ہمارے پیارے
آقا کریم ﷺ بے مثل و بے مثال تھے۔آپ ظاہری و باطنی تمام اوصاف میں کامل تھے۔ربِّ کریم
نے قرآن ِکریم میں آپ کے اوصاف کا ذکر جا بجا فرمایا ہے،یہاں تک کہ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہافرماتی ہیں:كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ یعنی نبی اکرم
ﷺکا خُلق قرآن تھا۔(دلائل النبوۃ للبیہقی، 1/309)
چند اوصاف کا ذکر
درج ذیل ہے:
(1)اخلاقِ کریمہ:ارشادِ
ربانی ہے:وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)(القلم:4)ترجمہ
کنز العرفان:اور بے شک یقیناً تم عظیم اخلاق پر ہو۔
(2)معراج:سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا (بنی اسرائیل:1) ترجمہ کنز العرفان:
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجدِ حرام سے مسجد ِاقصیٰ
تک سیر کروائی۔
(3)تمام خوبیوں کے جامع:اِنَّاۤ
اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (الکوثر:
1) ترجمہ کنز العرفان:اے محبوب! بےشک
ہم نے تمہیں بےشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔
(4)شرحِ صدر:اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ
صَدْرَكَۙ(۱)(الم
نشرح:1) ترجمہ کنز العرفان:کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کشادہ نہ کر دیا۔
(5)نرم دلی:لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا
عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128)ترجمہ کنز العرفان:بے شک
تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت
بھاری گزرتا ہے،وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت
فرمانے والے ہیں۔
(7-6) جمالِ مصطفٰے اور گیسو مبارک:وَ الضُّحٰىۙ(۱) وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰىۙ(۲)(الضحیٰ:1-2)ترجمہ
کنز العرفان: چڑھتے دن کے وقت کی قسم۔ اور رات کی جب وہ ڈھانپ دے۔
بعض مفسرین
فرماتے ہیں:ضحیٰ سے جمالِ مصطفٰے کےنور کی طرف اشارہ ہے اور لیل سے مراد حضور ﷺ کے
عنبرین گیسو مبارک کی طرف اشارہ ہے۔( تفسیر صرا ط الجنان،10 /722)
(8)رحمۃاللعٰلمین:وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (الانبیاء:107)ترجمہ
کنز العرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے
لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا۔
(9)علمِ غیب ہونا:عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا
یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶)(الجن:26-27)ترجمہ کنز العرفان: غیب کا
جاننے والااپنے غیب پر کسی کو اطلاع نہیں دیتاسوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
(10)خاتم النبیین ہونا:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ
اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ
كَانَ اللہ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (الاحزاب:40) ترجمہ کنز العرفان:محمد
تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر
میں تشریف لانے والے ہیں۔
میرے نبی کے
اوصاف تو اتنے ہیں کہ ہزاروں کاتبوں کی زندگیاں ختم ہو جائیں، ہزاروں قلموں کی
سیاہی ختم ہو جائے،لیکن تب بھی میرے آقا کریم ﷺ کے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ
ہو۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے توبالآخر یہ فرما دیا کہ
لیکن
رضانے ختمِ سخن اس پہ کر دیا خالق
کابندہ خلق کاآقاکہوں تجھے
10 اوصاف سرکار از بنتِ محمد جاوید،فیضان عبد
الرزاق نورانی بستی حیدر آباد
ہمارے پیارے
نبی،حضرت محمد مصطفٰے ﷺ کو اللہ پاک نے صرف بے مثال حسن و جمال سے ہی نہیں نوازا
تھا،بلکہ پُر اثر خصوصیات و اوصافِ مبارکہ بھی آپ کے وجودِ مبارک کو چار چاند
لگاتے تھے۔ آپ ﷺ کا ہر طریقہ کار، عمل و کردار مسلمان کے لئے عملی نمونے کی کل
ضابطہ حیات ہے۔چنانچہ اللہ پاک نے سورۃ النسآء کی آیت نمبر 59 میں ایمان والوں کے
لیے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمہ
کنز الایمان:اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
رسولِ اکرم ﷺ کے اوصافِ کریمہ: حضور اکرم ﷺ
کی شخصیت ایک مومن کے لیے عملی روشنی کی صورت میں ایک خزانہ ہیں۔اس لیے آپ ﷺ کے 10
اوصافِ کریمہ درجہ ذیل ہیں۔جن کا مطالعہ کرکے ہم اپنے کردار و شخصیت کو بہتر بنا
سکتی ہیں:
1- اخلاقِ مبارک:آقا ﷺ
کا اخلاقِ مبارک اس جگنوں کی طرح روشن ہے جس کا دشمن بھی اقرار کرتے تھے۔کیونکہ آپ
اخلاق کے اعلیٰ پیمانے پر فائز ہیں۔چنانچہ آپ کے اخلاقِ حسنہ کا ذکر خود قرآنِ
مجید میں خداوند قدوس نے ان سنہرے حروف میں بیان کیا ہیں: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ( پ
29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: یعنی اے حبیب ! بلاشبہ آپ اخلاق کے بڑے درجہ پر
ہیں۔
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے اخلاقِ مبارکہ کے بارے میں یوں
ارشاد فرماتی ہے:کان خلقہ القرآن یعنی تعلیمات قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ ﷺ کے اخلاق تھے۔( دلائل النبوۃ
للبیہقی، 1/309)
2 -حیا:آپ ﷺ
بڑے حیا دار اور بُرائیوں سے پاک تھے۔آپ نے اپنی زندگی میں کبھی فحش چیزوں کے بارے
میں کلام فرمایا نہ ان کی طرف رجوع کیا۔چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے: اِنَّ
ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘- (پ22،
الاحزاب:53) ترجمہ: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے
تھے۔
3- غریب لوگوں کی دعوت
قبول کرنا: حضرتِ
بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور اکرم ﷺ غلاموں کی دعوت کو قبول
فرماتے، جوکی روٹی اور پُرانی چربی کھانے کی دعوت دی جاتی تو آپ ﷺ اس کو قبول فرماتے
تھے۔ مسکینوں کی بیمار پُرسی فرماتے،فقرا کے ساتھ ہم نشینی فرماتے اور اپنے صحابہ
رضی اللہ عنہم کے درمیان مل جل کر نشست فرماتے۔ ( شفا شریف، 1 / 77)
4-قناعت و سادگی: اللہ
پاک نے حضور ﷺ سے فرمایا تھا کہ اے نبی! اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کو شاہانہ زندگی عطا
کردیں، لیکن حضور نے اپنے امتیوں کی خاطر اپنی زندگی مبارک قناعت و سادگی میں
گزارنا پسند کی۔
5-عدل:
قریشِ مکہ کا ہر فرد چاہے وہ سردار ہو یا غلام یہ ماننے پر
مجبور تھا کہ آپ جیسا عدل و انصاف کرنے والا کوئی نہیں۔ وہ آپ کو صادق و امین کے
القابات سے پکارا کرتے۔ چنانچہ ایک روایت ہے کہ قبیلہ قریش کے خاندانِ بنی مخدوم
کی ایک عورت نے چوری کی تو انہوں نے حضور اکرم ﷺ کے پاس سفارش کی درخواست حضرت
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں کی۔ آپ یہ سن کر جلال میں آ گئے اور فرمانے
لگے: اے اسامہ!تو اللہ کی مقرر کی ہوئی سزاؤں میں سے ایک سزا کے بارے میں سفارش
کرتا ہے۔ ( بخاری، 2 / 1003)
6-ذکرِ الٰہی میں
مشغول:حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ ہر وقت ہر گھڑی ہر لحاظ سے ذکرِ الٰہی
میں مصروف رہتے تھے۔ ( سیرتِ مصطفٰے، ص 598)
7-نمازِ تہجد کی
ادائیگی:آپ
ﷺ نے اپنا وقت عبادت کے لیے تقسیم کرلیا تھا۔ جس میں آپ پنج وقت نمازوں کے ساتھ
ساتھ نوافل کی ادائیگی فرماتے اور نماز تہجد بھی پابندی سے ادا فرمایا کرتے۔
8-عمامہ شریف:آپ ﷺ
ٹوپی پر عمامہ شریف باندھتے اور فرمایا کرتے کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان عماموں
میں یہی فرق ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں۔ (ابوداؤد، 4/ 209 )
9-عفو و درگزر: آپ ﷺ
کو دشمنِ اسلام نے بہت اذیتوں سے دوچار کیا۔لیکن آپ نے ہمیشہ عفوو درگزر سے کام
لیا اور انہیں معاف فرماتے رہے۔ روایت ہے کہ جنگِ اُحد میں عتبہ بن ابی وقاص نے آپ
کے دندانِ مبارک شہید کردیے تھے اور عبد اللہ بن قمیۂ نے چہرۂ انوار کو زخمی اور
خون آلود کردیا مگر آپ نے ان لوگوں کے لیے اس کے سوا کچھ نہ فرمایا کہ اے خدا !
میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ مجھے ابھی جانتے نہیں ہیں۔(حقوق ِمصطفٰے، 1 /
105)
اللہ پاک نے آپ ﷺکو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا۔بے شمار
فضیلتوں اور خوبیوں سے سنوارا۔دل و شکل و صورت،جسم و جاں،ظاہر و باطن کو بُری صفات
اور بُری عادتوں سے پاک و صاف اور نیک خصلتوں اور اخلاق حسنہ سے سرفراز فرمایا۔ گویا
آپ تمام اوصاف کو گھیرے ہوئے ہیں۔آپ تمام کمال والی خصلتوں کے جامع ہیں۔آپﷺ اعلیٰ
درجوں اور آخری حدوں کو پہنچے ہوئے ہیں۔
تیرے تو وَصف عیبِ تناہی سے
ہیں بَری حیراں
ہُوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
قرآنِ کریم میں نبیِ کریم ﷺکے بہت سے اوصاف مبارکہ اللہ
پاک نے بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:
1-رسول کا حکم ماننا ایسا ہی ہے جیسے اللہ کا حکم ماننا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،
النسآء: 80) ترجمہ:جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔
تفسیر:سرورِ کائنات ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا:جس نے میری اطاعت
کی اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی۔
2-ہمارے آقا ﷺ تمام جہان کےلئے رحمت ہیں: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ
17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔
تفسیر:اے حبیب ﷺہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر
بھیجا ہے۔
3-ہمارے آقا ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ
اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21،
الاحزاب:21) ترجمہ:بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے۔
تفسیر: سیّد المرسلین ﷺ کی سیرت میں پیروی کیلئے بہترین طریقہ
موجود ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور پیروی کی جائے۔
4-ہمارے آقا ﷺسراج ِمنیر اور داعی ہیں: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ
بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22،
الاحزاب:46) ترجمہ:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔
تفسیر: اور اللہ نے آپ ﷺکو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔
5:ہمارے آقا ﷺ شاہد یعنی (حاضر و ناظر)اور مبشر و نذیر ہیں: یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ21،الاحزاب:45) ترجمہ:اے غیب
کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور
ڈر سناتا۔
تفسیر: اللہ پاک نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔شاہد کا ایک
معنی ہےحاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی گواہ بھی ہے۔
6-ہمارے آقا ﷺاللہ کے رسول ہیں: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ
اللّٰهِؕ- (پ26،الفتح:29) ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں۔
تفسیر: اس آیت میں اللہ اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفٰے ﷺاللہ کے رسول ہیں۔
7-ہمارے
آقا ﷺ خاتم النبیین ہیں: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ:ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں میں پچھلے۔
تفسیر: محمد مصطفٰے ﷺ مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن
جیسے جسمانی باپ ہوتا ہے ایسے ہی روحانی باپ بھی ہوتا ہے تو فرمادیا کہ اگرچہ یہ مَردوں
میں سے کسی کے جسمانی باپ نہیں ہیں لیکن روحانی باپ ہیں۔
8-ہمارے آقا ﷺ کا نام احمد ہے: اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ- ( پ28،الصف:06) ترجمہ:ان کا نام احمد ہے۔
تفسیر: ان کا نام احمد ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:پھر جب وہ
احمد کفارکے پاس روشن نشانیاں اور معجزات لے کر تشریف لائے توانہوں نے کہا: یہ
کھلا جادوہے۔
9-باغ کا عطا کیا جانا: تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا
مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)
(پ16، مریم:63) ترجمہ:یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے
اسے کریں گے جو پرہیزگار ہے۔
تفسیر: یہاں پرہیزگار سے مراد نبیِ کریم ﷺہیں۔
10-ہمارے آقاﷺ گواہ ہیں: وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ
عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-
(پ2،البقرۃ:143) ترجمہ:اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔
عام مشاہدہ ہے کہ کسی فرد میں کوئی وصف پایا جاتا ہو تو
اس کا ذکر کبھی اس کی ماں کرتی نظر آتی ہے تو کبھی کوئی اور عزیز۔ مگر جب بات آتی
ہے اُس ہستی کے اوصاف کی جو وجہِ تخلیق کائنات ہیں، ان کے اوصاف خود ان کا مالک و
مولیٰ قرآنِ پاک میں بیان فرماتا ہے۔
آپ وہ نورِ حق ہیں کہ قرآن میں وصفِ رُخ آپ کا وَالضُّحٰی ہوگیا
(قبالۂ بخشش)
1-جہانوں کے لئے رحمت:ارشاد
ہوتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ
17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ یہ آیتِ
مبارکہ تاجدارِ رسالت ﷺ کی عظمت و شان پر بہت بڑی دلیل ہے۔(تفسیر صراط الجنان،6/388)
2-رسول اللہﷺ: مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- (پ26،الفتح:29) ترجمہ:محمد
اللہ کے رسول ہیں۔ اس آیت میں اللہ پاک اپنے حبیب ﷺکی پہچان کروارہا ہے کہ محمد
مصطفٰےﷺ اللہ پاک کے رسول ہیں۔اللہ پاک نے انہیں یہاں رسالت کے وصف سے یاد فرمایا۔(تفسیر
صراط الجنان،9/ (385
3- گواہ بنا کر
بھیجا: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا (پ21،الاحزاب:45)
ترجمہ:اے غیب کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر۔آیت کے
اس حصے میں نبیِ کریم ﷺکا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ
کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا
اور ایک معنی ہے گواہ۔(تفسیر صراط الجنان،8/(56
4-بشیر ونذیر: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًا(۵۶) (پ18،الفرقان: 56) ترجمہ: اور
ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔یعنی اے حبیب ! ہم
نے آپ کو ایمان و طاعت پر جنت کی خوشخبری دینے والا اورکفرو معصیت پر جہنم کے عذاب
کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔(تفسیر خازن، الفرقان: 3 /377)
5- احمدمجتبیٰ: اسْمُهٗۤ
اَحْمَدُؕ- ( پ28،الصف:06) ترجمہ:ان کا نام احمد ہے۔ حضورِ ﷺکا نام
آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی مشہور ہو چکا تھا۔کیونکہ بنی اسرائیل کو باقاعدہ بتا
دیا گیا تھا۔(تفسیر صراط الجنان، جلد 10)
6- نگہبان و گواہ:ا وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ
عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-
(پ2،البقرۃ:143) ترجمہ:اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔علامہ اسماعیل حقی رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں:حضور پُر نورﷺ کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین
کی حقیقت پر مطلع ہیں۔ (تفسیرروح البیان،1/248)
7-مہربانِ امت: لَقَدْ جَآءَكُمْ
رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128)ترجمہ کنز
العرفان:بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت
میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے،وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر
بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ اس
آیت میں آپ ﷺکے اَوصاف اور فضیلت و شرف کا ذکر ہوا۔(تفسیر صراط الجنان،4/271)
8- نوروالے: قَدْ
جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ (پ6،المائدہ:
15) ترجمہ: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آگیا۔اس آیت ِمبارکہ میں نور سے
کیا مراد ہے ؟اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سرکارِ دو
عالم ﷺکی ذات والا صفات ہے۔(تفسیر صراط الجنان، 2 / 409)
9-بہترین نمونہ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب:21) ترجمہ:بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے۔ اس آیت
کا خلاصہ یہ ہے کہ سیّد المرسَلین ﷺ کی سیرت میں پیروی کیلئے بہترین طریقہ موجود ہے۔
( تفسیر صراط الجنان، 7/ 585)
10-جنت کے وارث ہیں: تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ
عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)
(پ16، مریم:63) ترجمہ:یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے
اسے کریں گے جو پرہیزگار ہے۔یعنی ہم اس جنت کا وارث محمد ﷺ کو بناتے ہیں پس ان کی
مرضی جسے چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں منع کریں۔دنیا و آخرت میں وہی سلطان
ہیں۔ انہی کے لیے دنیا ہے اور انہی کے لیے جنت (دونوں کے مالک وہی ہیں۔) (اخبار
الاخیار، ص216 )
نبیِ کریم ﷺ اوّل بھی ہیں،آخر بھی ہیں،ظاہر بھی
ہیں،باطن بھی ہیں اور سب کچھ جانتے ہیں۔میرے آقا، محبوبِ رب ذوالجلال ﷺ کی صفاتِ
مبارکہ درجہ کمال تک پہنچتی ہیں یعنی ہر طرح سے کامل و مکمل ہیں۔اس میں کوئی خامی
ہونا تو دور کی بات ہے،خامی کا تصور تک نہیں ہو سکتا۔ کسی نے کیا خوب فرمایا:
عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں
ذو قِ جنوں عشق والے ہیں
جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں
آقا ﷺ کی شان بہت ہی بلند ہے۔ اللہ پاک نے اپنے قرآن
میں آقا ﷺ کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:
1-آپ کے زمانے کی قسم یاد فرمائی:وَ الْعَصْرِۙ(۱) ( العصر: 1)ترجمہ:اس زمانہ
محبوب کی قسم۔
تفسیر:زمانہ سے مخصوص زمانہ نبی ﷺ کا مراد ہے
جو بڑی خیروبرکت کا زمانہ اور تمام زمانوں میں سب سے زیادہ فضیلت و شرف والا ہے۔
اس میں شانِ محبوبیت کا اظہار ہے۔( تفسیر خزائن العرفان، ص1119)
2-آپ کو خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ21،الاحزاب:45) ترجمہ:اے غیب
کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور
ڈر سناتا۔
تفسیر: اے حبیب
ﷺ !بے شک ہم نے آپ کو اپنی امت کے اعمال اور احوال کا مشاہدہ فرمانے والا بنا کر
بھیجا تا کہ آپ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں اور دنیا میں ایمان والوں اور اطاعت
گزاروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں، نافرمانوں کو جہنم کے عذاب کا ڈر
سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔(تفسیرصراط الجنان،9/ 345)
3- بہت سی بھلائیاں عطا کی گئیں: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ
الْكَوْثَرَؕ(۱) (الکوثر: 1)ترجمہ: اور اے
محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔
تفسیر: یعنی آپ ﷺ کو نسبِ عالی،حوض ِکوثر،کثرت ِاُمّت،اعدائے
دین پر غلبہ بھی،کثرتِ فتوح بھی اور بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا فرمائی گئیں
جن کی نہایت نہیں۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص 1122)
4- آپ کو نور سے تشبیہ دی گئی: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ
اللّٰهِ نُوْرٌ (پ6،المائدہ: 15) ترجمہ: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے
نور آگیا۔
تفسیر: سید عالم ﷺ کو نور فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی کفر
دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی۔ (خزائن العرفان، ص 213)کسی نے کیا خوب فرمایا:
نبی نوں رب نور کیا تے کوئی نئی حضور جیا
6-آپ کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا گیا: قُلْ اِنْ
كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ( اٰل عمرٰن:31 ) ترجمہ: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو
اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔
تفسیر: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی محبت کا دعویٰ جب
ہی سچا ہو سکتا ہے، جب آدمی سید عالم ﷺ کا متبع ہو اور حضور کی اطاعت اختیار کرے۔ (تفسیر
خزائن العرفان، ص 110)
7-آپ خاتم النبیین ہیں: قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ
اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا (الاعراف:
158) ترجمہ: تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں۔
تفسیر: یہ آیت سید عالم ﷺ کے عموم رسالت کی دلیل ہے کہ آپ تمام
خلق کے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی امت۔ (خزائن العرفان،ص 322)
بعد آپ کے ہر گز نہ آئے گا نبی
نیا واللہ!
ایمان ہے میرا، اے آخری نبی
8- آپ گواہ ہیں: وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ- (پ2،البقرۃ:143) ترجمہ:اور یہ
رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔
تفسیر: حضور ﷺ کی گواہی ہی ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور
اس کے دین کی حقیقت، اعمال پر مطلع ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان، 1 / 225)
9- آپ سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے: وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا
مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔
تفسیر: آقا ﷺ نبیوں، رسولوں اور فرشتوں کے لیے رحمت ہیں۔ دین و
دنیا میں رحمت ہیں۔ جنات اور انسان کے لیے رحمت ہیں۔ الغرض عالم میں جتنی چیزیں
داخل ہیں آقا ﷺ ان سب کے لیے رحمت ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان، 6/ 386)
10-اللہ پاک سے ملاقات کا شرف آپ
کو حالتِ بیداری میں حاصل ہوا: سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا
مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا
حَوْلَهٗ ( بنی
اسرائیل: 1) ترجمہ: پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام سے
مسجدِ اقصیٰ تک جس کے گرد ہم نے برکت رکھی۔
تفسیر:اس سے مراد معجزہ معراج ہے۔یہ حضور ﷺ کا ایسا کمالِ
قربِ ظاہر ہے جو اور کسی کو میسر نہیں۔ ( تفسیرصراط الجنان، 5 /416)
درس: اگر ہم اپنی ساری زندگی بھی آقا ﷺ کے اوصافِ کریمہ بیان
کرنے پر لگا دیں تب بھی ہم آقا کے اوصاف بیان نہیں کر پائیں گی۔ یہ تو صرف چند
اوصافِ کریمہ قرآن پاک سے بیان کیے گیے ہیں۔ اس کے برعکس قرآنِ کریم میں اور بہت
سے اوصاف ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کا عشق ہماری نسلوں میں اجاگر ہو
جائے اوربچہ بچہ بول اٹھے:
ہمارے پیارے آقا،مدینے والے مصطفٰے ﷺ پر اللہ پاک کا
فضلِ عظیم جلوہ گر رہا۔ مولائے کریم نے بے شمارنعمتوں سے آپ کو نوازا۔ بے شمار
فضائل و محاسن سے آپ کو سنوارا۔ جسم و جاں، ظاہر و باطن کو رذائل اور خصائلِ قبیحہ
مذمومہ سے پاک صاف کیا۔ یہی ایک ذات جامع البرکات ہے جسے اپنا محبوب خاص فرمایا۔
اوصافِ مصطفٰے:
1- آپ جنت کے وارث ہیں: تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ
عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳)
(پ16، مریم:63) ترجمہ:یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے
اسے کریں گے جو پرہیزگار ہے۔ یعنی ہم اس جنت کا وارث محمد ﷺ کو بناتے ہیں پس ان کی
مرضی جسے چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں منع کریں۔دنیا و آخرت میں وہی سلطان
ہیں۔انہی کے لیے دنیا ہے اور انہی کے لیے جنت۔ (دونوں کے مالک وہی ہیں) (اخبار
الاخیار، ص216 )
2- آپ اللہ کے رسول ہیں: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- (پ26،الفتح:29) ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اس آیتِ
مبارکہ میں اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفٰے ﷺ اللہ پاک کے
رسول ہیں۔ (تفسیرصراط الجنان،9/385)
3-آپ خاتم النبیین ہیں: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ:ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں میں پچھلے۔ محمد مصطفٰے ﷺ آخری نبی ہیں کہ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے
گا اور نبوت آپ پر ختم ہو گئی ہے۔ (تفسیرصراط الجنان، 8/47)
4-آپ سراج منیر اور داعی ہیں: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ
بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22،
الاحزاب:46) ترجمہ:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔اس
آیتِ مبارکہ میں حضور ﷺ کے اس وصف کو بیان فرمایا گیا کہ ہزاروں آفتابوں سے زیادہ
روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی اور کفرو شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نورِ
حقیقت افروز سے دور کر دیا۔ (تفسیرصراط الجنان، 8 /59)
5-آپ گواہ ہیں: وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ- (پ2،البقرۃ:143) ترجمہ:اور یہ
رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ
کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین کی حقیقت پر مطلع ہیں آپ
لوگوں کے ایمان کی حقیقت، اعمال،نیکیاں وغیرہ کو نورِ حق سے جانتے ہیں۔ (تفسیرصراط
الجنان، 1/225)
6-آپ شاہد یعنی حاضر وناظر اور مبشرو نذیر ہیں: یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ21،الاحزاب:45) ترجمہ:اے غیب
کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور
ڈر سناتا۔آیت کے اس حصے میں نبیِ کریم ﷺ کا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک
نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا۔ شاہد کا ایک معنیٰ حاضرو ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے
والا اور ایک گواہ ہے۔ (تفسیرصراط الجنان، 8/56)
7-آپ کی زندگی بہترین نمونہ ہے: لَقَدْ كَانَ
لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21،
الاحزاب:21) ترجمہ:بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے۔ اس آیتِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ سید المرسلین ﷺ کی
سیرت میں پیروی کے لیے بہترین طریقہ موجود ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور
پیروی کی جائے۔(تفسیرصراط الجنان، 7/585)
8-آپ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ
17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔تاجدارِ
رسالت ﷺ نبیوں،رسولوں اور فرشتوں علیہم الصلوۃ و السّلام کے لیے رحمت ہیں۔ دین و
دنیا میں رحمت ہیں۔جنات اور انسانوں کے لیے رحمت ہیں۔الغرض عالَم میں جتنی چیزیں
داخل ہیں سید المرسلین ﷺ ان سب کے لیے رحمت ہیں۔(تفسیرصراط الجنان،6/ 386)
9-ان کا نام ہر جگہ نامِ الٰہی کے برابر ہے: وَ مَا
نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ-(پ10،التوبہ:74) ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں کیا بُرا لگا یہی نہ کہ
اللہ اور رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیا۔ اس آیت میں غنی کی نسبت اللہ پاک
اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔حضور ﷺ کے مدینہ
منورہ میں آنے سے پہلے منافقین تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے۔آپ مدینہ منورہ آئے
تو ان کے صدقے غنیمت میں مال و دولت پاکر یہ منافق خوشحال ہو گئے۔ (تفسیرصراط
الجنان، 4/185)
10-آپ کا نام احمد ہے: اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ- (
پ28،الصف:06) ترجمہ:ان کا نام احمد ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں بتایا گیا کہ آپ ﷺ کا
نام مبارک آپ کی تشریف آوری سے قبل ہی مشہور ہو گیا۔(تفسیرصراط الجنان،
جلد10)الغرض قرآنِ کریم آپ کی مدح و ستائش کا دفتر ہے۔آپ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن،شَفِیْعُ الْمُذْنَبِیْن،
سُرُوْرُالْقَلْبِ الْمَحْزُوْن ہیں۔ایمان آپ کی محبت و عظمت
کا نام ہے اور مسلمان وہ جس کا کام ہے نامِ خدا کے ساتھ ان کے نام پر تمام۔
ترے
تو وَصف عیبِ تناہی سے ہیں بَری حیراں
ہُوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
یوں تو اللہ پاک کے تمام انبیا عظیم ترین اور انسانوں میں
ہیروں جیسی ہستیاں ہیں،لیکن سرورِ انبیا ﷺ کی شان نرالی ہے کہ خود خالقِ کائنات نے
حضورﷺ کے اوصاف ذکر فرمائے،ان میں سے چند نہایت اختصار کے ساتھ پیشِ خدمت ہیں:
1)حضور خاتمُ النبیین
ہیں: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ
اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-
(الااحزاب:40) ترجمہ:محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں،لیکن
اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔
تفسیر:آپ پر نبوت ختم ہو گئی ہے اور اس کے بعد کسی کو نبوت نہیں
مل سکتی۔ (صراط الجنان،8/47) 2)حضور دونوں
جہان کیلئے رحمت بنائے گئے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور
ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔
تفسیر:عالمین
پر آپ کی رحمت کبھی منقطع نہ ہوگی۔ دنیا میں کبھی آپ کا دین منسوخ نہ ہوگا اور
آخرت میں ساری مخلوق حتی کہ انبیا بھی آپ کی شفاعت کے محتاج ہوں گے۔(روح البیان،5/528)
3)مقامِ محمود سے سرفراز ہوں گے: عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ
رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) (بنی
اسرائیل:79) ترجمہ:قريب ہے کہ آپ کا رب آپ
کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں۔
تفسیر: مقامِ محمود،مقامِ شفاعت ہے۔(صراط الجنان،5/498)اس وقت اولین و آخرین میں
حضورﷺ کی حمد کا غلغلہ پڑ جائے گا۔ہر شخص حضورﷺ کی افضلیتِ کُبریٰ
وسیادت ِعظمیٰ پر ایمان لائے گا۔ (فتاویٰ رضویہ، 30 /170-171)
4)حضور کا دین کامل فرما دیا گیا: اَلْیَوْمَ
اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ (المائدۃ:3) ترجمہ:آج میں نے تمہارے لئے
تمہارا دین کامل کردیا۔
تفسیر: یعنی یہ دین قیامت تک باقی رہے گا۔(تفسیر خازن، 1/464)اسی آیت کے متعلق یہودی نے
بارگاہِ فاروقی میں عرض کی:اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے
کے دن عید مناتے۔(بخاری، 1/28،حدیث:45)
5) آپ کی بارگاہ میں حاضری بخشش کا سبب
ہے: وَ لَوْ
اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ
اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (النساء:64) ترجمہ:وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں پھر تیرے
پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ
قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
تفسیر:فرمانِ اعلیٰ حضرت:اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے،اس کا
علم،سمع(سننا)،شُہود(دیکھنا) سب جگہ ایک سا ہے،مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف
توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔(صراط الجنان، 2/262)
6)آپ کی رضا کو اللہ نے اپنی رضا قرار دیا: وَ لَسَوْفَ
یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) (الضحىٰ:5) ترجمہ: بیشک قریب ہے کہ تمہارا
رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔
تفسیر:وہ اس حبیب ﷺ کو راضی کرنے کے لئے عطا عام کرتا ہے۔(
خزائن العرفان،ص1109)
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالَم خدا چاہتا ہے رضائے
محمد
7) آپ نے حالتِ بیداری میں اللہ پاک سے
ملاقات کا شرف پایا: سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ
( بنی
اسرائیل: 1) ترجمہ: پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام سے
مسجدِ اقصیٰ تک جس کے گرد ہم نے برکت رکھی۔
تفسیر:
اس سے مراد معجزۂ معراج ہے۔ یہ حضور ﷺ کا ایسا کمالِ قربِ ظاہر ہے جو اور کسی کو میسر
نہیں۔ (صراط الجنان،5/314)
8) آپ کے وسیلے سے حضرت آدم کی توبہ قبول
ہوئی: فَتَلَقّٰۤى
اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ
الرَّحِیْمُ(۳۷) (البقرۃ:37) ترجمہ: پھر سیکھ لیے
آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی۔
تفسیر:اللہ نے فرمایا:تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں
تمہیں معاف کردوں گا۔(صراط الجنان، 1/118)
9)ربِ کائنات آپ پر درود بھیجتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ
وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ (الاحزاب:56) ترجمہ: بیشک اللہ اور اس کے
فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں
تفسیر: یہاں اللہ کے درود سے مراد ایسی رحمت فرمانا ہے جو تعظیم
کے ساتھ ملی ہوئی ہو۔ (صاوی، 5/ 1654)
10) آپ کو خیر کثیر عطا فرمائی گئی: اِنَّاۤ
اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (الکوثر: 1) ترجمہ
کنز العرفان:اے محبوب! بےشک
ہم نے تمہیں بےشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔
تفسیر: یعنی
آپ ﷺ کو نسبِ عالی،حوضِ کوثر،کثرتِ امت و فتوحات،غلبہ وغیرہ اور وہ فضیلتیں عطا کیں
جن کی انتہا نہیں۔(خازن،4/413-414)یہ انتہائی مختصر کچھ اوصافِ حمیدہ ذکر کئے۔اللہ
کریم ان کی برکتوں سے مالامال فرمائے۔ آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ
کتنے ہی پیغمبر
اللہ پاک کا پیغام لے کر اس کائناتِ ارضی پر تشریف لائے۔ کسی کا کوئی وصف ہے تو
کسی کا کوئی کمال۔کوئی حسن میں کمال،کوئی آواز میں، کوئی کلام میں، کوئی رفتار میں
باکمال،کوئی شجاعت میں، کوئی عدل میں باکمال ہے۔لیکن ہمارے نبی اکرم ﷺ تمام اوصاف
کے جامع ہیں۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے اوصاف اعلیٰ سے اعلیٰ ہیں۔حضور کی توصیف میں
قرآنِ پاک میں کئی آیاتِ مبارکہ نازل ہوئیں۔ ان میں سے ایک آیت مبارکہ پیش کرنے کی
سعی کرتی ہوں:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ
17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔یہ
نبی اکرم ﷺ کا ایک پیارا اور خوبصورت وصف ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو رحمت کے ساتھ
مزین فرمایا۔ آپ سراپا رحمت ہیں۔ آپ ﷺ تمام مخلوق پر رحمت فرماتے ہیں اور جس نے آپ
کی رحمت عامہ سے حصہ پایا وہی درحقیقت دین ودنیا میں ہر بُرائی سے نجات یافتہ اور
دونوں جہان میں بامراد ہے۔
آیت ِمبارکہ
کے ساتھ ساتھ کئی واقعات میں بھی آپ کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔چنانچہ روایت ہے کہ
ایک شخص حضور اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی:یارسول اللہ!میں نے
اپنی بیٹی کا نکاح کردیا ہے اور میں اسے خاوند کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں اورمیرے
پاس کوئی خوشبو نہیں۔ آپ کچھ عنایت فرمادے۔سرکار نے فرمایا: میرے پاس موجود نہیں
مگر کل صبح ایک چوڑے منہ والی شیشی اورکسی درخت کی لکڑی میرے پاس لے آنا۔ دوسرے
روز وہ شخص شیشی اور لکڑی لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ آپ نے اپنے دونوں بازوؤں سے اس
میں اپنا پسینہ مبارک ڈالنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ بھر گئی۔پھر فرمایا: اسے لے کر
جا !اپنی بیٹی سے کہہ دینا کہ اس لکڑی کو تر کر کے مل لیا کرے۔ پس جب وہ پسینہ
مبارک کو لگایا کرتی تو تمام اہلِ مدینہ کو اس کی خوشبوں پہنچتی یہاں تک کہ اس گھر
کا نامبیتُ المطیبین(خوشبوں والا گھر)ہوگیا۔ اللہ
اکبر!میرے نبی کے پسینے کی کیا بات ہے!
واللہ
جو مل جائے مرے گُل کا پسینہ مانگے
نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پھول
اگر عام انسان
کو دیکھا جائے تو اس کے پسینہ سے بو آتی ہے اور وہ اس بدبو کو دور کرنے کے لئے طرح
طرح کی خوشبو استعمال کرتا ہے۔ لیکن ہمارے پیارے آقا ﷺ کا جسم ِاقدس معطر معطر تھا
اور مہکتا ہی رہتا تھا۔
اگر نبیِ اکرم
ﷺ کے اوصاف پر بات کی جائے تو اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں ہم شمار نہیں کرسکتیں۔آپ کی
پیدائش سے لے کر بلکہ اس سے پہلے بھی آپ کے اوصاف بیان کئے جارہے ہیں اور اب بھی
ہورہے ہیں اور قیامت تک بیان ہوتے رہیں گے۔اتنے علمائے کرام،سلف صالحین اور شاعر
بھی بیان کر رہے ہیں لیکن ان کی زندگیاں ختم ہوگئیں مگر آپ کے اوصاف کو شمار نہیں
کرسکے۔ اگر دنیا کے تمام سمندروں کو سیاہی اور درختوں کو قلم بنالیں اور ا سے
اوصافِ سرکار کو شمار کرنے میں لگا دیا جائے تو وہ سب کے سب ختم ہوجائیں لیکن نبی
اکرم ﷺ کے اوصاف شمار نہ ہوسکیں گے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا!
اوصاف تو سب
نے پائے ہیں پر حُسنِ سراپا کوئی نہیں
آدم سے جنابِ عیسیٰ تک سرکار کے جیسا کوئی نہیں
حضور خاتمُ
النبیین، رحمۃ للعالمین ﷺ کے مبارک اوصاف کا شمار انسانی طاقت سے وراء ہے۔ آپ تمام
کمالاتِ انبیا کے جامع ہیں اور آپ کے اوصاف و کمالات تمام انبیائے کرام علیہم
السلام سے زیادہ ہیں۔نیز آپ کے اوصافِ حمیدہ ختم ہونے کے عیب سے بھی پاک ہیں۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں:
تیرے
تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری حیراں
ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
یہاں ذیل میں
دس اوصافِ سرکار درج کیے جاتے ہیں:
1۔ آپ تمام
مخلوق کیلئے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی اُمت ہے۔(صراط الجنان)
2۔ وَ لٰكِنْ
رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ:ہاں
اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔
3۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5، النسآء: 80) ترجمہ:جس نے
رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔
4۔ آپ ﷺ امت
کو کتاب یعنی قرآنِ پاک اور حکمت یعنی سنت،احکامِ شریعت اور اسرار وغیرہ سکھاتے
ہیں۔(صراط الجنان)
5۔ آپ ﷺ لوگوں کے نفوس کا تزکیہ فرماکر انہیں
گناہوں کی آلودگیوں،شہوات و خواہشات کی آلائشوں اور ارواح کی کدورتوں سے پاک و صاف
کرکے آئینہ دل کو تجلیات و انوارِ الہٰیہ دیکھنے کے قابل بناتے ہیں تاکہ اسرارِ الٰہی
اور انوارِ باری ان میں جلوہ گر ہوسکیں۔ (صراط الجنان)
6۔ فَبِمَا
رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ- (ال عمرٰن: 159) ترجمہ کنز
الایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے۔
7۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ
مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128)ترجمہ
کنز العرفان:بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا
مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے،وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں
پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔
8۔آپ ﷺ امت کی
بھلائی اور ان کی خیر خواہی پر حریص ہیں۔ (صراط الجنان)
9۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب:21) ترجمہ:بیشک تمہیں رسولُ الله
کی پیروی بہتر ہے۔
10۔آپ ﷺ کے
فیصلہ فرمادینے کے بعد کسی مسلمان مرد و عورت کو اپنے معاملے کا کوئی اختیار نہیں
رہتا۔ نیز آپ ﷺ کا حکم نہ ماننے والا گمراہ ہے۔
آپ ﷺ کے
اوصافِ حمیدہ کے بارے میں یقیناً یہ کہا جاسکتا ہے کہ
اُسے
ایک اللہ نے ایک بنایا وہ
ہر وصف میں لَاشَرِیْکَ لَہٗ ہے
نیز آپ ﷺ کے
مبارک اوصاف کے بارے میں ایک شاعر نے بہت خوب کہا ہے کہ
اللہ
کریم فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ وَ
مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)(پ22،الاحزاب:56)ترجمہ
کنز الایمان: بےشک اللہ اور
اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود
اور خوب سلام بھیجو۔
تفسیر روح البیان میں ہے کہ اس آیتِ مبارکہ کے نازل ہونے
کے بعد محبوبِ کریم ﷺ کا چہرۂ انور خوشی سے نور کی کرنیں لٹانے لگا اور فرمایا: مجھے
مبارکباد پیش کرو کیونکہ مجھے وہ آیتِ مبارکہ عطا کی گئی ہے جو مجھے دنیا و مافیہا
(یعنی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس )سے زیادہ محبوب ہے۔آج ہم بھی ان ہی نبیِ کریم
ﷺ کے اوصاف جاننے کی سعادت حاصل کریں گی۔
1-ایک
حدیثِ پاک میں”توریت شریف“سے مالک و مختار نبی ﷺ کے یہ اصاف یعنی خوبیاں منقول ہیں:
میرے بندے احمد مختار ﷺ اُن کی پیدائش کی جگہ مکہ مکرمہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ
ہے۔ اُن کی امت ہر حال میں اللہ پاک کی کثیر حمد( یعنی بہت تعریف) کرنے والی ہے۔ قیامت
کے دن مرتبۂ شفاعتِ کُبریٰ سرورِ کائنات ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب تک حضور
شفاعت کا دروازہ نہ کھولیں گے کسی کی مجالِ شفاعت نہ ہوگی بلکہ حقیقتاً جتنے شفاعت
کرنے والے ہیں حضور کے دربار میں شفاعت لائیں گے۔ شفاعتِ کُبریٰ مومن، کافر،
فرمانبردار،گنہگار سب کے لیے ہےکہ وہ قیامت کاحساب شروع ہونے کا انتظار جو سخت جان
لیوا ہوگا اُس کے لیے لوگ تمنائیں کریں گے کہ کاش! جہنم میں پھینک دیئے جاتے اور
اس انتظار سے نجات پاتے۔ اس مصیبت سے چھٹکارا کفار کو بھی حضور کے صدقے سے ملے گا
جس پر پہلے اور بعد میں آنے والے موافقین و مخالفین مؤمنین و کافرین سب حضور کی
تعریف کریں گے اسی کا نام مقام ِمحمود ہے۔
2-آپ کے اوصاف
میں ایک وصف یہ بھی ہے:آپ کا نام محمد اللہ پاک کے اسمِ مبارک محمود سے نکلا ہے۔
آپ کی شان ہے کہ آپ کے (ستر) نام مبارک وہ ہیں جو اللہ پاک کے ہیں۔ پہلے کی جو
آسمانی کتابوں میں احمد نام ذکر ہے وہ آپ ہیں۔آپ کا لعابِ دہن کھا رے پانی کو میٹھا
بنا دیتا ہے اور شیرِ خوار بچوں کے لیے دودھ کا کام دیتا ہے۔ بیماروں کو شفا دیتا
ہے اور زہر کا اثر زائل کر دیتا ہے۔
3-آپ ایسے بشر
ہیں جن کا سایہ نہ تھا کیونکہ آپ نور ہیں اور نور کا سایہ نہیں ہوتا ہے۔
4-اللہ پاک نے
آپ کو اپنی شریعت کا مختارِ کُل بنا دیا ہے۔آپ جس کے لیے جو چاہیں حلال فرما دیں
اور جس کے لیےجو چاہیں حرام فرما دیں۔
5-رسول اللہ ﷺ
اپنے رب کی عطا سے مالکِ جنت ہیں۔ جنت عطا فرمانے والے ہیں۔ جسے چاہیں عطا فرمائیں۔
بخاری شریف نمبر71 میں فرمانِ مصطفٰے ﷺ ہے: انما
انا قاسم واللّٰه معطی یعنی الله عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔
رب ہے
معطی یہ ہیں قاسم
رزق اُس کا ہےکھلاتے یہ ہیں
اس کی
بخشش ان کا صدقہ دیتا وہ
ہےدلاتے یہ ہیں
6-اللہ پاک کی
عطا سے مالک و مختار،اللہ کے کرم سے غیبوں پر خبر دار نبی ﷺ نے سورج کو حکم دیا کہ
کچھ دیر رک جائے وہ فوراً ٹھہر گیا۔
7-جب دودھ
پیتے تھے جھولے میں چاند ان کی غلامی کرتا تھایعنی بات مانتا تھا۔ جدھر اشارہ فرماتے
اسی طرف جھک جاتا تھا۔
چاند
اشارے کا ہلا حکم کا باندھا سورج واہ
کیا بات شہا تیری توانائی کی
اللہ کی عطا
سے آپ ﷺ چاند کے ٹکڑے کر دیں۔ آپ چاہیں تو ڈوبا سورج پلٹادیں۔آپ تو پانی میں پتھر
تیرا دیں۔ آپ چاہیں تو لکڑیاں بلب کی طرح روشی دینے لگیں۔ آپ چاہیں تو انگلیوں سے
پانی کے چشمے بہا دیں۔ آپ چاہیں تو درختوں اور پتھروں سے کلام کریں۔ آپ چاہیں تو
درخت آپ کی بارگاہ میں حاضری دیں۔آپ چاہیں تو تھوڑا سا دودھ بہتّر (72)آدمیوں کو کافی ہو جائے۔ آپ چاہیں تو
تھوڑا کھانا کثیر جماعت کو کافی ہو جائے۔ آ پ چاہیں تو جانور انسانی بولی بولنے لگیں۔
الغرض اللہ کی عطا سے آپ کے پاس سب اختیارات موجود ہیں۔
سب سے
اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی سب
سے بالا و والا ہمارا نبی
(اسلامی
بیانات،جلد7)
10 اوصاف ِسرکار از بنتِ عنایت علی،فیضانِ
خدیجۃ الکبریٰ پی آئی کالونی کراچی
الله پاک نے
پوری کائنات کو تخلیق فرما کر اپنے لئے تمام انبیائے کرام میں سے ہمارے آقا،محمدِ
مصطفٰے ﷺ کا انتخاب فرما کر سب سے اعلیٰ مقام و اوصاف عطا فر مائے۔
خاتمُ
النبیین کے 10 اوصاف:حضور اکرم ﷺ کے ان گنت(Uncountable)اوصاف
میں سے چند درج ذیل ہیں:
1-
بے
شمار خوبیاں:اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّاۤ
اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (پ 30،الکوثر:1) ترجمہ کنز العرفان: اے
محبوب ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فر مائیں۔اس کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال
کا خلاصہ ہے کہ اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں تمام مخلوق پر افضل کیا۔آپ کو حسنِ
ظاہری عطا کیا اور حسنِ باطنی بھی،عالی نسب بھی،نبوت بھی،کتاب بھی،حکمت بھی،شفاعت بھی،حوضِ
کوثربھی الغرض بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا کیں جس کی انتہا نہیں۔(تفسیر خازن،4/414-413 ملتقطاً)
2-
اخلاقِ کریمہ:الله
پاک اپنے محبوب کے اخلاقِ مبارکہ کو قرآنِ مجید میں کچھ اس طرح بیان فرماتا ہے:وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ
29، القلم: 4) ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔حضور اکرم
ﷺ علم اور عمل دونوں اعتبار سے اعلیٰ اور کامل ہیں۔
ترے خُلق
کو حق نے عظیم کہا تری خِلق کو
حق نے جمیل کیا
کوئی
تجھ سا ہو ا ہے نہ ہوگا شہا تیرے
خالقِ حُسن و ادا کی قسم
3- جود و کرم اور سخاوت: حضرت جابر
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے جب کبھی
کوئی سوال کرتا تو آپ ”لا“ یعنی ”نہیں“ کبھی نہ فرماتے تھے۔ ( بخاری،1/32-31) اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
مانگیں
گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے سرکار
میں نہ ”لا“ ہے نہ حاجت ”اگر“ کی ہے
4-شجاعت و بہادری:حضور اکرم ﷺ کی شجاعت و بہادری اس مرتبہ
تک تھی کہ کوئی اس سے ناواقف نہ تھا یعنی مشہور تھی۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺسے بڑھ کر کسی کو بہادر، صاحب ِحوصلہ،سخی اور ہر
معاملے میں خوش نہ دیکھا۔ (مقدمہ دارمی،1 / 30)
5۔فصاحت
و بلاغت:آپ
ﷺ کو فصاحت و بلاغت میں بھی اعلیٰ مقام حاصل تھا کہ بڑے بڑے فُصَحَا و بُلَغَا بھی آپ کے
کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے۔رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں عربوں میں سب سے زیادہ
فصیح ہوں،جامع کلمات دے کر بھیجا گیاہوں۔ (مشکوۃ، ص512)
تیرے
آگے یوں ہیں دبے لچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی
جانے منہ میں زبان نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
6۔
دیدارِ الٰہی:حدیثِ
مبارکہ میں ہے:ترجمہ:اور اللہ پاک قریب ہوا،پھر اور قریب ہوا،یہاں تک کہ آپ اللہ
سے دو کمانوں کی مقدار بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے۔(بخاری،1/581،حدیث:7517)
آپ ﷺ معراج کی
رات جو دیدارِ الٰہی سے فیضیاب ہوئے،اس میں راجح مذہب کے مطابق دیدارِ الٰہی سر کی
آنکھوں سے ہوا۔
7۔شفاعت:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ یہ فخر نہیں اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جو جنت میں شفاعت کرے گا اور
میرےا متی سب سے زیادہ ہوں گے۔ (مسلم،1 / 188 )
پیشِ حق
مُژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے
8۔حوضِ
کو ثر:حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نےاپنے ربِّ کریم کی عنایتوں کے تذکرے
میں فرمایا:مجھ کو عنایت کردہ کوثر جنت میں ایک نہرہے اور میرے حوض میں بہتی ہے۔(تفسیر
ابنِ جر بر، 30/ 149)
9۔لواء ُالحمد:رسولِ اکرم،نور
مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں ہی قیامت کے دن لواءُ الحمد کا جھنڈا اُٹھانے والا ہوں
جس کے نیچے آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ (ساری مخلوق ) ہوگی۔ فخر نہیں ہے۔ (
مشکوۃ،ص 313 )
جس کے
زیرِ لواء آدم و مَن سَوا اس
سزائے سعادت پہ لاکھوں سلام
10۔خاتم
النبیین: مروی
ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے ہی اس جگہ کو مکمل کیا اور اس محل کی
آخری اینٹ میں ہی ہوں اور خاتم النبیین ہوں۔(مشکوٰۃ،ص511)مختصر یہ کہ حضور اکرم ﷺ کے
اوصافِ مبارکہ کو شمار (Count) کرنا نا ممکن ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا !
زندگیاں
ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہو ا
خاتمُ
النبیین کے 10 اوصاف:حضور اکرم ﷺ کے ان گنت(Uncountable)اوصاف
میں سے چند درج ذیل ہیں:
1-
بے
شمار خوبیاں:اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّاۤ
اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (پ 30،الکوثر:1) ترجمہ کنز العرفان: اے
محبوب ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فر مائیں۔اس کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال
کا خلاصہ ہے کہ اے محبوب!بیشک ہم نے تمہیں تمام مخلوق پر افضل کیا۔آپ کو حسنِ
ظاہری عطا کیا اور حسنِ باطنی بھی،عالی نسب بھی،نبوت بھی،کتاب بھی،حکمت بھی،شفاعت بھی،حوضِ
کوثربھی الغرض بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا کیں جس کی انتہا نہیں۔(تفسیر خازن،4/414-413 ملتقطاً)
2-
اخلاقِ کریمہ:الله
پاک اپنے محبوب کے اخلاقِ مبارکہ کو قرآنِ مجید میں کچھ اس طرح بیان فرماتا ہے:وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ
29، القلم: 4) ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔حضور اکرم
ﷺ علم اور عمل دونوں اعتبار سے اعلیٰ اور کامل ہیں۔
ترے خُلق
کو حق نے عظیم کہا تری خِلق کو
حق نے جمیل کیا
کوئی
تجھ سا ہو ا ہے نہ ہوگا شہا تیرے
خالقِ حُسن و ادا کی قسم
3- جود و کرم اور سخاوت: حضرت جابر
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ سے جب کبھی
کوئی سوال کرتا تو آپ ”لا“ یعنی ”نہیں“ کبھی نہ فرماتے تھے۔ ( بخاری،1/32-31) اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
مانگیں
گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے سرکار
میں نہ ”لا“ ہے نہ حاجت ”اگر“ کی ہے
4-شجاعت و بہادری:حضور اکرم ﷺ کی شجاعت و بہادری اس مرتبہ
تک تھی کہ کوئی اس سے ناواقف نہ تھا یعنی مشہور تھی۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺسے بڑھ کر کسی کو بہادر، صاحب ِحوصلہ،سخی اور ہر
معاملے میں خوش نہ دیکھا۔ (مقدمہ دارمی،1 / 30)
5۔فصاحت
و بلاغت:آپ
ﷺ کو فصاحت و بلاغت میں بھی اعلیٰ مقام حاصل تھا کہ بڑے بڑے فُصَحَا و بُلَغَا بھی آپ کے
کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے۔رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں عربوں میں سب سے زیادہ
فصیح ہوں،جامع کلمات دے کر بھیجا گیاہوں۔ (مشکوۃ، ص512)
تیرے
آگے یوں ہیں دبے لچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی
جانے منہ میں زبان نہیں نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
6۔
دیدارِ الٰہی:حدیثِ
مبارکہ میں ہے:ترجمہ:اور اللہ پاک قریب ہوا،پھر اور قریب ہوا،یہاں تک کہ آپ اللہ
سے دو کمانوں کی مقدار بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے۔(بخاری،1/581،حدیث:7517)
آپ ﷺ معراج کی
رات جو دیدارِ الٰہی سے فیضیاب ہوئے،اس میں راجح مذہب کے مطابق دیدارِ الٰہی سر کی
آنکھوں سے ہوا۔
7۔شفاعت:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ یہ فخر نہیں اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جو جنت میں شفاعت کرے گا اور
میرےا متی سب سے زیادہ ہوں گے۔ (مسلم،1 / 188 )
پیشِ حق
مُژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے
8۔حوضِ
کو ثر:حضرت
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نےاپنے ربِّ کریم کی عنایتوں کے تذکرے
میں فرمایا:مجھ کو عنایت کردہ کوثر جنت میں ایک نہرہے اور میرے حوض میں بہتی ہے۔(تفسیر
ابنِ جر بر، 30/ 149)
9۔لواء ُالحمد:رسولِ اکرم،نور
مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں ہی قیامت کے دن لواءُ الحمد کا جھنڈا اُٹھانے والا ہوں
جس کے نیچے آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ (ساری مخلوق ) ہوگی۔ فخر نہیں ہے۔ (
مشکوۃ،ص 313 )
جس کے
زیرِ لواء آدم و مَن سَوا اس
سزائے سعادت پہ لاکھوں سلام
10۔خاتم
النبیین: مروی
ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے ہی اس جگہ کو مکمل کیا اور اس محل کی
آخری اینٹ میں ہی ہوں اور خاتم النبیین ہوں۔(مشکوٰۃ،ص511)مختصر یہ کہ حضور اکرم ﷺ کے
اوصافِ مبارکہ کو شمار (Count) کرنا نا ممکن ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا !
زندگیاں
ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہو ا
اللہ پاک نے
اپنے پیارے حبیب ﷺ کو ایسے بے شمار اوصاف اور خوبیاں عطا فرمائی ہیں جو کسی اور کے
حصے میں نہیں آئیں۔حقیقتاً ہر کمال،ہر فضل، ہر خوبی میں عموماً اطلاقاً انہیں تمام
انبیا، مرسلین اور اللہ پاک کی تمام مخلوق پر تفصیلِ تام و عام مطلق(یعنی ہرطرح کی
برتری )حاصل ہے کہ جو کسی کو ملا انہیں سے ملا اور جو انہیں ملا وہ کسی کو نہ ملا
اسے تُو
جانے یا خدا جانے پیشِ حق
رتبہ کیا ہے تیرا
تمام انبیا میں
سب سے بڑا مرتبہ اللہ کے آخری نبی ﷺ کا ہے۔ آپ کوجو خوبیان اور اوصاف عطا کیے گئے
ان میں سے چند کا ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں۔
1- اللہ پاک
نے تمام مخلوق سے پہلے اپنے حبیب ﷺ کے نور کو پیدا فرمایا اور پھر اس نور سے دیگر
مخلوق کی تخلیق فرمائی۔
خدا
نے نورِ مولیٰ سے کیا مخلوق کو پیدا سبھی
کون و مکان مشتق ہوئے اس ایک مصدر سے
2- صحاح ِستہ
(یعنی احادیثِ مبارکہ کی 6 اہم کتابوں) میں سے مشہور کتاب ترمذی شریف میں ہے:اللہ
پاک کے پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:میرے دو وزیر جبرئیل اور میکائیل(علیہما
السلام)آسمان میں ہیں اور میرے دو وزیر ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما ) زمین میں
ہیں۔
اس حدیثِ پاک سےمعلوم
ہوا !حضور پُر نور ﷺ زمین و آسمان کی سلطنت کے عظیم الشان بادشاہ ہیں۔ کیونکہ وزیر
بادشاہ ہی کے ہوا کرتے ہیں۔ آپ کی بادشاہت بھی ایسی عظمت و شان والی ہے کہ خود
حضور ارشاد فرماتے ہیں: اعطیت مفاتیح خزائن الارض یعنی مجھے زمینی
خزانوں کی چابیاں عطا کی گئیں۔ (بخاری، حدیث: 1344 )
انہیں
خدا نے کیا اپنے ملک کا مالک انہی
کے قبضے میں رب کے خزانے آئے ہیں
3-حضرت محمد ﷺ کا حسن بے مثال تھا۔خوبصورتی
میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور اخلاق میں سب لوگوں سے بڑھ کر اچھے
اخلاق والےتھے۔حضرت
بی بی اُمِّ معبد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:تاجدارِ رسالت ﷺ دور سے نہایت خوبصورت
اور قریب سے نہایت شیریں یعنی میٹھے میٹھے اور حسین لگتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور سے زیادہ حسین و جمیل کسی کو نہیں دیکھا۔
نامہ
قدرت کا حسن دستکاری واہ واہ
کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ
4- پیارے آقا ﷺ
کا مبارک پسینہ کستوری سے زیادہ خوشبو دار تھا۔
اسی
سے ہوئے عنبر و مشک مشتق ہے
خوشبو کا مصدر پسینہ تمہارا
5- سرکارِ
نامدار ﷺ نور ہیں۔ اس لیے سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں آپ کا سایہ زمین پر
نہیں پڑتا تھا۔
اس قدِ
پاک کا سایہ نظر آتا کیونکر نور
ہی نور ہیں اعضائے رسولِ عربی
6-پارہ 30 سورۂ کوثر کی آیت نمبر 1 میں ارشاد ِباری
ہے: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱)ترجمہ کنز
العرفان: اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔حضرت علامہ
مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تحت
فرماتے ہیں: (اے محبوب!بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں اور فضائلِ
کثیرہ عنایت کرکے تمام خلق(مخلوق)پر(تمہیں) افضل کیا۔حُسنِ ظاہر بھی دیا،حُسنِ
باطن بھی عطا فرمایا۔نسبِ عالی بھی دیا،نبوت کا اعلیٰ مرتبہ بھی،کتاب بھی عطا فرمائی۔
حکمت بھی، سب سے زیادہ علم بھی(دیا اور سب سے پہلے) شفاعت( کرنے کا اختیار )بھی،حوضِ
کوثر( جیسی عظیم نعمت)بھی دی اور مقام ِمحمود بھی۔کثرت ِاُمّت بھی( آپ کا حصہ ہے
اور) اعدائے دین(دشمنانِ اسلام) پر غلبہ بھی (آپ کو عطا کیا )کثرتِ فتوح(کثرت کے ساتھ فتوحات)بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں(آپ
کو ہی عطا فرمائیں)جن کی نہایت(انتہا) نہیں۔
صلوا
على الحبیب! صلی
اللہ علی محمد
یقیناً ہمارے آقا ومولیٰ ﷺ کی شان تو بے مثال
ہے۔ یقیناً جس ذاتِ بابرکت پر الله پاک کا فضلِ عظیم ہو اس کی فضیلت کو کون شمار
کر سکتا ہے! اللہ پاک ہمیں اپنا اور آقا کریم ﷺ کا حقیقی فرمانبردار بنائے اور ایسے
کام کرنے کی توفیق عطا فر مائے جو دنیا اور آخرت میں نجات کا باعث ہوں۔آمین