حقیقت یہ ہے
کہ اگر قرآن کو بنظر ِایمان دیکھیں تو اس میں اول تا آخر حضور کے فضائل ہیں۔قرآن
کا ہر موضوع اپنے لانے والے حبیبﷺ کے محامد اور اوصاف کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔
زندگیاں
ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے
اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا
1-قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ
مُّبِیْنٌۙ(۱۵) (پ6،المائدۃ:15) ترجمہ:بے شک اللہ کی طرف سے
تمہارے پاس نور آیا اور روشن کتاب۔ اس آیتِ مبارکہ میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کا ایک وصف بیان ہوا اور وہ ہے نور۔اللہ پاک نے آپ کو نور فرمایا۔نو ر وہ
ہوتا ہے جو خود تو ظاہر ہو اور دوسری کو ظاہر کردے۔دیکھو! آفتاب(سورج) نور ہے کہ
سورج کو دیکھنے کے لیے کسی روشنی کی ضرورت نہیں وہ خود روشن ہے اور جس پر اس نے
خود توجہ کردی وہ بھی چمک گیا۔دنیا میں کوئی اپنے خاندان،پیشہ،سلطنت کی وجہ سے
مشہور ہوتا ہے۔لیکن حضور ﷺ کسی کی وجہ سے نہیں چمکتے، وہ تو خود نور ہیں !ان کو
کون چمکاتا !بلکہ ان کی وجہ سے سب چمک گئے۔
سورج کی روشنی
کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔صبح کو ہلکی،دو پہر کو زیادہ،شام کو پھر کم،رات کو غائب مگر
نورِ محمدی کبھی کم نہیں۔سورج ہر وقت آدھی زمین کو روشن کرتا ہے۔مگر نورِ حبیب ساری
زمین بلکہ فرش و عرش کو، سورج بدن کے ظاہر کو چمکاتا ہے اور نور ِرسول دل و دماغ
کو خیال کو غرضیکہ سب کو ہی چمکاتا ہے۔( شانِ حبیب الرحمن،ص79تا81)
2- وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17،
الانبیا: 107) ترجمہ:اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر۔ اس
آیت میں ایک خاص صفت رحمۃ للعلمین کا ذکر ہے۔ لیکن
آیت کے طریقہ بیان اور طرزِ ادا پر غور کرو کہ حضور کی رحمت کی وسعت کتنی ہے! یہاں
چار باتیں قابلِ بحث ہیں:(1) کون رحمت ہے؟ (2) کس پر رحمت ہے؟ (3) کب سے رحمت ہے؟(4)
اور کب تک رحمت ہے؟
کون
رحمت ہے ؟اس
کو بیان فرمایا وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ نے یعنی تمام
جہانوں کے لیے رحمت ہونا آپ ہی کی صفت ہے۔ اور کسی کو یہ درجہ عنایت نہ ہوا۔
کس
پررحمت ہیں؟
اس کو
لِّلْعٰلَمِیْنَ
نے بیان کر دیا۔ رب کی صفت ہےرَبُّ الْعٰلَمِیْنَ اور حضورﷺکی
صفت ہے رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ یعنی
جس کا خدا رب ہے اس کے لیے حضور رحمت ہیں۔
کب
سے حضور رحمت ہیں؟اس
کو بھی لِّلْعٰلَمِیْنَ نے بیان
کیا کہ جب سے عالم ہے تب سےحضور رحمت ہیں۔ حضور کب تک
رحمت ہیں؟اس کو بھی لِّلْعٰلَمِیْنَ نے بیان
فرمایا کہ جب تک یہ عالم ہے تب تک رحمتِ مصطفٰے ہے۔ ( شانِ حبیبُ الرحمن،ص1 15 تا
154)
3– وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)(پ29،القلم:4)ترجمہ:اور بے شک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔ صاحبِ
روح البیان نے لکھا ہے:اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ہے کہ حضور کو شکرِ نوح، خلتِ
ابراہیمی، اخلاصِ موسیٰ،حضرت اسمعیل کا سچ، حضرت یعقوب و ایوب کا صبر،حضرت داؤد کا
عذر اور حضرت سلیمان و عیسیٰ کی تواضع اور سارے انبیا کے اخلاق عطا فرمائے۔ تمام
انبیائے کرام کی صفات کے آپ جامع ہوئے۔بعض حضرات نے کہا:حضور کے اخلاق رب کو اختیار
کرنا، مخلوق سے کنارہ کرنا ہیں۔( شانِ حبیب الرحمن،ص262)
4-یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ
دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ
21، الاحزاب: 45-46) ترجمہ: اے غیب کی خبریں بتانے والے بے شک ہم نے تم کو بھیجا
حاضر و ناظر خو شخبر ی دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااور
چمکا دینے والا چراغ۔
اس آیت میں تین
صفتوں کا ذکر ہے: خوشخبریاں دینا، ڈرانا اوراللہ کی طرف بلانا۔اگرچہ پہلے انبیا نے
بھی یہ کام انجام دئیے مگر ان کی اور حضور ﷺ کی تبلیغ میں تین فرق ہیں:(1)وہ انبیا
سن کر تبلیغ کرتے اور حضور دیکھ کر۔ (2)وہ خاص امتوں کے نبی، بشر و نذیر تھے اور
حضور تمام عالم کے بشیرو نذیر۔(3) پیغمبر خاص وقت تک مبلغ اور بشیر و نذیر رہے مگر
حضور قیامت تک کے لیے۔
5-وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ(۱) مَا
ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ(۲) وَ
مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ
هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) (پ27،النجم: 1تا4) ترجمہ: اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اُترےتمہارے صاحب نہ بہکے
نہ بے راہ چلےاور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتےوہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں
کی جاتی ہے۔مفسرین کا اس آیت میں اختلاف ہے کہ نجم سے کیا مراد ہے اور
ھوی سے کیا مقصود ہے؟بعض نے فرمایا:نجم حضور کی صفت ہے۔ اس کا مطلب ہے ستارہ اور
وہ سرکار ﷺ کی ذات ہے۔کیونکہ نجم کا کام ہے ہدایت دینا مسافروں کو دریا میں بھی
اور جنگل میں بھی اور یہ ذاتِ کریم بھی ہادیِ خلق ہے۔
آیت میں ایک
صفت وَ مَا
یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىبیان ہوئی۔ہمارے نبی اپنی خواہش سے کلام نہیں
فرماتے وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ رب کی وحی ہوتی ہے۔ (شانِ حبیب الرحمن،ص 239 تا
240 )
6- یٰۤاَیُّهَا
الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ
الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ(۲)
(پ29،المزمل:1تا2) ترجمہ: اے جھرمٹ مارنے والے ر ات میں قیام
فرما سوا کچھ رات کے۔اس آیت میں وصف مزمل بیان ہوا۔تفسیرروح البیان میں
اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ رات کو محبوب چادر اوڑھ کر آرام فرما رہے تھے۔ رب
العالمین نے چاہا کہ اس وقت ہمارے محبوب ہم سے مناجات اور راز و نیاز کی باتیں کریں
تو آپ کو ندا دے کر جگایا کہ اے آرام فرمانے والے محبوب ہم سے باتیں کرو۔ (شان
حبیب الرحمن،ص266)
7-یٰۤاَیُّهَا
الْمُدَّثِّرُۙ(۱) قُمْ
فَاَنْذِرْﭪ(۲) وَ رَبَّكَ
فَكَبِّرْﭪ(۳) وَ ثِیَابَكَ
فَطَهِّرْﭪ(۴) (پ
29، المدثر: 1 تا 4) ترجمہ: اے بالا پوش اوڑھنے والےکھڑے ہوجاؤ پھر ڈر سناؤاور اپنے
رب ہی کی بڑائی بولواور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
اس آیت میں وصف
مدثر کا تذکرہ ہوا۔حضور فرماتے ہیں کہ میں غارِ حرا میں تھا اور فرشتہ وحی لایا،اس
وقت پیارے آقا ہیبت سے حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور حکم دیا کہ ہم کو چادر اوڑھا دو۔
جب چادر اوڑھی تب یہ وحی آئی کہ اے چادر اوڑھنے والے محبوب اٹھو اور کاموں میں
مشغول ہو جاؤ۔ تبلیغِ دین کردو۔تکبیر پڑھو اور کپڑوں کو پاک رکھو۔ (شان حبیب
الرحمن،ص 270 )
8- یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) (پ 22، یٰسٓ:
1-2) ترجمہ:قسم ہے قرآن کی جو حکمت سے بھرا ہوا ہے۔ (تفسیرمظہری) اس آیت میں حضورﷺ
کا ایک وصف بیان ہوا۔کلمہ یٰسٓ مشابہات میں سے ہےیعنی اس کا صحیح معنی رب اور اس
کا حبیب جانے مگر مفسرین نے کچھ تاویلیں فرمائی ہیں۔(اول) یٰسٓ حضورﷺ کا اسم شریف
ہے اور اس میں ندا پوشیدہ ہے یعنی اے یٰسٓ۔(دوم) ندا کا حرف ہے۔ اس سے مراد سید
العالمین ہیں یعنی اے جہاں والوں کے سردار۔(سوم) یہ سورۃ کا نام ہے۔ (شان حبیب
الرحمن،ص211)