ہمارے سب سے پیارے اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ آپ خاتم النبیین ہیں۔ نبوت و رسالت کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السّلام سے شروع ہوا وہ حضرت محمد ﷺ پر آکر ختم ہوگیا۔ اللہ پاک نے ہر نبی کو مختلف معجزے اور اوصاف عطا فرمائے مگر نبیِ کریم ﷺ کے اوصاف کی کوئی حد نہیں۔ اگر ہم ان کے اوصاف بیان کرنے لگیں اور لکھنے لگیں تو سمندر کے پانی کے برابر سیاہی اور ساری زندگی صرف کرنے کے بعد ان کے اوصاف کا ایک حصہ بھی نہ بیان کرسکیں گے۔

(1) امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث روایت کی: حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: میں اللہ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا حالانکہ حضرت آدم علیہ السّلام کا خمیر تیار ہورہا تھا۔ میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں، میں دعائے ابراہیم ہوں، بشارتِ عیسیٰ ہوں، اپنی والدہ کے خواب کی تعبیر ہوں، جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا اور ان کے لئے ایک بلند نور ظاہر ہوا جس سے ملکِ شام کے ایوان اور محلات روشن ہوگئے۔ (شرح السنہ، 7/13، حدیث: 3520)

(2) حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے چاندنی رات میں نبیِ کریم ﷺ کو دیکھا، حضور سرخ حلہ پہنے ہوئے تھے یعنی اس میں سرخ دھاریاں تھیں۔ میں کبھی حضور کو دیکھتا اور کبھی چاند کو، حضور میرے نزدیک چاند سے زیادہ حسین تھے۔ (ترمذی، حدیث:2820)

(3) رسولِ کریم ﷺ جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرۂ مبارک کھل اٹھتا تھا اور ایسے معلوم ہوتا کہ آپ کا چہرۂ مبارک چاند کا ٹکڑا ہے۔ (مشکوۃ، حدیث: 5549)

(4) علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور کا پورا جمال ظاہر نہیں کیا گیا ورنہ آدمی حضور ﷺ کو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتے۔ (شمائلِ ترمذی)

(5) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب آئینہ دیکھتے تو فرماتے: اے اللہ! جس طرح تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے اسی طرح میری سیرت بھی ا چھی کردے۔ (مسند احمد، حدیث: 3823)

(6) پیکر ِ عظمت و شرافت، محسنِ انسانیت ﷺ کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز ہے کہ آپ بیک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے، دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔ (سیرتِ مصطفےٰ، ص 571)

(7) رسول اللہ ﷺ کا رنگ کھلا ہوا چمکدار تھا، آپ کا پسینہ جیسے موتی ہوں، جب چلتے تو جھکاؤ آگے کو ہوتا، میں نے کبھی کوئی ریشم، کوئی دیباج نہیں چھوا جو رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم و ملائم ہو، نہ کسی کستوری اور عنبر ہی کو سونگھا جو رسول اللہ ﷺ کی خوشبو سے زیادہ عمدہ اور پاکیزہ ہو۔(بخاری، حدیث: 1973)

(8)رسول اللہ ﷺ کا کامل حسن ہمارے لئے ظاہر نہیں ہوا، کیونکہ اگر ظاہر ہوجاتا تو ہماری آنکھیں آپ ﷺ کے دیدار کی تاب نہ لاسکتیں۔ (سیرت رسولِ عربی، ص 248)

(9) حضورِ اکرم ﷺ اور آپ کے گھر والے کئی کئی رات پے درپے بھوکے گزاردیتے تھے کہ رات کو کھانے کے لئے کچھ موجود نہیں ہوتا تھا۔ اکثر غذا آپ ﷺ کی جو کی روٹی ہوتی تھی اور کبھی کبھی گیہوں کی روٹی بھی مل جاتی تھی۔ (شمائلِ ترمذی، حدیث: 136)

(10) حدیثِ روزِ محشر میں ہے: اللہ پاک اولین و آخرین کو جمع کرکے حضورِا قدس ﷺ سے فرمائے گا:یہ سب میری رضا چاہتے ہیں اور اے محبوب! میں تمہاری رضا چاہتا ہوں۔سبحان اللہ(فتاویٰ رضویہ، 14/275)