اس شان سے اللہ نے اتارے ہیں محمدﷺ                    ہر دور میں ہر شخص کو پیارے ہیں محمدﷺ

حضرت محمد،خاتم النبيين ﷺ امتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ، نورِ ہدایت،اندھیروں میں روشن چراغ کی مانند، حق کی طرف رہنمائی کرنے والے،اللہ کے چنے ہوئے خاص بندے اور رسول ہیں۔ آپ کی ذات مبارکہ بے شمار خوبیوں سے بھر پور ہے۔آپ معلم بنا کر بھیجے گئے اور ایسے بے مثال معلم کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:میرے ماں باپ آپ پر قربان!میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی معلم(سکھانے والا ) نہیں دیکھا۔(مسلم،حدیث: 1199) لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ- (اٰل عمرٰن:164) ترجمہ کنزالایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے۔

یہ اللہ پاک کا کروڑ ہا کروڑ شکر و احسان ہے کہ اس قدر بلند مرتبہ، شفیق و مہرباں ہستی کو ہم پر مبعوث فرمایا کہ آپ نہایت نرم دل اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔ ترجمہ کنز الایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہو جاتے۔ (ال عمرٰن: 159) آپ ﷺ کے ساتھیوں کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو صحابہ کرام کو نبی کریم ﷺسے والہانہ عشق و محبت تھا اور یہ اللہ رحمن و رحیم کی مہربانی سے آپ کے حسنِ اخلاق کی بدولت ہی ہے۔ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (القلم:4)ترجمہ کنز العرفان:اور بے شک یقیناً تم عظیم اخلاق پر ہو۔

آپ کا اخلاق ہو بہو قرآن کا آئینہ تھا۔حضرت سعد بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں بتائیے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے عرض کی:کیوں نہیں ! تو آپ نے ارشاد فرمایا:رسول اللہ ﷺ کا خلق قرآن ہی تو ہے۔( مسلم،ص374،حدیث: 476)

آپ کا ایک وصف خیر خواہی کا جذبہ ہے۔ آپ کی ذاتِ مبارک مومنوں پر انتہائی لطف و کرم فرمانے والی سرپا شفقت و رحمت ہے۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (التوبۃ: 128)ترجمہ کنز العرفان:بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے،وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔

سید العالمینﷺ کی ذاتِ مبارکہ صبر،علم اور عفو و درگزر کا عملی نمونہ تھی۔کفار کے بے حد ظلم وستم کے باوجودحضور پر نور ﷺ نے فتحِ مکہ کے موقع پر انہیں معاف فرما دیا اور فرمایا کہ آج کے دن تم پر کچھ مواخذہ نہیں! تم سب آزاد ہو۔ (تفسیرصراط الجنان )

حضور پر نور ﷺ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور اپنی امت کو گمراہی میں دیکھ کر اپنی امت کے لیے شدید رنج و غم میں مبتلا رہے۔ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶) (الكہف: 6) ترجمہ کنز الایمان: تو کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے پیچھے اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں غم سے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میری اور میری امت کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے آگ جلائی تو مکھیاں اور پتنگے اس میں پڑنے لگے ( یہی حال تمہارا اور ہمارا ہے ) میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں (جہنم کی آگ میں ) بلا سوچے سمجھے گھسے چلے جا رہے ہو۔( بخاری، 4 / 232،حديث:6483)

رسول الله ﷺحقیقت پر مبنی دلائل اور نشانیوں کے ساتھ اللہ قادر مطلق کی حدود میں رہنے والوں کو باغات اور اللہ کی خوشنودی کی خوش خبری دینے والے اور گمراہی میں پڑ کر اپنی جان پر ظلم کرنے والوں کو جہنم کی دہکتی آگ اور اللہ پاک کی ناراضی سےڈرانے والے ہیں۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ- (البقرہ: 119) ترجمہ کنز الایمان:بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔

رسول اللهﷺ تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ آپ عذاب سے آڑ ہیں۔ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- (الانفال:33) ترجمہ: اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے۔

آپ اللہ پاک کی تمام مخلوقات پر کمال رحم فرمانے والے ہیں۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء:107)ترجمہ:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

حضور پر نور ﷺ بہت با حیا اور لحاظ کرنے والے تھے۔ آپ ﷺ کی ذات پر کوئی بات گراں گزرتی تو آپ اسے بیان فرمانے میں بھی حیا فرماتے۔ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘- (پ22، الاحزاب:53) ترجمہ: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ کی ایک صفت اُمّی ہے۔ آپ نے اللہ کے سوا کسی سے علم حاصل نہیں کیا بلکہ صرف اور صرف اللہ پاک کی تعلیمات کا عملی نمونہ تھے۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب:21) ترجمہ: بیشک تمہیں رسولُ الله کی پیروی بہتر ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

ایسا امی کس لئے منت کشِ استاد ہو کیا کفایت اس کواِقْرَاْ رَبُّكَ الْاَكْرَم نہیں

رسولِ کریم ﷺ نے صبر و شکر کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔صبر کی بات کی جائے تو اپنے لختِ جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر آپ نے فرمایا: آنکھ آنسو بہا رہی ہے، دل غمگین ہے اور ہم وہی کہہ رہے ہیں جو ہمارے رب کو پسند آئے۔ (ابو داود، 3126)

اور شکر کا جذبہ دیکھا جائے تو حضور نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔ آپ سے عرض کیا گیا:اللہ پاک نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خلافِ اولیٰ باتوں معاف کر دی ہیں ! رسول مقبول ﷺنے فرمایا: کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟(مسلم، حدیث:7124)

نیز زندگی کے ہر شعبے میں رسولِ امین ﷺ نے ہمارے لیے عظیم مثالیں قائم کی ہیں۔اللہ ہمیں رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین يارب العالمين