اوصاف وصف کی
جمع ہے، وصف سے مراد خوبی، کثرتِ اوصاف، کمالِ ذات پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن دنیا
میں ایک ذات ایسی بھی ہے کہ کمال کو کمال ہونے کا شرف ان کے قدموں میں حاضری سے
ہوتا ہے۔ الوہیت و مستلزماتِ الوہیت تمام اوصاف کی یکجا ہے۔ انسان و جن و ملک تو
مدح سرا ہیں ہی، خود خالقِ کائنات بھی ان کا مداح ہے۔ جس کا شاہد قرآن کریم ہے۔
اے رضا خود صاحبِ قرآں ہے مداح ِ حضور تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت
رسول اللہ کی
قرآن کریم میں ذکر کی گئی دس صفات کا ذکر:
رحمۃ
للعلمین: ترجمہ کنز العرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت
بنا کر بھیجا۔ (انبیاء: 107)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: عالم
ماسوائے اللہ پاک کو کہتے ہیں، جس میں انبیاء و ملائکہ سب داخل ہیں تو لازمی طور
پر حضور پر نور ﷺ ان کے لئے رحمت و نعمت رب الارباب ہوئے۔ (فتاویٰ رضویہ، 30/141)
شاہد:
یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا (پ21،الاحزاب:45)
ترجمہ:اے غیب کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر۔
شاہد
کے معنیٰ: حاضر و ناظر اور گواہ ہیں، دونوں معنیٰ مراد لئے جاتے ہیں۔
مفرداتِ راغب میں ہے: حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے، بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے
ساتھ، اگر اس کا معنیٰ گواہ کیا جائے تو بھی یہاں تفصیلی معنیٰ گواہ کے ہی بنیں
گے، کیونکہ گواہ کو بھی اس لئے شاہد کہتے ہیں۔ (المفردات، 1/352)
نذیر: تَبٰرَكَ
الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَ
ﰳاۙ (۱) (پ18، الفرقان: 1) ترجمہ کنز العرفان:وہ اللہ بڑی برکت والا
ہے جس نے اپنے بندہ پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو ڈرسنانے والا
ہو۔
یعنی لوگوں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والے ہیں۔ انسانی فطرت ایسی ہے کہ اسے
اصلاح کے لئے جہاں ترغیب کی ضرورت ہے وہیں ترہیب و انذار کی حاجت ہے۔ حضور پرنور ﷺ
نے کافروں، فاسقوں، فاجروں کو جہنم کے عذاب کے متعلق بھی بہت وضاحت سے متنبہ
فرمایا۔
مبشر:
یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ21،الاحزاب:45) ترجمہ:اے غیب
کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور
ڈر سناتا۔
مذکورہ آیتِ مبارکہ میں پیارے آقا ﷺ کی ایک صفت مبشر ہے۔ مبشر کے معنی ہیں
خوشخبری دینے والا۔
علامہ اسماعیل حقی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: آپ ﷺ اہلِ اطاعت کو جنت اور
اہلِ محبت کو دیدارِ الٰہی کی بشارت دیتے ہیں۔ آپ کی زبانِ مقدس نے شیخین کریمین رضی اللہُ عنہما کو
جنتی بزرگوں، حسنین کریمین رضی اللہُ
عنہما کو جنتی جوانوں اور سیدۂ کائنات رضی
اللہُ عنہا کو جنتی عورتوں کی سردار ہونے کا مژدہ سنایا۔
داعیا
الی اللہ: وَّ دَاعِیًا
اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22،
الاحزاب:46) ترجمہ:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔
دعوت الی اللہ
تمام انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی بعثت کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ کافروں کو
ایمان، فاسقوں کو تقویٰ، غافلوں کو یادِ الٰہی کی دعوت دیتے ہیں۔ نیز کاہلوں کو
عمل کی، محروموں کو قرب کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور ظاہر و باطن سے کامل غلامی
میں آنے والوں کو بارگاہِ قدس میں پہنچانے والے ہیں۔
سراجا منیرا: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ
سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22،
الاحزاب:46) ترجمہ:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔
پیارے آقا دو عالم کے داتا ﷺ سراجا منیرا ہیں یعنی چمکادینے والے، روشنیاں
پھیلانے والے آفتاب ہیں۔ جیسے میرے پیارے آقا کفر کی ظلمتوں اور شرک کی تاریکیوں
کو ختم کرنے والے ہیں۔ آپ ہی وہ آفتاب ِ رسالت ہیں جن سے حضرات ابو بکر رضی اللہُ عنہ نے صداقت، عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے عدالت، عثمان غنی رضی اللہُ عنہ نے حیاء و سخاوت اور علی مرتضیٰ رضی اللہُ عنہ نے علم و عبادت کا نور پایا۔ اسی سورج
کی تجلیات سے حضرات یاسر، عمار، سیمہ، خبیب، صہیب اور بلال حبشی رضی اللہُ عنہم جیسی ہستیوں نے استقامت پائی۔
سرکار
یہ نام تمہارا سب ناموں سے ہے پیارا اس نام سے چمکا سورج اور
چمکا چاند ستارا
ہوا
ہر سو خوب اجالا ہوا روشن عالم سارا میرا
نام کرے گا روشن دوجگ میں نام تمہارا
نور:
قَدْ
جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ (پ6،المائدہ:
15) ترجمہ: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا۔
امام جلال
الدین سیوطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یہاں نور سے نبیِ اکرم ﷺ مراد ہیں۔ اس
لئے کہ حضورِ اقدس ﷺ دلوں کو روشن کرتے ہیں اور انہیں رشد و ہدایت فرماتے ہیں، اس
لئے کہ آپ ﷺ ہی نورِ حسی وہ جسے دیکھا جاسکے اور معنوی جیسے علم و ہدایت کی اصل
ہیں۔
اعلیٰ حضرت
رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:
میں
گدا تو بادشاہ بھردے پیالہ نور کا نور
دن دونا تیرا دے ڈال صدقہ نور کا
پیارے آقا ﷺ
پر اپنی امت کا مشقت میں پڑنا گراں گزرتا ہے اور آپ ﷺ اپنی امت پر حریص ہیں۔ سورۂ
توبہ آیت نمبر 128 میں اللہ پاک کا فرمان ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ
عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ
رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128)ترجمہ کنز العرفان:بے شک
تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت
بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت
فرمانے والے ہیں۔
عزیز علیہ ماعنتم: جن پر
تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے۔ مشقتوں کو دور کرنے میں سب سے اہم اللہ
پاک کے عذاب کی مشقت کو دور کرنا ہے اور نبیِ کریم ﷺ اسی مشقت کو دور کرنے کے لئے
بھیجے گئے ہیں۔
حریص علیکم: یعنی
وہ دنیا و آخرت میں تمہیں بھلائیاں پہنچانے پر حریص ہیں۔( تفسیرِکبیر، 4/178)
لوگ تو اپنی
اولاد کے لئے حریص ہیں، لیکن پیارے آقا ﷺ اپنی امت کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی
پر حریص ہیں۔ حضرت خالد بن جہنی رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے اپنی امت پر دشوار نہ
ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو
تہائی رات تک موخر کردیتا۔ (ترمذی، 1/100، حدیث: 23)
مدثر: یٰۤاَیُّهَا
الْمُدَّثِّرُۙ(۱)ان
کے انداز کو بھی قرآن پاک میں بیان فرمایا گیا ہے۔
یہ توصرف دس اوصافِ کریمہ ذکر کئے گئے ورنہ قرآن کی ہر آیت نعتِ
مصطفےٰ ہے، گویا قرآن کریم محبوب کی مدح و ثنا کا رنگارنگ گلدستہ ہے۔ جب قرآن ان
کا مدح گو ہے تو ہمیں یہی کہنا پڑتا ہے۔