اللہ پاک کے
آخری نبی، مکی مدنی مصطفےٰ ﷺ انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاء کرام علیہمُ
السّلام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں۔ اللہ پاک نے سب سے پہلے آپ کا نور پیدا کیا۔
حضرت علامہ
نور بخش توکلی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی کتاب سیرتِ رسولِ عربی میں لکھتے ہیں: اللہ
تعالیٰ نے سب سے پہلے بلاو اسطہ اپنے حبیب محمد ﷺ کا نور پیدا کیا، پھر اسی نور کو
خلق ِعالم کا واسطہ ٹھہرایا۔ اور عالم ِ اَرواح ہی میں اس رُوح سراپا
نور کو وَصف نبوت سے سر فراز فرمایا، چنانچہ ایک روز صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم نے
حضورِ انور ﷺ سے پو چھا کہ آپ کی نبوت کب ثابت ہوئی آپ نے فرمایا: کُنْتُ نَبِیًّا وَّ
آدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَ الْجَسَدِ یعنی میں اس وقت نبی تھا جب کہ آدم کی
روح نے جسم سے تعلق نہ پکڑا تھا۔
ہمارے نبیِ
کریم ﷺ کے اوصاف کا مکمل تذکرہ نہ کوئی کرسکا ہے نہ کوئی کرسکے گا۔
ایک شاعر
لکھتے ہیں:
شان
مصطفیٰ کروں کیا میں بیان کہ
نظام کائنات رک گیا اک ملاقات کے واسطے
نبیِ کریم ﷺ
کے چند اوصاف کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے۔
(1)
صبر و عفو درگزر: آپ
معاف کرنے والے، صبر کرنے والے ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی
اللہُ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے
اپنی ذات کے حق کے لئے کبھی انتقام نہ لیا۔
سلام
اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
(2)عدل
و انصاف:
آپ ﷺ عدل و انصاف کےپیکر ہیں۔ ایک دفعہ آپ نے ایک شخص سے کچھ کھجوریں ادھار لیں، جب
اس نے تقاضا کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:آج ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، مہلت دیجئے کہ کچھ
آجائے تو ادا کروں۔ یہ سن کر وہ بولا: آہ! بے وفائی۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کو
غصہ آگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عمر جانے دو،صاحبِ حق ایسا ویسا کرسکتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے
حضرت خولہ بنتِ حکیم انصاری رضی اللہُ
عنہا سے کچھ کھجوریں منگوا کر اس کے حوالہ کیں۔
سلام
اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
(3)
سخاوت و بہادری:
آپ ﷺ بہت زیادہ سخی اور بہادر تھے۔ حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں
سے بڑھ کر حسین، تمام لوگوں سے زیادہ سخی اور تمام لوگوں سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات
اہلِ مدینہ کسی آواز سے گھبرا گئے، لوگ آواز کی جانب لپکے، نبیﷺ تمام لوگوں سے پہلے آواز کی جانب پہنچ گئے اور فرمانے لگے:
ڈرو نہیں، ڈرو نہیں۔ آپ ﷺ ابو طلحہ رضی اللہُ
عنہ کے گھوڑے پر سوار تھے اور آپ ﷺ کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی۔ (بخاری،
مسلم)
(4)
آپ کی گفتگو: نبیِ کریم ﷺ بہت ہی خوبصورت انداز میں گفتگو فرماتے۔ آپ سب
سے زیادہ شیریں یعنی میٹھی گفتگو فرماتے تھے۔ مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسالہ
حسن و جمالِ مصطفیٰ صفحہ نمبر 38 پر ہے: پیارے آقا مختلف علاقوں سے حاضر ہونے والے
لوگوں سے انہیں کی زبان میں بلاتکلف گفتگو فرماتے۔ آپ کی گفتگو شریف دلوں پر زیادہ
اثر انداز ہوتی اور دلوں کو موہ لیتی یعنی اپنی گرفت میں لے لیتی۔
اس کی باتوں کی لذت پہ لاکھوں درود اس کےخطبے کی ہیبت پہ لاکھوں سلام
(5)
تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے: ہمارے پیارے نبی ﷺ کسی ایک قوم
یا کسی ایک مخلوق کی طرف نبی بنا کر نہیں بھیجے گئے، جیسا کہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد
فرمایا: میں ساری مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (مسلم)
(6)
آپ ﷺ کے اعضاءِ مبارک: اللہ پاک نے پیارے آقا ﷺ کے اعضائے مبارکہ کا ذکر قرآن
مجید میں فرمایا ہے، چنانچہ آپ ﷺ کے مبارک چہرے کے بارے میں فرمایا: قَدْ نَرٰى
تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ (پ2، البقرۃ: 144) ترجمہ کنز الایمان: ہم
دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا۔
آپ کےچشمِ
مبارک کے بارے میں فرمایا: مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷) (پ27،
النجم: 17) ترجمہ کنز الایمان: آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔
قلبِ اطہر کے
بارے میں فرمایا: مَا كَذَبَ
الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(۱۱) (پ27، النجم: 11) ترجمہ کنز الایمان: دل
نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔
سینۂ مبارکہ
کے بارے میں فرمایا: اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) (پ30، الم نشرح:
1) ترجمہ کنز الایمان: کیا ہم نے تمھارے لیے سینہ کشادہ نہ کیا۔
یہاں پر چند
عضو کا ذکر کیا گیا ہے، یہ آپ ﷺ کے اوصاف میں سے ہے کہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کی شانِ
اقدس خود بیان فرمائی۔ اعلیٰ حضرت بھی کیا خوب لکھتے ہیں:
خلق
سے اولیا اولیا سے رسل اور
رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی
(7)
دیدارِ الٰہی: ہمارے
آقا، میٹھے میٹھے مصطفےٰ ﷺ نے اللہ پاک کا دیدار کیا اور یہ شرف ہمارے آقا کو
جاگتی آنکھوں سے ہوا۔ حضرت امام احمد رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضور ِ اقدس
ﷺنے اپنے ربّ کو دیکھا، اُس کو دیکھا، اُس کو دیکھا۔ امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے
یہاں تک کہ سانس ختم ہوگیا۔ (تفسیرِ خازن)
بیاں
کیوں کر ثنائے مصطفےٰ ہو خدا
جب ان کا خود مدحت سرا ہو
(8)
شقِ صدر: آپ
وہ عظیم ہستی ہیں جن کا سینۂ مبارک چاک کیا گیا۔ کتاب سیرتِ رسول عربی، باب تعددِ
شقِ صدر میں علامہ نور محمد بخش توکلی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: واضح رہے کہ
حضور کا شقِ صدر چار مرتبہ ہوا۔ یہ آپ کا بہت بڑا وصف ہے۔
(9)
آپ کا ذکر بلند:
پیارے آقا ﷺ کا ذکر بلند کیا گیا۔ میرے ربّ کو گوارا ہی نہ ہوا کہ آپ کو کوئی
بھلائے اور ایسا ممکن بھی نہیں، اس لئے اذان اور خطبے اور تشہد میں اللہ پاک کے
ساتھ آپ کا ذکر بھی ہے۔
سورۂ الم نشرح میں وارد ہے: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30، الشرح: 4) ترجمہ: اور ہم نے تیرا نام بلند کیا۔
رفعت
ذکر ہے تیرا حصہ دونوں
عالم میں ہے چرچا تیرا
(10)
اسمائے مبارکہ: میرے
آقا ﷺ کو اللہ پاک نے بہت سے ناموں سے پکارا، کبھی یسین کہا تو کبھی مزمل کہا،
کبھی مدثر کہا تو کبھی طٰہ کہا، کبھی محمد کہہ کر پکارا تو کبھی احمد کہہ کر
پکارا۔ حضرت علامہ محمد نور بخش توکلی فرماتے ہیں: حضور ﷺ کے اسمائے مبارکہ میں سے
تقریباً ستر نام وہی ہیں جو اللہ پاک کے ہیں۔
دئیے
معجزے انبیا کو خدا نے ہمارا
نبی معجزہ بن کے آیا
ہمارے آقا و
مولیٰ دو جہاں کے داتا محمدِ عربی ﷺ کی شان و عظمت بہت بلند و بالا ہے، اس قدر ہے
کہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اپنے آخری نبی ﷺ کی سیرتِ مبارکہ
پڑھنے سمجھنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کی سعادت عطا فرمائے۔
سرکار
کے اوصاف کا اظہار کریں گے ہم
پہ بھی کرم سیدِ ابرار کریں گے