حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن کو بنظر ایمان دیکھا جائے تو اس میں اول سے  آخر تک نعت سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معلوم ہوتی ہے ۔ حمد الہی ہو یا بیان عقائد، گزشتہ انبیا ء کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے واقعات ہوں یا احکام ، غرض قراٰنِ کریم کا ہر موضوع اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے محامد اور اوصاف کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ صحابۂ کرام ، اہل بیت عظام کے مناقب، مکہ مکر مہ مدینہ منورہ کے فضائل جو قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوئے۔ وہ حقیقت میں نعتِ مصطفی ہے۔بادشاہ کے غلاموں کی تعریف، اس کے تخت و تاج کی مدحت در حقیقت بادشاہ کی ثناخوانی ہے ۔ کفار کی برائیاں ، بت پرستوں کی مذمت بھی اسی شہنشاہ کی نعت ہے ۔

تخت ہے ان کا تاج ہے ان کا دونوں جہاں میں راج ہے ان کا

جن و ملک ہیں ان کے سپاہی رب کی خدائی میں ان کی شاہی

لیکن اس مختصر مضمون میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفات پر مشتمل دو آیات پیش کی جائیں گی۔

(1تا 5) اول ،آخر، ظاہر، باطن اور علیم:۔ هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہی اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(پ 27 ، الحدید :3)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃ کے خطبہ میں ارشاد فرمایا: یہ آیت کریمہ حمدِ الہی بھی ہے اور نعت مصطفی بھی۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے اول اس طرح کہ سب سے پہلے آپ کا نور پیدا ہوا۔ سب سے پہلے نبوت آپ کو عطا ہوئی، بروز قیامت سب سے پہلے آپ کی قبر کھولی جائے گی، آپ کو سب سے پہلے سجدے کا حکم ملے گا ، سب سے پہلے شفاعت فرمائیں گے، جنت میں تشریف لے جائیں گے۔ غرض کہ ہر جگہ اولیت کا سہرا ان ہی کے سرپر ہے۔( شان حبیب الرحمٰن)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے آخر اس طرح کہ سب سے آخر حضور کا ظہور ہوا ۔ خاتم النبیین آپ کا لقب ہوا، سب سے آخر حضور کو کتاب ملی اور سب سے آخر حضور ہی کا دین ہے ۔

(6 تا 10) شاهد ،مبشر، نذیر ، داعی الی اللہ اور سرا جا منیرا : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔ ( پ22، الاحزاب:45،46 )

حضور شاھد اس طرح ہیں کہ دنیا میں خلق کے سامنے خالق، جنت، دوزخ اور تمام غیبی خبروں کے گواہ ہیں اور آخرت میں خالق کے سامنے خلق کہ گواہ ہوں گے۔ (شان حبیب الرحمن )

مبشر، نذیر ، داعی الی اللہ اگرچہ پہلے انبیائے کرام بھی تھے مگر ان میں اور حضور میں 3 فرق ہیں: پہلا وہ سن کر یہ فرائض انجام دیتے تھے جبکہ حضور دیکھ کر ۔ دوسرا وہ خاص جماعتوں کے لیے تھے۔ جبکہ حضور تمام عالم کے لئے ۔ تیسرا وہ خاص وقتوں کے لئے تھے جبکہ حضور قیامت تک کے لئے ۔

حضور چراغ اس طرح کہ جس طرح چراغ سے تاریکی دور ہوتی ہے گمی ہوئی چیز ملتی ہے اسی طرح حضور کے ذریعے کفر کی تاریکی دور ہوئی اور کمی ہوئی راہ ہدایت مل گئی۔