خلافِ واقعہ بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں اور سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا تھا۔

1) حدیث میں فرمایا : جھوٹی گواہی دینے والا وہاں سے قدم ہٹا نہیں پاتا کہ اللہ پاک اس کے لئے جہنم واجب فرما دے گا۔

2)جھوٹ بولنا حرام ہے اور اس پر درد ناک عذاب کی وعید ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس سے بچنے کی کوشش کرے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سچائی کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی بر ابر سچ بو لتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ الله کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے۔ آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتاہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک وہ الله کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔

3) حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جھوٹا دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل جائیگا۔دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مكتبۃ المد ینہ کی مطبوعہ 312 صفحات پر مشتمل کتاب بہار شریعت حصہ 16 صفحہ 159 تا 160 پر ہے: ابو داود و بیہقی نے عبد الله بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی،کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمارے مکان میں تشریف فرما تھے۔میری ماں نے مجھے بلایا کہ آؤ میں تمہیں دوں گی۔ حضورﷺ نے فرمایا: کیا چیز دینے کا ارادہ ہے ؟ انھوں نے کہا: کھجور دوں گی۔ ارشاد فرمایا: اگر تو نہ دیتی تو یہ ترے ذمے جھوٹ لکھا جاتا۔

4) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے اس کے لیے جنت کے کنارے ایک مکان بنایا جائیگا۔

دیکھا آپ نے! بچوں کے ساتھ بھی جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں۔ افسوس ! آج کل بچوں کو بہلانے کیلئے اکثر لوگ جھوٹ موٹ اس طرح کہہ دیا کرتے ہیں کہ تمہارے لئے کھلونے لائیں گے،ہوائی جہاز لا کر دیں گے وغیرہ۔ اسی طرح ڈرانے کیلئے اکثر مائیں بھی جھوٹ بول دیا کرتی ہیں کہ وہ بلی،کتا آرہا ہے وغیرہ۔ جن لوگوں نےایسا کہا ہے انہیں چاہئے کہ سچی توبہ کریں۔

جھوٹ کبھی عزت نہیں پاتا اگرچہ اس کی پیشانی پر چاند نمودار ہو جائے اور سچ کبھی ذلیل نہیں ہوتا چاہے سارا زمانہ اس پر قہقہے لگائے۔

5) حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ نبیﷺ کی خدمت میں کھا نا لایا گیا تو حضورﷺ نے ہم پر پیش فرمایا:ہم نے عرض کی: ہم کو خواہش نہیں۔فرمایا: بھوک اور جھوٹ جمع نہ کرو۔( ابن ماجہ،حدیث:4417 )

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جھوٹوں میں سے بد ترین جھوٹ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی آنکھوں کو وہ دکھائے جو اس نے نہیں دیکھا۔ (بخاری)


جھوٹ اللہ پاک کو بہت نا پسند ہے۔جھوٹ گناہ کبیرہ ہے۔جھوٹ بولنے والا جہنم میں داخل ہوتا ہے۔ الغرض جھوٹ کے بہت سے نقصانات ہیں۔

جھوٹ کی تعریف :کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا۔قائل گنہگار اس وقت ہوگا جبکہ(بلاضرورت ) جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔ ( حديقہ ندیہ،2/200)

کہاں جھوٹ بولنا جائز ہے ؟ تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ اسی طرح جب ظالم ظلم کرنا چاہتا ہو اس کے ظلم سے بچنےکے لئے بھی جائز ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دو مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے اور یہ ان دونوں میں صلح کرانا چاہتا ہے مثلاًایک کے سامنے یہ کہہ دے کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے اور تمہاری تعریف کرتا ہے یا اس نے تمہیں سلام بھیجا ہے اور دوسرے کے پاس بھی اسی قسم کی باتیں کرے تاکہ دونوں میں عداوت کم ہوجائے اور صلح ہو جائے۔تیسری صورت یہ ہے کہ بی بی کی خوشی کے لئےکوئی بات خلافِ واقع کہہ دے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان اصلاح کرتا ہے،ا چھی بات کہتا ہے اور اچھی بات پہنچاتا ہے۔

ترمذی نے اسماء بنت یزیدرضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :جھوٹ نہیں مگر تین جگہوں میں:مرد اپنی عورت کو راضی کرنے کے لئے بات کرے اورلڑائی میں جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان میں صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنا،جیسے اچھے مقصد کو سچ بول کر بھی حاصل کیاجاسکتا ہے اور جھوٹ بول کر بھی حاصل کر سکتا ہو تو بعض صورتوں میں کذب بھی مباح ہے بلکہ بعض صورتوں میں واجب ہے۔جیسے بے گناہ کو ظالم شخص قتل کرنا چاہتا ہے یا ایذا دینا چاہتا ہے،وہ ڈر سے چھپا ہوا ہے۔ ظالم نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے ؟ یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں۔ اگر چہ جانتا ہو یا کسی کی امانت اس کے پاس ہے یا کوئی اسے چھیننا چاہتا ہے جوپوچھتا ہے کہ امانت کہاں ہے ؟ یہ انکار کر سکتا ہے کہ میرے پاس اس کی امانت نہیں۔ اگر سچ بولنے میں فساد پیدا ہوتا ہو تو اس صورت میں بھی جھوٹ بولنا جائز ہے۔

جھوٹ کے متعلق فرمان باری:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ0ترجمہ کنز الایمان:بے شک اللہ راہ نہیں دیتا جو حد سےبڑھنے والا جھوٹاہو۔(پ24،المومن:28)

جھوٹ کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ :

(1) بے شک جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اوربے شک فسق و فجور جہنم تک لے جاتا ہے اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب (بہت بڑاجھوٹا)لکھ دیا جاتا ہے۔ (یہ حدیث پاک بخاری ومسلم دونوں میں ہے۔)

(2)حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔ جب اس کےپاسں کوئی امانت رکھوائی جائے توخیانت کرے۔ ( یہ حدیث پاک بخاری و مسلم میں ہے)

(3)حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :جس نے وہ خواب بیان کیا جو دیکھا نہیں تھا تو اسے بروز قیامت اس بات کی تکلیف دی جائے گی کہ وہ جو کے دانے کے برابر درمیان میں گرہ لگائے اور وہ ہرگز ایسا نہ کر سکے گا۔ (اس حدیث پاک کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے )

(4) حضور ا کرمﷺ نے ارشاد فرمایا :بلا شبہ بدترین جھوٹ وہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں کو وہ دکھائےجو انہوں نے نہ دیکھا ہو۔ ( اس حدیث کو بھی امام بخاری نےروایت کیا ہے)

(5) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جھوٹ اور خیانت کے علاوہ مومن کی طبیعت میں ہربات ہوسکتی ہے۔ (یہ حدیث دو ضعیف اسناد کے ساتھ مروی ہے)

جھوٹ بولنے کے معاشرتی نقصانات :جھوٹ بولنے کے بہت سے معاشرتی نقصانات ہیں:جھوٹ بولنے والے کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی۔جھوٹ بولنے والے پر لوگ اعتماد نہیں کرتے اور جھوٹا بندہ جب کوئی خبر دیتا ہےتو اگرچہ وہ سچی ہی کیوں نہ ہو کوئی اس پر یقین ہی نہیں کرتا۔

