جھوٹ ایک کبیرہ گناہ ہے اور ایک مذموم صفت ہے جو الله پاک
اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضی و جہنم میں داخلے اور جنت سے محرومی کا سبب ہے۔تمام بری
خصلتوں میں سب سے بری عادت جھوٹ بولنا ہے۔جھوٹ بولنا ایک ایسا کام ہے کہ ہر مذہب
والے اس کی برائی کرتے ہیں۔ جھوٹ ایک ایسی صفت ہے جو اپنے ساتھ دیگر کئی برائیوں
کو جمع کر لیتی ہے۔ جھوٹا شخص الله کو سخت ناپسند
ہے اور لوگوں کو بھی نا پسند ہوتا ہے۔جھوٹ ظاہری گناہوں میں سے ہے اور ظاہری گناہ
باطن کو بھی تباہ کر دیتے ہیں لہٰذا جھوٹ بولنا منافقین کی علامت ہے چنانچہ حضرت ابو بریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم
ﷺ نے ارشاد فرمایا : تین عادتیں ایسی ہیں جس شخص میں ہوں وہ منافق ہے اگر چہ روزہ
رکھے اور نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے: (1) بات کرے تو جھوٹ بولے
(2) وعدہ کرے تو پورا نہ کرے (3) امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ (الاحسان بترتیب
صحیح ابن حبان،1/237،حدیث:257)
جھوٹ کی تعریف :جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے خلاف
کوئی بات کرے۔
پہلا
جھوٹ کس نے بولا ؟ حضرت آدم صفی الله علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی
وجہ سےشیطان مردود ہوا تھا لہٰذا وہ آپ علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں
رہا۔ اللہ پاک نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام
سے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤالبتہ اس درخت کے قریب نہ
جانا۔شیطان نے کسی طرح حضرت آدم وحوا کے پاس پہنچ کر کہا: میں تمہیں شجر خلد بتادوں؟حضرت آدم علیہ السلام نے منع فرمایا : توشیطان نے
قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں (یعنی بھلائی چاہنے والا) ہوں۔ انہیں خیال ہوا
کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے!یہ سوچ کر حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے اس
میں سے کچھ کھا لیا،پھر حضرت آدم علیہ السلام
کو دیاتو انہوں نے بھی کھا لیا جیسا کہ پارہ 8 سورۃ الاعراف کی آیت 20 اور 21 میں ارشاد ہوتا ہے:فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا
مَاوٗرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ
هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ
الْخٰلِدِيْنَ0 وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّيْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ0
ترجمہ کنز الایمان:پھر شیطان نے ان کے جی
میں خطرہ ڈالا کہ ان پر کھول دے ان کی شرم کی چیزیں جو ان سے چھپی تھی اور بولا
تمہیں تمہارے رب نے اس پیڑ سے اسی لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم دو فرشتے ہو جاؤ یا
ہمیشہ جینے والے اور ان سے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔
صدرالافاضل
حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر خزائن
العرفان میں لکھتے ہیں:معنی یہ ہیں کہ ابلیس ملعون نے جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدم علیہ السلام کو دھوکا دیا اور پہلا جھوٹ
بولنے والا ابلیس ہی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو گمان بھی نہ تھا کہ کوئی اللہ کی
قسم کھا کر جھوٹ بول سکتا ہے اس لئے آپ نے اس کی بات کا اعتبار کیا۔ الله ہمیں شیطان
کے مکر و فریب سے بچائے۔ (آمین)
جھوٹ کی مذمت پر 5 فرامین ِ مصطفیٰ :
1)
کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا
سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔ (سنن ابی داؤد،2/381،حدیث: 2971)
2) بندہ
جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس میں خوب کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ الله کے ہاں اسے کذاب
(بہت بڑاجھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری،2/125،حدیث:6092)
3) ہلاکت ہے اس
شخص کے لیے جو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو ہنسائے اس
کے لیےہلاکت ہے اس کے لیے ہلاکت ہے۔(سنن ابی داؤد،2/387،حدیث:2990)
4) جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو کے سبب فرشتے
اس سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں۔ (سنن الترمذی،3/392،حدیث:1979)
5) جھوٹ نفاق کے
دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔(مساوی الاخلاق للخرائطی،ص 68،حدیث:111)
جھوٹ کی مثالیں:ہمارے معاشرے میں کئی طرح جھوٹ بولا
جاتا ہے جس میں سے چند صورتیں درج ذیل
ہیں:جھوٹی گواہی دینا،جھوٹی شکایت لگانا،جھوٹی تعریفیں کرنا،جھوٹی قسمیں کھانا،جھوٹے
خواب سنانا،جھوٹی خبریں سنانا،بڑوں کا بچوں سے جھوٹ بولنا،مذاق میں جھوٹ بولنا،جھوٹے
میسج کرنا،خرید و فروخت میں جھوٹ بولنا،وعدہ
خلافی کرنا،جھوٹے بہانے بنانا۔
معاشرتی نقصانات:ہمارے معاشرے میں کافی جھوٹ بولا جاتا
ہے جس کے سبب ہمارا معاشرہ تباہ و برباد ہورہا ہے اور بڑے تو بڑے ہمارے معاشرے کے
بچے بھی جھوٹ جیسی مذموم صفت میں گرفتار ہیں۔گھروں میں آپس میں ایک دوسرے سے جھوٹ
بولا جاتا ہے جس کے نتیجے میں رشتے خراب ہوتے ہیں۔لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور نفرتیں
پیدا ہوتی ہیں۔کسی نے درست کہا ہے کہ ایک سچ ہزار جھوٹوں سے بہتر ہے۔اللہ پاک ہمیں
جھوٹ سے بچائے۔آمین