اللہ پاک نے دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کو جو اوصاف و فضائل الگ الگ عطا فرمائے وہ تمام شرف و فضیلت والے اوصاف اپنے محبوب کی ذاتِ گرامی میں جمع فرما دیے۔نبیِ کریم ﷺ کے اوصاف بے شمار ہیں۔ جن کا احاطہ قلم میں لانا ممکن نہیں۔ جن کے اوصاف کا تذکرہ قرآنِ پاک میں بھی موجود ہے۔ جن کے اوصاف کا تذکرہ خود خالقِ کا ئنات کر رہا ہو تو پھر مخلوقِ خدا کیسے ان تمام اوصاف کو بیان کر سکتی ہے! جو وجہِ تخلیقِ کائنات ہیں اور جب سے یہ دنیا وجود میں آئی تب سے محبوبِ خدا کے اوصاف بیان کیے جارہے ہیں۔ ان کے اوصاف کا شمار ناممکن ہے۔ لیکن قرآنِ پاک میں ذکر کیے جانے والے اوصاف میں سے دس اوصاف درج ذیل ہیں:

1-اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ-وَّ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ(۱۱۹) (البقرۃ: 119) ترجمہ کنز الایمان:بے شک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور تم سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہوگا۔ اللہ پاک نے حضور ﷺ کو حق کے ساتھ ایمان داروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو اللہ پاک کے عذاب سے ڈرانے والا بنا کربھیجا۔

2-لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲)(البلد: 1-2)ترجمہ کنز الایمان:مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔ ”سورہ بلد کی دوسری آیت میں گویا کہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب ﷺ مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔

3-وَ الضُّحٰىۙ(۱) وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰىۙ(۲) (الضحی: 1-2)ترجمہ کنز الایمان:چاشت کی قسم اور رات کی جب پردہ ڈالے۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ چاشت سے جمالِ مصطفٰے کے نور کی طرف اشارہ ہے اور رات سے آپ کے عنبرین گیسو کی طرف اشارہ ہے۔ (روح البیان )

4-وَ الْعَصْرِۙ(۱) (العصر: 1)ترجمہ کنز الایمان:اس زمانہ محبوب کی قسم۔ اس میں نبیِ کریم ﷺکے مقدس زمانے کی قسم ارشاد فرمائی ہے جو بڑا خیر و برکت کا زمانہ ہے۔

5-قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)(المائدۃ:15)ترجمہ کنز الایمان:بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ آپ ﷺ کا ایک وصف یہ بیان کیا کہ آپ نو ر ہیں۔ نور سے مراد قرآنِ پاک ہے جو حضور ﷺکے ذریعے ہمیں ملا۔

6-اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ(۱)ترجمہ کنز العرفان:بیشک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح کا فیصلہ فرما دیا۔ اس میں نبیِ کریم ﷺسے خطاب کیا جا رہا ہے کہ بے شک ہم نے آپ کے لیے ایسی فتح کا فیصلہ فرما دیا ہے جو انتہائی عظیم روشن اور ظاہر ہے جیسے مکہ، خیبر، حنین اور طائف وغیرہ کی فتوحات۔

7-فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪-(پ4،اٰل عمرٰن: 159)ترجمہ کنز الایمان: تو کیسی اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہو جاتے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ ﷺ کی صفات کو پہلی کتابوں میں دیکھا ہے۔آپ نہ تو تنگ مزاج ہیں اور نہ ہی سخت دل، نہ بازاروں میں شور کرنے والے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے ہیں بلکہ معاف کرنے والے اور درگزر فرمانے والے ہیں۔( تفسیر ابنِ کثیر، 2/ 130)

8-خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ(۳) عَلَّمَهُ الْبَیَانَ(۴)(الرحمٰن: 3-4)ترجمہ کنز الایمان:انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا۔ماکان وما یکون کا بیان انہیں سکھایا۔تفسیرِ خازن میں ہے:یہاں انسان سے مراد دو عالم کے سردار،محمد مصطفٰے ﷺ ہیں اور بیان سے ماکان وما یکون یعنی جو کچھ ہوا،آئندہ ہو گا کا بیان مراد ہے۔کیونکہ نبیِ کریم ﷺاولین و آخرین اور قیامت کے دن کی خبر دینے والے ہیں۔

9-وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-(النساء:113) ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے۔یہ آیتِ مبارکہ حضور اقدس ﷺ کی عظیم مدح پر مشتمل ہے۔اللہ پاک نے فرمایا:اے حبیب!اللہ پاک نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو دین کے امور، شریعت کے احکام اور غیب کے وہ علوم عطا فرمائے جو آپ نہ جانتے تھے۔ اللہ پاک کی عطا سے جن کا شمار اللہ پاک ہی جانتا ہے۔

10- وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ(۶)(النمل:6)ترجمہ کنز الایمان:اور بے شک تم قرآن سکھائے جاتے ہو حکمت والے علم والے کی طرف سے۔حضور پر نور ﷺنے اللہ پاک سے قرآن سیکھا ہے اور حضور کی طرح کوئی قرآن نہیں سمجھ سکتا۔ کیونکہ سب لوگ مخلوق سے قرآن سیکھتے ہیں اور حضور ﷺنے خالق سے سیکھا۔