اوصاف وصف کی جمع ہے، جس کا مطلب ہے خوبیاں، سرکار ﷺ کے اوصاف سے مراد سرکار ﷺ کی خوبیاں اور کمالات ہیں۔ سرکار ﷺ کے اوصاف لکھنے کے لئے اگر پوری دنیا کے تمام سمندروں کے پانی کی سیاہی بنالی جائے اور تمام درختوں کی لکڑی سے قلم درکار ہوں تب بھی آپ ﷺ کے اوصاف پورے نہ ہوسکیں، اگرچہ ان کے برابر اور بھی لے آئیں۔

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

آقائے دو جہاں ﷺ کے اوصاف درج ذیل ہیں:

خلقِ عظیم: آقا ﷺ نہایت ہی نرم گفتار تھے۔ آپ کے اخلاق کا قرآن مجید میں یوں ذکر فرمایا گیا ہے: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔

سابقہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام میں سے ہر ایک حسنِ اخلاق کی ایک نوع سے مختص تھے، مگر آپ ﷺ کی ذاتِ عالیشان میں حسنِ اخلاق کی تمام انواع جمع تھیں۔ آپ کا خلق قرآن تھا، مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جس قدر محامد، اخلاق مذکور ہیں وہ آپ ﷺ کی ذات میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کے اخلاق سے تو دشمن بھی متاثر تھے، یہ آپ کے خلق ہی کا کمال تھا کی مکۂ مکرمہ بغیر خون خرابے کے فتح ہوگیا اور دشمن کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔ المختصر آپ کا خلق بےمثل و بے مثال ہے۔

خلق تمہاری جمیل خلق تمہارا جلیل خلق تمہاری گدا تم پہ کروڑوں درود

صبرِ آقا: صبر کے معنیٰ ہیں روکنا اور برداشت کرنا۔ یعنی مصیبت و ایذا کے وقت اپنے آپ کو روکنا اور متاثر نہ ہونا صبر کہلاتا ہے۔ صبر کا جب بھی نام آتا ہے تو لب پر آقا ﷺ کا نام آتا ہے۔ نبوت کا بوجھ ان اوصاف کے بغیر برداشت نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر ان اوصاف کا ذکر آیا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْؕ- (المائدہ:13) ترجمہ: تو انہیں معاف کرو اور ان سے درگزر کرو۔

ہجرت سے پہلے مکہ میں کفار نے مسلمانوں کو اس قدر اذیت دی کہ ان کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا۔ آپ ﷺ کے صبر کا اندازہ سفرِ طائف سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اختیار ہونے کے باوجود بھی آپ نے اہلِ ثقیف کے لئے بددعا نہ کی، بلکہ صبر کیا۔ الغرض جتنا صبر آپ نے کیا اتنا کسی نے نہیں کیا ہوگا۔

حلم و عفو: اپنی طبیعت کو غصہ کرنے سے ضبط کرنے کا نام حلم ہے۔ خطا پر مواخذہ نہ کرنے کو عفو کہتے ہیں۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ حلم و عفو کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ قرآن مجید میں آپ کے حلم و عفو کا ذکر کچھ یوں ہے: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو۔

آقا کریم ﷺ بہت ہی زیادہ حلم و عفو والے تھے۔ آپ نے کبھی اپنی ذات کے لئے انتقام نہ لیا ہمیشہ دوسروں کی غلطیوں سے درگزر فرماتے تھے۔ اسی وجہ سے لوگ آپ کے گرویدہ تھے۔

شفقت و رحمت: یہ وصف آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں سب سے زیادہ غالب ہے۔ آقا ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے فرمایا: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

آقا ﷺ نہایت مہربان و شفیق تھے۔ آپ کی رحمت تمام جہانوں کے لئے ہے حتیٰ کہ کافر کے لئے بھی۔ صرف آپ کی رحمت و شفقت انسانوں تک ہی محدود نہ تھی، بلکہ عورتوں، یتیموں، غلاموں، مسکینوں، بیواؤں اور کافروں کے علاوہ آپ کی رحمت و شفقت کا سایہ نباتات و جمادات یعنی چوپاؤں، پرندوں اور حشرات الارض پر بھی تھا۔

حسنِ معاشرت کی تاکید: اللہ پاک کا ارشاد ہے: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

یعنی اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اگر عورت سرکشی کرے تو مرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ اسے قتل کردے، نہ سمجھے تو گھر میں اس سے جدا ہوجائے، پھر آخری درجہ مارے بھی تو ایسا نہ کہ ضربِ شدید ہو۔ حدیث شریف میں ہے: تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے اہل کے لئے تم سب سے اچھا ہوں۔

آپ ﷺ کی عورتوں پر رحمت اس قدر تھی کہ آپ حالتِ نماز میں بچے کی آواز سنتے تو ماں کی شفقت کے خیال سے نماز میں تخفیف فرمادیتے تھے۔ الغرض ہر معاملے میں حسنِ معاشرت سے کام لیتے تھے۔

سخاوت و ایثار: کیا بات ہے آپ ﷺ کی سخاوت کی۔ حدیثِ صحیح میں وارد ہے کہ آپ سے کبھی کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے کبھی ”نہیں“ نہ کہا۔ یعنی آپ کسی کے سوال کو رد نہ فرماتے، اگر موجود ہوتا تو عطا فرماتے اور اگر موجود نہ ہوتا تو قرض لے کر اسے دیتے۔ پس آپ ﷺ سے زیادہ سخی کوئی نہیں تھا۔

شجاعت و قوت اور عزم و استقلال: آپ ﷺ ان اوصاف میں بھی سب پر فائق تھے۔ غزوات میں یہاں بڑے بڑے دلاور و بہادر بھاگ جایا کرتے تھے۔ آپ وہاں ثابت قدم رہتے، ہر جنگ میں آپ کوہِ استقامت بنے رہے۔ جب گھمسان کا معارکہ ہوتا صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم آپ کی آڑ میں پناہ لیتے اور جو بہادر ہوتا وہ آپ کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتا تھا۔ آپ کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی۔ خندق کی کھدائی کے دوران جب سخت زمین ظاہر ہوئی سب عاجز آگئے تو آقا ﷺ نے وہاں ایسا کدال مارا کہ سخت زمین پاش پاش ہوگئی۔ اس کے علاوہ آپ نے ایسے پہلوانوں کو پچھاڑا جو بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔

پس آپ کے اوصاف تو شمار نہیں کئے جاسکتے، آپ ہر وصف میں بےمثال تھے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے آپ کے اوصاف کو یوں بیان فرمایا ہے:

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے