تعریف اس پروردگارِ عالم کے لیے جس نے تمام جہان کو پیدا فرمایا اور ایک مشتِ خاک سے انسان بنایا۔ جس نے اپنے فضل سے ہم پر نعمتوں کے دریا بہائے۔اگر ہمارے بال زبان بن کر اس کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہیں تو ہر گز نہ کر سکیں گے۔سبحان اللہ!کیسا بادشاہ،نبیوں کا سردار،گناہگاروں کے غمخوار،شافعِ روزِ شمار،رحمتِ پروردگار جن کا ذکر بے قرار دل کا قرار ہے۔آپ ﷺ کیسے رؤفٌ رحیم کہ ولادتِ مبارکہ کے وقت گنہگاروں کو فراموش نہ فرمایا۔معراج میں سیاہ کا روں کو یاد رکھا۔بعدِ وصال قبرِ انور میں خطا کاروں کے لیے لبِ پاک کو جنبش دی۔

ماں جب اکلوتے کو چھوڑے آآ کہہ کے بلاتے یہ ہیں

قصرِ دنیٰ تک کس کی رسائی جاتے یہ ہیں آتے یہ ہیں

1-اس باغِ عالم کے حضورﷺ پھول ہیں۔سب سے پہلے آپ کو عطا ہوئی۔خود فرماتے ہیں: کُنْتُ نَبِیًّا وَّ آدَمُ بَیْنَ الْمَاءِ وَالطِّیْنمیں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے۔

2- بروزِ قیامت سب سے پہلے آپ کی قبرِ انور کھولی جائے گی۔ بروزِ قیامت اول حضور ﷺ کو سجدہ کا حکم ملے گا۔

3-سب سے پہلے حضور ﷺ شفاعت فرمائیں گے اور شفاعت کا دروازہ آپ ہی کے دستِ اقدس پر کھلے گا۔ الله پاک ہمیں آپ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ آمین

4 -اس قدر اولیت کے باوجود پھر سر کا رﷺآخر بھی ہیں۔خاتم النبیین آپ ہی کا لقب ہوا۔ سب سے آخر حضور ﷺ ہی کو کتاب ملی۔ سب سے آخر میں آپ ﷺہی کا دین آیا۔ سب سے آخر یعنی قیامت تک حضور ﷺ ہی کا دین باقی رہے گا۔

کیا خبر کتنے تارے کھلے چھپ گئے پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی

نمازِ اسریٰ میں تھا یہی سر عیاں ہو معنی ِاول آخر

کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے

5-ترجمہ کنز العرفان: وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔اس سے مراد یہ ہے کہ گزشتہ آسمانی کتابوں میں نبیِ آخر الزمان،حضور سید دو عالم ﷺ کے اوصاف ایسے واضح اور صاف بیان کیے گئے ہیں جن سے علمائے اہلِ کتاب کو حضور پر نور ﷺ کے خاتمُ الانبیاء ہونے میں کوئی شک نہیں۔یہودی علما میں سے حضرت عبد اللہ بن سلام مشرف بہ اسلام ہوئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت فرمایا کہ اس آیت میں جو معرفت بیان کی گئی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟انہوں نے فرمایا: اے عمر! میں نے حضور اقدس ﷺ کو دیکھا تو فوراً پہچان لیا اور میرا حضور انور ﷺ کو پہچاننا اپنے بیٹوں کو پہچاننے سے زیادہ کامل و اکمل ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا:وہ کیسے؟انہوں نے کہا:سید المرسلین ﷺ کے اوصاف تو ہماری کتاب توریت میں اللہ پاک نےبیان فرمائے ہیں جبکہ بیٹے کو بیٹاسمجھنا تو صرف عورتوں کے کہنے سے ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ان کا سر چوم لیا۔(خازن،1/100)

6- حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا:

وَاَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عِيْنِيْ وَاَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ

خُلِقْتَ مُبَرَّاً مِنْ كُلِّ عَيْبٍ كَاَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ كَمَا تَشَاءُ

ترجمہ:آپ سے زیادہ خوب صورت میری آنکھ نے ہر گز نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ سے زیادہ خوبصورت کسی عورت نے جنا ہے۔ آپ کو ہر عیب سے پاک پیدا کیا گیا۔گویا کہ جیسا آپ ﷺ چاہتے تھے ویسا ہی آپ کوپیدا کیا گیا۔

7- حضرت عبد الله بن رواحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

رُوْحِی الْفِدَاءُ لِمَنْ اَخْلَاقُہُ شَھِدَتْ بِأَنَّہُ خَیْرُ مَوْلُوْدٍ مِنَ الْبَشَرِ

ترجمہ: میری جان ان پر قربان جن کے اخلاق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ تمام انسانوں سے بہترین پیدا کیے گئے ہیں۔

8-حضور انورﷺ کے لیے ساری زمین پاک کردی گئی یعنی مسجد بنا دی گئی۔

9- پیارے آقاﷺ کی امت تمام امتوں سے افضل قرار دی گئی۔

10- پیارے آقاﷺ نے الله پاک کادیدار جاگتی آنکھوں سے کیا۔ آپ کو سفرِ معراج نصیب ہوا۔


ہمیں ہر ہر نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے جو ہمیں رحمن نے دی ہے۔ سب سے بڑی نعمت جو ہمیں اس نے دی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ہمیں اپنے حبیب کا امتی بنا دیا ہے۔ اب اس نعمت کا شکر ہم اس حبیب کی اطاعت اور سنتوں پر عمل کرکے ادا کر سکتی ہیں۔

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا

ہمارے پیارے نبی ﷺ بے شمار اوصاف کے مالک ہیں۔ ان میں سے چند اوصاف پیشِ خدمت ہیں:

1-جب حضور ﷺ کی ولادت ہوئی تو آپ کے ساتھ ایک ایسا نور تھا جس نے مشرق اور مغرب کو روشن کر دیا حتی کہ آپ نے اس نورانیت کی بدولت حجرۂ مبارک میں ہوتے ہوئے شام کے محلات کو اپنی آنکھوں سے ملاحظہ و مشاہدہ فرمایا۔

2- حضور ﷺ کو ہر قسم کا علم حاصل تھا اور تمام مخلوق سے زیادہ حاصل تھا۔

3-اللہ پاک نے روضہ مقدمہ کے ایک فرشتے کو اس قدر قوت عطا فرمائی ہے کہ وہ تمام جہاں کے درود شریف سن لیتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:ایک فرشتہ روضہ نبوی پر متعین ہے جس کو اللہ نے قوت و سماعت اس قدر عطا کی ہے کہ تمام انسانوں اور جنوں کا درود سن لیتا ہے اور وہ فرشتہ سب کے درود نام والد کے نام کے ساتھ حضور ﷺکی بارگاہ میں پیش کر دیتا ہے۔ سجن الله ! جب ان کے خادم کی یہ شان ہے تو ان کی شان کیا ہوگی! جن کو تمام آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت عطا کی گئی ہے۔ میرے حضور ﷺ کے بارے میں اللہ پاک نےخود ارشاد فرمایا:ترجمہ:اے محبوب!اگر میں تجھے پیدانہ کرتا تو اپنا رب ہونا ظاہر نہ کرتا۔تفسیر نعیمی میں لکھا ہوا ہے:کعبہ، اللہ پاک کی مسجودیت کا مظہر اور حضور ﷺ اللہ پاک کی اطاعت کے مظہر ہیں۔

اور کوئی غیب کیا، تم سے نِہاں ہو بھلا جب نہ خدا ہی چھپا، تم پہ کروروں درود

خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ آخری نبی ہیں۔تمام نبیوں سے افضل ہیں۔ اول بھی ہیں اور آخر بھی ہیں۔ آپ کو وہ کمالات عطا کیے گئے جو پہلے نہ کسی کو عطا ہوئے اور نہ آگے کسی کو ہوں گے۔ آپ کو آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت عطا ہوئی۔ ہمیں اپنے نبی کی امتی ہونے پر فخر ہونا چاہیے۔ جو آپ کے کمالات کا انکار کرے وہ بددین گمراہ ہے۔ اس کے تو سائے سے بھی دور رہنا چاہیے۔

اوصاف وصف کی جمع ہے۔ وصف سے مراد خوبی ہے۔ حضور انور ﷺ کو ربِّ کریم نے بے شمار اوصاف سے نوازا اور آپ کی ذاتِ بابرکت اعلیٰ اوصاف کا مجموعہ تھی۔ویسے تو آپ کے مکمل اوصاف کا ذکر کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ لیکن یہاں چند اوصاف ذکر کئے جائیں گے۔

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے پر تیرے اوصاف کااک باب بھی پورا نہ ہوا

1-قرآنِ حکیم میں ربِّ کریم ارشادفرماتا ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ- (البقرۃ:253)ترجمہ:یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں کسی سے اللہ نے کلام کیا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا۔

مفسرین فرماتے ہیں:اس آیت ِمبارکہ میں( کوئی وہ ہے جسے سب پر در جوں بلند کیا) سے مراد ہمارے نبیﷺ ہیں۔ تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ حضور کو وہ درجے عطا ہوئے کہ جو کسی کے وہم وخیال میں نہیں آسکتے۔ معلوم ہوا کہ سارے کمالات جو اور پیغمبروں کو ایک،ایک یا دو، دو ملے حضورﷺکو وہ سب ہی ملے اور زیادہ بھی۔(شانِ حبیب الرحمن، 46)

2-رحمۃا للعلمین:آیتِ مبارکہ: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107) ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔اس آیت ِمبارکہ میں حضور پر نور ﷺ کے ایک خاص وصف کا ذکر ہے۔اس آیتِ مبارکہ میں نہایت خوبصورت انداز سے آپ کے اس وصف کا ذکر فرمایا کہ آپ صرف چند لوگوں کے لئے نہیں، صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ انبیاءئے کرام اور تمام جہان کے لئے رحمت ہیں۔ رب کریم کی صفت ہے رب العلمین اور حضور ﷺ کی صفت ہے رحمۃ اللعلمین یعنی جس کا خدا رب ہے اس کے لئے حضورﷺ رحمت ہیں۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جس تک اللہ پاک کی ربوبیت کا فیض پہنچا وہ نبی ﷺ کی رحمت کے صدقے پہنچا۔ (شان ِحبیب الرحمن،156)

3-حدیثِ مبارکہ: امام بغوی نے ایک حدیثِ پاک روایت کی کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:میں اللہ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا، حالانکہ حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر تیار ہو رہا تھا۔ میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں!میں دعائے ابرا ہیم ہوں۔بشارتِ عیسیٰ ہوں۔اپنی والدہ کے اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا اور ان کے لئے ایک بلند نور ظا ہر ہوا جس سے ملکِ شام کے ایوان اور محلات روشن ہوگئے۔اس حدیثِ مبارکہ میں حضور ﷺ کے اوصاف (اول، آخر) کا بھی ذکر ہے اور آپ کے پیدائش سے پہلے کے واقعہ کا ذکر ہے۔ (صراط الجنان)

4- اللہ پاک نے حضور پاک ﷺ کو نور کا لقب عطا فرمایا اور اپنی صفات میں سے بھی کچھ صفات آپ کو عطا فرمائیں۔آیتِ مبارکہ ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ (پ6،المائدہ: 15) ترجمہ: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا۔نور وہ ہوتا ہے جو خود بھی ظاہر ہو اور دوسروں کو بھی ظاہر کر دے جیسے سورج خود بھی روشن ہے اور دوسری چیزوں کو بھی روشن کرتا ہے۔(صراط الجنان)

5-حضور ﷺ کے جسمِ مبارک کی نظافت اور بدنِ اقدس اور اس کے پسینہ کی خوشبو اور آپ کے جسم کا عیوب سے پاک صاف ہونا بھی آپ کی وہ خصوصیت ہے جو آپ کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی۔ چنانچہ مروی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضور کے جسمِ مبارک کی خوشبو سے بڑھ کر کسی عنبر، کستوری اور کسی چیز کی خوشبو کو نہ پایا۔ (الشفا،ص75)

6-حضور پاک ﷺ کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ عقل میں سب سے اعلیٰ اور رائے میں سب سے افضل ہیں۔ چنانچہ حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے اکہتر(71) پچھلی کتابوں میں پڑھا ہے۔ ان سب میں یہی پایا کہ نبیِ کریم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ عقل میں اولیٰ اور رائے میں افضل ہوں گے۔

7-دوسری روایت میں ہے:میں نے ان سب میں ہی پایا کہ اللہ نے جب سے دنیا پیدا کی ہے اس وقت سے دنیا کا خاتمہ تک جس قدر عقل تمام لوگوں کو ملی ہے وہ حضور ﷺ کی عقل کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے تمام دنیا کے ریت کے ذرات کے مقابلہ میں ریت کا ایک ذرہ ہوتا ہے۔ ( شفا، ص 79)

8- آپ ﷺ کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ بہت زیادہ سخی تھے۔چنانچہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اتناسونا دیا کہ وہ اس کو اٹھانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔

9-حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے بڑھ کر کسی کو بہادر،صاحبِ حوصلہ، سخی اور ہر معاملہ میں خو ش نہ دیکھا۔ (شفاء )

10-حضرت ابنِ ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:آپ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی مثل چمکتا تھا۔ (شفاء)

خلاصہ: حضور پاک ﷺ کے اوصاف کا ذکر کرنا محال ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

یا صاحبَ الجمال و یا سیدَ البشر من وجہک المنیر لقد نور القمر

لا یمکنُ الثناءُ کما کان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

1- ہرنبی کو ایک خاص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا جبکہ حضور ﷺ کو تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔

2 -آپ ﷺ 2 ماہ کی عمر میں گھٹنوں کے بل چلنے لگے، 3 ماہ کی عمر میں اٹھ کر کھڑے ہونے لگے، 4 ماہ کی عمرمیں دیوار کے ساتھ ہاتھ رکھ کر ہر طرف چلا کرتے، 5 ماہ کی عمر میں چلنے پھرنے کی پوری قوت حاصل کر چکے تھے، 8 ماہ کی عمر میں یوں کلام فرماتے کہ بات اچھی طرح سمجھ آجاتی،9 ماہ کی عمر میں فصیح باتیں کرنا شروع فرما دیں۔

3-آپ ﷺ کے بچپن میں آپ کو لڑکے کھیلنے کے لیے بلاتے تو آپ ارشاد فرماتے: مجھے کھیلنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔

4 -ارشاد باری ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5، النسآء: 80) ترجمہ:جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔

5-حضور ﷺ کی مبارک آنکھیں بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھی۔

6- آپ ﷺ کا قد مبارک درمیانہ تھا مگر جب آپ لوگوں کے ساتھ چلتے تو سب سے اونچا آپ کا قد مبارک لگتا۔

7- آپ ﷺ کو منصبِ شفاعت عطا کیا گیا۔

8- آپﷺ زیادہ تر خاموشی اختیار کئے رہتے تھے۔

9-رسول اللہ ﷺ کی گفتگو میں آہستگی ہوتی تھی۔

10 -حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: میں نےرسول الله ﷺ کو کبھی اس طرح کھل کھلا کر ہنستےہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا آخری حصہ نظر آئے۔آپ تو صرف مسکراتے تھے۔ 

سرکارِ دو عالمﷺ کے فضائل و کمالات کا ذکر کرنا اللہ پاک اور تمام انبیاء کرام علیہمُ السّلام کا مقدس طریقہ ہے۔ اللہ پاک نے قرآن کریم کو حضور کی مدح و ثناء کا حسین و جمیل گلدستہ بنا کر نازل فرمایا۔ قرآن پاک میں آپ کی نعت و صفات کی آیات ایسے جگمارہی ہیں جیسے آسمان پر ستارے جگماتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: قرآن پاک کا عام محاورہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہمُ السّلام کو نام لے کر پکارتا ہے، مگر جہاں محمد رسول اللہ ﷺ سے خطاب فرمایا حضور کو اوصافِ جلیلہ و القابِ جمیلہ ہی سے یاد کیا ہے۔ (فتاویٰ ورضویہ، 30/154)

اللہ پاک نے سرکارِ دو عالم ﷺ کو جس طرح کمالِ سیرت میں تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل بنایا اسی طرح جمالِ سیرت میں بھی بے مثل بنایا، تو پھر ہم آپ ﷺ کی ارفع و اعلیٰ شان کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ بقولِ امام احمد رضا خان

اے رضا خود صاحبِ قرآں ہے مداح ِ حضور تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

قرآن پاک میں جگہ جگہ اوصافِ مصطفےٰ ﷺ جگمگارہے ہیں۔ یہاں چند بیان کئے جارہے ہیں:

(1) بلندِ ذکر: سرکارِ دو عالم ﷺ کا ذکر نورِ ایمان و سرورِ قلب وجان ہے۔ اور آپ ﷺ کا ذکر دراصل ذکرِ رحمٰن ہے:وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30، الم نشرح: 4) ترجمہ کنز العرفان: اور ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کیا۔

سرکارِ مدینہ ﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ السّلام سے اس آیت کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: اللہ پاک فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے تو میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے۔

(2) مقامِ محمود: یومِ قیامت اللہ پاک آپ ﷺ کو مقامِ محمود عطا کر کے تمام اولین و آخرین میں آپ ﷺ کی شان کا اظہار فرمائے گا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) (پ، 15، بنی اسرائیل: 79) ترجمہ کنز العرفان:قریب ہے کہ آپ کا ربّ آپ کو ایسے مقام پر فائز کرے گا جہاں سب تمہاری حمد کریں گے۔

(3) رحمۃ للعلمین: نبیِ کریم ﷺ کا تمام جہانوں کے لئے رحمت ہونے کا اعلان اس آیت میں کیا جارہا ہے:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17، الانبیاء: 107) اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔

(4) مالکِ کوثر: اللہ پاک نے تاجدارِ رسالت ﷺ کو کوثر کا مالک بنادیا تو آپ ﷺ جو چاہیں جسے چاہیں عطا کرسکتے ہیں۔ اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (پ30، الکوثر:1) ترجمہ کنز العرفان: اے محبوب! بےشک ہم نے تمہیں بےشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔

(5) سراجِ منیر: اللہ پاک نے آپ ﷺ کو چمکادینے والا آفتاب بناکر بھیجا: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22، الاحزاب: 46) ترجمہ کنز العرفان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔

(6) خاتم النبیین: سرکارِ دوعالم ﷺ تمام نبیوں میں افضل اور سب سے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-(پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ کنز العرفان: لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔

(7) رؤفٌ رحیم: سرکارِ کائنات ﷺ اپنی امت پر بہت مہربان اور رحمت فرمانے والے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے: بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ11، التوبہ: 128) ترجمہ کنز العرفان: مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔

مومن ہوں مومنوں پر روف رحیم ہو سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

(8، 9، 10) شاہد، مبشر اور نذیر: قرآن پاک میں ارشاد ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) (پ 26، الفتح: 8) ترجمہ کنز العرفان: بےشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا ڈرسنانے والا بنا کر بھیجا۔

اے پیارے حبیب! بےشک ہم نے آپ کو اپنی امت کے اعمال اور احوال کا مشاہدہ فرمانے والا بنا کر بھیجا تاکہ آپ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں اور دنیا میں ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں اور نافرمانوں کو جہنم کے عذاب کا ڈرسنانے والا بنا کر بھیجا۔ (خازن،4/46 )

صدیوں سے برزگانِ دین اوصافِ مصطفےٰ لکھنے کی سعادت حاصل کرتے رہے، لیکن پھر بھی مکمل اوصاف کا احاطہ نہ کرسکے، کیونکہ

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے


ترے تو وصف عیب تنہاہی سے ہیں بری             حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

نبیِ مکرم، شفعِ امت، ہمارے پیارے پیارے آقا ﷺْ کی مبارک زندگی اعلانِ نبوت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ایسی باکردار اور اعلیٰ تھی کہ قدم قدم پر آپ کے اوصاف نظر آتے ہیں۔ ان میں سے صرف 10 کا تذکرہ مختصراً درج ذیل ہے:

(1) نبیِ امی: سرورِ کائنات ﷺ کی ایک صفت امی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضور لکھتے اور کتاب سے کچھ نہ پڑھتے تھے اور یہ آپ کی فضیلت تھی کہ علم انتہائی یاد ہونے کی وجہ سے اس کی حاجت نہ تھی۔ حضور کا کتابت نہ فرمانا اور پھر بھی کتابت کا ماہر ہونا ایک عظیم معجزہ سے۔ (تفسیر صراط الجنان)

(2) تاجدارِ رسالت ﷺ کی عظمت و شان: کفار جب انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی بارگاہ میں سخت کلامی اور بیہودہ گوئی کرتے تو وہ مقدس حضرات اپنے عظیم حلم اور فضل کے لائق جواب دیتے، لیکن حضور ﷺ کی خدمتِ والا میں کفار نے جو زبان درازی کی اس کا جواب ربّ تعالیٰ نے خود دیا ہے اور محبوبِ اکرم ﷺ کی طرف سے خود دفاع فرمایا ہے۔ اور اللہ پاک کا جواب دینا حضورِ انور ﷺ کے خود جواب دینے سے بدرجہا آپ کے لئے بہتر ہے اور یہ وہ مرتبۂ عظمیٰ ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)

(3) سیدالمرسلین ﷺ کی مبارک عقل: حضرت وہب بن منبہ رحمۃُ اللہِ علیہ جو کہ تابعی بزرگ ہیں، فرماتے ہیں: میں نے متقدمین کی 71 کتابوں میں لکھا دیکھا ہے کہ روزِ اول سے قیامت قائم ہونے تک تمام جہان کے لوگوں کو جتنی عقل عطا کی گئی ہے وہ سب مل کر حضرت محمد ﷺ کی عقل کےآگے ایسی ہے جیسے دنیا کے تمام ریگستان کے سامنے ریت کا ایک دانہ (ذرہ)۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

کوئی کیا جانے کہ کیا ہو عقلِ عالم سے ورا ہو

(تفسیر صراط الجنان)

(4)علمِ مصطفےٰ: اللہ پاک نے حضورِ اکرم ﷺ کی مدح و ثناء اور وفورِ علم کے بارے میں ارشاد فرمایا: ترجمہ کنز العرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔

تفسیر خزائن العرفان میں ہے: پروردگارِ عالم نے یہ جہاں آپ کو اور صفات عطا فرمائیں وہاں علمِ غیب بھی عطا فرمایا۔ اس آیت میں یہ ذکر نہیں کہ فلاں کا علم دیا فلاں کا نہ دیا، بلکہ فرمایا: عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ (پ 5، النساء: 113) بلکہ وہ سکھایا جو آپ نہ جانتے تھے۔ معلوم ہوا کہ ذرہ ذرہ کا علم آپ کو مرحمت ہوا۔

(5) حضور نبیِ کریم ﷺ کا عفو درگزر: غورث بن حارث نے آپ ﷺ کو شہید کرنے کی کوشش کی تو آپ نے اس پر غالب آجانے کے باوجود اسے معاف فرمادیا۔

کفارِ مکہ نے وہ کونسا ایسا ظالمانہ برتاؤ تھا جو آپ ﷺ کے ساتھ نہ کیا ہو، لیکن فتحِ مکہ کے دن یہ سب جبارانِ قریش خوف اور دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر سے ان کے جسم لرزاں تھے تو رسولِ رحمت ﷺ نے ان مجرموں کو یہ فرما کر چھوڑ دیا کہ جاؤ آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں، تم سب آزاد ہو۔ (تفسیر صراط الجنان)

(6) خلقِ عظیم: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29،القلم:4)ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔

حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اعمال کے کمالات پورے کرنے کے لیے مجھ کو بھیجا۔

ایک صحابی رضی اللہُ عنہ نے ام المومنین بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے پوچھا: اے اُمُّ المؤمنین!، مجھے رسول اللہ ﷺ کے اَخلاق کے بارے میں بتائیے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: ’’کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟میں نے عرض کی: کیوں نہیں ! تو آپ نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا خُلْق قرآن ہی تو ہے۔ (تفسیر صراط الجنان)

(7) حضورِ اقدس ﷺ کی طاقت: لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ- (پ 28، الحشر: 21) ترجمہ کنز العرفان: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تم اسے جھکا ہوا، اللہ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے تمام مخلوق سے زیادہ اپنے حبیب ﷺ کو طاقت اور قوت عطا فرمائی ہے۔ (تفسیر صراط الجنان)

(8) بارگاہِ رب قدیر میں مقامِ حبیب: اللہ پاک نے قرآن پاک میں اپنے حبیب ﷺ کے شہر کی قسم، ان کی باتوں کی قسم، ان کے زمانے کی قسم اور ان کی جان کی قسم بیان فرمائی۔ یہ وہ مقام ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں آپ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)

(9) جوامع الکلم: مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ، حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ! آپ ہم سب سے زیادہ فصیح ہیں، جبکہ آپ کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے، پھر اس میں کیا راز ہے؟ تو شہد سے میٹھا بولنے والے پیارے مصطفےٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی لغت یعنی زبان مٹ چکی تھی، حضرت جبرئیل اسے میرے پاس لائے، میں نے اسے یاد کرلیا۔ مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا۔ جوامع الکلم وہ احادیثِ نبویہ ہیں جن کے الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں۔ (الوفاء لابن جوزی، ص54)

(10) سب سے آخری نبی: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں (معراج کی رات ) رسول اللہ ﷺ نے آسمانوں پر انبیائے کرام علیہمُ السّلام سے ملاقات فرمائی تو سب نے اللہ پاک کی حمد بیان کی اور آخر میں سب سے آخری نبی محمدِ عربی ﷺ نے فرمایا: آپ سب اللہ پاک کی تعریف بیان کرچکے، اب میں بیان کرتا ہوں: سب تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں جس نے مجھے سارے جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا اور سب لوگوں کے لئے خوشخبری اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا اور مجھ پر قرآن کریم نازل فرمایا، جس میں ہر شے کا روشن بیان ہے اور میری امت کو بہتر امت بنایا، ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں اور انہی کو اول اور انہی کو آخر رکھا اور میرے واسطے میرا ذکر بلند فرمایا اور مجھ سے نبوت کی ابتدا فرمائی اور مجھ پر ہی نبوت کو ختم فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تمام انبیائے کرام علیہمُ السّلام سے فرمایا: ان باتوں کی وجہ سے محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تم سب سے افضل ہیں۔ (تفسیرِ طبری، 8/9-11)

تم ہو اول، تم ہو آخر، تم ہو باطن تم ہو ظاہر حق نے بخشے ہیں یہ اسماء صلی اللہ علیک وسلم

اوصاف وصف کی جمع ہے، جس کا لغوی معنیٰ خوبی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں بنی نوع انسان کے لئے پیش کیں۔ لیکن محمدِ مصطفےٰ ﷺ کی زندگی مسلمانوں کے لئے مکمل نمونہ ہے۔ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب: 21) ترجمہ کنزا لایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔

اللہ پاک نے حضور کی ذاتِ مبارکہ میں بےبہا اوصاف شامل کئے، ان میں سے چند ایک اوصاف یہ ہیں:

(1) رحمۃ للعلمین: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17، الانبیاء: 107) اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔

تفسیر صراط الجنان میں تفسیرِ روح البیان کے حوالے سے مذکور ہے کہ حضور ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے عامل، کامل، شامل اور جامعِ نعمت بنا کر بھیجا ہے اور جو تمام عالموں سے افضل ہو تو لازم ہے کہ وہ تمام جہانوں سے افضل ہو۔ (تفسیر صراط الجنان، 6/388)

(2) پاک کرنے والے:اللہ پاک نے قرآن پاک میں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے اپنی طرف سے انہیں پاکیزگی دی۔ اور اپنے نبی ﷺ کے بارے میں ارشاد فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ (پ4، اٰل عمران: 164) ترجمہ کنزا لایمان: بےشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا، جب ان میں ایک رسول عطا فرمایا، جو انہی میں سے ہے، وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے۔

(3) اطاعتِ رسول: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، 2/229)

(4) اجرِ عظیم: اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: حق جل و علا نے فرمایا: وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍۚ(۳) (پ 29، القلم: 3) کہ تو ان دیوانوں کی بد زبانی پر صبر کرتا اور حلم و کرم سے پیش آتا ہے۔ مجنون تو چلتی ہوا سے الجھا کرتے ہیں تیرا سا حلم و صبر کوئی تمام عالم کے عقلا میں ہے تو بتائیے۔ اسی لئے نبی کے لئے اجرِ عظیم ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 30/164)

(5) نبیِ امی: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-(پ28، الجمعۃ: 2) ترجمہ کنزا لایمان: وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں۔

آپ ﷺ امتِ امیہ کی طرف مبعوث ہوئے۔ کتابِ شعیا میں ہے: میں امیوں میں سے ایک امی بھیجوں گا اور اس پر نبوت کو ختم کروں گا۔ (تفسیر صراط الجنان، 10/142)

(6) خصائصِ مصطفےٰ: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىؕ(۴) (پ30، الضحیٰ: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بے شک پچھلی تمہارے لیے پہلی سے بہتر ہے۔ نبیِ کریم ﷺ کے لئے دنیا آخرت سے بہتر ہے، کیونکہ وہاں آپ کے لئے مقامِ محمود و حوضِ کوثر و خیر اور بے انتہا عزتیں اور کرامتیں ہیں۔ آنے والے احوال آپ ﷺ کے لئے گزشتہ احوال سے بہتر و برتر ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص 1083)

(7) حضور کا جذبۂ تبلیغ: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶) (پ15، الکہف: 6) ترجمہ کنز الایمان: تو کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے پیچھے اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں غم سے۔ اس طرح کی آیات سے نبیِ کریم ﷺ کا جذبۂ تبلیغ، امت پر رحمت و شفقت کی انتہا اور رسالت کے حقوق کو انتہائی اعلیٰ طریقے سے ادا کرنے کا بھی پتا چلتا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، 5/537)

(8) عقلِ مبارک: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-ترجمہ کنزا لایمان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھادیا جو آپ نہ جانتے تھے۔ (پ5، النساء: 112)

(9) عظیم اخلاق: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔ خالق کی شان اپنی تخلیق کے شہکار کی توصیف فرمارہی ہے۔ اس آیت کے ایک ایک لفظ میں نبی کے عمدہ اخلاق کی جھلکیاں نمایاں نظر آتی ہیں۔ (تفسیر ضیاء القرآن، 5/331)

(10) معراجِ مصطفےٰ: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-( پ15، بنی اسرائیل: 1) ترجمہ کنزا لایمان: پاکی ہے اس کے لئے جو راتوں رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گیا، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں۔

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے


پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ ﷺ کی بےمثال ذات بےشمار خوبیوں کی جامع ہے۔ آپ کے اوصاف و کمالات گویا سمندر ناپید کنار ہیں کہ کسی کے لئے ممکن ہی نہیں کہ آپ کے تمام اوصاف کو بیان کرسکے۔ آپ ﷺ کے 10 اوصاف کو انتہائی مختصر طور پر پیش کرتی ہوں۔

پہلا وصف: نبیِ کریم ﷺ کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ ﷺ تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا(پ9، الاعراف: 158) ترجمہ کنز الاایمان: تم فرماؤ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں۔

معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کی نبوت سب کو عام ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہمُ السّلام اور ان کی امتیں تمام رسل و جنات و ملائکہ سب حضور کے امتی ہیں۔ (شان حبیب الرحمن)

دوسرا وصف: حضور ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ کنز الاایمان: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔

خاتم ختم سے مشتق ہے، ختم کے معنیٰ ہیں مہر، آخری مہر کو بھی خاتم اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ مضمون کے آخر میں لگتی ہے، اسی طرح آپ ﷺ کے آنے سے یہ آخری مہر لگ چکی۔ باغِ نبوت کا آخری پھول کھل چکا، اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ (شان حبیب الرحمن)

تیسرا وصف: اللہ پاک نےآپ ﷺ کے ذکر کو بلند کیا۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30، الم نشرح: 4) ترجمہ کنز العرفان: اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کیا۔

حضور ﷺ کے ذکر کی ایک بلندی یہ ہے کہ اللہ پاک کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ نیز حضور ﷺ کے ذکر کی بلندی یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے انبیاء کرام علیہمُ السّلام سے آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا۔ (تفسیر صراط الجنان)

و رفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا ترا

چوتھا وصف: اللہ پاک نے اپنے اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ علیا کے ساتھ آپ کا نام رکھ کر آپ کو شرف و فضیلت مرحمت فرمائی۔ جیسے اللہ پاک کے ناموں میں الروف، الرحیم ہے، اور یہ دونوں لفظ ہم معنیٰ ہیں۔ قرآن کریم میں حضور ﷺ کا نام بھی یہی رکھا۔ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128) ترجمہ: آپ مسلمانوں کے ساتھ مہربان اور رحیم ہیں۔ (الشفاء، ص 214)

پانچواں وصف: آپ ﷺ مالکِ احکام ہیں، کوئی عبادت بارگاہِ الٰہی میں اس وقت تک قبول نہیں جب تک کہ حضور ﷺ اس کو پسند نہ فرمائیں۔ سنو اللہ پاک فرماتا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ- (پ11، التوبۃ: 103) ترجمہ کنز العرفان: اے محبوب! ان کے مال میں سے صدقہ قبول فرما لو، ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔ (سلطنت مصطفےٰ، ص18)

چھٹا وصف: اللہ پاک نے آپ ﷺ کو یہ خصوصیت دی ہے کہ آپ کے ناموں کو آپ کی ثناء کے ضمن میں بیان فرمایا ہے۔ آپ کا نام احمد بروزن افعل ہے، جو آپ کی صفتِ حمد میں مبالغہ ہے اور محمد کثرتِ حمد میں مبالغہ ہے۔ پس آپ ﷺ ان سب سے افضل ہیں جن کی تعریف کی جاتی ہے۔ اور تعریف کئے ہوؤں میں بھی سب سے بڑھ کر تعریف کئے ہوئے ہیں۔ (الشفاء،ص 205)

ساتواں وصف: اللہ پاک کا فرمان ہے: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (پ30، الکوثر:1) ترجمہ کنز العرفان: اے محبوب! ہم نے تمہیں بےشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔

کوثر سے مراد یا تو حوض ِ کوثر ہے یا کثیر بھلائی یا بہت امت یا مقامِ محمود یا شفاتِ کبریٰ یا ساری خلقت پر بزرگی جو بھی مراد ہو مگر معلوم ہوا کہ ربّ نے دیا اور بہت کچھ دیا۔ دنیا کی ساری نعمتوں کو ربّ تعالیٰ قلیل فرماتا ہے مگر جو حضور ﷺ کو دی گئیں وہ کثیر نہیں، اکثر نہیں بلکہ کوثر ہیں یعنی بہت زیادہ ہیں۔ دنیا میں تو میرے آقا ﷺ کی ملکیت کا کروڑواں حصہ بھی نہیں۔ (سلطنتِ مصطفےٰ، ص 16)

آٹھواں وصف: پیارے آقا ﷺ کا چہرۂ انور بارعب تھا کہ جو اچانک دیکھ لیتا اس کے دل میں رعب اور ہیبت آجاتی اور جس کو حضور کی صحبت میں رہنا نصیب ہوجاتا تو اخلاقِ کریمانہ کی وجہ سے ایسا مانوس ہوجاتا کہ اور جگہ اس کا دل نہ لگتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا آپ ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کی تصویر کھینچتے ہوئے فرماتی ہیں: کان خلقہ القرآن تعلیماتِ قرآن پر پورا پورا عمل ہی حضور کے اخلاق تھے۔ (سلطنتِ مصطفےٰ)

نواں وصف: آپ ﷺ سراپا رحمت ہیں۔ جس نے بھی اس رحمت سے حصہ پایا وہ دونوں جہانوں میں بامراد ہے، اللہ پاک فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17، الانبیاء: 107) ترجمہ کنز العرفان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

جیسے ربّ کی صفت رب العلمین ہونا اور حضور ﷺ کی صفت ہے رحمۃ للعلمین ہونا۔ جس کا اللہ پاک ربّ ہے اس کے لئے حضور ﷺ رحمت ہیں۔ (الشفاء، ص29)

دسواں وصف: اللہ پاک نورِ مجسم، شافعِ محشر ﷺ کو روزِ محشر مقامِ محمود عطا فرمائے گا۔ چنانچہ اس کا ذکر قرآن پاک میں ہوتا ہے: عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) (پ، 15، بنی اسرائیل: 79) ترجمہ کنز الایمان: قریب ہے کہ تمہیں تمہارا ربّ اسی جگہ کھڑا کرے جہاں سے تمہاری حمد کریں۔

یہ وہ جگہ ہے جس جگہ جلوہ گر ہوکر حضور ﷺ کی اس عظمت و رفعت کو دیکھ کر سب دشمن و دوست آپ کی تعریف کریں گے۔ اس لئے اسے مقامِ محمود یعنی حمد کیا ہوا مقام کہتے ہیں۔ (شان حبیب الرحمن)

اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کے اوصاف بیان کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ 

اوصاف وصف کی جمع ہے، جس کا مطلب ہے خوبیاں، سرکار ﷺ کے اوصاف سے مراد سرکار ﷺ کی خوبیاں اور کمالات ہیں۔ سرکار ﷺ کے اوصاف لکھنے کے لئے اگر پوری دنیا کے تمام سمندروں کے پانی کی سیاہی بنالی جائے اور تمام درختوں کی لکڑی سے قلم درکار ہوں تب بھی آپ ﷺ کے اوصاف پورے نہ ہوسکیں، اگرچہ ان کے برابر اور بھی لے آئیں۔

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

آقائے دو جہاں ﷺ کے اوصاف درج ذیل ہیں:

خلقِ عظیم: آقا ﷺ نہایت ہی نرم گفتار تھے۔ آپ کے اخلاق کا قرآن مجید میں یوں ذکر فرمایا گیا ہے: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔

سابقہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام میں سے ہر ایک حسنِ اخلاق کی ایک نوع سے مختص تھے، مگر آپ ﷺ کی ذاتِ عالیشان میں حسنِ اخلاق کی تمام انواع جمع تھیں۔ آپ کا خلق قرآن تھا، مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جس قدر محامد، اخلاق مذکور ہیں وہ آپ ﷺ کی ذات میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کے اخلاق سے تو دشمن بھی متاثر تھے، یہ آپ کے خلق ہی کا کمال تھا کی مکۂ مکرمہ بغیر خون خرابے کے فتح ہوگیا اور دشمن کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ المختصر آپ کا خلق بےمثل و بے مثال ہے۔

خلق تمہاری جمیل خلق تمہارا جلیل خلق تمہاری گدا تم پہ کروڑوں درود

صبرِ آقا: صبر کے معنیٰ ہیں روکنا اور برداشت کرنا۔ یعنی مصیبت و ایذا کے وقت اپنے آپ کو روکنا اور متاثر نہ ہونا صبر کہلاتا ہے۔ صبر کا جب بھی نام آتا ہے تو لب پر آقا ﷺ کا نام آتا ہے۔ نبوت کا بوجھ ان اوصاف کے بغیر برداشت نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر ان اوصاف کا ذکر آیا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْؕ- (المائدہ:13) ترجمہ: تو انہیں معاف کرو اور ان سے درگزر کرو۔

ہجرت سے پہلے مکہ میں کفار نے مسلمانوں کو اس قدر اذیت دی کہ ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا۔ آپ ﷺ کے صبر کا اندازہ سفرِ طائف سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اختیار ہونے کے باوجود بھی آپ نے اہلِ ثقیف کے لئے بددعا نہ کی، بلکہ صبر کیا۔ الغرض جتنا صبر آپ نے کیا اتنا کسی نے نہیں کیا ہوگا۔

حلم و عفو: اپنی طبیعت کو غصہ کرنے سے ضبط کرنے کا نام حلم ہے۔ خطا پر مواخذہ نہ کرنے کو عفو کہتے ہیں۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ حلم و عفو کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ قرآن مجید میں آپ کے حلم و عفو کا ذکر کچھ یوں ہے: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو۔

آقا کریم ﷺ بہت ہی زیادہ حلم و عفو والے تھے۔ آپ نے کبھی اپنی ذات کے لئے انتقام نہ لیا ہمیشہ دوسروں کی غلطیوں سے درگزر فرماتے تھے۔ اسی وجہ سے لوگ آپ کے گرویدہ تھے۔

شفقت و رحمت: یہ وصف آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں سب سے زیادہ غالب ہے۔ آقا ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے فرمایا: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

آقا ﷺ نہایت مہربان و شفیق تھے۔ آپ کی رحمت تمام جہانوں کے لئے ہے حتیٰ کہ کافر کے لئے بھی۔ صرف آپ کی رحمت و شفقت انسانوں تک ہی محدود نہ تھی، بلکہ عورتوں، یتیموں، غلاموں، مسکینوں، بیواؤں اور کافروں کے علاوہ آپ کی رحمت و شفقت کا سایہ نباتات و جمادات یعنی چوپاؤں، پرندوں اور حشرات الارض پر بھی تھا۔

حسنِ معاشرت کی تاکید: اللہ پاک کا ارشاد ہے: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

یعنی اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اگر عورت سرکشی کرے تو مرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ اسے قتل کردے، نہ سمجھے تو گھر میں اس سے جدا ہوجائے، پھر آخری درجہ مارے بھی تو ایسا نہ کہ ضربِ شدید ہو۔ حدیث شریف میں ہے: تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے اہل کے لئے تم سب سے اچھا ہوں۔

آپ ﷺ کی عورتوں پر رحمت اس قدر تھی کہ آپ حالتِ نماز میں بچے کی آواز سنتے تو ماں کی شفقت کے خیال سے نماز میں تخفیف فرمادیتے تھے۔ الغرض ہر معاملے میں حسنِ معاشرت سے کام لیتے تھے۔

سخاوت و ایثار: کیا بات ہے آپ ﷺ کی سخاوت کی۔ حدیثِ صحیح میں وارد ہے کہ آپ سے کبھی کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے کبھی ”نہیں“ نہ کہا۔ یعنی آپ کسی کے سوال کو رد نہ فرماتے، اگر موجود ہوتا تو عطا فرماتے اور اگر موجود نہ ہوتا تو قرض لے کر اسے دیتے۔ پس آپ ﷺ سے زیادہ سخی کوئی نہیں تھا۔

شجاعت و قوت اور عزم و استقلال: آپ ﷺ ان اوصاف میں بھی سب پر فائق تھے۔ غزوات میں یہاں بڑے بڑے دلاور و بہادر بھاگ جایا کرتے تھے۔ آپ وہاں ثابت قدم رہتے، ہر جنگ میں آپ کوہِ استقامت بنے رہے۔ جب گھمسان کا معارکہ ہوتا صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم آپ کی آڑ میں پناہ لیتے اور جو بہادر ہوتا وہ آپ کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتا تھا۔ آپ کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی۔ خندق کی کھدائی کے دوران جب سخت زمین ظاہر ہوئی سب عاجز آگئے تو آقا ﷺ نے وہاں ایسا کدال مارا کہ سخت زمین پاش پاش ہوگئی۔ اس کے علاوہ آپ نے ایسے پہلوانوں کو پچھاڑا جو بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔

پس آپ کے اوصاف تو شمار نہیں کئے جاسکتے، آپ ہر وصف میں بےمثال تھے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے آپ کے اوصاف کو یوں بیان فرمایا ہے:

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

اوصافِ سرکار ﷺ ایک ایسا وسیع موضوع ہے کہ اگر ہم ساری زندگی اس ذاتِ سراپا کمال کی مدح و ثنا میں صرف کردیں تب بھی ایک باب پورا نہیں ہوسکتا۔ وہ تو وہ عظیم ہستی ہیں جن کے اوصاف و محاسن کا واضح گواہ اللہ پاک کا کلامِ مبین قرآنِ عظیم ہے۔ قرآن کریم گویا مدحِ سرکار ﷺ کا وہ معطر و معنبر گلدستہ ہے جس میں جگہ جگہ محبوب ﷺ کی نعت و توصیف کے رنگا رنگ پھول کھلے ہوئے ہیں۔ حصولِ برکت کے لئے قرآن کریم میں ذکر کردہ 10 اوصافِ سرکار ﷺ ذکر کئے جاتے ہیں۔

خاتم النبین: فرمایا: اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔(الاحزاب: 40) یہ وہ وصف ہے کہ اس کا منکر بلکہ شبہ کرنے والا قطعا اجماعا کافر ملعون ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 10/630)

الامی: فرمایا: جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔ یعنی آپ ﷺ نے کسی مخلوق سے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا، بلکہ خالق نے تعلیم فرمائی۔

ایسا امی کس لئے منت کشِ استاد ہو کیا کفایت اس کواِقْرَاْ رَبُّكَ الْاَكْرَم نہیں

المزمل: فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) (المزمل: 1) ترجمہ: اے چادر اوڑھنے والے۔ یہ ندا کا انداز بتاتا ہے کہ اللہ پاک کو اپنے حبیب ﷺ کی ہر ادا پیاری ہے۔

مقامِ محمود: فرمایا: عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) (بنی اسرائیل:79) ترجمہ:قريب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں۔ قریب ہے کہ آپ کا ربّ آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں تمہاری سب حمد کریں۔ (بنی اسرائیل: 79) مقامِ محمود کا عطا کیا جانا ایک عظیم وصفِ سرکار ہے۔ اس سے مراد مقامِ شفاعت ہے کہ اس میں اولین و آخرین حضور کی حمد کریں۔

صاحبِ خلقِ عظیم: فرمایا: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔اللہ پاک نے آپ ﷺ کو تمام انبیاء کرام علیہمُ السّلام کے اوصاف و کمالات کا جامع بنایا۔ قرآن میں آپ کے خلقِ عظیم کی گواہی بیان فرمائی۔

خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ: فرمایا: وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) (پ30، الضحیٰ: 5) ترجمہ: اور بےشک قریب ہے کہ تمہارا ربّ تمہیں اتنا دے کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔ یہ وعدۂ خداوندی دنیا و آخرت دونوں کی نعمتوں کو شامل ہے۔ (تفسیر صراط الجنان)

الداعی الی اللہ: فرماتا ہے: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے۔ حضور ﷺ کافروں کو ایمان، فاسقوں کو تقویٰ، غافلوں کو یادِ الٰہی کی دعوت دیتے ہیں۔ نیز کاہلوں کو عمل کی، محروموں کو قرب کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور ظاہر و باطن سے کامل غلامی میں آنے والوں کو بارگاہِ قدس میں پہنچانے والے ہیں۔(ماہنامہ فیضانِ مدینہ، ربیع الاول: 1440)

شہید: فرمایا: وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ- (پ2، البقرہ: 143) اور رسول تم پر گواہ ہوں گے۔

حضور ﷺ کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے، ایمان کی حقیقت، اعمال، نیکیاں، برائیاں وغیرہ کو نورِ حق سے جانتے ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)

بشیراًنذیراً: فرمایا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاؕ- (پ22، الفاطر: 24) ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری اور ڈر سناتا۔

حضورِ ﷺ اہلِ ایمان کو جنت کی خوشخبری سنانے والے ہیں۔ عشرۂ مبشرہ کے لئے دنیا ہی میں مژدہ ٔ جنت اسی وصف کی ایک کڑی ہے بلکہ کفار و اہلِ معصیت کو عذابِ الٰہی سے ڈرانے والے ہیں۔

یہ تو اختصار کے ساتھ چند اوصاف ذکر کئے گئے ورنہ علمائے کرام نے عشق بھری ایسی تفاسیر بھی تحریر فرمائی ہیں کہ ہر آیت کے تحت شانِ مصطفےٰ کو بیان کیا۔ حق بات ہے کہ مقامِ محبوب کو جاننا مخلوق کے بس کی بات نہیں بلکہ خالقِ کائنات ہی ان کے اعلیٰ و ارفع مقام کو جانتا ہے۔

خدا کی عظمتیں کیا ہیں محمد مصطفیٰ جائیں مقامِ مصطفیٰ کیا ہے محمد کا خدا جانے


اوصاف وصف کی جمع ہے، وصف سے مراد خوبی، کثرتِ اوصاف، کمالِ ذات پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن دنیا میں ایک ذات ایسی بھی ہے کہ کمال کو کمال ہونے کا شرف ان کے قدموں میں حاضری سے ہوتا ہے۔ الوہیت و مستلزماتِ الوہیت تمام اوصاف کی یکجا ہے۔ انسان و جن و ملک تو مدح سرا ہیں ہی، خود خالقِ کائنات بھی ان کا مداح ہے۔ جس کا شاہد قرآن کریم ہے۔

اے رضا خود صاحبِ قرآں ہے مداح ِ حضور تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

قرآن کریم میں ذکر کی گئی دس صفات کا ذکر:

رحمۃ للعلمین: ترجمہ کنز العرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ (انبیاء: 107)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: عالم ماسوائے اللہ پاک کو کہتے ہیں، جس میں انبیاء و ملائکہ سب داخل ہیں تو لازمی طور پر حضور پر نور ﷺ ان کے لئے رحمت و نعمت رب الارباب ہوئے۔ (فتاویٰ رضویہ، 30/141)

شاہد: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا (پ21،الاحزاب:45) ترجمہ:اے غیب کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر۔

شاہد کے معنیٰ: حاضر و ناظر اور گواہ ہیں، دونوں معنیٰ مراد لئے جاتے ہیں۔

مفرداتِ راغب میں ہے: حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے، بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ، اگر اس کا معنیٰ گواہ کیا جائے تو بھی یہاں تفصیلی معنیٰ گواہ کے ہی بنیں گے، کیونکہ گواہ کو بھی اس لئے شاہد کہتے ہیں۔ (المفردات، 1/352)

نذیر: تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَ ﰳاۙ (۱) (پ18، الفرقان: 1) ترجمہ کنز العرفان:وہ اللہ بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندہ پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو ڈرسنانے والا ہو۔

یعنی لوگوں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والے ہیں۔ انسانی فطرت ایسی ہے کہ اسے اصلاح کے لئے جہاں ترغیب کی ضرورت ہے وہیں ترہیب و انذار کی حاجت ہے۔ حضور پرنور ﷺ نے کافروں، فاسقوں، فاجروں کو جہنم کے عذاب کے متعلق بھی بہت وضاحت سے متنبہ فرمایا۔

مبشر: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ21،الاحزاب:45) ترجمہ:اے غیب کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔

مذکورہ آیتِ مبارکہ میں پیارے آقا ﷺ کی ایک صفت مبشر ہے۔ مبشر کے معنی ہیں خوشخبری دینے والا۔

علامہ اسماعیل حقی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: آپ ﷺ اہلِ اطاعت کو جنت اور اہلِ محبت کو دیدارِ الٰہی کی بشارت دیتے ہیں۔ آپ کی زبانِ مقدس نے شیخین کریمین رضی اللہُ عنہما کو جنتی بزرگوں، حسنین کریمین رضی اللہُ عنہما کو جنتی جوانوں اور سیدۂ کائنات رضی اللہُ عنہا کو جنتی عورتوں کی سردار ہونے کا مژدہ سنایا۔

داعیا الی اللہ: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22، الاحزاب:46) ترجمہ:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔

دعوت الی اللہ تمام انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی بعثت کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ کافروں کو ایمان، فاسقوں کو تقویٰ، غافلوں کو یادِ الٰہی کی دعوت دیتے ہیں۔ نیز کاہلوں کو عمل کی، محروموں کو قرب کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور ظاہر و باطن سے کامل غلامی میں آنے والوں کو بارگاہِ قدس میں پہنچانے والے ہیں۔

سراجا منیرا: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22، الاحزاب:46) ترجمہ:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔

پیارے آقا دو عالم کے داتا ﷺ سراجا منیرا ہیں یعنی چمکادینے والے، روشنیاں پھیلانے والے آفتاب ہیں۔ جیسے میرے پیارے آقا کفر کی ظلمتوں اور شرک کی تاریکیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ آپ ہی وہ آفتاب ِ رسالت ہیں جن سے حضرات ابو بکر رضی اللہُ عنہ نے صداقت، عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے عدالت، عثمان غنی رضی اللہُ عنہ نے حیاء و سخاوت اور علی مرتضیٰ رضی اللہُ عنہ نے علم و عبادت کا نور پایا۔ اسی سورج کی تجلیات سے حضرات یاسر، عمار، سیمہ، خبیب، صہیب اور بلال حبشی رضی اللہُ عنہم جیسی ہستیوں نے استقامت پائی۔

سرکار یہ نام تمہارا سب ناموں سے ہے پیارا اس نام سے چمکا سورج اور چمکا چاند ستارا

ہوا ہر سو خوب اجالا ہوا روشن عالم سارا میرا نام کرے گا روشن دوجگ میں نام تمہارا

نور: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ (پ6،المائدہ: 15) ترجمہ: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یہاں نور سے نبیِ اکرم ﷺ مراد ہیں۔ اس لئے کہ حضورِ اقدس ﷺ دلوں کو روشن کرتے ہیں اور انہیں رشد و ہدایت فرماتے ہیں، اس لئے کہ آپ ﷺ ہی نورِ حسی وہ جسے دیکھا جاسکے اور معنوی جیسے علم و ہدایت کی اصل ہیں۔

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

میں گدا تو بادشاہ بھردے پیالہ نور کا نور دن دونا تیرا دے ڈال صدقہ نور کا

پیارے آقا ﷺ پر اپنی امت کا مشقت میں پڑنا گراں گزرتا ہے اور آپ ﷺ اپنی امت پر حریص ہیں۔ سورۂ توبہ آیت نمبر 128 میں اللہ پاک کا فرمان ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128)ترجمہ کنز العرفان:بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔

عزیز علیہ ماعنتم: جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے۔ مشقتوں کو دور کرنے میں سب سے اہم اللہ پاک کے عذاب کی مشقت کو دور کرنا ہے اور نبیِ کریم ﷺ اسی مشقت کو دور کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔

حریص علیکم: یعنی وہ دنیا و آخرت میں تمہیں بھلائیاں پہنچانے پر حریص ہیں۔( تفسیرِکبیر، 4/178)

لوگ تو اپنی اولاد کے لئے حریص ہیں، لیکن پیارے آقا ﷺ اپنی امت کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی پر حریص ہیں۔ حضرت خالد بن جہنی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے اپنی امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک موخر کردیتا۔ (ترمذی، 1/100، حدیث: 23)

مدثر: یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱)ان کے انداز کو بھی قرآن پاک میں بیان فرمایا گیا ہے۔

یہ توصرف دس اوصافِ کریمہ ذکر کئے گئے ورنہ قرآن کی ہر آیت نعتِ مصطفےٰ ہے، گویا قرآن کریم محبوب کی مدح و ثنا کا رنگارنگ گلدستہ ہے۔ جب قرآن ان کا مدح گو ہے تو ہمیں یہی کہنا پڑتا ہے۔

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

تمام انبیاء کرام علیہمُ السّلام میں سب سے بڑا مرتبہ اللہ کے آخری نبی ﷺ کا ہے۔ اللہ پاک نے آپ ﷺ کو بےشمار معجزات عطا فرمائے۔ اوروں کو جو بھی کمالات ملے آپ ﷺ میں وہ سب جمع کردئیے گئے۔ ان کے علاوہ آپ کو وہ بھی کمالات ملے جن میں کسی کا حصہ نہیں، جبکہ اوروں کو بھی سب آپ کے صدقے ہی ملا۔ آئیے! قرآن مجید میں آپ ﷺ کی صفات کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔

(1) سورۂ توبہ آیت 128 کے مطابق آپ ﷺ روؤف رحیم ہیں۔

بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)ترجمہ: مسلمانوں پر بہت مہربان رحمت فرمانے والے ہیں۔

(2)سورۂ انبیاء کی آیت نمبر 107 میں آپ ﷺ کو رحمۃ للعلمین فرمایا گیا۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجمہ: ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔

(3)سورۂ فتح میں خود اللہ پاک نے اپنے محبوب ﷺ کی پہچان کروانے کے لئے فرمایا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-(پ26، الفتح: 29) ترجمہ: محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

(4)دیگر انبیاء کرام کو ان کے ناموں سے جبکہ حضرت محمد ﷺ کو القابات سے پکارا جاتا ہے۔

یاایھا النبی، یا ایھا المزمل، یا ایھا المدثر، یایھا الرسول۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۲۸) (پ22، سبا: 28)

(5)سراجاً منیراً: آپ ﷺ کو سراجاً منیراً فرمایا کہ اللہ پاک نے آپ کو چمکادینے والا آفتاب بناکر بھیجا۔

(6) نذیراً: آپ کو ڈرسنانے والا بھیجا یعنی آپ کو کافروں کو جہنم کے عذاب سے ڈرسنانے والا بناکر بھیجا۔

(7) نذیراً: یہاں سید العالمین ﷺ کا ایک وصف مبشراً بیان فرمایا جارہا ہے کہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کو ایمان داروں کے لئے جنت کی خوشخبری دینے والا بناکر بھیجا، بےشک آپ بشارت دینے والے ہیں۔

(8) شاہداً: نبیِ کریم ﷺ کا ایک وصف بیان فرمایا جارہا ہے کہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کو حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا کہا ہے اور ایک معنیٰ گواہ بھی ہے۔

(9) قرآن مجید میں سورۂ بنی اسرائیل آیت 79 میں مقامِ محمود کا ذکر ہے یعنی شفاعت۔ مطلب آپ ﷺ شفاعت فرمائیں گے۔

عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹)ترجمہ: قریب ہے تیرا ربّ تجھے مقامِ محمود میں بھیجے۔

(10) اللہ پاک خود سورۂ الم نشرح آیت 4 میں فرماتا ہے: محبوبﷺ کا ذکر بلند فرمایا۔

وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ 30، الم نشرح: 4) ترجمہ: ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند فرمایا۔