اوصافِ نبوی: اوصافِ نبوی سے مراد ہے: نبیِ کریم ﷺ کی خوبیاں اور کمالات۔

سرکار کے اوصاف کا اظہار کریں گے ہم پہ بھی کرم، سیدِ ابرار کریں گے

(1)اللہ پاک نے تمام مخلوق سے پہلے اپنے حبیب ﷺ کے نور کو پیدا فرمایا اور پھر اس نور سے دیگر مخلوق کی تخلیق فرمائی۔ (مصنف عبد الرزاق، ص 63، حدیث: 18)

خدا نے نورِ مولیٰ سے کیا مخلوق کو پیدا سبھی کون و مکاں ہوئے اس ایک مصدر سے

(2) سرکارِ مدینہ ﷺ کا مبارک نام عرش کے پائے پر ہر ایک آسمان پر جنت کے درختوں اور محلات پر حوروں کے سینوں پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان لکھا گیا ہے۔ (خصائصِ کبری، 1/ 12)

مالک تجھے بنایا ہر چیز کا خدا نے اس واسطے لکھا ہے ہر شے پہ نام تیرا

(3) بدن تو بدن آپ کے کپڑوں پر بھی کبھی مکھی نہیں بیٹھی، نہ سر میں کبھی جوئیں پڑیں اور نہ ہی کبھی بھڑ نے آپ ﷺ کو کاٹا۔ (الشفاء، ص 368، خصائص کبری، 1/ 177)

مکھیوں کی آمد، جوؤں کا پیدا ہونا، گندگی، بدبو وغیرہ کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اور آپ ﷺ ہر قسم کی گندگیوں سے پاک جسمِ اطہر خوشبو دار تھا، اس لئے بھی آپ ﷺ ان چیزوں سے محفوظ تھے۔ (سیرتِ مصطفےٰ، ص 566)

اللہ کی سرتابقدم شان ہیں یہ ان سا نہیں انسان وہ انساں ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ

(4) حضرت آدم علیہ السّلام اور دیگر تمام مخلوقات سرکارِ دو عالم ﷺ کے لئے ہی پیدا کئے گئے۔ (مواہب للدنیہ، 1/86)

زمین و زماں تمہارے لئے مکین و مکاں تمہارے لئے

چنین و چناں تمہارے لئے بنے دو جہاں تمہارے لئے

(5) اللہ پاک نے اذان و اقامت اور خطبہ و تشہد میں اپنے محبوب ﷺ کے ذکر کو اپنے سے ملادیا۔ (الکلام الاوضح، ص 179)

(6) اظہارِ نبوت سے پہلے دھوپ کے وقت بادل اکثر سرکارِ مدینہ ﷺ پر سایہ کیا کرتا اور درخت کا سایہ آپ کی طرف آجاتا تھا۔ (خصائصِ کبری، 1/42-143)

سایۂ عرشِ الٰہی میں کھڑا کرنا مجھے ہیں سیہ عصیاں سے دفتر رحمۃ للعلین

گزشتہ آسمانی کتابوں میں حبیب ﷺ کی تشریف آوری کی بشارت دی گئی (خصائص کبری، 1/18)

(7) سرکارِ نامدار ﷺ نور ہیں، اس لئے سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں آپ ﷺ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔ (خصائصِ کبری، 1/144)

اس قدِ پاک کا سایہ نظر آتا کیونکر نور ہی نور ہیں اعضائے رسولِ عربی

پیارے آقا ﷺ کا مبارک سینہ کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔ (مواہبِ لدنیہ، 7/199)

اسی سے ہوئے عنبر و مشک مشتق ہے خوشبو کا مصدر پسینہ تمہارا

(8) سفرِ معراج میں اللہ پاک دنیا والوں کو پہلے انبیاء کرام علیہمُ السّلام اور تمام آسمانوں کے فرشتوں کو اپنے محبوب کے وہ اوصاف و کمالات دکھانا اور بتانا چاہتا تھا جو اس نے اپنے حبیب کو عطا کئے تھے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا(بنی اسرائیل:1) ترجمہ کنز العرفان: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجدِ حرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کروائی۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما کہتے ہیں کہ تم تعجب کرتے ہو اس بات سے کہ خلعت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لئے ہو اور کلام حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے لئے اور اللہ پاک کو دیکھنا حضرت محمد ﷺ کے لئے۔ (مواہب اللدنیہ)

حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ نے اپنے ربّ کو دیکھا۔ (مواہب اللدنیہ)

(9) بےشک اللہ پاک نے معراج کی رات نبیِ کریم ﷺ پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں، لیکن اپنے محبوب ﷺ کی رضا کے لئے پانچ فرض کیں۔ نمازوں میں سے پینتالیس نمازیں معاف کرکے ثابت کردیا کہ میں اپنی طرف سے خود فرض کی گئی پچاس نمازوں میں سے اپنے محبوب کی رضا کے لئے معاف کرسکتا ہوں۔ (فلسفہ معراج، ص 72)