محمد طلحٰہ خان عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
خلفائے راشدین راولپنڈی پاکستان)
صفت سے مراد ایسے کلمات جن کے ذریعے کسی شخص کی اچھائی یا
برائی یا اس کی حالت و کیفیت کو بیان کیا جاتا ہو۔ اللہ پاک نے حضور نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ بابرکت کو بری صفات سے پاک رکھا اور اعلٰی
اوصاف سے زینت بخشی کہ جس نے بھی دیکھا تو کہہ اٹھا ” مَا اَرٰی
مِثلَہٗ قَبلَہٗ وَلَا بَعدَہٗ “ یعنی میں نے
آپ کی مثل پہلے دیکھا تھا نہ کبھی بعد میں دیکھ سکوں گا۔ اور صحابہ تو صحابہ خود
خالقِ سرورِ کائنات اپنے محبوب کی اعلٰی وعرفہ صفات، قراٰنِ پاک میں جگہ بہ جگہ
بیان فرماتا ہے، بلکہ قراٰنِ مجید خود آپ کی صفاتِ میں سے ایک صفت ہے، لیکن قراٰن
پاک میں موجود بہت ساری صفات میں سے 10 کو ذکر کیا جاتا ہے: (1)افضل الخلق : سب سے بڑی
صفت یہ عطا ہوئی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات کو تمام مخلوقات پر
فضیلت ملی کہ فرمانِ باری ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى
بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ ترجمۂ کنزالعرفان: یہ رسول ہیں ہم نے ان میں ایک کو
دوسرے پرفضیلت عطا فرمائی ،ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے
سب پر درجوں بلند ی عطا فرمائی۔(پ3،البقرة:253) تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ ہمارے
آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے اعلیٰ ہیں ، یہی اس آیت کا مضمون ہے اور
اسی پر تمام امت کا اجماع ہے۔( صراط الجنان،1/380)
(2)افضل امت: جس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیا و رسل سے افضل ہے اسی
طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت بھی تمام امتوں سے افضل ہے۔ جیسا کہ قراٰنِ
پاک میں ہے: كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ- ترجمہ
کنزالعرفان: (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی
گئی (پارہ:4، اٰلِ عمران:110)
(3)کل کائنات کے رسول: تمام انبیا و رسول کسی خاص خطے یا قوم کی طرف اور مخصوص وقت تک کے لیے مبعوث فرمائے جاتے تھے لیکن حضور سرورِعالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت تک کے لیے کل کائنات کے لوگوں کی طرف رسول بنا کر
بھیجے گئے جیسا کہ فرمانِ باری ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا
وَّ نَذِیْرًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اے محبوب!ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا
کر بھیجا ہے ۔(پ22، سبا:28)
(4) رحمت للعالمین: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رحمت بفضل اللہ تمام مخلوقات خواہ جن و
بشر، ملائکہ، حیوانات و جمادات وغیرہ، سب پر ہے کہ رب کا فرمان ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ
اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام
جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ17،الانبیاء:107)
(5)شفیق ومہربان: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی امت کے معاملے میں اتنے زیادہ فکر مند
رہتے ہیں کہ قراٰن مجید کہتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ
عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ
رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم
رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری
بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ (
پ11، التوبۃ:128 )
(6) خاتم النبیّین: یہ فیصلہ قراٰن مجید نے فرما دیا : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ
لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔ (پ22، الاحزاب:40) حضور
خاتم النبییّن ہیں، یعنی اللہ تعالٰی نے سلسلۂ نبوّت حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پر ختم فرما دیا ، کہ حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانہ میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ، جو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے زمانہ میں یا حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی کو نبوّت
ملنا مانے یا جائز جانے، کافر ہے۔(بہارِ شریعت، 1/63)
(7)اوصافِ کمالیہ کے جامع: فرمانِ باری ہے: اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ
اقْتَدِهْؕ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی۔ (پ7،
الانعام:90) تفسیر صراط الجنان میں ہے، علمائے دین نے اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت کیا
ہے کہ سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیاء علیہمُ السّلام سے افضل ہیں کیونکہ جو
شرف و کمال اور خصوصیات و اوصاف جدا جدا انبیاء علیہمُ السّلام کو عطا فرمائے گئے تھے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے سب کو جمع فرمادیا۔(صراط الجنان، 3/155)
(8)خدا چاہتا ہے رضائے محمد: تمام مکلِّفینِ شرع رضائے رب حاصل کرنا میں سخت تکالیف تک
برداشت کرتے ہیں اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصفِ اعلٰی یہ ہے کہ اللہ
پاک اپنے محبوب کی رضا چاہتا ہے، اور فرماتا ہے: وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔(پ30، الضحی:5)
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
(حدائق بخشش، ص49)
(9) منصبِ شفاعت: دنیا میں ہی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شفاعت کا حق ملا کہ
خداوندِ غفار نے ارشاد فرمایا: وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ
الْمُؤْمِنٰتِؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔ (پ26،
محمد:19)
(10) اطاعتِ رسول ہی اطاعتِ خدا: جو چاہتا ہے کہ خدائے ذوالجلال کی فرمانبرداری کرے، تو
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فرمانبرداری کرے کہ خدا کی رضا رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا میں ہے اور یہی اصولِ بندگی ہے جسے خدا
تعالٰی نے بھی بیان فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(پ5، النسآء:80)