اللہ
کریم فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ وَ
مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)(پ22،الاحزاب:56)ترجمہ
کنز الایمان: بےشک اللہ اور
اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود
اور خوب سلام بھیجو۔
تفسیر روح البیان میں ہے کہ اس آیتِ مبارکہ کے نازل ہونے
کے بعد محبوبِ کریم ﷺ کا چہرۂ انور خوشی سے نور کی کرنیں لٹانے لگا اور فرمایا: مجھے
مبارکباد پیش کرو کیونکہ مجھے وہ آیتِ مبارکہ عطا کی گئی ہے جو مجھے دنیا و مافیہا
(یعنی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس )سے زیادہ محبوب ہے۔آج ہم بھی ان ہی نبیِ کریم
ﷺ کے اوصاف جاننے کی سعادت حاصل کریں گی۔
1-ایک
حدیثِ پاک میں”توریت شریف“سے مالک و مختار نبی ﷺ کے یہ اصاف یعنی خوبیاں منقول ہیں:
میرے بندے احمد مختار ﷺ اُن کی پیدائش کی جگہ مکہ مکرمہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ
ہے۔ اُن کی امت ہر حال میں اللہ پاک کی کثیر حمد( یعنی بہت تعریف) کرنے والی ہے۔ قیامت
کے دن مرتبۂ شفاعتِ کُبریٰ سرورِ کائنات ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے کہ جب تک حضور
شفاعت کا دروازہ نہ کھولیں گے کسی کی مجالِ شفاعت نہ ہوگی بلکہ حقیقتاً جتنے شفاعت
کرنے والے ہیں حضور کے دربار میں شفاعت لائیں گے۔ شفاعتِ کُبریٰ مومن، کافر،
فرمانبردار،گنہگار سب کے لیے ہےکہ وہ قیامت کاحساب شروع ہونے کا انتظار جو سخت جان
لیوا ہوگا اُس کے لیے لوگ تمنائیں کریں گے کہ کاش! جہنم میں پھینک دیئے جاتے اور
اس انتظار سے نجات پاتے۔ اس مصیبت سے چھٹکارا کفار کو بھی حضور کے صدقے سے ملے گا
جس پر پہلے اور بعد میں آنے والے موافقین و مخالفین مؤمنین و کافرین سب حضور کی
تعریف کریں گے اسی کا نام مقام ِمحمود ہے۔
2-آپ کے اوصاف
میں ایک وصف یہ بھی ہے:آپ کا نام محمد اللہ پاک کے اسمِ مبارک محمود سے نکلا ہے۔
آپ کی شان ہے کہ آپ کے (ستر) نام مبارک وہ ہیں جو اللہ پاک کے ہیں۔ پہلے کی جو
آسمانی کتابوں میں احمد نام ذکر ہے وہ آپ ہیں۔آپ کا لعابِ دہن کھا رے پانی کو میٹھا
بنا دیتا ہے اور شیرِ خوار بچوں کے لیے دودھ کا کام دیتا ہے۔ بیماروں کو شفا دیتا
ہے اور زہر کا اثر زائل کر دیتا ہے۔
3-آپ ایسے بشر
ہیں جن کا سایہ نہ تھا کیونکہ آپ نور ہیں اور نور کا سایہ نہیں ہوتا ہے۔
4-اللہ پاک نے
آپ کو اپنی شریعت کا مختارِ کُل بنا دیا ہے۔آپ جس کے لیے جو چاہیں حلال فرما دیں
اور جس کے لیےجو چاہیں حرام فرما دیں۔
5-رسول اللہ ﷺ
اپنے رب کی عطا سے مالکِ جنت ہیں۔ جنت عطا فرمانے والے ہیں۔ جسے چاہیں عطا فرمائیں۔
بخاری شریف نمبر71 میں فرمانِ مصطفٰے ﷺ ہے: انما
انا قاسم واللّٰه معطی یعنی الله عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔
رب ہے
معطی یہ ہیں قاسم
رزق اُس کا ہےکھلاتے یہ ہیں
اس کی
بخشش ان کا صدقہ دیتا وہ
ہےدلاتے یہ ہیں
6-اللہ پاک کی
عطا سے مالک و مختار،اللہ کے کرم سے غیبوں پر خبر دار نبی ﷺ نے سورج کو حکم دیا کہ
کچھ دیر رک جائے وہ فوراً ٹھہر گیا۔
7-جب دودھ
پیتے تھے جھولے میں چاند ان کی غلامی کرتا تھایعنی بات مانتا تھا۔ جدھر اشارہ فرماتے
اسی طرف جھک جاتا تھا۔
چاند
اشارے کا ہلا حکم کا باندھا سورج واہ
کیا بات شہا تیری توانائی کی
اللہ کی عطا
سے آپ ﷺ چاند کے ٹکڑے کر دیں۔ آپ چاہیں تو ڈوبا سورج پلٹادیں۔آپ تو پانی میں پتھر
تیرا دیں۔ آپ چاہیں تو لکڑیاں بلب کی طرح روشی دینے لگیں۔ آپ چاہیں تو انگلیوں سے
پانی کے چشمے بہا دیں۔ آپ چاہیں تو درختوں اور پتھروں سے کلام کریں۔ آپ چاہیں تو
درخت آپ کی بارگاہ میں حاضری دیں۔آپ چاہیں تو تھوڑا سا دودھ بہتّر (72)آدمیوں کو کافی ہو جائے۔ آپ چاہیں تو
تھوڑا کھانا کثیر جماعت کو کافی ہو جائے۔ آ پ چاہیں تو جانور انسانی بولی بولنے لگیں۔
الغرض اللہ کی عطا سے آپ کے پاس سب اختیارات موجود ہیں۔
سب سے
اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی سب
سے بالا و والا ہمارا نبی
(اسلامی
بیانات،جلد7)