انبیائے کرام علیہمُ السّلام کو مختلف خوبیاں عطا فرمائی گئیں، کسی کو بےمثال حسن و جمال عطا فرمایا گیا، کسی کو یدِ بیضاء (چمکتا ہوا ہاتھ) عطا فرمایا گیا، کسی کی پھونک مردے کو جلادیتی تو کسی کے مسح سے کوڑھی شفاء پاتے۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام بڑی شانوں والے ہیں مگر جانِ عالم ﷺ ایک یا دو نہیں بلکہ جملہ اوصافِ حمیدہ کے جامع ہیں، کہ تمام اوصاف کا بیان ناممکن ہے۔ یہ تو وہی جانے کہ جس نے اپنے محبوب کو کامل و اکمل بنایا۔ روزِ اول سے اب تک اور قیامت تک ان کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی، مگر حق یہ ہے کہ

زندگیاں ختم ہوئیں قلم ٹوٹ گئے مگر تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

(1) اعلیٰ اخلاق: حضور نبیِ کریم ﷺ تمام اخلاقِ حسنہ کے جامع ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ: اور بےشک آپ یقیناً عظیم اخلاق پر ہیں۔

پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں: اللہ پاک نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اخلاق کے کمالات پورے کرنے کے لئے مجھے بھیجا۔ (تفسیر صراط الجنان)

(2) نور: اللہ پاک کا ارشاد ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) (پ6، المائدہ: 15) ترجمہ: بےشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔

علامہ خازن رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یعنی نور سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ ﷺ کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ (تفسیرِ خازن، 1/477)

(3) رحمت: قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17، الانبیاء: 107) ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

ابو بکر محمد بن طاہر رحمۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں: حضور کو اللہ پاک نے رحمت کے ساتھ مزین کیا۔ (الشفاء، 1)

پیارے آقا ﷺ مومنین، منافقین، کافرین تمام کے لئے رحمت ہیں۔ اور آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ حیاتِ ظاہری میں بھی رحمت ہے اور حیاتِ باطنی (وفات) میں بھی رحمت ہے۔

(4) نرمی: قرآنِ عظیم میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ: (اے حبیب!) خد کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ کہیں بد اخلاق ہوتے اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔ (اٰلِ عمران:109)

(5) اللہ پاک کا ارشاد ہے: اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ (پ9، الاعراف: 157) ترجمہ: وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی۔

امی سے مراد ہے وہ جس نے دنیا میں کسی سے نہ پڑھا ہو۔ پیارے آقا ﷺ نے دنیا میں کسی سے نہیں پڑھا بلکہ آپ کو تو خود اللہ پاک نے علم سکھایا جیسا کہ فرمایا: اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ(۲) (الرحمٰن: 1-2) ترجمہ کنز الایمان: رحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔

(6) داعیا الی اللہ: یعنی اللہ کی طرف بلانے والے۔ حضور نبیِ کریم ﷺ نافرمانوں کو توحیدِ الٰہی اور اس کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں۔ فرمایا اللہ پاک نے: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ (پ22، الاحزاب: 46) ترجمہ: اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا۔

(7) بھلائی چاہنے والے: حضور نبیِ کریم ﷺ اپنی امت کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی کے نہایت چاہنے والے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ (11، التوبہ: 128) ترجمہ: ان پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ہیں۔

(8) مہربان: پیارے آقا ﷺ اپنی امت پر نہایت مہربان ہیں۔ آپ دنیا و آخرت دونوں میں رؤفٌ رحیم ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (11، التوبہ: 128) ترجمہ: مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

(9) حیاء دار: حضورِ جانِ عالم ﷺ کی حیاء کے بارے میں قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘- (پ22، الاحزاب:53) ترجمہ: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔

(10) بشیر و نذیر: جانِ جاناں ﷺ فرمانبرداروں کو جنت اور اللہ کی رضا کی خوشخبری دینے والے اور نافرمانوں کو اللہ پاک کے عذاب و ناراضی کا ڈرسنانے والے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ-وَّ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ(۱۱۹) (پ2، البقرۃ:119) ترجمہ: اے حبیب! بےشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرسنانے والا بنا کر بھیجا۔

محبوبِ جانِ جاناں ﷺ کی تعریف کا احاطہ ناممکن ہے۔

لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کردیا خالق کا بندہ، خلق کا آقا کہوں تجھے