پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! صفات صفت کی جمع ہے  صفت کا مترادف ایک لفظ خوبی بھی ہے اور ہم اگر کسی میں کوئی ایک دو صفت، خوبی دیکھ لیں تو ہم اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اس کی عزت کرتے ہیں نا چاہتے ہوئے بھی اس سے محبت کرتے ہیں اور اگر حلقہ احباب میں بھی بیٹھیں تو اس شخصیت کا ذکر کیے بغیر رہ نہیں سکتے۔ یہ تو ایک عام انسان کی بات ہے کہ جس کی ایک دو صفت یا خصوصیت دیکھ لیں تو اس کی تعریف کرتے ہوئے تھکتے نہیں تو پھر سیدِ عالم شاہِ موجودات شاہِ بنی آدم فخرِ موجودات اللہ پاک کے سب سے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عالم کیا ہوگا۔

ذات ہوئی اِنتِخاب وَصف ہوئے لاجواب

نام ہوا مُصطَفیٰ تم پہ کروروں درود

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! اللہ کریم نے اپنے پیارے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بے شمار صفات و خصوصیات سے نوازا ہے۔ اللہ نے اپنے پیارے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسی ایسی خوبیاں عطا فرمائی کہ کسی اور کو عطا نہیں کی۔(1)صفت اور خصوصیت میں معنوی اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں ۔(2) البتہ لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو صفت وہ کلمہ جو اسم کی تعریف یا خاصیت بیان کرتا ہے اور خصوصیت وہ وصف یا خوبی جو فرد واحد کی امتیازی حیثیت کو برقرار رکھے۔(3)کسی شئی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ بالخصوص اس میں پایا کسی غیر میں وہ وصف نہ پایا جائے۔

اللہ کریم نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسے ایسے وصف عطا اور ایسے باکمال خاصے عطا فرمائے کہ کسی اور کو ان کا حصول نہیں۔ اللہ پاک کے سب سے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفات بے شمار ہیں جن کا ذکر قراٰن عظیم میں بڑے احسن انداز میں بیان ہوا ہے۔ اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ کریمہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(1) وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو ۔ ( پ 29، القلم:4 )حضرت سعد بن ہشام رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں :میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے دریافت کیا: اے اُمُّ المؤمنین! رضی اللہُ عنہا، مجھے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَخلاق کے بارے میں بتائیے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: کیا تم قراٰن نہیں پڑھتے ؟میں نے عرض کی: کیوں نہیں ! تو آپ نے ارشاد فرمایا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خُلْق قراٰن ہی تو ہے۔( مسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب جامع صلاۃ اللیل... الخ، ص374، حدیث: 139)

(2) حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رؤف ہونے کے حوالے سے اللہ فرماتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ (پ11، التوبۃ:128)

تم ہو جَواد و کریم تم ہو رَؤف و رَحیم

بھیک ہو داتا عطا تم پہ کروروں درود

(3) اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نرم دل ہونے کے حوالے سے کیا خوب ارشاد فرمایا : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪- فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ-فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ(۱۵۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے تو آپ ان کو معاف فرماتے رہو اور ان کی مغفرت کی دعا کرتے رہو اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو پھر جب کسی بات کا پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو بیشک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔ ( پ 4، اٰلِ عمرٰن:159 ) اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پانچ اوصاف بیان فرمائے ہیں اور ان کے علاوہ ترش مزاج اور سخت دل نہ ہونا بھی بہت اچھے وصف ہیں۔

(4) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔ (پ22، الاحزاب:40) اس آیتِ کریمہ کے درمیان والے حصے میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے آخری نبی ہونا ثابت ہے اور یہ وصف کسی بھی نبی علیہ السّلام کو حاصل نہیں ہے۔

(5) وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ ترجمۂ کنز العرفان :اور محمد ایک رسول ہی ہیں۔(پ 4، اٰلِ عمرٰن: 144) اس آیت پاک میں اللہ پاک نے اپنے سب سے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رسالت کے وصف کو بیان فرمایا۔

فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ(۲۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اے محبوب!تم نصیحت فرماؤ تو تم اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہو، اور نہ ہی مجنون۔(پ 27، الطور:29)

(6) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ17،الانبیاء:107)

حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آنا یہ بھی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصف ہے۔ آپ کی بہترین خوبی ہے۔

(7) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(۵۶) ترجمۂ کنز العرفان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔ (پ 19، الفرقان:56) اس آیتِ مبارکہ میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو اوصاف کا ذکر ہوا ہے۔ حضور علیہ السّلام خوشخبری دینے والے بھی ہیں اور ڈر سنانے والے بھی۔

یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳) عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍؕ(۴) ترجمۂ کنز العرفان : یس۔ حکمت والے قراٰن کی قسم۔ بیشک تم رسولوں میں سے ہو۔ سیدھی راہ پر ہو۔(پ 22، یٰسٓ: 1تا 4)

(8) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(۲۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے اس کے لیے جو الله اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔(پ21،الاحزاب:21) اس آیت سے معلوم ہوا کہ حقیقی طور پر کامیاب زندگی وہی ہے جو تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نقش ِقدم پر ہو، اگر ہمارا جینا مرنا، سونا جاگنا حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نقش ِقدم پر ہو جائے تو ہمارے سب کام عبادت بن جائیں گے۔

(9) وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۲۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلمیں بن جاتے اور سمندر (ان کی سیاہی، پھر) اس کے بعد اس (پہلی سیاہی) کو سات سمندر مزید بڑھادیتے تو بھی الله کی باتیں ختم نہ ہوتیں بیشک الله عزت والا، حکمت والا ہے۔ (پ21،لقمٰن:27)مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اپنی تصنیف لطیف بنام شانِ حبیب الرحمن کے صفحہ 141 پر فرماتے ہیں:(مذکورہ بالا آیت میں لفظ کلمات ذکر ہوا ہے ) یعنی صفاتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام نہ ہوں ۔(شان حبیب الرحمن، ص 141)

(10) حضور تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصفِ علم کے بارے میں اللہ پاک اپنے پاکیزہ کلام میں کیا خوب ارشاد فرمایا: اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ(۲) ترجمۂ کنزالایمان : رحمٰن نے اپنے محبوب کو قراٰن سکھایا ۔ (پ27، الرحمٰن: 2،1) مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: سبحان اللہ، سکھانے والا رحمن، سیکھنے والا حبیب الرحمن، کتاب قراٰن پھر علمِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کیا پوچھنا، غرض کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر صفت و ہر کمال عظیم ہے۔(شان حبیب الرحمن، ص 141، 142)

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے

پر تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا