اللہ پاک کی عطا سے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صفات و کمالات اتنے کثیر ہیں کے ان کو شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے آقائے دو جہاں تمام اوصاف و کمالات وغیرہ کہ ایسے عظیم جامع ہیں کہ اللہ پاک نے آپ کا کوئی ثانی نہ پیدا فرمایا ۔ یاد رہے کہ (صفات) صفت کی جمع ہے جس کے معنی بیان فضائل ، گن باد وغیرہ کہ ہیں۔ اور خصوصیت کے معنی: خاص بات ، خاص صفت وغیرہ کہ ہیں۔

صفت اور خصوصیت میں فرق :(1) صفت کسی انسان کے ساتھ خاص نہیں ہوتی جیسے عالم ہونا، رنگ کا سفید ہونا وغیرہ

(2) جبکہ خاصیت کسی ایک انسان کے ساتھ خاص ہوتی ہے ۔جیسا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر تہجد کا فرض ہونا ۔دنیا میں دیدارِ الہی کا ہونا وغیرہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خاصیات میں سے ہیں۔

قراٰن کریم میں پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بےشمار صفات و کمالات مذکور ہیں۔

(1) حضور اکرم کو اللہ پاک نے معلم کائنات بنا کر مبعوث فرمایا ہے جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ترجمۂ کنز العرفان: اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے۔(پارہ1، البقرۃ: 129)آیت میں کتاب سے مراد قراٰن ہے اور اس کی تعلیم سے اس کے حقائق و معانی کا سکھانا مراد ہے اور حکمت میں سنت ، احکامِ شریعت اور اسرار وغیرہ سب داخل ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ پورا قراٰن آسان نہیں ورنہ اس کی تعلیم کے لیے حضور کو نا بھیجا جاتا۔ (صراط الجنان)

(2) حضور نبی کریم کے کسی بھی قول کا عبث ہونا ممکن و متصور ہی نہیں کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں فرماتے مگر جو فرماتے ہیں وحی الٰہی ہوتی ہے جیساکہ قراٰن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ کوئی بات خواہش سے نہیں کہتے۔ وہ وحی ہی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔ (پ27، النجم : 3،4)

(3) پیارے پیارے آقا مدینے والے مصطفی کی تعظیم و توقیر کرنا اللہ پاک نے تمام مؤمنین پر لازم فرما دی قراٰن کریم میں ارشاد باری ہے: وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ ترجمۂ کنز العرفان : اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو ۔(پ26،الفتح: 9 )

سرکارِ دو عالم کی ہر وہ تعظیم جو خلاف شرع نہ ہو، کی جائے گی کیونکہ یہاں تعظیم و توقیر کے لیے کسی قسم کی کوئی قید بیان نہیں کی گئی اب وہ چاہے کھڑے ہو کر صلوۃ و سلام پڑھنا ہو یا کوئی دوسرا طریقہ۔

(4) حضور نبی کریم رؤف الرحیم پر اللہ پاک نے کتاب و حکمت نازل فرمائی اور آپ علیہ الصلاۃ و السّلام کو دین کے امور اور شریعت کے احکام اور غیب کے وہ علوم عطا فرمائے جو آپ نہ جانتے تھے۔ اللہ پاک قراٰن میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(۱۱۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے۔(پ5، النسآء : 113)

(5) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وجود امت کے لیے محافظ ہے کہ اللہ پاک حضورِ اکرم کی برکت سے عذاب نازل نہیں فرماتا۔ جیساکہ قراٰن میں ارشادِ باری ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب! تم ان میں تشریف فرما ہو ۔(پ9،الانفال:33)

اس لئے کہ سورۃُ الانبیاء کی آیت 107 سے واضح ہے کہ حضور اکرم ( رحمۃ للعالمین ) بنا کر بھیجے گئے ہیں اور سنت الٰہیہ یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں اس کے نبی موجود ہوں ان پر عام بربادی کا عذاب نہیں بھیجتا جس سے سب کے سب ہلاک ہو جائیں اور کوئی نا بچے۔ ( صراط الجنان )

(6) سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مؤمنوں پر کرم کرنے والے اور مہربان ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ ( پ11، التوبۃ:128 )

(7) حضور علیہ الصلوۃ و السّلام تمام مؤمنوں کی جانوں کہ مالک ہیں اور ان کی ازواج مطہرات مؤمنوں کی مائیں ہیں۔ جیسا کہ قراٰن میں ہے: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ (پ21، الاحزاب: 33) اَوْلٰى ۔ کا معنی زیادہ قریب ، زیادہ حقدار ، زیادہ مالک کہ ہیں یہاں تینوں معنی درست ہیں۔ ( تفسیر صراط الجنان )

(8) حضورِ اکرم اللہ پاک کی معرفت کی دلیل ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک خود قراٰن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا(۱۷۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نورنازل کیا۔ (پ6،النسآء :174)

(9) رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رب کائنات نے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اللہ پاک قراٰن میں فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ ترجمۂ کنزالعرفان:اے حبیب!بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈر کی خبریں دینے والا بنا کر بھیجا ۔(پ1،البقرۃ : 119)

(10) حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خلقِ عظیم پر فائز ہے۔ اللہ پاک قراٰن میں فرماتا ہے : وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو ۔ ( پ 29، القلم:4 )