آیتِ
مبارکہ: اَلَمْ
نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) (پ30، الشرح:
1) ترجمہ کنز الایمان: کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیا۔
تفسیر صراط
الجنان میں ہے: اس سورت کا شانِ نزول یہ ہےکہ ایک روز
سرورِ عالَم ﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:اے اللہ ! تو نے حضرت ابراہیم علیہ
السّلام کو اپنا خلیل ہونے کا شرف عطا فرمایا،حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اپنے
ساتھ کلام کرنے سے سرفراز کیا،حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان جنت تک رسائی
دی،پہاڑوں اور لوہے کو حضرت داؤد علیہ السّلام کا فرمانبردار کر دیا،جِنّات،انسان
اور تمام حیوانات حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تابع کر دئیے، تومجھے کس شرف اور
کرامت سے خاص فرمایا ہے؟اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس میں گویا کہ ارشاد فرمایا گیا:
اے حبیب! اگر ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کواپنا خلیل بنایا ہے تو آپ کی خاطر
ہم نے آپ کاسینہ علم و حکمت اور معرفت کے نور سے کھول دیا تاکہ مُناجات کی
لذّت،امت کا غم،اپنی بارگاہ میں حاضری کا ذوق اور آخرت کے گھر کا شوق آپ کے دل میں
سما جائے،آسمانی وحی کو اٹھانا آپ کے دل پر آسان ہو جائے،اللہ پاک کی طرف رغبت
دینے کی تبلیغ کرنے پر آنے والے مَصائب کو برداشت کر سکے اور ان خوبیوں اور
کرامتوں کی بدولت آپ کو وہ مقام حاصل ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے خلیل
ہونے کو اس سے کچھ نسبت نہ رہے۔
اور اگر ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اپنے
ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان تک
رسائی عطا کی ہے تو آپ کو اس غم سے نجات دی جو آپ کی پُشت پر بہت بھاری تھا اور آپ
کو لامکاں میں بلا کر اپنے دیدار سے مشرف کیا یہاں تک کہ ہم میں اور آپ میں (ہماری
شایانِ شان)دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اور آسمانوں کی
پوری سلطنت میں آپ کی قربت اور منزلت کا شہرہ ہو گیا۔اگر ہم نے حضرت داؤد علیہ
السّلام اور حضرت سلیمان علیہ السّلام کو دنیا کی چند چیزوں پر حکومت بخشی ہے تو آپ
کو عالَمِ عُلْوی یعنی آسمانوں پر قدرت دی ہے کہ وہاں کے فرشتے خادموں کی طرح آپ
کی بارگاہ میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کے سپاہیوں کی طرح آپ کے دشمنوں سے لڑتے ہیں اور
آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کی نبوت و رسالت سے واقف نہ ہو اور آپ کے
حکم سے اِنحراف کرے۔ (تفسیر روح البیان، 10/465)
آیتِ
مبارکہ: وَ اِنَّكَ
لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان:
اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔علامہ علی بن محمد
خازن فرماتے ہیں: یہ آیت گویا کہ ’’مَاۤ اَنْتَ
بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ‘‘ کی تفسیر ہے کیونکہ
تاجدارِ رسالت ﷺ کے قابلِ تعریف اَخلاق اور پسندیدہ اَفعال آپ کی ذاتِ مبارکہ سے
ظاہر تھے اور جس کی ایسی شان ہو اس کی طرف جنون کی نسبت کرنا درست نہیں۔ (تفسیرِ
خازن، 4/294)
اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: حق جَلَّ وَ عَلَا نے فرمایا:’’وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ اور بے شک تو بڑے عظمت والے ادب تہذیب
پر ہے کہ ایک حِلم وصبر کیا، تیری جوخصلت ہے اِس درجہ عظیم و باشوکت ہے کہ اَخلاقِ
عاقلانِ جہان مُجْتَمع ہو کر اس کے ایک شِمّہ (یعنی قلیل مقدار) کو نہیں پہنچتے، پھر
اس سے بڑھ کراندھا کون جو تجھے ایسے لفظ سے یاد کرے۔(فتاویٰ رضویہ، 30/164-165)
اللہ پاک کے
آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے
کسی کو نہیں دی گئیں:
(1) ایک ماہ کی
مسافت کے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی۔
(2) میرے لئے مالِ
غنیمت حلال کیا گیا حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہیں تھا۔
(3) میرے لئے تمام
زمین کو سجدہ گاہ اور مٹی کو پاک بنایا گیا، لہذا میرے کسی امتی کو نماز کا وقت
ہوجائے تو وہیں نماز پڑھ لے۔
(4) مجھے منصبِ
شفاعت عطا کیا گیا۔