جھوٹ کی چند مثالیں: (1)کسی نے گالی دی نہ ہی مارا پھر بھی کہنا کہ اس نے مجھے گالی دی یا مارا ہے۔ (2) بھوک ہونے کے باوجو و من پسند چیز نہ ہونے کی وجہ سے کہنا کہ مجھے بھوک نہیں (3)رات بجلی چلی گئی تھی اس لئے سبق یاد نہیں کیا(جبکہ یاد نہ کرنے کا سبب سستی یا کھیل کود یا کچھ اور تھا) (4)درد نہ ہونے کے باوجود ماں باپ یا استاد سے کہنا کہ میرے پیٹ میں درد ہورہا ہے۔(5)معمولی سی کھانسی یا ہلکا سابخار ہونے کے باوجود امی یا ابو کی ہمد ردیاں یا اور دوسرے لوگوں کی ہمدردیاں لینے کے لئے ان کے سامنےجان بوجھ کر زور زور سے کھانسنا یا ان کے سامنےآ۔اوکی آواز نکالنا تاکہ یہ سمجھیں کہ طبیعت بہت خراب ہے(یہ اعضاء کا جھوٹ ہے) ہمیں ہر چھوٹے بڑے ہر طرح کے گنا ہوں بھرے جھوٹ سے ہر دم بچتے رہنا چاہیے۔جیسا کہ ہم نے پڑھا کہ جھوٹ بولنے کے دنیا میں بھی نقصانات ہیں اور آخرت میں بھی اس کے کئی عذابات ہیں۔ جھوٹ بولنے والے سے اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ بھی ناراض ہوتےہیں۔ اور دنیا میں بھی کوئی جھوٹے شخص سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ ہمیں اپنی ہر بات میں جھوٹ سے بچنا چاہیے۔ سچ سچ اور صرف سچ بولنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں ہر حال میں جھوٹ سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاه خاتم النبیین ﷺ


کسی چیز کو اس کی حقیقت کے برعکس بیان کرنا جھوٹ ہے۔(دلچسپ معلومات،حصہ1،ص 201)

جھوٹ کے معنیٰ ہیں سچ کا اُلٹ۔(فرض علوم سوم،ص691)

جھوٹ کی مذمت پر 05 فرامینِ مصطفیٰ :

1) جھوٹ انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔

2) جھوٹ انسان کو رسوا کر دیتا ہے۔

3) جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔

4) جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ الله پاک اس کیلئے جہنم واجب کردے گا۔

5) جھوٹا خواب سنانے والے کو جو کے دو دانوں میں گانٹھ لگانے کے تکلیف دی جائے گی جو وہ نہیں کر سکے گا۔ اور ایک حدیث پاک میں جھوٹا خواب گھڑ کر سنانے والے کو جنت کی خوشبو سے محرومی کی وعید سنائی گئی ہے۔(دلچسپ معلومات،حصہ 1،ص 209 تا 212)

پہلا جھوٹ کس نے بولا ؟سب سے پہلے جھوٹی قسم ابلیس نے کھائی۔

05 احادیث شرح کیساتھ

(1) روایت ہے حضرت صفوان بن سلیم سے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔پھر عرض کیا گیا :مومن کنجوس ہو سکتا ہے ؟فرمایا: ہاں۔ پھرعرض کیا گیا: کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ فرمایا نہیں۔(مالک،بیہقی،شعب الایمان)

شرح: آپ تابعین میں سے ہیں نہایت متقی پرہیزگار تھے۔یعنی مسلمان میں فطری طور پر بزدلی یا کنجوسی ہوسکتی ہے کہ یہ عیوب ایمان کے خلاف نہیں لہٰذا مومن میں ہو سکتے ہیں۔ کذاب فرما کر اس طرف اشارہ ہے کہ مومن گا ہے بہ گا ہے جھوٹ بول لے تو ہو سکتا ہے مگربڑا جھوٹا ہونا،جھوٹ کا عادی ہونا مومن ہونے کی شان کے خلاف ہے۔

(2) روایت ہےحضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہاسے فرماتی ہیں: فرمایارسول اللہ ﷺ نے:جھوٹاوہ نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرادے اورکہے خیر بات اورانہیں پہنچائے خیر بات۔ (مسلم بخاری )

شرح:یہ ام کلثوم بنت رسول الله نہیں بلکہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ہیں۔یعنی جو مسلمان دو لڑے ہوئے مسلمانوں کے درمیان جھوٹی خبریں پہنچا کر ان میں صلح کرادے تو وہ گنہگا رنہیں اور یہ جھوٹ گناہ نہیں۔ خیال رہے کہ چند صورتوں میں جھوٹ جائز ہے۔ ان میں سے ایک تو یہ،دوسرے کسی کا جان و مال محفوظ کرنے،دشمن سے بچانے کیلئے جھوٹ بولنا بلکہ بعض جگہ جھوٹ عبادت ہے جیسے کسی متقی پرہیزگار کا اپنے کو گناہگار کہنا عبادت ہے۔

(3) روایت ہےبہزبن حکیم سےوہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی فرماتے ہیں :فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے کہ خرابی ہے اس کیلئے جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس سے قوم کو ہنسائے۔ اس کے لیے خرابی ہے۔ اس کے لیے خرابی ہے۔(احمد،ترمذی ابودود،دارمی)

شرح:بہز بن حکیم ابن معاویہ ابن حیدہ قشیری بصری تا بعی ہیں۔ لوگوں کو ہنسانے کے لیے تو جھوٹ بولنا ہمیشہ ہی جرم بلکہ ڈبل جرم مگر لوگوں کو ہنسانے کیلئے سچی بات کہنا اگر کبھی کبھی ہو تو جرم نہیں۔ خوش طبعی اچھی چیز ہے مگر اس کا عادی بن جانا گناہ ہے۔ کسی پریشان یا مغموم کو ہنسا دینے کے لیے اچھی وسچی دل لگی کی بات کہہ دینا ثواب ہے۔ ویل کے معنی ہیں: خرابی /افسوس۔دوزخ کے ایک طبقہ کا نام بھی ویل ہے،یہاں بمعنی خرابی تین بار ویل فرمانے میں اس جانب اشارہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے دنیا میں بھی خرابی ہے برزخ میں بھی آخرت میں بھی۔

(4) روایت ہے حضرت سفیان ابن اسد حضرمی سے فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ بری خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کرے جس میں تجھے سچا سمجھتا ہو اور تو اس میں جھوٹا ہے۔ (ابو داود)

شرح یعنی جھوٹ بہر حال برا ہے مگر اس شخص سے جھوٹ بولنا جو تمہیں سچا سمجھتا ہو تم پر اعتما کرتا ہو یہ بہت ہی برا ہے کہ اس میں جھوٹ بھی ہے اور دھوکا فریب بھی یوں ہی الله رسول سے جھوٹ بولنا بڑا ہی جرم ہے کہ یہ جھوٹ بھی ہے بے حیائی بے غیرتی بے شرمی بھی،الله پاک اپنا خوف اپنےحبیب ﷺکی شرم نصیب کرے کہ یہ دو چیزیں ہی گناہوں سے بچاتی ہیں۔

(5) روایت ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں: فرمایا رسول اللہﷺنے کہ مومن تمام خصلتوں پر پیدا کیا جاسکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔(احمد،بیہقی،شعب الایمان)

شرح: خلال سے مراد بری عادتیں ہیں۔ پہلی صورت میں معنی یہ ہیں کہ جھوٹ اورخیانت ایسی بری عادتیں ہیں کہ کسی مومن میں یہ دونوں چیزیں اصلی پیدائشی نہیں ہو سکتیں اگر کوئی مومن جھوٹا یا خائن ہوگا وہ عارضی طور پر ہوگا کہ جھوٹوں خائنوں کی محبت میں رہ کر یہ جھوٹایا خائن بن جائے گا اس کے علاوہ اور عیوب مومن میں پیدائشی ہو سکتے ہیں۔دوسری صورت میں یہ معنی ہیں کہ مومن کو چاہیے کہ جھوٹا یا خائن عادۃً نہ بنےان عیبوں کی عادت نہ ڈالے یہ تو اس کی شان کے خلاف ہیں۔ (مراٰة المناجیح)

