پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ ﷺ کی بےمثال ذات بےشمار خوبیوں کی جامع ہے۔ آپ کے اوصاف و کمالات گویا سمندر ناپید کنار ہیں کہ کسی کے لئے ممکن ہی نہیں کہ آپ کے تمام اوصاف کو بیان کرسکے۔ آپ ﷺ کے 10 اوصاف کو انتہائی مختصر طور پر پیش کرتی ہوں۔

پہلا وصف: نبیِ کریم ﷺ کا ایک وصف یہ ہے کہ آپ ﷺ تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا(پ9، الاعراف: 158) ترجمہ کنز الاایمان: تم فرماؤ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں۔

معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کی نبوت سب کو عام ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہمُ السّلام اور ان کی امتیں تمام رسل و جنات و ملائکہ سب حضور کے امتی ہیں۔ (شان حبیب الرحمن)

دوسرا وصف: حضور ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ کنز الاایمان: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔

خاتم ختم سے مشتق ہے، ختم کے معنیٰ ہیں مہر، آخری مہر کو بھی خاتم اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ مضمون کے آخر میں لگتی ہے، اسی طرح آپ ﷺ کے آنے سے یہ آخری مہر لگ چکی۔ باغِ نبوت کا آخری پھول کھل چکا، اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ (شان حبیب الرحمن)

تیسرا وصف: اللہ پاک نےآپ ﷺ کے ذکر کو بلند کیا۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30، الم نشرح: 4) ترجمہ کنز العرفان: اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کیا۔

حضور ﷺ کے ذکر کی ایک بلندی یہ ہے کہ اللہ پاک کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ نیز حضور ﷺ کے ذکر کی بلندی یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے انبیاء کرام علیہمُ السّلام سے آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا۔ (تفسیر صراط الجنان)

و رفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا ترا

چوتھا وصف: اللہ پاک نے اپنے اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ علیا کے ساتھ آپ کا نام رکھ کر آپ کو شرف و فضیلت مرحمت فرمائی۔ جیسے اللہ پاک کے ناموں میں الروف، الرحیم ہے، اور یہ دونوں لفظ ہم معنیٰ ہیں۔ قرآن کریم میں حضور ﷺ کا نام بھی یہی رکھا۔ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128) ترجمہ: آپ مسلمانوں کے ساتھ مہربان اور رحیم ہیں۔ (الشفاء، ص 214)

پانچواں وصف: آپ ﷺ مالکِ احکام ہیں، کوئی عبادت بارگاہِ الٰہی میں اس وقت تک قبول نہیں جب تک کہ حضور ﷺ اس کو پسند نہ فرمائیں۔ سنو اللہ پاک فرماتا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ- (پ11، التوبۃ: 103) ترجمہ کنز العرفان: اے محبوب! ان کے مال میں سے صدقہ قبول فرما لو، ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔ (سلطنت مصطفےٰ، ص18)

چھٹا وصف: اللہ پاک نے آپ ﷺ کو یہ خصوصیت دی ہے کہ آپ کے ناموں کو آپ کی ثناء کے ضمن میں بیان فرمایا ہے۔ آپ کا نام احمد بروزن افعل ہے، جو آپ کی صفتِ حمد میں مبالغہ ہے اور محمد کثرتِ حمد میں مبالغہ ہے۔ پس آپ ﷺ ان سب سے افضل ہیں جن کی تعریف کی جاتی ہے۔ اور تعریف کئے ہوؤں میں بھی سب سے بڑھ کر تعریف کئے ہوئے ہیں۔ (الشفاء،ص 205)

ساتواں وصف: اللہ پاک کا فرمان ہے: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (پ30، الکوثر:1) ترجمہ کنز العرفان: اے محبوب! ہم نے تمہیں بےشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔

کوثر سے مراد یا تو حوض ِ کوثر ہے یا کثیر بھلائی یا بہت امت یا مقامِ محمود یا شفاتِ کبریٰ یا ساری خلقت پر بزرگی جو بھی مراد ہو مگر معلوم ہوا کہ ربّ نے دیا اور بہت کچھ دیا۔ دنیا کی ساری نعمتوں کو ربّ تعالیٰ قلیل فرماتا ہے مگر جو حضور ﷺ کو دی گئیں وہ کثیر نہیں، اکثر نہیں بلکہ کوثر ہیں یعنی بہت زیادہ ہیں۔ دنیا میں تو میرے آقا ﷺ کی ملکیت کا کروڑواں حصہ بھی نہیں۔ (سلطنتِ مصطفےٰ، ص 16)

آٹھواں وصف: پیارے آقا ﷺ کا چہرۂ انور بارعب تھا کہ جو اچانک دیکھ لیتا اس کے دل میں رعب اور ہیبت آجاتی اور جس کو حضور کی صحبت میں رہنا نصیب ہوجاتا تو اخلاقِ کریمانہ کی وجہ سے ایسا مانوس ہوجاتا کہ اور جگہ اس کا دل نہ لگتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا آپ ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کی تصویر کھینچتے ہوئے فرماتی ہیں: کان خلقہ القرآن تعلیماتِ قرآن پر پورا پورا عمل ہی حضور کے اخلاق تھے۔ (سلطنتِ مصطفےٰ)

نواں وصف: آپ ﷺ سراپا رحمت ہیں۔ جس نے بھی اس رحمت سے حصہ پایا وہ دونوں جہانوں میں بامراد ہے، اللہ پاک فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17، الانبیاء: 107) ترجمہ کنز العرفان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

جیسے ربّ کی صفت رب العلمین ہونا اور حضور ﷺ کی صفت ہے رحمۃ للعلمین ہونا۔ جس کا اللہ پاک ربّ ہے اس کے لئے حضور ﷺ رحمت ہیں۔ (الشفاء، ص29)

دسواں وصف: اللہ پاک نورِ مجسم، شافعِ محشر ﷺ کو روزِ محشر مقامِ محمود عطا فرمائے گا۔ چنانچہ اس کا ذکر قرآن پاک میں ہوتا ہے: عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) (پ، 15، بنی اسرائیل: 79) ترجمہ کنز الایمان: قریب ہے کہ تمہیں تمہارا ربّ اسی جگہ کھڑا کرے جہاں سے تمہاری حمد کریں۔

یہ وہ جگہ ہے جس جگہ جلوہ گر ہوکر حضور ﷺ کی اس عظمت و رفعت کو دیکھ کر سب دشمن و دوست آپ کی تعریف کریں گے۔ اس لئے اسے مقامِ محمود یعنی حمد کیا ہوا مقام کہتے ہیں۔ (شان حبیب الرحمن)

اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کے اوصاف بیان کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