اوصاف وصف کی
جمع ہے۔ وصف سے مراد خوبی ہے۔ حضور انور ﷺ کو ربِّ کریم نے بے شمار اوصاف سے نوازا
اور آپ کی ذاتِ بابرکت اعلیٰ اوصاف کا مجموعہ تھی۔ویسے تو آپ کے مکمل اوصاف کا ذکر
کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ لیکن یہاں چند اوصاف ذکر کئے جائیں گے۔
زندگیاں
ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے پر
تیرے اوصاف کااک باب بھی پورا نہ ہوا
1-قرآنِ حکیم
میں ربِّ کریم ارشادفرماتا ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى
بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ- (البقرۃ:253)ترجمہ:یہ
رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ان میں کسی سے اللہ نے کلام کیا
اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا۔
مفسرین فرماتے
ہیں:اس آیت ِمبارکہ میں( کوئی وہ ہے جسے سب پر در جوں بلند کیا) سے مراد ہمارے نبیﷺ
ہیں۔ تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ حضور کو وہ درجے عطا ہوئے کہ جو کسی کے وہم وخیال میں
نہیں آسکتے۔ معلوم ہوا کہ سارے کمالات جو اور پیغمبروں کو ایک،ایک یا دو، دو ملے
حضورﷺکو وہ سب ہی ملے اور زیادہ بھی۔(شانِ حبیب الرحمن، 46)
2-رحمۃا
للعلمین:آیتِ
مبارکہ: وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107) ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا
مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔اس آیت ِمبارکہ میں حضور پر نور ﷺ کے ایک
خاص وصف کا ذکر ہے۔اس آیتِ مبارکہ میں نہایت خوبصورت انداز سے آپ کے اس وصف کا ذکر
فرمایا کہ آپ صرف چند لوگوں کے لئے نہیں، صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ انبیاءئے
کرام اور تمام جہان کے لئے رحمت ہیں۔ رب کریم کی صفت ہے رب العلمین اور
حضور ﷺ کی صفت ہے رحمۃ اللعلمین یعنی جس کا خدا رب ہے اس کے لئے حضورﷺ
رحمت ہیں۔بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جس تک اللہ پاک کی ربوبیت کا فیض پہنچا وہ نبی ﷺ
کی رحمت کے صدقے پہنچا۔ (شان ِحبیب الرحمن،156)
3-حدیثِ
مبارکہ:
امام بغوی نے ایک حدیثِ پاک روایت کی کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:میں اللہ کے نزدیک خاتم
النبیین لکھا ہوا تھا، حالانکہ حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر تیار ہو رہا تھا۔ میں
تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں!میں دعائے ابرا ہیم ہوں۔بشارتِ عیسیٰ ہوں۔اپنی
والدہ کے اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا اور ان کے لئے
ایک بلند نور ظا ہر ہوا جس سے ملکِ شام کے ایوان اور محلات روشن ہوگئے۔اس حدیثِ
مبارکہ میں حضور ﷺ کے اوصاف (اول، آخر) کا بھی ذکر ہے اور آپ کے پیدائش سے پہلے کے
واقعہ کا ذکر ہے۔ (صراط الجنان)
4- اللہ پاک
نے حضور پاک ﷺ کو نور کا لقب عطا فرمایا اور اپنی صفات میں سے بھی کچھ صفات آپ کو
عطا فرمائیں۔آیتِ مبارکہ ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ (پ6،المائدہ: 15) ترجمہ: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف
سے نور آگیا۔نور
وہ ہوتا ہے جو خود بھی ظاہر ہو اور دوسروں کو بھی ظاہر کر دے جیسے سورج خود بھی
روشن ہے اور دوسری چیزوں کو بھی روشن کرتا ہے۔(صراط الجنان)
5-حضور ﷺ کے
جسمِ مبارک کی نظافت اور بدنِ اقدس اور اس کے پسینہ کی خوشبو اور آپ کے جسم کا عیوب
سے پاک صاف ہونا بھی آپ کی وہ خصوصیت ہے جو آپ کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی۔ چنانچہ
مروی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضور کے جسمِ مبارک کی خوشبو
سے بڑھ کر کسی عنبر، کستوری اور کسی چیز کی خوشبو کو نہ پایا۔ (الشفا،ص75)
6-حضور پاک ﷺ
کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ عقل میں سب سے اعلیٰ اور رائے میں سب سے
افضل ہیں۔ چنانچہ حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے اکہتر(71) پچھلی
کتابوں میں پڑھا ہے۔ ان سب میں یہی پایا کہ نبیِ کریم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ عقل
میں اولیٰ اور رائے میں افضل ہوں گے۔
7-دوسری روایت
میں ہے:میں نے ان سب میں ہی پایا کہ اللہ نے جب سے دنیا پیدا کی ہے اس وقت سے دنیا
کا خاتمہ تک جس قدر عقل تمام لوگوں کو ملی ہے وہ حضور ﷺ کی عقل کے مقابلہ میں ایسی
ہے جیسے تمام دنیا کے ریت کے ذرات کے مقابلہ میں ریت کا ایک ذرہ ہوتا ہے۔ ( شفا، ص
79)
8- آپ ﷺ کے اوصاف
میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ بہت زیادہ سخی تھے۔چنانچہ نے حضرت عباس رضی اللہ
عنہ کو اتناسونا دیا کہ وہ اس کو اٹھانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔
9-حضرت ابنِ
عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے بڑھ کر کسی کو بہادر،صاحبِ
حوصلہ، سخی اور ہر معاملہ میں خو ش نہ دیکھا۔ (شفاء )
10-حضرت ابنِ
ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:آپ کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی مثل چمکتا
تھا۔ (شفاء)
خلاصہ:
حضور
پاک ﷺ کے اوصاف کا ذکر کرنا محال ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
یا
صاحبَ الجمال و یا سیدَ البشر من
وجہک المنیر لقد نور القمر