ہمارے پیارے آقا،مدینے والے مصطفٰے ﷺ پر اللہ پاک کا فضلِ عظیم جلوہ گر رہا۔ مولائے کریم نے بے شمارنعمتوں سے آپ کو نوازا۔ بے شمار فضائل و محاسن سے آپ کو سنوارا۔ جسم و جاں، ظاہر و باطن کو رذائل اور خصائلِ قبیحہ مذمومہ سے پاک صاف کیا۔ یہی ایک ذات جامع البرکات ہے جسے اپنا محبوب خاص فرمایا۔

اوصافِ مصطفٰے:

1- آپ جنت کے وارث ہیں: تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا(۶۳) (پ16، مریم:63) ترجمہ:یہ وہ باغ ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اسے کریں گے جو پرہیزگار ہے۔ یعنی ہم اس جنت کا وارث محمد ﷺ کو بناتے ہیں پس ان کی مرضی جسے چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں منع کریں۔دنیا و آخرت میں وہی سلطان ہیں۔انہی کے لیے دنیا ہے اور انہی کے لیے جنت۔ (دونوں کے مالک وہی ہیں) (اخبار الاخیار، ص216 )

2- آپ اللہ کے رسول ہیں: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- (پ26،الفتح:29) ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفٰے ﷺ اللہ پاک کے رسول ہیں۔ (تفسیرصراط الجنان،9/385)

3-آپ خاتم النبیین ہیں: وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ:ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔ محمد مصطفٰے ﷺ آخری نبی ہیں کہ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نبوت آپ پر ختم ہو گئی ہے۔ (تفسیرصراط الجنان، 8/47)

4-آپ سراج منیر اور داعی ہیں: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22، الاحزاب:46) ترجمہ:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔اس آیتِ مبارکہ میں حضور ﷺ کے اس وصف کو بیان فرمایا گیا کہ ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی اور کفرو شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نورِ حقیقت افروز سے دور کر دیا۔ (تفسیرصراط الجنان، 8 /59)

5-آپ گواہ ہیں: وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ- (پ2،البقرۃ:143) ترجمہ:اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین کی حقیقت پر مطلع ہیں آپ لوگوں کے ایمان کی حقیقت، اعمال،نیکیاں وغیرہ کو نورِ حق سے جانتے ہیں۔ (تفسیرصراط الجنان، 1/225)

6-آپ شاہد یعنی حاضر وناظر اور مبشرو نذیر ہیں: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ21،الاحزاب:45) ترجمہ:اے غیب کی خبریں بتانے والے(نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔آیت کے اس حصے میں نبیِ کریم ﷺ کا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا۔ شاہد کا ایک معنیٰ حاضرو ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک گواہ ہے۔ (تفسیرصراط الجنان، 8/56)

7-آپ کی زندگی بہترین نمونہ ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب:21) ترجمہ:بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے۔ اس آیتِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ سید المرسلین ﷺ کی سیرت میں پیروی کے لیے بہترین طریقہ موجود ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور پیروی کی جائے۔(تفسیرصراط الجنان، 7/585)

8-آپ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔تاجدارِ رسالت ﷺ نبیوں،رسولوں اور فرشتوں علیہم الصلوۃ و السّلام کے لیے رحمت ہیں۔ دین و دنیا میں رحمت ہیں۔جنات اور انسانوں کے لیے رحمت ہیں۔الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں سید المرسلین ﷺ ان سب کے لیے رحمت ہیں۔(تفسیرصراط الجنان،6/ 386)

9-ان کا نام ہر جگہ نامِ الٰہی کے برابر ہے: وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ-(پ10،التوبہ:74) ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں کیا بُرا لگا یہی نہ کہ اللہ اور رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیا۔ اس آیت میں غنی کی نسبت اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔حضور ﷺ کے مدینہ منورہ میں آنے سے پہلے منافقین تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے۔آپ مدینہ منورہ آئے تو ان کے صدقے غنیمت میں مال و دولت پاکر یہ منافق خوشحال ہو گئے۔ (تفسیرصراط الجنان، 4/185)

10-آپ کا نام احمد ہے: اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ- ( پ28،الصف:06) ترجمہ:ان کا نام احمد ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں بتایا گیا کہ آپ ﷺ کا نام مبارک آپ کی تشریف آوری سے قبل ہی مشہور ہو گیا۔(تفسیرصراط الجنان، جلد10)الغرض قرآنِ کریم آپ کی مدح و ستائش کا دفتر ہے۔آپ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن،شَفِیْعُ الْمُذْنَبِیْن، سُرُوْرُالْقَلْبِ الْمَحْزُوْن ہیں۔ایمان آپ کی محبت و عظمت کا نام ہے اور مسلمان وہ جس کا کام ہے نامِ خدا کے ساتھ ان کے نام پر تمام۔

ترے تو وَصف عیبِ تناہی سے ہیں بَری حیراں ہُوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے