نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصاف و کمالات
کے متعلق مختصر تمہیدی کلمات: اللہ رب العزت نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدس ہستی کو تمام بنی نوع انسان کے
لیے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا۔ آپ کی مقدس شخصیت نہ صرف اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملانے اور بزم جہاں میں شمع ہدایت بن
کر آئی بلکہ آپ تمام بشری کمالات و محاسن کا مجموعہ اور سراپا حسن و جمال بن کر
تشریف لائے ۔ پیکرِ دل رُبا بن آئے، روحِ ارض و سما بن کر آئے ، رسول خدا بن کے
آئے، وہ حبیبِ خدا بن کے آئے ۔ آپ کو ربِّ کائنات نے چوں کہ انسانوں کی رہنمائی کے
لئے بھیجا اس لیے اللہ پاک نے آپ کو احسن تقویم کا شاہکار بنا کر بھیجا۔
یہ فطرتِ انسانی ہے کہ وہ جب بھی کسی ہستی یا شخصیت سے
متاثر ہو کر اس کا گرویدہ، مطیع یا شیدا ہوتا ہے تو اس کی بنیادی طور پر تین
بنیادی وجوہات ہوا کرتی ہے۔ اول:
کسی کی عظمت و رفعت اور فضیلت و کمالات کی وجہ سے اس سے متاثر ہو کر اس کا گرویدہ
ہوجاتا ہے اور اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا تابع و مطیع ہو جاتا ہے ۔
اس جہت سے اگر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ
بابرکات کو پیش نظر رکھا جائے تو آپ نبوت و رسالت کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز
دکھائی دیتے ہیں نبوت و رسالت کے تمام درجات ،کمالات، معجزات اور فضائل جو مختلف
انبیاء کرام کو اللہ رب العزت نے عطا کیے۔ وہ سب آپ میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں
بلکہ جو سب پیغمبروں اور رسولوں کو جدا جدا ملا، وہ میرے مصطفی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو یکجا ملا۔
اور دوسری خوبی جس کی وجہ سے انسان کسی سے متاثر ہوتا ہے۔
تو وہ اس کے اخلاق و کردار اور خصائص کی اعلیٰ خوبیاں ہیں۔ اگر کسی کے ہم پر بہت
زیادہ احسانات ہوں یا کوئی بے حد مہربان و غم گسار اور شفیق ہو تو بھی آپ اس کے
احسانات کی وجہ سے دل سے اس کی عزت و قدر کرتے ہیں اور نتیجتاً اس سے عقیدت و محبت
کرتے ہیں۔ تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات میں سب سے اعلیٰ اخلاق پر فائز
ذات مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہے جن کے اخلاق کے عظیم ہونے کی گواہی
خود اللہ پاک نے دی ۔
صفت کیسے کہتے ہیں؟ : خاص کیفیت ، فطرت
یا عادت جو کسی شخص میں ہو۔
صفت اور خصوصیت میں
فرق: صفت اور خصوصیت
میں فرق یہ ہے کہ صفت فطرت یا عادت جو کسی شخص یا اشیاء میں پائی جائے۔ جبکہ خصوصیت وہ عادت یا اخلاق جو انسان کے اندر
خاص طور سے پائی جائے۔
حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی صفات:۔
(1) وَ اِنَّكَ لَعَلٰى
خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔(پ29،القلم:4)(2) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے
جہان کے لیے۔(پ17،الانبیاء:107)
(3) لَقَدْ
مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ
بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا ترجمۂ کنز الایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں
پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا (پ4، آل
عمران:164) (4) قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ
اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) ترجمۂ
کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔(پ6،المائدۃ:15)
(5) یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ
دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں
بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر
سناتا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔ ( پ22،
الاحزاب:45،46 )(6) مَا زَاغَ الْبَصَرُ
وَ مَا طَغٰى(۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔(پ27،النجم:17)
(7) وَ مَا
یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳)اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی
جاتی ہے۔( پ27،النجم:4،3)(8) اِنَّ الَّذِیْنَ
یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ
اَیْدِیْهِمْۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو
اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔(پ26،الفتح:10)
(9) قَدْ
نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً
تَرْضٰىهَا۪ ترجَمۂ کنزُالایمان: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا
آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری
خوشی ہے۔(پ2،البقرۃ:144)(10) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے
والے (نبی) کی آواز سے۔(پ26،الحجرات: