حسن شہباز عطاری (درجۂ دورہ ٔ حدیث
جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ گوجرانوالہ پاکستان)
اللہ پاک قراٰن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تم پر یہ
قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے ۔(پ14، النحل : 89)اعلیٰ حضرت امام
احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شی ہر موجود کو کہا جاتا ہے جس کا
مطلب ہوا کہ فرش سے لیکر عرش تک ، مشرق سے
لیکر مغرب تک ، دلوں کے خطرات اور ارادے اور ان کے علاوہ اور بھی جو کچھ ہے سب اس
میں داخل ہے (یعنی ٰ اس قراٰن پاک میں ہر چیز کا بیان ہے روشن طریقے سے مذکور ہے )
( صراط الجنان، النحل آیۃ 89)یہی قراٰن پاک جہا ں ہمیں دوسری چیزوں کا بیان کرتا ہے
اسی طرح یہ سرکارِ مدینہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
شان پاک بھی بیان فرماتا ہے ۔
قراٰن پاک میں 10اوصاف مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
اللہ پاک نے قراٰن پاک میں ارشاد فرمایا کہ :لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ
مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک تمہارے
پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری
بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان (پ 10، التوبۃ: 128) اس آیۃ مبارکہ میں اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے چند اوصاف کا بیان فرمایا ہے :(1) عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ: جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے یعنی تمہارا مشقت
میں پڑنا ان پر بہت بھاری گزرتا ہے اور مشقت کو دور کرنے میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کرنا ہے اورنبئ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی مشقت کو دور کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں ۔( صراط
الجنان التوبہ الآیۃ 128)
(2) حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ: تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے۔ تفسیرصراط الجنان میں ہے کہ : اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ تو اپنی اور اپنی اولاد کے حریص ہوتے ہیں مگر یہ
رسول رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی
امت کی خیر خواہی اور بھلائی پر حریص ہیں اب امت پر ان کی حرص اور شفقت کی ملاحظہ
ہو ۔
حضرت زید بن خالد جُہنی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور
پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے اپنی امت پر
دشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی
نماز کو تہائی رات تک مؤخر کر دیتا ۔
مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ میں جس میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا اس پر ایک شخص نے عرض کی: کیا ہر سال حج
فرض ہے اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سکوت (خاموشی )
اختیار فرمایا۔ سوال کرنے والے نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا: جو میں بیان
نہ کروں اس کے درپے نہ ہو اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہو جاتا اور تم نہ
کر سکتے ۔
(3) بِالْمُؤْمِنِیْنَ
رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ: مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان
اس آیت میں اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے دو ناموں
سے مشرف فرمایا یہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کمال تکریم ہے کہ سرکار صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دنیا میں بھی رؤف و رحیم ہیں اور آخرت میں بھی ۔نبی پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رحمت و رافت کے متعلق دو احادیث ملاحظہ فرمائیں
۔
(۱)حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس قول کی تلاوت فرمائی: رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ
كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ
عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے میرے رب بےشک بتوں نے بہت لوگ
بہکادئیے تو جس نے میرا ساتھ دیا وہ تو میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو
بےشک تو بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ13، ابراھیم: 36)اور وہ تلاوت فرمائی جس میں حضرت
یحی ٰ علیہ السّلام کا یہ قول ہے: اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ
اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو
انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔(پ 7، المائدۃ: 118)تو حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر گریہ طاری ہو گیا اور اپنے دستِ اقدس اٹھا کر دعا
فرمائی اے اللہ پاک میری امت میری امت
اللہ پاک نے جبرئیل علیہ السّلام سے فرما یا میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی بارگاہ میں جاؤ اور ان سے پوچھو حالانکہ تمہارا رب خوب جانتا ہے مگر ان
سے پوچھو کہ انہیں کیا چیز رلائی ہے حضرت
جبرئیل علیہ السّلام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے
اور پوچھا تو انہیں رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی عرض معروض کی
خبردی اللہ پاک نے حضرت جبرئیل سے فرمایا تم میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ( إنا سنرضيك في أمتك
ولا نسوءك)کہ آپ کی امت کے معاملے میں ہم
آپ کو راضی کردیں گے اور آپ کو غمگین نہ کریں گے ۔
(۲) حضرت انس بن مالک فر ماتے ہیں میں نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے قیامت کے دن اپنی شفاعت کا سوال کیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں کروں گا۔ میں نے عرض نے کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا؟ ارشاد فرمایا سب سے پہلے مجھے
پل صراط پر تلاش کرنا میں نے عرض کی اگر پل صراط پر نہ پاؤں تو (کہاں تلاش کروں
) ارشاد فرما یا :مجھے میزان کے پاس تلاش
کرنا میں نے عرض کی اگر میں میزان کے پاس بھی آپ کو نہ پاؤں تو ارشاد فرما یا: پھر مجھے حوضِ کوثر
کے پاس ڈھونڈنا کیونکہ میں ان 3 مقامات سے
ادھر ادھر نہ ہوں گا۔
مولانا حامد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
کبھی وہ گرتوں کو تھام لیں گے
کبھی وہ پیا سوں کو جام دیں گے
صراط و میزان حوض کوثر
یہیں وہ عالی مقام ہوگا
کل 3 اوصاف
بیان ہوچکے ۔
ایک اور جگہ قراٰن پاک میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصاف کا
بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا
حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا (پ 22 ،الاحزاب: 45)اس آیت میں قراٰن کریم نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی چند اوصاف بیان کی ہیں جن میں سے
(5)یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ
اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی)
بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور
خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ 22 ،الاحزاب: 45)تفسیر صراط الجنان میں شاہد کا ایک
معنیٰ ہوتا ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ کر نے والا اور ایک معنی یہ ہوتا ہے گواہ ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے یہاں حاضر و ناظر ترجمہ
فرمایا ہے اس کے بارے میں مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں شاہد کا
ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ہے اگر اس کا مطلب گواہی بھی کیا جائے پھر بھی وہ معنی
مراد ہوگا جو اعلیٰ حضرت نے کیا ہے کیونکہ گواہ کے لئے بھی شاہد ہونا ضروری ہوتا ہے ، چونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عالم کی طرف نبی بنا
کر بھیجے گئے ہیں اس لئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت تک ساری مخلوق
کے شاہد ہیں اور ان کے سارے اعمال و افعال و احوال کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔
(6) وصف بیان فرمایا (مُبَشِّرًا )یعنی خوشخبری دینے والا یعنی اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے ۔(صراط الجنان، پ 22 ، الاحزاب الآیۃ 45،46)
(7) فرمایا ( نَذِیْرًاۙ) یعنی ڈر سنانے والا ۔ صراط الجنان
میں ہے کہ کافروں کی طرف حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جہنم کے عذاب کا
ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔( صراط
الجنان، پ 22 ، الاحزاب الآیۃ 45،46)
(8) ( دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا ۔
اس حصہ میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا چوتھا وصف بیان فرمایا گیا ہے کہ اے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ کو خدا کے حکم سے لوگوں کی خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔حوالہ ( ایضا )
(9) اس آیت میں ارشاد فرما یا ( سِرَاجًا مُّنِیْرًا) اور چمکا دینے والا آفتاب ۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیسے چمکا دینے والے آفتاب ہیں کہ حضرت
مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں
ہزاروں آفتابوں ( سورج ) کو روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی ہے اور کفر و شرک
کے اندھیروں کو اپنے نور سے آپ نے دور
فرما دیا۔ گمراہ لوگوں نے آپ کے نورِ
نبوت سے روشنی پائی اور صراط مستقیم کی طرف آگئے ۔ حقیقت میں آپ کا وجودِ مبارک
ایسا آفتاب عالم ہے جس نے ہزار ہا آفتاب بنادئیے ( صراط الجنان، الاحزاب الآیۃ
45،46)
(10)قراٰن پاک میں ایک اور جگہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصف بیان
کیا گیا ہے ۔
اللہ پاک ارشاد فرما تاہے ( مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ)ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں ۔(پ26،الفتح:29)
صراط الجنان میں ہے کہ حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ
پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت سارے اوصاف میں سے اس کا ذکر
کیوں فرمایا اور کلمہ شریف میں بھی اسی وصف رسالت کو ذکر کیوں فرمایا؟ فرماتے ہیں
اس کی دو وجہ ہیں : (۱)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تعلق رب تعالیٰ کے
ساتھ بھی ہے اور مخلوق کے ساتھ بھی ہے اور لفظ رسول میں ان دونوں کا تذکرہ ہے یعنی
خدا کے بھیجے ہوئے اور مخلوق کی طرف بھیجے گئے ۔(۲)دوسرا اس پے کہ جس طرح ایک شہر
کا ڈاکیہ اور پورا ایک شعبہ ڈاک کا بنا
ہوتا ہے اگر یہ نہ ہو تو شہر اور ملک کٹ
جاویں یعنی یہ ڈاک کا شعبہ دو ملکوں دو شہروں کو ملا کر رکھتا ہے اسی طرح خالق و
مخلوق کے درمیان تعلق پیدا کرنے کے لئے رسول آتے ہیں اگر درمیان میں ان کا واسطہ
نہ ہو تو پھر خالق و مخلوق میں کوئی تعلق
ہی نہ رہے۔( صراط الجنان، سورۃ الفتح
الآیۃ 29)
(11)اللہ پاک نے قراٰن پاک میں حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بہت پیارا وصف بیان فرمایا کہ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔ (پ 29،القلم: 4)
یعنی اے محبوب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عظیم اخلاق پر ہیں ۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ کریمہ کیسے تھے احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :
(۱)ایک مرد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی ام المؤ منین حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ کریمہ کیسے تھے آپ نے ارشاد فرمایا: کیا
تم قراٰنِ کریم نہیں پڑھتے اس نے عرض کی کیوں کہ آپ نے ارشاد
فرمایا کہ ان کا اخلاق کریمہ قراٰن ہی ہیں۔
(۲)حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اعمال
کے کمالات پورےکرنے کےلئے مجھ کو بھیجا ہے۔ (صراط الجنان، القلم الآیۃ 4)
تیرے خلق کو حق نے عظیم کہا تیرے
خلق کو حق نے جمیل کیا