قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا:وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ0(البقرة:10) ترجمہ کنزالایمان:اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے بدلہ انکے جھوٹ کا۔صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جھوٹ حرام ہے اس پر عذاب الیم یعنی درد ناک عذاب مرتب ہوتاہے۔(تفسیر خزائن العرفان،پ1،البقرۃ،تحت الآیۃ:10)

اس آیت مبارکہ اور اس کی تفسیر میں ہم نے جھوٹ کے بارے میں سنا تو جھوٹ کا معنی ہے سچ کے الٹ کو بیان کرنا(جھوٹاچور،ص21) جیسے کوئی چیز خریدتےوقت اس طرح کہنا کہ یہ مجھے فلاں سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہ ہو تو یہ جھوٹ ہے۔

جھوٹ کا حکم یہ ہے کہ جھوٹ بولنا گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(رسائل ابن نجیم،ص355) جھوٹ کا معصیت ہونا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔

تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی اس میں گناہ نہیں :پہلی صورت جنگ میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکہ دینا جائز ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دو مسلمانوں میں اختلاف ہے اور یہ ان کے درمیان صلح کرانا چاہتا ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ زوجہ اپنے شوہر کو خوش کرنے کے لیے خلافِ واقع کوئی بات کہہ دے۔(بہار شریعت،3/517،حصہ:16)

جھوٹ کے متعلق 5 احادیثِ مبارکہ مندرجہ ذیل ہیں:

فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتے ہیں اور آدمی برا بر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم،ص 108،حدیث:2061)

حضرت میمون بن ابی شبیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تم ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے یہاں تک کہ تم مزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑدو۔(مصنف ابن ابی شیبہ،13/151،حدیث:26119)

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اسکی پیدا کی ہوئی چیز یعنی جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے حفاظت کرنے والے فرشتے اس سے کوس بھر دور چلے جاتے ہیں۔ (بخاری شریف)

یہ دنیا دارالامتحان ہے اگر جھوٹ بولنے والے کے منہ سے نکلنے والی بدبو ہمیں محسوس ہونے لگے تو کوئی بھی جھوٹ نہ بولے،اگر کسی کی بد نظری کرنے سے اسکی نگاہ چلی جائے تو وہ کبھی بھی بد نظری نہ کرے،اگر گانے سننے سے کانوں سے پیپ بہنا شروع ہو جائے تو کوئی گانے نہ سنے،تو ان گناہوں کی حقیقت تو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی جیسا کہ ہر وہ شخص جس کو اپنی جان پیاری ہے وہ بجلی کی ننگی تار کوہاتھ بھی نہیں لگاتا اور اسی طرح جس کا ایمان اور یقین کامل ہوتا ہے وہ پھر جھوٹ سے بچتا ہے بد نظری نہیں کرتا وہ گناہوں سے بچتا ہے کیونکہ وہ گناہ کو زہر سے زیادہ مہلک سمجھتا ہے،اور یہ حقیقت ہے۔

آقا ﷺ نے فرمایا: منافق کی 3 نشانیاں ہے:1)وعدہ خلافی کرنا 2) جھوٹ بولنا 3) امانت میں خیانت کرنا۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص 17)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں جنت کے درمیانے درجے میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں ہر اس انسان کو جو جھوٹ چھوڑ دے چاہے مذاق ہی کر رہا ہو۔(بخاری شریف)

احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنے پر کیا گناہ ملتا ہے اور نہ بولنے پر کیا اجر ملتا ہے۔ جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اسکے بہت سے دینی اور دیناوی نقصان ہیں۔

فرمانِ امیر اہل سنت:سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔(7 شعبان المعظم 1441ھ بروز بدھ)تو ہمیں جھوٹ سے بچنا ہے کہ اس میں شیطان کی اتباع ہے اور معاشرتی نقصان بھی کہ جھوٹ بولنے سے دوسروں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے،کوئی ہماری بات پر یقین نہیں کرتا اس لیے ہمیں جھوٹ سے بچنا ہے،اللہ اور اسکے رسول کو راضی رکھنا ہے اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