(1) بارگاہِ رسالت میں ایک شخص نے عرض کی:یارسول اللہﷺ!  میں اسلام لانا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بہت سی برائیاں ہیں،جنہیں میں چھوڑ نہیں سکتا،آپ مجھے فرمائیے،میں ایک برائی چھوڑ دوں گا،آپ نے فرمایا: جھوٹ بولنا چھوڑ دو،اُس شخص نے وعدہ کر لیا کہ میں جھوٹ بولنا چھوڑ دوں گا،تو اس کے جھوٹ چھوڑنے کے سبب اس کی تمام بر ائیاں چھوٹ گئیں،تو اُس شخص نے جھوٹ بولناچھوڑ دیا۔( جھوٹ کی تباہ کاریاں،ص 3)

(2) حضرت میمون بن شعیب فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: تم ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے یہاں تک کہ تم مزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ ( جھوٹ کی تباہ کاریاں،ص 3)

(3) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے فرمایا: جب کوئی جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے رحمت کا فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے۔ ( جھوٹ کی تباہ کاریاں،ص 3)

(4)سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہےاور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہےاور فسق و فجور (گناہ)دوزخ میں لے جاتا ہے۔( جھوٹ کی تباہ کاریاں)

جھوٹ کی تعر یف : جھوٹ کی تعریف اکثر کتابوں میں آئی ہے۔سچ کا الٹ جھوٹ کہلاتا ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات،ص126)

سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا : سب سے پہلے جھوٹ شیطان نے بولا۔(جھوٹ کی تباہ کاریاں،ص 7)

جھوٹ کی چند مثالیں:جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔ جھوٹ بولنا سب سے بڑی خیانت ہے۔ جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔ جھوٹ بولنے والے کے لئے ہلاکت ہے۔(جھوٹ کی تباہ کاریاں،ص 7)

جھوٹ کے نقصانات: لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنے والا جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیانی فاصلہ سے زیادہ ہے۔جھوٹ بولنے سے منہ کالا ہو جاتا ہے۔ جھوٹی بات کہنا کبیرہ گناہ ہے۔ جھوٹ بولنا منافق کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔( جھوٹ کی تباہ کاریاں،ص 7)


جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے خلاف کوئی بات کی جائے جب کہ سچ یہ ہے کہ حقیقت کے مطابق بات کی جائے،ہمیشہ سچ بولنا اور سچائی کا راستہ اپنانا جنت میں لے جائے گا جبکہ جھوٹ کا راستہ اپنانا جہنم میں لے جائے گا۔ (تعلیمات قرآن،ص36 )

سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا :شیطان ابلیس نے پہلا جھوٹ بولا تھا۔

لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِيْنَ0جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔

5 فرامینِ مصطفیٰ :

1۔ جھوٹوں پر الله پاک کی لعنت ہے۔

2۔ صدق کو لازم کر لو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے،آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ تجھےفجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ الله پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔

3۔ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔(بہار شریعت،حصہ:16،ص158)

معاشرتی نقصان : جھوٹ بولنے سے انسان دنیا میں ذلیل ہوتا ہے اور آخرت میں بھی عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جھوٹ بولنے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے،جھوٹ بو لنا انسان کو تباہ کردیتا ہے۔( تعلیمات قرآن،ص 36)

مثالیں : الله پاک نے قرآنِ پاک میں جھوٹ کے متعلق ارشادات فرمائے ہیں،جھوٹ بولنے سے اللہ پاک کی لعنت پڑتی ہے۔ جھوٹ یہ ہے کہ سچی بات کا الٹ کہہ دینا جس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں اور وہ یہ ہیں،کوئی چیز خریدتے وقت کہنا یہ مجھے فلاں سے اس سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہ ہو،اسی طرح بائع کا زیادہ رقم کمانے کے لیے قیمت خرید زیادہ بتانا۔ 


ہمارے دین اسلام میں جھوٹ بہت بڑا عیب اور بد ترین گناہ کبیرہ ہے وہ بات جو واقعہ کے خلاف ہو یعنی اصل میں وہ بات اس طرح نہیں ہوتی جس طرح بولنے والا بیان کرتا ہے۔ اس طرح وہ دوسروں کو فریب دیتا ہے جو اللہ اور بندوں کے نزدیک بہت برا فعل ہے۔ جھوٹ خواہ زبان سے بولا جائے یا عمل سے ظاہر کیا جائے۔ مذاق کے طور پر ہو یا بچوں کو ڈرانے یا بہلانے کے لیے،ہر طرح سے گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔

جھوٹ گناہوں کا دروازہ ہے،جھوٹ بول کر اسے چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔

ارشاد خداوندی ہے: ان کے دلوں میں مرض ہے تو اللہ نے ان کے مرض میں اضافہ کر دیااور ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

احادیث:

1۔ جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اُس کی پیدا کی ہوئی چیز یعنی جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے (حفاظت کرنے والے) فرشتے اُس سے کوس بھردور چلے جاتے ہیں۔ (بخاری)

2۔ ہلاکت ہے اس کے لیے جو اس غرض سے جھوٹ بولے کہ اس سے لوگ ہنسیں،ہلاکت ہے اس کے لیے! ہلاکت ہے اس کے لیے ! (سنن ابی داؤد،حدیث: 4990)

3۔جھوٹ سے منہ کالا ہو جاتا ہے اور چغلی سے قبر کا عذاب۔(شعب الایمان،حدیث:4813)

4۔میری طرف سے بات بیان کرنے سے بچو مگر (ہاں) جو صحیح ہوا سے بیان کر دو،پس جس نے مجھ پر قصداً جھوٹ باندھا اسے چاہیے کہ دوزخ میں اپنا ٹھکانا بنا لے۔(ترمذی)

جھوٹ بولنا یوں بھی گناہ کبیرہ ہے پھر کسی کے ذمہ بات لگانا کہ اس نے یوں کہا ہے( حالانکہ وہ اس نے نہیں کہا ہے) اس سے اور زیادہ گناہ ہوتاہے۔ پھر رسول کریمﷺ کی ذات گرامی پر جھوٹ باندھنا یہ تو گناه در گناہ ہے کیونکہ رسول کریمﷺ پر جھوٹ باندھنا،دوسرے شخصوں پر جھوٹ باندھنے سے زیادہ سخت جرم ہے اور اس کا نتیجہ دنیا و آخرت میں بدترین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ارشاد نبوی سے شریعت بنتی ہے۔ جس نے آپ پر جھوٹ باندھا اس نے اللہ پاک کے ذمے جھوٹ لگایا۔الله پاک ارشاد فرماتا ہے: محمد اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کہتے بلکہ وحی،جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔ اس کے مطابق بات کرتے ہیں۔(النجم،3-4)

چنانچہ روایت حدیث میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ حضورِ اکرمﷺ نے جو نہ فرمایا ہو اس کے متعلق یوں کہنا کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا،سخت ترین گناہ ہے،اس حدیث میں اس بات پر تنبیہ فرمائی گئی ہے اگر لوگوں میں مشہور ہو کہ فلاں بات حدیث ہے اور محقق عالم یا معتبر و مستند کتب کے ذریعے اس کےحدیث ہونے کا یقین نہ ہو تو حدیث کہہ کر بیان کرنا ہرگز جائز نہیں ہے،غیر حدیث کو قصداً حدیث بتا کر بیان کرنے کے متعلق حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ ایسی حرکت بد کرنے والا اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے،جہنم میں جانے کے لیے تیار رہے۔

حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اہلِ ایمان ! تم پر سچ بولنا لازم ہے کیونکہ یہ سچ نیکی کے ساتھ ہے اور وہ دونوں (نیکی اور سچ) جنت میں ہیں اور تم پر جھوٹ بولنے سےبچنا لازم ہے کیونکہ یہ جھوٹ،فجور ( نا فرمانی) کے ساتھ ہے اور وہ دونوں (نافرمانی اور جھوٹ ) جہنم میں ہیں۔ (سنن ابن ماجہ،جلد 4،حدیث: 3849)


جھوٹ ایک  ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں،جھوٹ کبیرہ گناہ ہے،جھوٹ کے بہت سے دنیوی اور اخروی نقصانات ہیں،جھوٹ بولنے والے سے لوگ نفرت کرتے ہیں،جھوٹ بولنے والے سے اعتبار اٹھ جاتا ہے،اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید کی،قرآن مجید میں بہت جگہ پر اس کی مذمت فرمائی گئی ہے اور جھوٹ بولنے والوں پر اللہ پاک کی لعنت ہے حدیثوں میں بھی اس کی برائی ذکر کی گئی ہے جیسا کہ ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔(1)

جھوٹ کی تعریف جھوٹ کے معنی ہیں سچ کا الٹ۔ (2)اہلسنت کے نزدیک جھوٹ یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق اس کی اصلی حالت کے برعکس خبر دینا خواہ اسے معلوم ہو اور جان بوجھ کر ایسا یا معلوم نہ ہو۔(3)

سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔

احادیث

1۔ تم پر سچ بولنا لازم ہے کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور اس کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں پہنچادیتے ہیں۔ آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(4)

2۔ تم پر سچ بولنا لازم ہے کیونکہ یہ نیکی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جنت میں لے جاتے ہیں اور جھوٹ سے بچو کیونکہ یہ گناہوں کے ساتھ ہے اور یہ دونوں جہنم میں لے جاتے ہیں۔(5)

3۔ میں نے آج رات دیکھا کہ دو فرشتے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ شخص جسے آپ نے دیکھا کہ اسکا جبڑا چیرا جا رہا ہے یہ بہت بڑا جھوٹا ہے جو جھوٹی خبر دیتا ہے جو اس سے نقل کی جاتی ہے حتی ٰ کہ سارے ملک میں پھیل جاتی ہے لہٰذا قیامت تک اسے یہ عذاب دیا جاتا رہے گا۔(6)

4۔ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کی وجہ سے فرشتے ایک میل دور چلے جاتے ہیں۔(7)

5۔ اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے بات کرتا اور جھوٹ بولتا ہے اس کے لئے ہلاکت ہے اس کے لئے ہلاکت ہے۔(8)

مثالیں: کوئی چیز خریدتے وقت اس طرح کہنا کہ مجھے فلاں سے اس سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے۔بائع کا زیادہ رقم کمانے کے لئے قیمت خرید زیادہ بتانا۔جعلی یا ناقص یا جن دواوں سے شفا کا گمان غالب نہیں ہے ان کے بارے میں اس طرح کہا سو فیصد شرطیہ علاج ہے یہ مبالغہ ہے۔

معاشرتی نقصانات :جھوٹ بولنے والوں سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔جھوٹ بولنے والے کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔

حوالہ جات:

1۔جامع الترمذی،ص185،حدیث:1972۔

2۔جھوٹا چور ص،21۔

3۔بہار شریعت،ص 158،حصہ: 16۔

4۔جہنم میں لے جانے والے اعمال،2/715۔

5۔الانسان بترتیب صحیح ابن حبان،ص 185،حدیث:1972۔

6۔صحیح بخاری،ص 515،حدیث:4096۔

7۔جامع الترمذی،ص 185،حدیث :1972۔

8۔جامع الترمذی،ص 880،حدیث: 2315۔


حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور پاکﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: تم پر سچ بولنا لازم ہے کیونکہ سچ نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں پہنچادیتے ہیں۔ آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔

جھوٹ کی تعریف : ایسی بات جو کہ پیش نہیں آئی اس کو کہنا کہ یہ چیز پیش آئی۔

اہلِ سنت کے نزدیک جھوٹ یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق اس کی اصلی حالت کے برعکس خبر دینا خواہ اسے معلوم ہو اور جان بوجھ کر ایسا کرے خواہ اسے معلوم نہ ہو۔

سب سے پہلا جھوٹ کس نے بولا؟ سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔

5 احادیث مختصر شرح کے ساتھ:

1۔بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی:یارسول اللہ ﷺ ! جنتی عمل کونسا ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا :سچ۔ جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیک بن جاتا ہے اور جب نیک ہو جاتا ہے تو مومن بن جاتا ہے اور جب مومن بن جاتا ہے تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر عرض کی گئی: یا رسول اللهﷺ! جہنمی عمل کونسا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا : جھوٹ۔ جب بندہ جھوٹ بولنا ہے تو گنہگار ہو جاتا ہے اور جب گنہگار ہوتا ہے تو کافر ہو جاتا ہے اور جب کافر ہو جاتا ہے تو جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔(مسند احمد،2/589،حدیث:6602)

2۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تاجدار مدینہ ﷺ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی ناپسند عادت نہ تھی۔ جب کسی کا اس عادت میں مبتلا ہونا معلوم ہوتا تو آپ کے قلب منور سے نکل جاتا یہاں تک کہ آپ جان لیتے کہ اس نے توبہ کرلی ہے۔(الترغیب و الترھیب،3/456،حدیث:4523)

3۔نبی پاک ﷺ کا فرمانِ با قرینہ ہے: میں نے آج رات دیکھا کہ دو فرشتے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ وہ شخص جسے آپ نے دیکھا کہ اس کا جبڑاچیرا جا رہا ہے،بہت بڑا جھوٹا ہے جو جھوٹی خبر دیتا ہے،جو اس سے نقل کی جاتی ہے،حتی کہ سارے ملک میں پھیل جاتی ہے۔لہٰذا قیامت تک اسے عذاب دیا جاتارہے گا۔(بخاری،ص 515،حدیث:6096)

(4) پیارے آقا ﷺ کا فرمانِ حقیقت نشان ہے: منافق کی کی 3 نشانیاں ہیں:(1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔(2)جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔(3) جب عہد کرے تو عہد شکنی کرے۔ (بخاری،ص5،حدیث:3334)

(5) حضور نبی رحمت ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: بڑی خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے ایسی بات کہے جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو جب تو اس سے جھوٹ بول رہا ہو۔(الادب المفرد،ص107،حدیث:393)

جھوٹ کی چند مثالیں :میٹھے میٹھے آقا ﷺ کا فرمانِ معظم ہے: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس سے آنے والی بدبو سے فرشتے ایک میل دور چلے جاتے ہیں* کسی آیت کا غلط ترجمہ بھی جھوٹ میں شمار ہوتا ہے* احادیثِ مبارکہ کا غلط استعمال کر کے اسے بیان کرنا بھی جھوٹ ہے* زبان سے جھوٹ کی مثال یہ ہے کہ اگر پوچھا جائے کہ کل آپ وہاں گئی تھیں؟ تو اس نے کہا کہ میں نہیں گئی یہ جھوٹ ہو گیا * اشارے سے بھی جھوٹ ہوتا ہے کہ اگر پوچھا جائے کہ آپ کل وہاں گئی تھیں؟ تو وہ نفی میں سر کو ہلا دے تو یہ بھی جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے * لعنت ہوجھوٹے پر خواہ وہ مذاق میں ہی جھوٹ بولے۔

جھوٹ کے معاشرتی نقصانات:جھوٹے انسان کی بات پر ہرگز کوئی یقین نہیں کرتا*جھوٹ بولنے والا ہمیشہ اپنے ہی جھوٹ کے جال میں پھنسا رہتا ہے* جھوٹ سے انسان کی شخصیت کی سنجیدگی اور وقارختم ہو جاتا ہے* جھوٹ بولنے سے ہنستے مسکراتے گھر برباد ہو جاتے ہیں*جھوٹے انسان کے پاس لوگ بیٹھنے اور بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔


جھوٹ ایک باطنی بیماری ہے۔ جھوٹ سب برائیوں کی جڑ ہے۔ جھوٹ بولنے سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے۔جھوٹا شخص اللہ پاک کاناپسندیدہ بن جاتا ہے۔جھوٹا ذلیل و خوار ہوتا ہے۔

جھوٹ کی تعریف: جھوٹ کے معنی ہیں: سچ کا الٹ۔ خلافِ واقعہ بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں۔

پہلا جھوٹ کس نے بولا :پہلا جھوٹ شیطان لعین نے بولا تھا۔

احادیثِ مبارکہ:

1۔تم پر سچ بولنا لازم ہے۔کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اوراس کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ الله پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سےبچو کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں پہنچا دیتے ہیں۔آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔

2۔بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا اور جھگڑنانہ چھوڑدے اگرچہ سچا ہو۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،ص 717)

3۔جب کوئی جھوٹ بولتا ہے توجھوٹ کی بد بوکی وجہ سے (رحمت کا) فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے۔(سنن الترمذی: 1972)

4۔خبر دار! جھوٹ چہرے کو سیاہ کردیتا ہے اور چغل خوری عذاب قبر کا باعث ہے۔ (مسندابی یعلی،2 /272،حدیث:744)

5۔جھوٹ میں کوئی بھلائی نہیں۔

خطاؤں کو میری مٹا یا الٰہی! مجھے نیک خصلت بنایا الٰہی

جھوٹ کی چند مثالیں :بچوں سے جھوٹ،پڑھائی میں جھوٹ،استاد سے جھوٹ،والدین سے جھوٹ،تجارت میں جھوٹ۔

ہائے نافرمانیاں،بدکاریاں،بے باکیاں آہ! نامے میں گناہوں کی بڑی بھر مار ہے

زندگی کی شام ڈھلتی جارہی ہے ہائے نفس! گرم روز و شب گناہوں کا بھی بس بازار ہے

جھوٹ کے معاشرتی نقصانات:جھوٹ بولنے سے انسان دنیا اور آخرت میں رسوا ہوتا ہے۔جھوٹ بولنے سے انسان کا ایمان تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔جھوٹے شخص پر اللہ پاک کی لعنت ہے۔جھوٹ بولنے سے انسان کا عزت و وقار چلا جاتا ہے۔جھوٹا شخص الله پاک کا نا پسندیدہ بندہ ہے۔جھوٹے شخص سے ہر کوئی نفرت کرنے لگتا ہے۔ جھوٹے شخص پر کسی کو اعتبار نہیں رہتا۔جھوٹ ایک ایسا رشتہ ہے جس سے دوسرے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے۔جھوٹ انسان کی جڑیں کاٹ دیتا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں جھوٹ جیسی باطنی بیماریوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔آمین یارب العلمین


جھوٹ ایک باطنی بیماری ہے جھوٹ سب برائیوں کی جڑ  ہے جھوٹ بولنے سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے جھوٹا شخص اللہ پاک کا نا پسندیدہ بن جاتا ہے جھوٹا ذلیل و خوار ہوتا ہے۔

جھوٹ کی تعریف :جھوٹ کے معنی ٰ ہیں سچ کا الٹ خلافِ واقعہ بات بیان کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں۔

پہلا جھوٹ کس نے بولا :پہلا جھوٹ شیطان لعین نے بولا تھا۔

احادیثِ مبارکہ:

1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ پاک عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے :تم پر سچ بولنا لازم ہے کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو ! کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں پہنچا دیتے ہیں آ دمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا ہے۔

2۔ خاتم المرسلین،رحمۃ للعلمین ﷺ کا فرمانِ عظمت نشان ہے: بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا اور جھگڑا کرنا نہ چھوڑ دے اگرچہ سچا ہو۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال،ص 717 )

3۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ پاک عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ( رحمت کا ) فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے۔ ( سنن الترمذی،حدیث: 1972 )

4۔ فرمانِ مصطفیٰ ٰ ﷺ :جھوٹ میں کوئی بھلائی نہیں۔ ( موطا امام مالک،2/467،حدیث:1909 )

5۔ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ :خبردار ! جھوٹ چہرے کو سیاہ کر دیتا ہے اور چغل خوری عذاب قبر کا باعث ہے۔ ( مسند ابی یعلی ٰ،6/272،حدیث:7404 )

خطاؤں کو میری مٹا یا الہٰی مجھے نیک خصلت بنا یا الٰہی

جھوٹ کی چند مثالیں: بچوں سے جھوٹ،خریدو فروخت میں جھوٹ،مال میں جھوٹ،تجارت میں جھوٹ،پڑھائی میں جھوٹ،استاد سے جھوٹ وغیرہ۔

ہائے نافرمانیاں بد کاریاں بے باکیاں آہ ! نامے میں گناہوں کی بڑی بھر مار ہے

زندگی کی شام ڈھلتی جا رہی ہے ہائے نفس گرم روزوشب گناہوں کا ہی بس بازار ہے

جھوٹ کے معاشرتی نقصانات:1۔جھوٹ بولنے سے عزت و وقار چلا جاتا ہے۔2۔جھوٹا شخص دنیا و آ خرت میں رسوا ہوتا ہے۔3۔جھوٹ ایک ایسا رشتہ ہے جس سے دوسرے رشتے ٹو ٹ جاتے ہیں۔4۔ جھوٹ ایک ایسا زہر ہے جو انسان کو اندر ہی اندر ختم کر دیتا ہے۔6۔ جھوٹا شخص اللہ پاک کا ناپسندیدہ بندہ ہے۔7۔جھوٹ بولنے سے آخرت تباہ ہو جاتی ہے۔8۔ جھوٹ ایک ایسا ہتھیار ہے جو انسان کی جڑیں کاٹ دیتا ہے۔9۔جھوٹ بولنے والا کبھی آسودہ ذہن نہیں ہو سکتا۔10۔ جھوٹے شخص پر اللہ پاک کی لعنت ہے۔11۔ جھوٹے انسان پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں جھوٹ جیسی باطنی بیماریوں سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین

نیکیوں میں دل لگے ہر دم بنا عامل سنت اے نانائے حسین!

جھوٹ سے بغض و حسد سے ہم بچیں کیجئے رحمت اے نانائے حسین!


قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا:وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ0(البقرة:10) ترجمہ کنزالایمان:اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے بدلہ انکے جھوٹ کا۔صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جھوٹ حرام ہے اس پر عذاب الیم یعنی درد ناک عذاب مرتب ہوتاہے۔(تفسیر خزائن العرفان،پ1،البقرۃ،تحت الآیۃ:10)

اس آیت مبارکہ اور اس کی تفسیر میں ہم نے جھوٹ کے بارے میں سنا تو جھوٹ کا معنی ہے سچ کے الٹ کو بیان کرنا(جھوٹاچور،ص21) جیسے کوئی چیز خریدتےوقت اس طرح کہنا کہ یہ مجھے فلاں سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہ ہو تو یہ جھوٹ ہے۔

جھوٹ کا حکم یہ ہے کہ جھوٹ بولنا گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(رسائل ابن نجیم،ص355) جھوٹ کا معصیت ہونا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔

تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی اس میں گناہ نہیں :پہلی صورت جنگ میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکہ دینا جائز ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دو مسلمانوں میں اختلاف ہے اور یہ ان کے درمیان صلح کرانا چاہتا ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ زوجہ اپنے شوہر کو خوش کرنے کے لیے خلافِ واقع کوئی بات کہہ دے۔(بہار شریعت،3/517،حصہ:16)

جھوٹ کے متعلق 5 احادیثِ مبارکہ مندرجہ ذیل ہیں:

فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتے ہیں اور آدمی برا بر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم،ص 108،حدیث:2061)

حضرت میمون بن ابی شبیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تم ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے یہاں تک کہ تم مزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑدو۔(مصنف ابن ابی شیبہ،13/151،حدیث:26119)

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اسکی پیدا کی ہوئی چیز یعنی جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے حفاظت کرنے والے فرشتے اس سے کوس بھر دور چلے جاتے ہیں۔ (بخاری شریف)

یہ دنیا دارالامتحان ہے اگر جھوٹ بولنے والے کے منہ سے نکلنے والی بدبو ہمیں محسوس ہونے لگے تو کوئی بھی جھوٹ نہ بولے،اگر کسی کی بد نظری کرنے سے اسکی نگاہ چلی جائے تو وہ کبھی بھی بد نظری نہ کرے،اگر گانے سننے سے کانوں سے پیپ بہنا شروع ہو جائے تو کوئی گانے نہ سنے،تو ان گناہوں کی حقیقت تو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی جیسا کہ ہر وہ شخص جس کو اپنی جان پیاری ہے وہ بجلی کی ننگی تار کوہاتھ بھی نہیں لگاتا اور اسی طرح جس کا ایمان اور یقین کامل ہوتا ہے وہ پھر جھوٹ سے بچتا ہے بد نظری نہیں کرتا وہ گناہوں سے بچتا ہے کیونکہ وہ گناہ کو زہر سے زیادہ مہلک سمجھتا ہے،اور یہ حقیقت ہے۔

آقا ﷺ نے فرمایا: منافق کی 3 نشانیاں ہے:1)وعدہ خلافی کرنا 2) جھوٹ بولنا 3) امانت میں خیانت کرنا۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص 17)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں جنت کے درمیانے درجے میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں ہر اس انسان کو جو جھوٹ چھوڑ دے چاہے مذاق ہی کر رہا ہو۔(بخاری شریف)

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنے پر کیا گناہ ملتا ہے اور نہ بولنے پر کیا اجر ملتا ہے۔ جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اسکے بہت سے دینی اور دیناوی نقصان ہیں۔

فرمانِ امیر اہل سنت:سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔(7 شعبان المعظم 1441ھ بروز بدھ)تو ہمیں جھوٹ سے بچنا ہے کہ اس میں شیطان کی اتباع ہے اور معاشرتی نقصان بھی کہ جھوٹ بولنے سے دوسروں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے،کوئی ہماری بات پر یقین نہیں کرتا اس لیے ہمیں جھوٹ سے بچنا ہے،اللہ اور اسکے رسول کو راضی رکھنا ہے اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔


اولاً تو جھوٹ معاشرے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے،جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ  چاہے جان بوجھ کر ہو،یا انجانے میں ہو،کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کر دیتا ہے۔ لڑائی،جھگڑا اور خون خرابہ کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے . جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے،اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبارنہیں۔

جھوٹ کی تعریف:کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا ( جھوٹ کہلاتا ہے)قائل ( یعنی جھوٹی خبر دینے والا) گناہ گا راس وقت ہوگا جبکہ (بلا ضرورت) جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔ ( حديقہ نديہ،4/10)

پہلا جھوٹ کس نے بولا:فرمانِ امیرِ اہلِ سنت: سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔(مدنی مذاکره،4 ذوالحجہ الحرام،1435 ھ،مدنی پھول نمبر :1)

حديث 1: لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔ ( ترمذی،4/142،حدیث : 2322)

شرح:بعض اوقات لوگ مذاق میں جھوٹ بول دیتے ہیں۔ بسا اوقات یہ ایک جھوٹ بہت سارے گناہوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے مذاق میں جھوٹ بولنے سے منع فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : یعنی بربادی ہے اس کے لیے،بر بادی سے اُس کے لیے۔ یعنی لوگوں کو ہنسانے کیلئے تو جھوٹ بولنا ہمیشہ ہی جرم بلکہ ڈبل جرم،مگر لوگوں کو ہنسا نے کے لیے ہنسی مذاق میں سچی بات شریعت کے دائرے میں ہو تو گناہ نہیں۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: کسی پریشان یا مغموم (غمگین) کو ہنسا دینے کے لئے اچھی و سچی دلگی کی بات کہہ دینا ثواب ہے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے ایک بار حضور ﷺ کو ہنسانےکے لیے اپنا گھر یلو واقعہ بیان فرمایا،یہ سنتِ فاروقی ہے۔بہر حال ایسے جائز کاموں میں بھی اعتدال چاہیئے۔ان کا عادی بن جانا اچھا نہیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خوش طبعی تو حضورﷺکی سی خوش طبعی کرے جو بالکل حق ہوتی ہے۔

حدیث2:سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم ﷺ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ خصلت جھوٹ بولناتھی۔ بعض اوقات کوئی شخص نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں جھوٹ بول دیا کرتا تو نبی اکرم ﷺ کے دل میں (اُس کے لیے نا پسندیدگی کی کیفیت) رہتی یہاں تک کہ آپ کو پتا چل جاتا کہ اُس نے بعد میں توبہ کرلی ہے تو اس کے بارے میں پیارے آقا ﷺ کی ناپسندیدگی ختم ہوتی۔ ( ترمذی شریف : جلد 3)

شرح:کذب کے سبب معاشرہ تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارکہ میں کذب بیانی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔جھوٹ کا شماربرائیوں میں ہوتا ہے۔ یہ انسان کو دوزخ کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے اور مسلسل کذب بیانی کی وجہ سے انسان جہنم میں پہنچ جاتا ہے۔ (ترمذی شریف:جلد 3)

حدیث:3 : پیارے آقا ﷺ نے فرمایا:جھوٹ بولنا سب سےبڑی خیانت ہے۔

شرح : کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو!

حدیث:4: بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی : یا رسول الله ﷺ! کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے ؟ ارشاد فرمایا : ہاں۔ پوچھا گیا : کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا : ہاں۔ پوچھا گیا : کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا: نہیں۔

شرح : یعنی مسلمان میں بزدلی یا کنجوسی فطری طور پرہو سکتی ہے کہ یہ عیوب ایمان کے خلاف نہیں۔ (ہاں !) مگر بڑا جھوٹا،ہمیشہ کا جھوٹا ہونا،جھوٹ کا عادی ہونا مومن ہونے کی شان کے خلاف ہے۔

حدیث:5: پیارے آقاﷺ نے فرمایا:بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔

شرح:یعنی اس کے لیے یہ حکم کر دیا جاتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے۔فرشتوں پر اس کاجھوٹا ہونا ظاہر کردیا جاتا ہےاور زمین والوں کے دلوں میں بھی یہ بات ڈال دی جاتی ہے۔ حضرت مالک رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابنِ مسعودرضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور پھر وہ الله پاک کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔

جھوٹ کی چند مثالیں : استانی صاحبہ سے کہا کہ کل بخار کی وجہ سے جامعۃ المدینہ حاضر نہ ہو سکی(حالانکہ بخار نہیں تھا) *کسی کے بارے میں کہنا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ( جبکہ معلوم ہو کہ یہ سچا ہے) *درد نہ ہونے کے باوجود استانی صاحبہ سے کہنا :میرےپیٹ میں درد ہے۔ چھٹی دے دیجئے* رات بجلی چلی گئی تھی اس لیے سبق یاد نہ کر سکی ( جبکہ یاد نہ کرنے کا سبب سستی یا کھیل کو دیا کچھ اور تھا)* بھوک ہونے کے باوجود من پسند کھانا نہ ملنے پر یہ کہنا کہ مجھے بھوک نہیں ہے* کسی کے بارے میں کہنا کہ اس نے مجھے گالی دی ہے ( حالانکہ خود نے اُسے گالی دی تھی) *معمولی سی کھانسی یا ہلکا سا بخار ہوا لیکن سب کی ہمدردیاں لینے کے لیے ان کے سامنے اور زور سے کھانسنا یا اُن کے سامنے آ۔اُو کی آواز نکالنا تا کہ یہ سمجھے کہ طبیعت بہت خراب ہے۔

چند معاشرتی نقصانات: جو بار بار جھوٹ بولتا ہے وہ لوگوں میں جھوٹا مشہورہوجاتا ہے*جھوٹ بولنے سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے *جھوٹ بولنے سے کاروبار ختم ہو جاتا ہے*جھوٹ بولنے سے مال کی برکت چلی جاتی ہے*جھوٹ بولنے والے کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا* جھوٹ بولنے والا مسلمانوں کو دھوکا دینے والا ہے * جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ ہو جاتا ہے*جھوٹ بولنا منافق کی نشانی قرار دیا گیا ہے *جھوٹ بولنے والے کا ضمیر مطمئن نہیں ہوتا*جھوٹ بولنے والے کی روزی سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔


خلافِ واقع(حقیقت کے برعکس) بات کو جھوٹ کہتے ہیں۔(حدیقہ ندیہ،2 / 400)

سب سے پہلا جھوٹ: سب سے پہلے جھوٹ شیطان نے بولا تھا،جب اس نے آدم علیہ السلام سے کہا: میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ اور جہنم کا راستہ ہے۔ جھوٹ کے سبب انسان ہر قسم کے گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور قدرتی طور پر لوگوں کو اس کا اعتبار نہیں رہتا۔

فی زمانہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ بہت ہی زیادہ بولا جاتا ہے۔ بات بات پر جھوٹ بولنا،جھوٹ بول کر لوگوں میں لڑائی جھگڑے کروانا،خرید وفروخت میں جھوٹ بولنا،جھوٹی قسمیں کھانا،مذاق میں جھوٹ بولنا،کسی پر جھوٹا الزام لگانا،جھوٹی تعریفیں کرنا،جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلانا ہمارے یہاں بالکل عام ہے۔ یاد رکھئے! بظاہر اگرچہ جھوٹ میں نفع دکھائی دے لیکن درحقیقت یہ ہلاکت و بربادی کا سبب ہے۔

حضور خاتم النبیین ﷺ نے ارشاد فرمایا:

1:جھوٹ سے بچو،کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے،یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم،ص 1405،حدیث: 2607)

2:جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اُس کے لیے جہنم واجب کردے گا۔(ابن ماجہ،3/ 123،حدیث:2372)

3:اس کے لئے بربادی ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹی بات کرتا ہے،اس کے لیے بربادی ہے،اس کے لیے بربادی ہے۔(ترمذی،4 /141،حدیث:2322)

4:یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات کہو کہ وہ تمہیں اس بات میں سچا سمجھ رہا ہو اور تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔(سنن أبی داود،4/381،حدیث:4971)

5:جس شخص نے مجھ پر قصداً جھوٹ گھڑا تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔(سنن ابن ماجہ،حدیث:30)

محترم قارئین! جھوٹ بولنے والا دنیا میں چاہے کتنی ہی کامیابیاں حاصل کرلے،آخرت میں اسے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا اور آخرت کی ناکامیوں اور رسوائیوں سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی مصیبت نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ جھوٹ بولنے سے اجتناب کریں۔اللہ پاک ہمیں جھوٹ سے بچنے اور ہمیشہ سچ بولنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


جھوٹ ایک کبیرہ گناہ ہے اور ایک مذموم صفت ہے جو الله پاک اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضی و جہنم میں داخلے اور جنت سے محرومی کا سبب ہے۔تمام بری خصلتوں میں سب سے بری عادت جھوٹ بولنا ہے۔جھوٹ بولنا ایک ایسا کام ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں۔ جھوٹ ایک ایسی صفت ہے جو اپنے ساتھ دیگر کئی برائیوں کو جمع کر لیتی ہے۔ جھوٹا شخص الله کو سخت ناپسند ہے اور لوگوں کو بھی نا پسند ہوتا ہے۔جھوٹ ظاہری گناہوں میں سے ہے اور ظاہری گناہ باطن کو بھی تباہ کر دیتے ہیں لہٰذا جھوٹ بولنا منافقین کی علامت ہے چنانچہ حضرت ابو بریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تین عادتیں ایسی ہیں جس شخص میں ہوں وہ منافق ہے اگر چہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے: (1) بات کرے تو جھوٹ بولے (2) وعدہ کرے تو پورا نہ کرے (3) امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،1/237،حدیث:257)

جھوٹ کی تعریف :جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے خلاف کوئی بات کرے۔

پہلا جھوٹ کس نے بولا ؟ حضرت آدم صفی الله علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سےشیطان مردود ہوا تھا لہٰذا وہ آپ علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔ اللہ پاک نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام سے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤالبتہ اس درخت کے قریب نہ جانا۔شیطان نے کسی طرح حضرت آدم وحوا کے پاس پہنچ کر کہا: میں تمہیں شجر خلد بتادوں؟حضرت آدم علیہ السلام نے منع فرمایا : توشیطان نے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں (یعنی بھلائی چاہنے والا) ہوں۔ انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے!یہ سوچ کر حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے اس میں سے کچھ کھا لیا،پھر حضرت آدم علیہ السلام کو دیاتو انہوں نے بھی کھا لیا جیسا کہ پارہ 8 سورۃ الاعراف کی آیت 20 اور 21 میں ارشاد ہوتا ہے:فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَاوٗرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ0 وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّيْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ0 ترجمہ کنز الایمان:پھر شیطان نے ان کے جی میں خطرہ ڈالا کہ ان پر کھول دے ان کی شرم کی چیزیں جو ان سے چھپی تھی اور بولا تمہیں تمہارے رب نے اس پیڑ سے اسی لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم دو فرشتے ہو جاؤ یا ہمیشہ جینے والے اور ان سے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں:معنی یہ ہیں کہ ابلیس ملعون نے جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدم علیہ السلام کو دھوکا دیا اور پہلا جھوٹ بولنے والا ابلیس ہی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو گمان بھی نہ تھا کہ کوئی اللہ کی قسم کھا کر جھوٹ بول سکتا ہے اس لئے آپ نے اس کی بات کا اعتبار کیا۔ الله ہمیں شیطان کے مکر و فریب سے بچائے۔ (آمین)

جھوٹ کی مذمت پر 5 فرامین ِ مصطفیٰ :

1) کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔ (سنن ابی داؤد،2/381،حدیث: 2971)

2) بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس میں خوب کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ الله کے ہاں اسے کذاب (بہت بڑاجھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری،2/125،حدیث:6092)

3) ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو ہنسائے اس کے لیےہلاکت ہے اس کے لیے ہلاکت ہے۔(سنن ابی داؤد،2/387،حدیث:2990)

4) جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کے سبب فرشتے اس سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں۔ (سنن الترمذی،3/392،حدیث:1979)

5) جھوٹ نفاق کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔(مساوی الاخلاق للخرائطی،ص 68،حدیث:111)

جھوٹ کی مثالیں:ہمارے معاشرے میں کئی طرح جھوٹ بولا جاتا ہے جس میں سے چند صورتیں درج ذیل ہیں:جھوٹی گواہی دینا،جھوٹی شکایت لگانا،جھوٹی تعریفیں کرنا،جھوٹی قسمیں کھانا،جھوٹے خواب سنانا،جھوٹی خبریں سنانا،بڑوں کا بچوں سے جھوٹ بولنا،مذاق میں جھوٹ بولنا،جھوٹے میسج کرنا،خرید و فروخت میں جھوٹ بولنا،وعدہ خلافی کرنا،جھوٹے بہانے بنانا۔

معاشرتی نقصانات:ہمارے معاشرے میں کافی جھوٹ بولا جاتا ہے جس کے سبب ہمارا معاشرہ تباہ و برباد ہورہا ہے اور بڑے تو بڑے ہمارے معاشرے کے بچے بھی جھوٹ جیسی مذموم صفت میں گرفتار ہیں۔گھروں میں آپس میں ایک دوسرے سے جھوٹ بولا جاتا ہے جس کے نتیجے میں رشتے خراب ہوتے ہیں۔لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔کسی نے درست کہا ہے کہ ایک سچ ہزار جھوٹوں سے بہتر ہے۔اللہ پاک ہمیں جھوٹ سے بچائے۔آمین


افسوس! آجکل جھوٹ بہت عام ہو گیا۔ بات بات پر جھوٹ بول دیتے ہیں اور اس  کو بہت معمولی بات سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمیں غور کرنا چاہئے کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔

(1)الله پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ0(پ24،المومن:28) ترجمہ کنزالایمان:بے شک الله راہ نہیں دیتااسے جو حد سے بڑھنے والا بڑا چھوٹا ہو۔

(2)ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِيْنَ0(پ 3،اٰل عمران : 61)

ترجمہ:پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔

حدیث مبارکہ میں جھوٹ بولنے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔

1۔ بے شک جھوٹ فسق وفجورکی طرف لے جاتا ہے اور بے شک فسق و فجور جہنم تک جاتا ہے۔ ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب (بہت بڑا جھوٹا)لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم،ص1405،حديث:2607)

حدیثِ مبارکہ میں بیان ہوا کہ جھوٹ فسق کی طرف لے جاتا ہے اور فسق جہنم تک لے جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ جہنم کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ہر مسلمان کی خواہش یہی ہے کہ اسے جنت میں بلا حساب داخلہ نصیب ہو۔تو پھر یہ خواہش رکھتے ہوئے ہم جھوٹ بھی بولیں،دیگر گناہ بھی کریں۔ہمیں اپنے افعال پر غور کرنا چاہئے۔

2۔منافق کی تین نشانیاں ہیں :(1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے(2) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے(3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جاتی ہے تو خیانت کرے۔( مسلم،ص 50،حدیث: 59)

نفاق کالغوى معنى باطن کا ظاہر کے خلاف ہونا ہے۔اگر اعتقاد اور ایمان کے بارے میں یہ حالت ہو تو اسے نفاق کفر کہتے ہیں اور اگر اعمال کے بارے میں ہو تو اسے نفاق عملی کہتے ہیں اور یہا ں حدیث میں یہی مراد ہے۔ (فیض القدیر،1/593،تحت الحديث:916)

3۔جھوٹ اور خیانت کے علاوہ مومن کی طبیعت میں ہر بات ہو سکتی ہے۔ (مسندامام احمد،8/276،حدیث: 22232 )

4۔ جس میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے حتی کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ 1)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔3) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور4) جب جھگڑے تو گالی دے۔( بخاری،ص 25،حدیث: 34)

5۔ آدمی کے کناہگار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کردے۔(مسلم،ص8،حديث: 5)

اس پانچویں حدیث پر غور کریں آجکل تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے جس کو جو خبر ملی اسے Share کر دیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ پہلے اس Post کی تحقیق کریں آیا یہ خبردرست ہے یا نہیں !لیکن آج کل تو بس کوئی خبر ملنی چاہئے ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ میرے فولوورز بن جائیں،میرے (Likes )بڑھ جائیں۔ جو ہر سنی ہوئی بات بغیر تحقیق کے آگے بیان کر دیتے ہیں ان کے لیے یہ حدیث عبرت کے لیے کافی ہے۔

مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر کوئی ایک بار جھوٹا مشہور ہو جائے تو چاہےپھر کتنی ہی سچی باتیں بولے لوگوں کا اس پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے وہ اسے جھوٹا ہی کہتے ہیں۔

آئیے !جھوٹ کی تعریف بھی جان لیتے ہیں۔

جھوٹ کی تعریف: کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا۔ قائل گناہگار اس وقت ہوگا جبکہ(بلا ضرورت) جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔(الحدیقہ الندیہ،2/200)

کہاں جھوٹ بولنا جائز ہے ؟ تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے:

(1)جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکا دینا جائز ہے۔اسی طرح جب ظالم ظلم کرنا چاہتا ہو اس کے ظلم سے بچنے کے لیے بھی جائز ہے۔(2)دوسری صورت یہ ہوگی کہ دو مسلمانوں میں اختلاف ہے اور یہ ان دونوں میں صلح کرانا چاہتا ہے مثلا ایک کے سامنے یہ کہہ دے کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے تمہاری تعریف کرتا تھایا اس نے تمہیں سلام کہلا بھیجا ہے اور دوسرے کے پاس بھی اسی قسم کی باتیں کرے تاکہ دونوں میں عداوت کم ہو جائے اور صلح ہو جائے۔(3)تیسری صورت یہ ہے کہ بی بی کو خوش کرنے کے لیے کوئی خلاف واقع بات کہہ دے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا :وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان میں اصلاح کرتا ہے،اچھی بات کہتا ہے اور اچھی بات پہنچاتا ہے۔

تو آئیے!یہ عہد کریں کہ کچھ بھی ہو جائے ہم جھوٹ نہیں بولیں گے کہ ایک جھوٹ چھپانے کے لیے 70 جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔

جھوٹ کے خلاف جنگ ! جاری رہے گی۔ ان شاء الله