ترے
تو وصف عیب تنہاہی سے ہیں بری حیراں
ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
نبیِ مکرم،
شفعِ امت، ہمارے پیارے پیارے آقا ﷺْ کی مبارک زندگی اعلانِ نبوت سے پہلے بھی اور
بعد میں بھی ایسی باکردار اور اعلیٰ تھی کہ قدم قدم پر آپ کے اوصاف نظر آتے ہیں۔
ان میں سے صرف 10 کا تذکرہ مختصراً درج ذیل ہے:
(1) نبیِ امی: سرورِ کائنات ﷺ
کی ایک صفت امی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضور لکھتے
اور کتاب سے کچھ نہ پڑھتے تھے اور یہ آپ کی فضیلت تھی کہ علم انتہائی یاد ہونے کی
وجہ سے اس کی حاجت نہ تھی۔ حضور کا کتابت نہ فرمانا اور پھر بھی کتابت کا ماہر
ہونا ایک عظیم معجزہ سے۔ (تفسیر صراط الجنان)
(2)
تاجدارِ رسالت ﷺ کی عظمت و شان: کفار جب انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی
بارگاہ میں سخت کلامی اور بیہودہ گوئی کرتے تو وہ مقدس حضرات اپنے عظیم حلم اور
فضل کے لائق جواب دیتے، لیکن حضور ﷺ کی خدمتِ والا میں کفار نے جو زبان درازی کی
اس کا جواب ربّ تعالیٰ نے خود دیا ہے اور محبوبِ اکرم ﷺ کی طرف سے خود دفاع فرمایا
ہے۔ اور اللہ پاک کا جواب دینا حضورِ انور ﷺ کے خود جواب دینے سے بدرجہا آپ کے لئے
بہتر ہے اور یہ وہ مرتبۂ عظمیٰ ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)
(3)
سیدالمرسلین ﷺ کی مبارک عقل: حضرت وہب بن منبہ رحمۃُ اللہِ علیہ جو
کہ تابعی بزرگ ہیں، فرماتے ہیں: میں نے متقدمین کی 71 کتابوں میں لکھا دیکھا ہے کہ
روزِ اول سے قیامت قائم ہونے تک تمام جہان کے لوگوں کو جتنی عقل عطا کی گئی ہے وہ
سب مل کر حضرت محمد ﷺ کی عقل کےآگے ایسی ہے جیسے دنیا کے تمام ریگستان کے سامنے
ریت کا ایک دانہ (ذرہ)۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:
کوئی
کیا جانے کہ کیا ہو عقلِ
عالم سے ورا ہو
(تفسیر
صراط الجنان)
(4)علمِ
مصطفےٰ:
اللہ پاک نے حضورِ اکرم ﷺ کی مدح و ثناء اور وفورِ علم کے بارے میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ کنز العرفان: اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر
اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔
تفسیر خزائن
العرفان میں ہے: پروردگارِ عالم نے یہ جہاں آپ کو اور صفات عطا فرمائیں وہاں علمِ
غیب بھی عطا فرمایا۔ اس آیت میں یہ ذکر نہیں کہ فلاں کا علم دیا فلاں کا نہ دیا،
بلکہ فرمایا: عَلَّمَكَ مَا
لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ (پ 5، النساء:
113) بلکہ وہ سکھایا جو آپ نہ جانتے تھے۔ معلوم ہوا کہ ذرہ ذرہ کا علم آپ کو مرحمت
ہوا۔
(5)
حضور نبیِ کریم ﷺ کا عفو درگزر: غورث بن حارث نے آپ ﷺ کو شہید کرنے کی
کوشش کی تو آپ نے اس پر غالب آجانے کے باوجود اسے معاف فرمادیا۔
کفارِ مکہ نے وہ کونسا ایسا ظالمانہ برتاؤ تھا جو آپ ﷺ کے ساتھ نہ کیا ہو، لیکن
فتحِ مکہ کے دن یہ سب جبارانِ قریش خوف اور دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر
سے ان کے جسم لرزاں تھے تو رسولِ رحمت ﷺ نے ان مجرموں کو یہ فرما کر چھوڑ دیا کہ
جاؤ آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں، تم سب آزاد ہو۔ (تفسیر صراط الجنان)
(6)
خلقِ عظیم: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29،القلم:4)ترجمہ
کنز العرفان:اور بے شک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔
حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے
اعمال کے کمالات پورے کرنے کے لیے مجھ کو بھیجا۔
ایک صحابی رضی اللہُ عنہ نے
ام المومنین بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہُ
عنہا سے پوچھا: اے
اُمُّ المؤمنین!، مجھے رسول اللہ ﷺ کے اَخلاق کے بارے میں بتائیے۔حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: ’’کیا
تم قرآن نہیں پڑھتے ؟میں نے عرض کی: کیوں نہیں ! تو آپ نے ارشاد فرمایا: رسول اللہ
ﷺ کا خُلْق قرآن ہی تو ہے۔ (تفسیر صراط الجنان)
(7)
حضورِ اقدس ﷺ کی طاقت: لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا
الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ
اللّٰهِؕ- (پ
28، الحشر: 21) ترجمہ کنز العرفان: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تم
اسے جھکا ہوا، اللہ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے
تمام مخلوق سے زیادہ اپنے حبیب ﷺ کو طاقت اور قوت عطا فرمائی ہے۔ (تفسیر صراط
الجنان)
(8)
بارگاہِ رب قدیر میں مقامِ حبیب: اللہ پاک نے قرآن پاک میں اپنے حبیب ﷺ
کے شہر کی قسم، ان کی باتوں کی قسم، ان کے زمانے کی قسم اور ان کی جان کی قسم بیان
فرمائی۔ یہ وہ مقام ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں آپ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں۔
(تفسیر صراط الجنان)
(9)
جوامع الکلم: مسلمانوں
کے دوسرے خلیفہ، حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ! آپ ہم سب سے
زیادہ فصیح ہیں، جبکہ آپ کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے، پھر اس میں کیا راز ہے؟ تو
شہد سے میٹھا بولنے والے پیارے مصطفےٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت اسماعیل علیہ السّلام
کی لغت یعنی زبان مٹ چکی تھی، حضرت جبرئیل اسے میرے پاس لائے، میں نے اسے یاد
کرلیا۔ مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا۔
جوامع الکلم وہ احادیثِ نبویہ ہیں جن کے الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں۔ (الوفاء
لابن جوزی، ص54)
(10)
سب سے آخری نبی: حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہُ
عنہ فرماتے ہیں (معراج کی رات ) رسول اللہ ﷺ نے آسمانوں پر انبیائے کرام علیہمُ
السّلام سے ملاقات فرمائی تو سب نے اللہ پاک کی حمد بیان کی اور آخر میں سب سے
آخری نبی محمدِ عربی ﷺ نے فرمایا: آپ سب اللہ پاک کی تعریف بیان کرچکے، اب میں
بیان کرتا ہوں: سب تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں جس نے مجھے سارے جہان کے لئے رحمت
بنا کر بھیجا اور سب لوگوں کے لئے خوشخبری اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا اور مجھ
پر قرآن کریم نازل فرمایا، جس میں ہر شے کا روشن بیان ہے اور میری امت کو بہتر امت
بنایا، ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں اور انہی کو اول اور انہی کو آخر
رکھا اور میرے واسطے میرا ذکر بلند فرمایا اور مجھ سے نبوت کی ابتدا فرمائی اور
مجھ پر ہی نبوت کو ختم فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تمام انبیائے کرام علیہمُ
السّلام سے فرمایا: ان باتوں کی وجہ سے محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تم
سب سے افضل ہیں۔ (تفسیرِ طبری، 8/9-11)