جھوٹ کی پانچ مثالیں :(1)کوئی چیز خریدتے وقت اس طرح کہا کہ مجھے فلاں سے اس سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے۔ (2) اسی طرح بائع (Seller) کا زیادہ رقم کمانے کیلئے قیمت خرید (Purchas price) زیادہ بتانا۔(3)جعلی یا ناقص دواؤں سےشفا کا گمان غالب نہیں ہے ان کے بارے میں اس طرح کہنا سو فیصدی شرطیہ علاج یہ جھوٹا مبالغہ ہے۔ (فرض علوم سیکھئے،ص591)(4)رات بجلی چلی گئی تھی اس لئے سبق یاد نہیں کر سکا( جبکہ یاد کرنے کاسبب سستی،کھیل کود یا کچھ اور تھا)(5) درد نہ ہونے کے باوجود اُستاد سے کہنا: میرے پیٹ میں درد ہورہا ہے مجھے چھٹی دے دیجیئے۔ (جھوٹا چور،ص24۔25)

جھوٹ کا حکم:جھوٹ بولنا گناہ اورجہنم میں لے جانے والا کام ہے۔جھوٹ کامعصیت(گناہ)ہوناضروریات دین سے ہے۔لہٰذا جو اس کے گناہ ہونے کا مطلقا انکار کرےدائرہ اسلام سے خارج ہو کر کافر و مرتد ہو جائے گا۔ (فرض علوم سیکھئے،600)

حکایت :جھوٹ بولنے والوں کے بچے سؤر بن گئے!حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس بہت سے بچے جمع ہو جاتے تھے آپ انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے۔ تمہارے گھروالوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے۔ فلاں چیز تمہارے لیےبچا کر رکھی ہے۔ بچے گھر جاتے روتے اور گھر والوں سے وہ چیز مانگتے گھر والے وہ چیز دیتے اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا ہے؟ کہتے؟ (حضرت) عیسیٰ علیہ السلام نے۔ تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ کے پاس آنے سے روکا اور کہا کہ وہ جادو گرہیں۔ (معاذ الله)،اُن کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کر دیا۔ حضرت عیسی علیہ السلام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: وہ یہاں نہیں ہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے؟ لوگوں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا: یہ تو (بچے نہیں) سؤر ہیں۔فرمایا: ایسا ہی ہوگا۔ اب جو دروازہ کھولا تو سب سؤر ہی سؤر تھے۔

جھوٹا دوزخ کے اندرکتے کی شکل میں:بے شک اللہ پاک غیب اور چھپی ہوئی چیزوں کا جاننے والا ہے وہ جسے چاہتا ہے اُسے غیب اور چھپی ہوئی چیزوں کا علم دیتا ہے جبھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام گھرمیں چھپائی ہوئی چیزوں کے بارے میں بچوں کو خبر دے دیتے تھے۔ اس حکایت سےہمیں یہ بھی درس ملا کہ جھوٹ بہت خراب چیز ہے۔ لوگوں نے جھوٹ بولا تو گھر میں چھپے ہوئے ان کے بچے بدلے میں خنزیر یعنی سؤر بن گئے۔

حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جھوٹا دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل جائے گا۔حسد کرنے والا جہنم میں سؤر کی شکل میں بدل جائے گا اور غیبت کرنےوالا جہنم میں بندر کی شکل میں بدل جائے گا۔ (جھوٹا چور،ص8تا11)

حدیث مبارکہ میں کن مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت ہے؟

(1) جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکا دینا جائز ہے۔(2) دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانےاور(3)اپنی بیوی کو راضی کرنے کیلئے(ان صورتوں میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے)(دلچسپ معلومات،ص11،حصہ: 1)

حدیث مبارک میں منافق کی نشانیاں:جب بات کرے جھوٹ بولے۔جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔ جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب جھگڑا کرے تو گالی دے۔ ( دلچسپ معلومات،ص 210،حصہ: 1)

جھوٹی بات پر کہنا: اللہ جانتاہے میں سچی ہوں!

حکم:کسی بھی جھوٹی بات پر اللہ پاک کو گواہ بنانا یاجھوٹی بات پر جان بوجھ کر یہ کہنا کہ اللہ جانتا ہے یہ کلمہ کفر ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں: جو شخص کہے :اللہ پاک جانتا ہے کہ یہ کام میں نے کیا ہے حالانکہ وہ کام اس نےنہیں کیا ہے تو اس نےکفر کیا۔(کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص 581)

جھوٹ بولنے کے اسباب: (1)مال کا مرض:خرید و فروخت میں رقم بچانے یا زیادہ مال کمانے کیلئے جھوٹ بولنا عام پایا جاتا ہے۔(1) مبالغہ آرائی بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی عادت : ایسے افراد حد سے بڑھ کر جھوٹی مبالغہ آرائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔آج کل اشیا کی مشہوری( Advertisement) میں اس طرح کی جھوٹی مبالغہ آرائی عام ہے۔(3)حب مدح یعنی اپنی تعریف کی خواہش: ایسے لوگ اپنی واہ واہ کیلئے جھوٹے واقعات بیان کرتے رہتے ہیں۔(4)فضول گوئی کی عادت(5)آج کل مروتاً جھوٹ بولنا بھی عام پایا جاتا ہے مثلاً کسی نے سوال کیا: ہمارے گھر کا کھاناپسند آیا؟ تو مروت میں آکر کہہ دیا: جی۔ بہت پسند آیا۔ حالانکہ واقع میں اس کو کھانا پسند نہیں آیا تھا تو یہ بھی جھوٹ ہو گا۔(فرض علوم سیکھئے،ص692)

جھوٹ چھوڑنے والےکے لئےحدیث پاک میں خوش خبری:حضور ﷺ کا فرمانِ جنت نشان ہے:جس نے باطل جھوٹ بولنا چھوڑ دیا اس کے لئے جنت کے کنارے پر مکان بنایا جائے گا۔(دلچسپ معلومات،حصہ1،ص 210)

فرمانِ مصطفٰے: جھوٹ میں کوئی بھلائی نہیں۔(جھوٹا چور،ص 21)

جھوٹ سے بچنے کے طریقے : (1)جھوٹ کی دُنیوی اور اُخروی تباہ کاریوں پر غور کیجیئے مثلاً جھوٹے سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔ اس پر سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ جھوٹے پر لعنت کی گئی ہے اور جھوٹا دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل دیا جائے گا۔ اس طرح غوروفکر کرتے رہنے سے ان شاء الله سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کا ذہن بنے گا۔ (2) زبان کا قفل مدینہ لگاتے ہوئے صرف ضرورت کی بات ہی کیجئے اور بے جا بولتے رہنے کی عادت سے چھٹکارا حاصل کیجئے۔(3)مبالغہ کرنے کی عادت بھی ختم کیجئے اور بولنے سے پہلے سوچنے کی عادت اپنائیے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات،ص 23 تا 29)

نوٹ : جھوٹ کے متعلق مزید معلومات کے لئے بہار شریعت،حصہ 3ص 515 تا519 کا مطالعہ کیجئے۔

دعا:الله پاک ہمیں جھوٹ سے بچتے ہوئے ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ


جھوٹ بولنا گناہ اور بد ترین برائی ہے۔ تمام بری خصلتوں میں سے ایک خصلت جھوٹ ہے چاہے زبان سے ہو یا عمل سے کیا جائے ہر صورت میں قابلِ مذمت ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو اب اس حد تک عام ہو چکا ہے کہ جھوٹ برائی بھی تصور نہیں کیا جاتا۔جھوٹے کی ہرمذہب والا برائی کرتا ہے۔ جھوٹ کئی برائیوں کو اپنے اندر جمع کر لیتاہے۔جھوٹا اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ جھوٹ حد سے زیادہ بولنے والا لوگوں کے نزدیک ذلیل ہوتا ہے۔

تعریف:جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے خلاف کوئی بات کہنا۔

آیت مبارکہ: جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے۔

جھوٹا گمراہ ہوجاتا ہے۔ خدا جھوٹ سے بچائے ! آمین

پہلا جھوٹ کس نے پربولا ؟حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ابلیس مردود ٹھہرا اس لیے وہ بدلہ لینا چا ہتا تھا۔ جب اللہ کریم نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا:جنت میں رہو اورجہاں سے مرضی وہاں سے کھاؤ! البتہ اس درخت کے قریب نہ آنا۔ پس شیطان نے قسم کھائی: میں تمہارا خیر خواہ ہوں!پس آپ نے سوچا:خدا کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے ! اس لیے بی بی حوا نے اس میں سے کھا لیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو دیا تو انھوں نے بھی کھا لیا۔

مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں :ابلیس نے جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدم علیہ السلام کودھوکا دیا۔ پہلا جھوٹی قسم کھا نے والا ابلیس ہے۔ آدم علیہ السلام کوگمان بھی نہیں تھا کہ اللہ کی کوئی جھوٹی قسم بھی کھا سکتا ہے۔ اس لیے شیطان کا اعتبار کر لیا تھا۔

5 احادیث آسان شرح کے ساتھ:

حدیث میں منافق کی 3 نشا نیاں ہیں: (1)ایک یہ کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔(76 کبیرہ گناہ)(2) حدیث میں ہے:کذب نفاق کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔(احیاء العلوم،جلد 3)(3)فرمایا:ہلاکت ہے اس کو جو بات کرے اور جھوٹ بولے تا کہ لوگ ہنسیں۔ (احیاء العلوم،جلد 3)(4) فرمایا: جھوٹ مت بولنا کہ وہ چڑ یا کے گوشت کی طرح مزیدار تو ہوتا ہے مگر تھوڑی سی بات میں متکلم کو اس کی برائی معلوم ہو جاتی ہے۔ پوچھا گیا: ایک دفعہ کے جھوٹ سے بھی آدمی جھوٹا کہلاتا ہے؟فرمایا: ہاں۔

شرح :پہلی حدیث میں جھوٹ منافقوں کا طریقہ بتا یا گیا۔دوسری میں نفاق کا دروازہ،تیسری میں جھوٹ بولنے والے کی بلاکت بیان ہوئی۔چوتھی میں تھوڑی دیر کے لیے جھوٹ مزہ دیتا ہے پھر سب متکلم پر برائی ظاہر ہو جاتی ہے۔ پانچویں میں ایک دفعہ کے جھوٹ سے بھی جھوٹا بن جاتا ہے۔ معلوم ہوا! جھوٹ ہر حالت میں خسارے کا سبب ہے۔ اگر جھوٹ کو چھوڑ دیں تو تقریبا برائیاں ختم ہوسکتی ہیں۔احادیث میں جھوٹ بولنے کی کئی مذمتیں بیان ہوئی ہیں۔ زیادہ دیر تک جھوٹ چھپا نہیں رہ سکتا۔ منافق ہربات میں جھوٹ بولتا ہے حتی کہ دین کےمعاملے میں۔

جھوٹ کی چند مثالیں:(1)ایک دکاندار سے کہنا :وہاں اس سے کم قیمت تھی۔ حالانکہ واقعی ایسا نہیں تھا۔(2) اساتذہ سے کہنا: گھر سے یاد کیا حالانکہ گھر سے یاد نہیں کیا۔(3) بائع کا کمانے کے لیے قیمت خرید سے زیا دہ بتانا۔(4) نقلی دوا ئیں جن سے شفا کا گمان نہ ہوکہنا کہ سوفیصدی شرطیہ علاج۔ (ظا ہری گنا ہوں کے با رے میں معلومات)

چند معا شرتی نقصانات: (1)لوگوں کے نزدیک ذلیل ہوتا ہے۔(2) لوگ اس یر اعتماد نہیں کرتے۔ (3) اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتے(4) جھوٹے کی ہر کوئی بے عزتی کرتا ہے۔ (5)جھوٹا اگر کبھی سچ بول بھی رہا ہو تو لوگ اس پر یقین نہیں کرتے۔


بروز قیامت بندے کے ہر عمل کا حساب ہوگا۔اس کی نیکی پر ثواب اور گناہ پر عذاب دیا جائے گا۔ اس سخت پریشانی کے وقت سب سے زیادہ ہلاکت میں جھوٹا شخص ہو گا۔جُھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے برعکس کوئی بات کی جائے۔(حدیقہ ندیہ،2/400) جھوٹ نہ صرف ایک اخلاقی برائی ہے بلکہ ایک گناہ کبیرہ اور تمام گناہوں کی جڑ ہے۔یہ وہ امر ہے جو ہر مذہب میں مذموم سمجھا جاتا ہے چنانچہ جھوٹ بولنے کی ممانعت قرآن پاک میں یوں بیان ہوئی: وَاجْتَنِبُوْاقَوْلَ الزُّوْرِ(الْحج:30) ترجمہ کنزالایمان: اور بچو جھوٹی بات سے۔ اس کےحوالے سے کثیر احادیث وارد ہوئی ہیں۔ جن میں سے 5 درج ذیل ہیں :

1۔ جُھوٹ بولنا مُنافِق کی عَلامتوں میں سے ایک نِشانی ہے۔( مسلم،ص50،حدیث:106)

2۔جھوٹ بولنے والےقِیامت کے دن،اللہ پاک کے نزدیک سب سے زِیادہ ناپسندیدہ اَفراد میں شامِل ہوں گے۔(کنز العمال،16،/36،حدیث: 44037)

3۔جُھوٹ ایمان کے مُخالِف ہے۔ (مسندامام احمد،1/22،حدیث: 16) چنانچہ ایک حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں کہ مسلمان میں بزدلی یا کنجوسی فطری طورپرہوسکتی ہے کہ یہ عُیوب اِیمان کے خِلاف نہیں،لہٰذا مؤمن میں ہوسکتے ہیں۔ (ہاں!) مگر بڑا جھوٹا،ہمیشہ کا جھوٹا ہونا،جھوٹ کا عادی ہونا مؤمن ہونے کی شان کے خِلاف ہے۔(مراٰۃ المناجیح،6/477)

4۔ جھوٹ سے بچو،کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم،ص1405،حدیث:2607)

حدیثِ پاک میں فرمایا گیا کہ بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اسے کذّاب (بہت زیادہ جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے یعنی اس کے لئے یہ حکم کر دیا جاتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے،فرشتوں پر اس کا جھوٹا ہونا ظاہر کردیا جاتا ہے اور زمین والوں کے دلوں میں بھی یہ بات ڈال دی جاتی ہے۔ (گناہوں کا سفیر،ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021)

5۔جب بندہ جُھوٹ بولتا ہے،اس کی بَدبُو سے فِرِشتہ ایک مِیْل دُور ہوجاتا ہے۔ (ترمذی،3/392،حدیث:1979)

اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے تو وہ کئی گناہوں سے بچ سکتا ہے۔عام طور پر دکان دار اپنے مال کو بیچنے کے لیے کہتا ہے کہ ہماری خرید ہی یہ ہے،خریدار کہتا ہے کہ یہ تو فلاں اتنے کا دے رہا ہے تاکہ دام کم کرواسکے،یہ بھی جھوٹ ہے۔جھوٹ کے حوالے سے بہت مشہور محاورہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس لئے وہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا آخر کار سچ سامنے آ ہی جاتا ہے اور اس صورت میں ایک جھوٹ بولنے سے آج تو وہ بچ سکتا ہے مگر کل دنیا میں نا صرف جھوٹ کے سبب سچ بولنے کی نسبت زیادہ ذلت اٹھانی پڑے گی بلکہ آخرت میں اس گناہ کبیرہ کے سبب الگ ہلاکت ہوگی۔ جھوٹ بولنے سے کام بنتے نہیں بگڑتے ہیں اس لیے ہمیں ہمیشہ سچ بولنا چاہیے کیونکہ سچ بولنے سے کام بگڑتے نہیں بن جاتے ہیں اور اس شخص کو اللہ پاک پسند فرماتا ہے جو سچ بولتا ہے۔ گر آپ میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے تو اُسے چھوڑ دیجئے اور سچی توبہ کرلیں۔اللہ پاک ہمیں جھوٹ جیسے گناہ سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن ﷺ


جھوٹ ایسی بری عادت ہے جو تمام ادیان میں حرام ہے اور تمام مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں۔ اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید فرمائی۔ اللہ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس کی مذمت فرمائی۔ حضورﷺ نے متعدد احادیث میں اس کی برائی فرمائی۔جھوٹ ایک ایسا مرض ہے جو ایمان کو کمزور اور ناتواں کرتا چلا جاتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا شخص اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے اور جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔

جھوٹ کی تعریف: کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا۔ ( حدیقہ ندیہ،2/200)

کئی احادیث میں جھوٹ بولنے کی مذمت کی گئی ہے۔جیساکہ

1۔حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللهﷺ فرماتے ہیں:صدق کو لازم پکڑ لو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے حتی کہ رب کریم کے نزدیک وہ صدیق لکھ دیا جاتا ہے ہے اور جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اورفجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ اللہ پاک کے نزدیک وہ کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم،ص1008،حدیث:2607)

2۔حضرت عبد الله بن عمررضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا : جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بو سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔(جامع الترمذی،ص 484،حدیث:1972)

3۔بارگاہِ رسالت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول الله ﷺ! جہنم میں لے جانے والا عمل کونسا ہے؟ فرمایا: جھوٹ بولنا۔جب بندہ جھوٹ بولتا ہے توگناہ کرتا ہے،جب گناہ کرتا ہے تو ناشکری کرتا ہے،جب ناشکری کرتا ہے توجہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔(مسند امام احمد،2/589،رقم:6652)

4۔حضور عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: جس میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہےحتی کہ وہ اسے چھوڑ دے !(1)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے(2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے(3)جب وعدہ کرے تو وعدہ پورا نہ کرے(4) جب جھگڑاکرے تو گالی دے۔ (بخاری،ص25،حدیث:34)

شرح: نفاق کا لغوی معنی باطن کا ظاہر کے خلاف ہونا ہے۔ اگر اعتقاد اور ایمان کے بارے میں یہ حالت ہو تو اسے نفاق کفر کہتے ہیں اوراگر اعمال کے بارے میں ہو تو اسے نفاق عملی کہتے ہیں اور یہاں حدیث میں یہی مراد ہے۔ (فیض القدیر،1 /593،تحت الحدیث : 2914)

5۔حضرت سفیان بن اسید حضر می رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللهﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بڑی خیانت کی بات یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔(ابوداود،ص778،حدیث :4971)

اللہ ہمیں جھوٹ سے،غیبت سے بچانا مولیٰ !ہمیں قیدی نہ جہنم کابنانا

اے پیارےخدا!از پئےسلطان ِزمانہ جنت کے محلات میں توہم کو بسانا

جھوٹ کی چند مثالیں: کوئی چیز خریدتے وقت اس طرح کہا کہ مجھے فلاں سے اس سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے۔اسی طرح بائع (Seller)کا زیادہ رقم کمانے کے لئے قیمت خرید ( Purchase Price ) زیادہ بتانا۔جعلی یا ناقص یا جن دواؤں سے شفا کا گمان غالب نہیں ہے ان کے بارے میں اس طرح کہنا کہ سو فیصدی شرطیہ علاج یہ جھوٹا مبالغہ ہے۔ ماں باپ کا بچوں کو چپ کرانے کے لئے ڈرانے کے طور پر یہ کہنا کہ چپ رہو گھر میں بلی بیٹھی ہے،حالانکہ گھر میں بلی نہیں ہوتی ہے۔ عمومًا اس قسم کی باتوں کو جھوٹ نہیں سمجھتے حالانکہ یقیناً ہر وہ بات جو واقعہ کے خلاف ہو جھوٹ ہے اورہر جھوٹ حرام ہے خواہ وہ بچے سے ہو یا بڑے سے،جھوٹ بہر حال جھوٹ ہی ہے۔

سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا ؟بعض حضرات کے نزدیک سب سے پہلےجھوٹ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام سے بولا تھا۔

جھوٹ کے معاشرتی نقصانات : (1)جھوٹا آدمی ہر انسان کے سامنے بے وقار اور بے اعتبار ہو جاتا ہے۔کوئی اس کی بات پریقین نہیں کرتا اگر چہ وہ اپنی بات میں سچا ہو لیکن جھوٹ کی کثرت کی وجہ سے لوگ اسے ہمیشہ جھوٹا ہی سمجھتے ہیں۔(2)جھوٹ ایک ایسی بری عادت ہے جس سے معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں جیسے قتل کرنا یا خاندانوں میں لڑائی ہونا وغیرہ۔انسان ہربار جھوٹ بولتے ہوئے یہی سوچتا ہے کہ ایک بار جھوٹ بولنے سے کون سا نقصان ہو جائے گا! حالانکہ معاشرے میں بگاڑ عموماًجھوٹ بولنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

نیکیوں میں دل لگے ہر دم،بنا عاملِ سنت اے نانائے حسین

جھوٹ سے بغض وحسد سے ہم بچیں کیجئے رحمت !اے نانائے حسین

وعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں جھوٹ جیسی مہلک بیماری سے محفوظ فرمائے اورہمیں تادمِ حیات سچ بولنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔


جھوٹ کی تعریف  : سچ کے الٹ کو جھوٹ کہتے ہیں۔ جھوٹ وہ گندی اور گھناؤنی عادت ہے کہ دین و دنیا میں جھوٹے کا کہیں ٹھکانہ نہیں جھوٹ کبیرہ گناہ ہے۔

قرآنِ پاک سے ثبوت :قرآنِ پاک میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت فرمائی گئی ہے چنانچہ کلام پاک میں فرمایا گیا ہے:لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِيْنَ0 ترجمہ: تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں نیز قرآنِ پاک میں یہ بھی ہے کہ جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔

پانچ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ

1۔ ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو بات کرے تو جھوٹ بولے تا کہ اس سے لوگوں کو ہنسائے اس کے لئے ہلاکت ہے اس کے لئے ہلاکت ہے۔ ( سنن ابو داود،4/ 387،حدیث:4990 )

2۔ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کے سبب فرشتے اس سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں۔ (سنن الترمذی،3/392،حدیث:1979 )

3۔ بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس میں خوب کوشش کرتا رہتا ہے حتی ٰ کہ اللہ ازوجل کے ہاں اسے کذاب (بہت بڑا جھوٹا ) لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری،4/125،حدیث:6094 )

4۔جھوٹ نفاق کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔( مساوی الاخلاق للخرائطی،ص 68،حدیث: 111)

5۔ سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ( گناہ ) دوزخ میں لے جاتا ہے۔ ( صحیح مسلم،ص1405،حدیث:2607 ملتقطاً )

پہلا جھوٹ کس نے بولا: سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔

جھوٹ کی چند مثالیں: اچھے بچے ہمیشہ سچ بولتے ہیں گندے بچے طرح طرح سے جھوٹ بولتے ہیں گندے بچوں کے جھوٹ بولنے کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

1۔ کل بخار کی وجہ سے ہوم ورک نہیں کر سکا ( حالانکہ بخار نہیں تھا)۔2) امی جان نے صبح اسکول یا مدرسے جانے کے لئے اٹھایا تو آگے سے بہانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں: طبیعت خراب ہے۔ 3)درد نہ ہونے کے باوجود استاد سے کہنا: میرے پیٹ میں درد ہے مجھے چھٹی چاہیئے۔

معاشرتی نقصانات: 1۔ جھوٹا شخص آخرت میں تو رسوا ہو گا ہی لیکن اگر جھوٹ سے دنیا میں اسکا پردہ ہٹ جائے تو بھی ایسا شخص ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔ 2۔جھوٹ بولنے والے کی کوئی عزت نہیں کرتا جھوٹا شخص معاشرے میں بھی مضطرب،پریشان اور ٹینشن کا شکار رہتا ہے۔

خدارا اپنے اندر سے جھوٹ کی عادت کو نکالیے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جھوٹ جیسے کبیرہ گناہوں سے محفوظ فرمائے۔آمین بجاہ النبی ﷺ


قرآن کریم میں فرمان باری ہے:

ترجمہ: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے (پ3،اٰل عمران )

جھوٹ کی تعریف : خلافِ واقعہ بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں جھوٹ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب معاذ اللہ اسے برائی تصور ہی نہیں کیا جاتا،مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان ایک جگہ فرماتے ہیں کہ جھوٹ تمام برائیوں ( گناہوں ) کی جڑ ہے جھوٹ کی نحوست بہت بری ہے اور اسی طرح جھوٹ کے نقصانات بھی بہت ہیں،اللہ کے پیارے حبیب ﷺ نے بھی جھوٹ کی مذمت بیان فرمائی ہے جن میں سے پانچ احادیث یہ ہیں:

1۔ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کی بدبو سے ایک میل دور ہو جاتا ہے (سنن الترمذی )

2۔ جھوٹ نفاق کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔

3۔ کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔ (سنن ابی داود )

4۔ بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس کے لئے خوب کوشش کرتا رہتا ہے حتی ٰ کہ اللہ پاک کے ہاں اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے (بخاری )

5۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا چلئے میں اس کے ساتھ چل دیا میں نے دو آدمیوں کو دیکھا،ان میں سے ایک شخص کھڑا تھا اور دوسرا بیٹھا تھا کھٹرے ہوئے شخص کے ہاتھ میں لوہے کا زنبور تھا جسے وہ بیٹھے ہوئے شخص کے جبڑے میں ڈال کر اسے اتنا کھینچتا حتی ٰ کہ گدی تک پہنچا دیتا پھر اسے نکالتا اور اسے دوسرے جبڑے میں ڈال کر کھینچتا اتنے میں پہلے والا اپنی حالت پر لوٹ آتا میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یہ جھوٹا شخص ہے اسے قیامت تک قبر میں عذاب دیا جاتا رہے گا۔(احیاء العلوم،ص 428 ماخوذاً)

اللہ پاک ہم سب کو قبر کے عذاب سے بچائے آمین آپ نے پڑھا کہ جھوٹے شخص کو قبر میں کس طرح عذاب دیا جا رہا تھا یہ تو مرنے کے بعد قبر کا حال ہے لیکن جھوٹے شخص کو دنیاوی زندگی میں بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جھوٹے کی بات پر کوئی اعتبار نہیں کرتا جسکی وجہ سے اسے اپنی گھریلو اور کاروباری زندگی میں پریشانی کا سامنا ہوتا ہے ایک اورحدیث میں ہے کہ جھوٹ بولنے سے رزق میں تنگی ہوتی ہے۔

ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی سے بچتے ہوئے جھوٹ سے اجتناب کریں رضائے الہیٰ کے لئے ہمیشہ سچ بولیں۔


پیاری اسلامی بہنو! فرمانِ  مصطفیٰ ﷺہے: انسان کی اکثر خطائیں اس کی زبان سے ہوتی ہیں۔(شعب الا یمان،7/416،حدیث:10808)

زبان کے غلط استعمال کی ایک صورت جھوٹ بولنا بھی ہے،جھوٹا شخص لوگوں میں تو اپنا اعتماد گنوا کر ذلیل ہوتا ہی ہے،الله پاک کی نوری مخلوق یعنی فرشتے بھی ایسے شخص کے پاس نہیں آتے،حضرت امام عبد الرحمن ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ جب مو من بلا عذر جھوٹ بولتا ہے تو اس کے منہ سے بدبودار چیز نکلتی ہے یہاں تک کہ عرش پر پہنچ جاتی ہے اور عرش اٹھانے والے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ 80 ہزار فرشتے بھی لعنت بھیجتے ہیں اور 80 خطائیں اس کے ذمے لکھی جاتی ہیں،جن میں سب سے کم احد پہاڑ کی مثل ہیں۔(بستان الواعظین،ص 41)

جھوٹ کی تعریف: کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا جھوٹ کہلاتاہے۔ (حدیقہ ندیہ،2/200) شریعتِ مطہرہ کو مسلمانوں کا آپس میں اتفاق اور اتحاد اس قدر محبوب ہے کہ ایک دوسرے کو منانے اور صلح کروانے کیلئے جھوٹ بولنے کی اجازت عطا فرمائی ہے،حضرت ابو کا ہل فرماتےہیں: دو صحابۂ کرام کے درمیان کچھ بحث ہوئی،یہاں تک کہ دونوں نے باہم قطع تعلق کر لیا تو میں نے ان میں سے ایک سے ملاقات کی اور کہا تمہارا فلاں کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ میں نے تو اس سے تمہاری بہت تعریف سنی ہے پھر میں دوسرے سے ملا اور اس سے بھی اسی طرح کہا حتی کہ ان دونوں کی آپس میں صلح ہو گئی پھر میں نے دل میں کہا کہ میں نے ان دونوں کے درمیان صلح تو کرادی لیکن جھوٹ بول کر خود کو ہلاک کر دیا،چنانچہ میں نے اس بات کی خبر رسول کریم کو دی تو آپﷺ نے فرمایا: اے ابو کاہل ! لوگوں کے درمیان صلح کرایا کرو،ا گر چہ جھوٹ بولنا پڑے۔ (معجم کبیر،18/361،حدیث: 927)

سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا؟ سب سے پہلے جھوٹ شیطان نے بولا،اس سے ہمیں معلوم ہوا جھوٹ بولنا شیطانی کام ہےنیزجھوٹ گناہِ کبیرہ،حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

1۔فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے،اور جھوٹ فسق و فجور ہے،اور فسق و فجور (گناہ) دوزخ میں لے جاتا ہے۔(صحیح مسلم،ص 1405،حدیث: 2607)

2۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے،بے شک بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسند امام احمد،2/589،حدیث: 6652)

3۔بارگاہِ رسالت میں ایک شخص نے عرض کی،یارسول اللہ جہنم میں لےجانے والا عمل کون سا ہے؟ فرمایا: جھوٹ بولنا جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور جب گناہ کرتا ہے تونا شکری کرتاہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔(مسند امام احمد،2/589،حدیث: 6652)

4۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے،وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے۔(شعب الایمان،4/213،حدیث:4832)

5۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: خرابی ہے اس کے لئے جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس سے قوم کو ہنسائے،اس کے لئے خرابی ہے،اس کے لئے خرابی ہے۔(ترمذی،4/142،حدیث 2322 )

جھوٹ کی چند مثالیں : گھر کے مدنی منوں کو بہلانے کےلیے جھوٹ بولنا،مثلا کھانا کھا لو گے تو کھلونا دونگی،سو جاؤ بلی آرہی ہے،معلمہ پوچھیں سبق یاد کرکے آئی ہیں تو بولنا کہ جی باجی لیکن حقیقتا ایسا نہ ہو۔

بچوں کے جھوٹ کی چند مثالیں : کسی نے نہ گالی دی ہو نہ ہی مارا ہو پھر بھی کہنا اس نے مجھے گالی نکالی ہے اس نے مجھے مارا ہے۔ میں نے تو اسے کچھ نہیں کیا( حالانکہ کیا ہوتا ہے)اس نے میرا کھلونا توڑ دیا ہے (حالانکہ اس نے نہیں توڑا ہوتا)۔ بھوک ہونے کے باوجود من پسند چیز نہ ملنے کی وجہ سے کہنا مجھے بھوک نہیں۔

جھوٹ بولنے کے معاشرتی نقصانات: سب لوگ جانتےہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے،جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا،ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ یہی جھوٹ چاہے جان بوجھ کر ہو یا انجانے میں ہو،کئی لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کر دیتا ہے،لڑائی جھگڑا اور خون خرابہ کا ذریعہ بنتا ہے،کبھی تو بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے،اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔


جھوٹ کی تعریفات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ حق کی بات کو پھیرنا جھوٹ کہلاتا ہے۔ 2۔ کسی بھی چیز کے بارے میں غلط بیانی کو جھوٹ کہتے ہیں۔3۔ جھوٹ سے مراد کسی واقع کو غلط انداز میں بیان. کرنا ہوتا ہے۔

انسانی زندگی میں اہم کردار: سچ کی طرح جھوٹ بھی انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ سچ انسانی زندگی کو جتنا سنوارتا ہے جھوٹ اتنا ہی اس کو بگاڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی عملی زندگی میں جھوٹ اور سچ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اگر انسان جھوٹ بولنا چھوڑ دے تو اس میں سے دوسری بری عادات بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہیں۔

جھوٹ کے متعلق واقعہ : ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یارسول الله ﷺمجھ میں چار بری خصلتیں ہیں۔ ایک یہ کہ بدکار ہوں دوسرا یہ کہ چوری کرتا ہوں،تیسرا یہ کہ شراب پیتا ہوں اور چو تھا یہ کہ جھوٹ بولتا ہوں،آپ مجھے نصیحت فرما ئیے کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دوں چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جھوٹ نہ بولا کرو پھر اس نے اس کا عہد کر لیا۔ اب جب اس نے عہد کر لیا تو رات کو اس کا شراب پینے کو جی چاہا اور بدکاری کے لیے آمادہ ہوا پھر سوچا کہ صبح ہونے پر آنحضرت ﷺکے پوچھنے پر کیا جواب دوں گا۔ عہد کے خلاف نہیں جا سکتا،لہٰذا باز رہا۔ جب رات دیر کو اس کا چوری کو نکلنے کا ارادہ بنا تو دوبارہ اسی خیال نے اسے روک لیا اور اس طرح یہ اس جرم سے بھی باز رہا۔ صبح ہوتے ہی وہ بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے رسول الله ﷺ ! صرف ایک جھوٹ کو چھوڑنے کی پکی نیت کی وجہ سے میری چاروں بری خصلتیں چھوٹ گئیں۔

فرامینِ مصطفیٰ ﷺ

آپ ﷺ نے جھوٹ کو منافق کی نشانی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : منا فق جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔اسی طرح سورہ حج میں ارشاد باری : وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ0اور جھوٹی بات کہنے سے پرہیز کرو۔ حدیث کے راوی (امام مسلم و صحیح بخاری)

حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : سچائی یقیناً نیکی ہے اور نیکی جنت تک لے جاتی ہے اور یقیناً جھوٹ بدی ہے۔ یقیناً برائی آگ کی طرف لے جاتی ہے۔ ( صحیح بخاری و مسلم) چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ كٰذِبٌ كَفَّارٌ0ترجمہ: بے شک خدا اس شخص کو جو جھوٹا اور ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا۔

نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔ (جامع ترمذی)

آپ ﷺسے ایک شخص نے پو چھا کہ دوزخ میں لے جانے والا کام کونسا ہے ؟ تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : جھوٹ بولنا۔ جب بندہ جھوٹ بولے گا تو گناہ کے کام کرے گا اور جب گناہ کے کام کرے گا تو کفر کرے۔ گا اور جو کفر کرے گا دوزخ میں جائے گا۔ ( مسنداحمد)

صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے پوچھا گیا : کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں۔ پھر پو چھا گیا،کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں۔ پھر پو چھا گیا،کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں۔ (مسلم وصحیح بخاری)

اس لیے ہمیں جھوٹ بولنے سے بچنا چاہیے کیونکہ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اگر ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں۔ تو مسلمانوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ سچ کا دامن چھوڑ چکے ہیں اور ہر معاملے میں جھوٹ کی حکمرانی ہے۔ ہمیں جھوٹ سے بچنا اور ہر صورت سچ اختیار کرنا چاہیے خواہ ایسا کرنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ 


خلافِ واقعہ بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں،ہمارے معاشرے میں جھوٹ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب یہ برا تصور ہی نہیں کیا جا تا۔ فرمانِ رسول کریم ہے :تم ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے یہاں تک کہ مزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔

جھوٹ ایک اخلاقی برائی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں کافی حد تک عام ہو چکی ہے۔ الله کے نبی نے جھوٹ بولنامنافق کی نشانی بتائی ہے۔ یہ جھوٹ ایک اکیلی برائی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے ہمارے اندر اور بھی دوسری برائیوں کا آغاز ہونے لگتا ہے۔

پہلا جھوٹ کس نے بولا؟ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو بہکایا کہ تم فلاں درخت کا پھل کھا لو گے تو تمہیں دائمی زندگی مل جائے گی تو شیطان کا بس حضرت آدم علیہ السلام پر تو نہ چلا لیکن اماں حوا کے دل میں وسوسہ ڈال دیا۔انہوں نے شیطان کی بات کو سچ سمجھ لیا کہ یہ جھوٹ نہیں تھا یہ ترک اولی تھا یعنی غلطی تھی اور یہ ترک اولی حضرت آدم علیہ السلام سے بھی سرزد ہوا جس کی انہوں نے اللہ پاک سے معافی مانگی اور اللہ پاک نے انہیں معاف کر دیا۔ اللہ کی آخری کتاب ہدایت قرآن کے مطابق شیطان نے دونوں سے جھوٹ بول کر انہیں بہکایا نہ کہ حضرت اماں حوا کو اور انہوں نے آدم علیہ السلام کو۔

احادیث مختصر آسان شرح کے ساتھ : * حضرت ابن عباس کی روایت ہے:مَن كَذِبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداًفَلْيَتَبَوَّأ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّار ترجمہ: جس نے مجھ پر قصدا جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنائے۔

یاد رکھیں! نبی کریم ﷺپر جھوٹ بولنے والا شخص جہنم میں جائے گا۔ اس وعید شدید میں آپ ﷺپر جھوٹ بولنے والا اور آپ پر جھوٹ کو بغیر تردید کے آگے لوگوں تک پہنچانے والا دونوں یکساں شامل و شریک ہیں۔

فرمانِ رسول ہے: حضرتِ اَسماء بنْتِ یزید فرماتی ہیں :نبیِ کریم ﷺ کی خدمت میں کھانا حاضر كياگیا،آپ ﷺنے ہم پر پیش فرمایا،ہم نے کہا:ہمیں خواہش نہیں ہے۔ فرمایا: بھوک اور جھوٹ دونوں چیزوں کو اِکٹھا مت کرو۔(ابنِ ماجہ،4 /26،حدیث:3298)

شرح: بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کوئی کھانے کو کہے تو بھوک رکھ کر یوں کہتے ہیں: مجھے خواہش نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا،اگر بھوک ہے تو کھانا کھا لینا چاہیے ورنہ غلط بیانی میں بھوکا رہے اور عذاب میں مبتلا ہو۔( سنن ابن ماجہ حدیث: 3298)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔( ترمذی،حدیث: 1979)معلوم ہوا کہ جس طرح اس مادی عالم میں مادی چیزوں کی خوشبو اور بد بو ہوتی ہے اسی طرح اچھے اور برے اعمال اور کلمات میں بھی خوشبو اور بد بو ہوتی ہے جس کو اللہ کے فرشتے اسی طرح محسوس کرتے ہیں،جس طرح ہم یہاں کی مادی خوشبو اور بد بو محسوس کرتے ہیں۔

حضرت عبد الله بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور رتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلاشہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا ہے،یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری،حدیث:6094)

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : منافق کی 3 نشانیاں ہیں،جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے،جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔ (صحیح بخاری،حدیث: 6095)

شرح : اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ ایمان کی ضد ہے۔ اگر غور کریں تو جھگڑتے وقت بد زبانی کرنا پہلی علامت یعنی بات کرے تو جھوٹ بولے میں شامل ہے اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ایک آدھ دفعہ گناہوں کا ارتکاب کر ے تو آدمی منافق ہو جاتا ہے کیونکہ مومن سے بھی گناہ سرزد ہو سکتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ یہ گناہ اس کی عادت بن جائیں روز مرہ کا وطیرہ ہی یہ ہو تو وہ منافق ہے۔

جھوٹ کے معاشرتی نقصان : جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے۔ جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتماد نہ کریں۔ کسی بھی بات کی تحقیق کئے بغیر اس پر رد عمل نہ کریں جھوٹے انسان پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔

جھوٹ کی چندمثالیں؟ آج کل لوگ جھوٹ کے معاملے میں اتنے دلیر ہو چکے ہیں کہ فانی دنیا کے چند روز عیش و عشرت میں گزارنے اور دنیوی خواہشات پوری کرنے کے لالچ میں بیرون ملک جانے کیلئے خود کو جھوٹ موٹ میں غیر مسلم تک لکھوا دیتے ہیں۔ دواؤں کے بارے میں جان لینے کے بعد تھوڑا بہت جاننے والا یا کسی کلینک واسپتال میں کام کرنے والے کا خود کو ڈاکٹر کہلانا،جڑی بوٹیوں کے بارے میں جان لینے کے بعد خود کو حکیم کہلوانا ان جھوٹے ٹائٹلز کو حاصل کرنے یا بچانے کے لیے رشوت دے کرجعلی ڈگریاں بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ بعض لوگ مذاق میں جھوٹ بول دیتے ہیں بسا اوقات یہ ایک جھوٹ بہت سارے گنا ہوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ لوگوں کو ہنسا نے کے لیے جھوٹ بولنا ہمیشہ ہی جرم بلکہ ڈبل جرم ہے،مگر لوگوں کو منانے کے لیے ہنسی مذاق میں سچی بات شریعت کے دائرے میں ہو تو گناہ نہیں۔


جھوٹ بولنا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،یہ کبیرہ گناہ اور بدترین عیب ہے یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ ہر خاص و عام،بچہ بوڑھا اور نوجوان اس میں مبتلا ہے اور اس کی ایک اہم وجہ علم دین سے دوری بھی ہے۔ اس کی مذمت میں بہت سی آیات،احادیث اور روایات موجودہیں،جیسا کہ  اللہ پاک قرآنِ کریم میں ایک مقام پر فرماتا ہے: اِنَّمَا يَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ١ۚترجمہ ٔکنزالایمان:جھوٹ،بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں یر ایمان نہیں رکھتے۔ ( پ 14،النحل: 105 )

بولوں نہ فضول اور رہیں نیچی نگاہیں آنکھوں کا زباں کا دے خدا قفل مدینہ

جھوٹ کسے کہتے ہیں : جھوٹ کی وعیدات سے پہلے عرض کرتی چلوں کہ جھوٹ کہتے کسے ہیں ؟ نیز سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا ؟ تو آئیے سنتی ہیں کہ کسی چیز کو اس کی حقیقت کے بر عکس بتاناجھوٹ کہلاتا ہے۔ آسان الفاظ میں جھوٹ کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ چیز جو سچ کا الٹ ہو یعنی ایسی بات کہنا کہ جو سچ کے خلاف ہو،اسے جھوٹ کہتے ہیں۔ اور یہ کہ سب سے پہلا جھوٹ شیطان یعنی ابلیس نے بولا جو کہ بنی آدم کا سب سے بڑا اور کھلا دشمن ہے،اس لئے ہمیں چاہئے کہ جھوٹ سے بچ کر ہمیشہ سچ ہی بولیں۔ جھوٹ کا گناہ ہونا ضروریات دین سے ہے،تو اگر کوئی جھوٹ کے معصیت یعنی گناہ ہونے کا مطلقا انکار کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج اور کافر و مرتد ہے۔الله کریم ہمیں ہمیشہ جھوٹ سے بچ کر سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین یارب العالمین

جھوٹ بولنے کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ پیش کرنے کی سعی کرتی ہوں :

حضور پاک،صاحب لولاک ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے کہ بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس میں خوب کوشش کرتا ہے حتی کہ اسے الله پاک کے ہاں کذاب یعنی سب سے بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (احیاء العلوم،3/407)

ایک اور مقام پر نبیِ کریم ﷺ نے جھوٹ کی مذمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: 3 عادتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں ہوں وہ منافق ہے اگر چہ روزہ رکھے،نماز پڑھے اور یہ گمان رکھے کہ وہ مسلمان ہے،بات کرے تو جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو پورا نہ کرے،اور امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔(احیاء العلوم،3/404)

اس حدیث سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے،کہ منافق ہے وہ شخص جو جھوٹ بولے اور قرآنِ کریم میں منافقوں کے لئے درد ناک عذاب کی وعید آئی ہے۔

ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جھوٹ رزق کو تنگ کر دیتا ہے۔ (احیاء العلوم،3/407)اس حدیث پاک کو مد نظر رکھ کر ہمیں اپنے حال پر غور کرلینا چاہیے کہ آج ہر دوسرا شخص رزق میں تنگی کی شکایت کرتا ہے،انہیں چاہیے کہ اس حدیث کا مطالعہ کریں،چنانچہ

نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک تجار فاجر ہیں عرض کی گئی: یارسول اللہ ! کیا اللہ پاک نے خرید و فروخت کو حلال نہیں فرمایا: فرمایا: ہاں لیکن یہ لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر گناہ گار ہوتے ہیں،اور بات کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں۔ (احیاء العلوم،3/407)

ایک اور مقام پر آقا کریم ﷺ نے فرمایا: ہلاکت ہے اس کے لئے جو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہےتاکہ لوگوں کو ہنسائے،اس کے لئے ہلاکت ہے،اس کے لئے ہلاکت ہے۔

یاد رہے کہ ہر جھوٹ گناہ نہیں،بلکہ 3 مواقع ایسے ہیں جن میں جھوٹ بولنا گناہ نہیں:1: جنگ میں کہ وہاں اپنے مقابل کو دھوکہ دینا جائز ہے۔2:مسلمانوں میں اختلاف ہوتو ان میں صلح کروانے کے لئے۔3:خاوند کا بیوی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بولنا۔(ظاہری گناہوں کے بارے میں معلومات،ص 27)اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین