10 اوصاف سرکار از بنتِ محمد جاوید،فیضان عبد
الرزاق نورانی بستی حیدر آباد
ہمارے پیارے
نبی،حضرت محمد مصطفٰے ﷺ کو اللہ پاک نے صرف بے مثال حسن و جمال سے ہی نہیں نوازا
تھا،بلکہ پُر اثر خصوصیات و اوصافِ مبارکہ بھی آپ کے وجودِ مبارک کو چار چاند
لگاتے تھے۔ آپ ﷺ کا ہر طریقہ کار، عمل و کردار مسلمان کے لئے عملی نمونے کی کل
ضابطہ حیات ہے۔چنانچہ اللہ پاک نے سورۃ النسآء کی آیت نمبر 59 میں ایمان والوں کے
لیے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمہ
کنز الایمان:اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
رسولِ اکرم ﷺ کے اوصافِ کریمہ: حضور اکرم ﷺ
کی شخصیت ایک مومن کے لیے عملی روشنی کی صورت میں ایک خزانہ ہیں۔اس لیے آپ ﷺ کے 10
اوصافِ کریمہ درجہ ذیل ہیں۔جن کا مطالعہ کرکے ہم اپنے کردار و شخصیت کو بہتر بنا
سکتی ہیں:
1- اخلاقِ مبارک:آقا ﷺ
کا اخلاقِ مبارک اس جگنوں کی طرح روشن ہے جس کا دشمن بھی اقرار کرتے تھے۔کیونکہ آپ
اخلاق کے اعلیٰ پیمانے پر فائز ہیں۔چنانچہ آپ کے اخلاقِ حسنہ کا ذکر خود قرآنِ
مجید میں خداوند قدوس نے ان سنہرے حروف میں بیان کیا ہیں: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ( پ
29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: یعنی اے حبیب ! بلاشبہ آپ اخلاق کے بڑے درجہ پر
ہیں۔
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے اخلاقِ مبارکہ کے بارے میں یوں
ارشاد فرماتی ہے:کان خلقہ القرآن یعنی تعلیمات قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ ﷺ کے اخلاق تھے۔( دلائل النبوۃ
للبیہقی، 1/309)
2 -حیا:آپ ﷺ
بڑے حیا دار اور بُرائیوں سے پاک تھے۔آپ نے اپنی زندگی میں کبھی فحش چیزوں کے بارے
میں کلام فرمایا نہ ان کی طرف رجوع کیا۔چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے: اِنَّ
ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘- (پ22،
الاحزاب:53) ترجمہ: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے
تھے۔
3- غریب لوگوں کی دعوت
قبول کرنا: حضرتِ
بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور اکرم ﷺ غلاموں کی دعوت کو قبول
فرماتے، جوکی روٹی اور پُرانی چربی کھانے کی دعوت دی جاتی تو آپ ﷺ اس کو قبول فرماتے
تھے۔ مسکینوں کی بیمار پُرسی فرماتے،فقرا کے ساتھ ہم نشینی فرماتے اور اپنے صحابہ
رضی اللہ عنہم کے درمیان مل جل کر نشست فرماتے۔ ( شفا شریف، 1 / 77)
4-قناعت و سادگی: اللہ
پاک نے حضور ﷺ سے فرمایا تھا کہ اے نبی! اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کو شاہانہ زندگی عطا
کردیں، لیکن حضور نے اپنے امتیوں کی خاطر اپنی زندگی مبارک قناعت و سادگی میں
گزارنا پسند کی۔
5-عدل:
قریشِ مکہ کا ہر فرد چاہے وہ سردار ہو یا غلام یہ ماننے پر
مجبور تھا کہ آپ جیسا عدل و انصاف کرنے والا کوئی نہیں۔ وہ آپ کو صادق و امین کے
القابات سے پکارا کرتے۔ چنانچہ ایک روایت ہے کہ قبیلہ قریش کے خاندانِ بنی مخدوم
کی ایک عورت نے چوری کی تو انہوں نے حضور اکرم ﷺ کے پاس سفارش کی درخواست حضرت
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں کی۔ آپ یہ سن کر جلال میں آ گئے اور فرمانے
لگے: اے اسامہ!تو اللہ کی مقرر کی ہوئی سزاؤں میں سے ایک سزا کے بارے میں سفارش
کرتا ہے۔ ( بخاری، 2 / 1003)
6-ذکرِ الٰہی میں
مشغول:حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ ہر وقت ہر گھڑی ہر لحاظ سے ذکرِ الٰہی
میں مصروف رہتے تھے۔ ( سیرتِ مصطفٰے، ص 598)
7-نمازِ تہجد کی
ادائیگی:آپ
ﷺ نے اپنا وقت عبادت کے لیے تقسیم کرلیا تھا۔ جس میں آپ پنج وقت نمازوں کے ساتھ
ساتھ نوافل کی ادائیگی فرماتے اور نماز تہجد بھی پابندی سے ادا فرمایا کرتے۔
8-عمامہ شریف:آپ ﷺ
ٹوپی پر عمامہ شریف باندھتے اور فرمایا کرتے کہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان عماموں
میں یہی فرق ہے کہ ہم ٹوپیوں پر عمامہ باندھتے ہیں۔ (ابوداؤد، 4/ 209 )
9-عفو و درگزر: آپ ﷺ
کو دشمنِ اسلام نے بہت اذیتوں سے دوچار کیا۔لیکن آپ نے ہمیشہ عفوو درگزر سے کام
لیا اور انہیں معاف فرماتے رہے۔ روایت ہے کہ جنگِ اُحد میں عتبہ بن ابی وقاص نے آپ
کے دندانِ مبارک شہید کردیے تھے اور عبد اللہ بن قمیۂ نے چہرۂ انوار کو زخمی اور
خون آلود کردیا مگر آپ نے ان لوگوں کے لیے اس کے سوا کچھ نہ فرمایا کہ اے خدا !
میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ مجھے ابھی جانتے نہیں ہیں۔(حقوق ِمصطفٰے، 1 /
105)