جھوٹ کی
مذمت پر5 فرامینِ مصطفیٰ از
بنت نعیم،جامعہ فیضان فاطمۃ الزہرا،لالہ موسی
جھوٹ
بولنا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،یہ کبیرہ گناہ اور بدترین عیب ہے
یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ ہر خاص و عام،بچہ بوڑھا اور نوجوان اس میں مبتلا ہے اور
اس کی ایک اہم وجہ علم دین سے دوری بھی ہے۔ اس کی مذمت میں بہت سی آیات،احادیث اور
روایات موجودہیں،جیسا کہ اللہ پاک قرآنِ
کریم میں ایک مقام پر فرماتا ہے: اِنَّمَا يَفْتَرِی الْكَذِبَ
الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ١ۚترجمہ
ٔکنزالایمان:جھوٹ،بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں یر ایمان نہیں رکھتے۔ ( پ
14،النحل: 105 )
بولوں نہ فضول اور رہیں نیچی نگاہیں آنکھوں کا زباں کا دے خدا قفل مدینہ
جھوٹ کسے کہتے ہیں : جھوٹ کی وعیدات سے پہلے عرض کرتی چلوں کہ جھوٹ کہتے کسے ہیں ؟
نیز سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا ؟ تو آئیے سنتی ہیں کہ کسی چیز کو اس کی حقیقت کے بر
عکس بتاناجھوٹ کہلاتا ہے۔ آسان الفاظ میں جھوٹ کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ چیز جو سچ کا الٹ ہو یعنی ایسی بات کہنا کہ
جو سچ کے خلاف ہو،اسے جھوٹ کہتے ہیں۔ اور یہ کہ سب سے پہلا جھوٹ شیطان یعنی ابلیس
نے بولا جو کہ بنی آدم کا سب سے بڑا اور کھلا
دشمن ہے،اس لئے ہمیں چاہئے کہ جھوٹ سے بچ کر ہمیشہ سچ ہی بولیں۔ جھوٹ کا گناہ ہونا
ضروریات دین سے ہے،تو اگر کوئی جھوٹ کے معصیت یعنی گناہ ہونے کا مطلقا انکار کرے
تو وہ دائرہ اسلام سے خارج اور کافر و مرتد ہے۔الله کریم ہمیں ہمیشہ جھوٹ سے بچ کر سچ بولنے
کی توفیق عطا فرمائے! آمین یارب العالمین
جھوٹ
بولنے کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ پیش کرنے کی سعی کرتی ہوں :
حضور پاک،صاحب
لولاک ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے کہ بندہ جھوٹ
بولتا رہتا ہے اور اس میں خوب کوشش کرتا
ہے حتی کہ اسے الله پاک کے ہاں کذاب یعنی سب سے بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (احیاء
العلوم،3/407)
ایک
اور مقام پر نبیِ کریم ﷺ نے جھوٹ کی مذمت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: 3 عادتیں
ایسی ہیں کہ جس شخص میں ہوں وہ منافق ہے اگر چہ روزہ رکھے،نماز پڑھے اور یہ گمان
رکھے کہ وہ مسلمان ہے،بات کرے تو جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو پورا نہ کرے،اور امانت
رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔(احیاء العلوم،3/404)
اس
حدیث سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے،کہ منافق ہے وہ شخص جو جھوٹ بولے اور قرآنِ کریم
میں منافقوں کے لئے درد ناک عذاب کی وعید آئی ہے۔
ایک
اور حدیث مبارک میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جھوٹ رزق کو تنگ کر دیتا
ہے۔ (احیاء العلوم،3/407)اس حدیث پاک کو مد نظر رکھ کر ہمیں اپنے حال پر غور کرلینا
چاہیے کہ آج ہر دوسرا شخص رزق میں تنگی کی شکایت کرتا ہے،انہیں چاہیے کہ اس حدیث کا مطالعہ کریں،چنانچہ
نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک تجار فاجر ہیں عرض کی گئی: یارسول اللہ !
کیا اللہ پاک نے خرید و فروخت کو حلال نہیں فرمایا: فرمایا: ہاں لیکن یہ لوگ جھوٹی
قسمیں کھا کر گناہ گار ہوتے ہیں،اور بات کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں۔ (احیاء العلوم،3/407)
ایک
اور مقام پر آقا کریم ﷺ نے فرمایا: ہلاکت ہے اس کے لئے جو بات کرتا ہے تو جھوٹ
بولتا ہےتاکہ لوگوں کو ہنسائے،اس کے لئے ہلاکت ہے،اس کے لئے ہلاکت ہے۔
یاد رہے کہ ہر جھوٹ گناہ نہیں،بلکہ 3 مواقع ایسے ہیں جن میں
جھوٹ بولنا گناہ نہیں:1: جنگ میں کہ وہاں اپنے مقابل کو دھوکہ دینا جائز ہے۔2:مسلمانوں
میں اختلاف ہوتو ان میں صلح کروانے کے لئے۔3:خاوند کا بیوی کو خوش کرنے کے لئے
جھوٹ بولنا۔(ظاہری گناہوں کے بارے میں معلومات،ص 27)اللہ کریم عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین