبادت کرنا اس وقت تک قبول نہیں جب تک وہ تاجدارِ رسالتﷺ پر ایمان نہ لائے اور ان کی اطاعت نہ کرے۔ ( تفسیر صراط الجنان،جلد10)

6-حضور اقدس ﷺ کا ذکر اتنا بلند ہے کہ اللہ پاک کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ پاک نے اذان میں،اقامت میں،نمار میں،تشہد میں،خطبے میں اور کثیر مقامات میں اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا۔ (تفسیر صراط الجنان،جلد10)

7- نبیِ کریم ﷺ کے زمانہ والوں کو ایمان کے ذریعہ جو درجہ نصیب ہو سکتا تھا وہ بعد والوں کے لیے ممکن نہیں۔(تفسیرصراط الجنان،جلد10)

8-حضور اقدسﷺ اللہ کے ایسے محبوب ہیں کہ آپ کا دشمن اللہ پاک کا دشمن ہے کہ ابو جہل نے حضور ﷺکو دھمکی لگائی کہ وہ اپنی مجلس کے لوگوں کو بلائے گا تو حضور ﷺنے یہ نہ فرمایا کہ ہم صحابہ کی جماعت بلائیں گے بلکہ اللہ پاک نے فرمایا:ہم زبانیہ فرشتوں کو بلائیں گے۔(تفسیر صراط الجنان،جلد10)

9-نبیِ کریم ﷺکی شان ظاہر کرنے کے لیے فرشتوں کی فوج آنے کو تیار ہے ورنہ کفار کی ہلاکت کے لیے ایک ہی فرشتہ کافی ہے۔(تفسیر صر اط الجنان،جلد10)

10-بعض علما سےمنقول ہے: پوری عقل کے 100 حصے ہیں،ان میں 99 حصے حضور ﷺ میں ہیں اور 1حصہ تمام مسلمانوں میں ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، جلد10)