پیاری پیاری اسلامی بہنو! ناچاقیوں اور آپس کی اَن بَن کا ایک اہم سبب جھوٹ بولنا بھی ہے۔

جھوٹ کی تعریف :

کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا جھوٹ کہلاتا ہے۔قائل(یعنی جھوٹی خبر دینے والا)گنہگار اس وقت ہوگا جبکہ بلاضرورت جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔(حديقہ ندیہ،4/ 10)

احادیث کی روشنی میں جھوٹ کی مذمت: آئیے!احادیثِ مبارکہ میں بَیان کردہ جھوٹ کی مختلف تباہ کاریاں سنتے ہیں،چنانچہ

جھوٹ کے بھیانک نتائج: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فِرِشتہ ایک مِیْل دور ہوجاتا ہے۔ (ترمذی، 3/392، حدیث1979) جھوٹ بولنا سب سے بڑی خیانت ہے۔(ابوداود،4/381، حدیث: 4971) جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔(مسند امام احمد، 1/22، حدیث:16) لوگوں کوہنسانے کےلیے جھوٹ بولنے والے کیلئے ہلاکت ہے۔ (ترمذی،4/142، حدیث:2322) لوگوں کو ہنسانے کےلیے جھوٹ بولنے والا دوزخ کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جوآسمان و زمین کے درمیانی فاصلے سے زِیادہ ہے۔ (شعب الایمان، 4/213، حدیث:4832) جھوٹ بولنے سے منہ کالا ہوجاتاہے۔ (شعب الایمان،4/208، حدیث: 4813) جھوٹی بات کہنا کبیرہ گناہ ہے۔ (معجم کبیر،18/140، حدیث:293 ملخصا) جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ (مسلم، ص 50، حدیث:106) جھوٹ بولنے والے قیامت کے دن اللہ کریم کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ افراد میں شامل ہوں گے۔ (کنز العمال،16/39، حدیث:44037)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے کہ جھوٹ آخرت کیلئے کتنی نقصان دہ چیز ہے۔ اس لیےعقل مند وہی ہے کہ جو جھوٹ سے پیچھا چھڑا کر ہمیشہ سچ کا دامَن تھامے رہے۔ سچ بولنے سے ہم نہ صِرف جھوٹ کی اِن وعیدوں سے بچ سکیں گی بلکہ سچ بولنے کے فوائد سے بھی مالامال ہوں گی۔

سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے کہا میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔

جھوٹ کی مذمت پر فرامین مصطفیٰ :

1۔ایک حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے، لہٰذا اللہ کے رسول ﷺ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا ہے۔ حدیث ملاحظہ فرمائیے:

’’عَنْ صَفْوَان بْنِ سُلَيْمٍ اَنَّہٗ قِيْلَ لِرَسُوْلِ اللہِ اَ يَکُوْنُ الْمُـؤمِنُ جَبَاناً؟ فَقَالَ: ’’نَعَمْ.‘‘ فَقِيْلَ لَہٗ: اَ يَکُونُ الْمُـؤمِنُ بَخِيْلاً؟ فَقَالَ: ’’نَعَمْ‘‘. فَقِيْلَ لَہٗ: اَ يَکُوْنُ الْمُـؤمِنُ کَذَّاباً؟ فَقَالَ: ’’لاَ‘‘ (مؤطا امام مالک، حدیث :3630) ترجمہ:حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھاگیا: کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا: ہاں۔ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ نےجواب دیا: ہاں۔ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا: نہیں (اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)۔

2۔ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو محمد عربی ﷺنے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلتِ نفاق سے متصف ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:

’’اَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ فِيہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِيْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی يَدَعَہَا: إِذَا اؤتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ.‘‘ (صحیح بخاری، حدیث : 34)ترجمہ: جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جائے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔

’’إِذَا کَذَبَ العَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْہُ الْمَـلَکُ مِيْلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِہٖ‘‘ (سنن ترمذی :1972)ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے۔

3۔ایک حدیث میں پیارے نبی ﷺ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے۔

جھوٹ کی مثالیں: عام طور پر بولے جانے والے جھوٹ جنہیں جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا، ویسے عموماً ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اکثر و بیشتر مختلف مواقع پر جھوٹ بولتے رہتے ہیں، لیکن کچھ جھوٹ ایسے بھی ہیں جو اکثر بولے جاتے ہیں، مگر ان کو جھوٹ سمجھا نہیں جاتا، مثلا ”میں معافی چاہتا یا چاہتی ہوں“ ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہیں انسان غلطی کا پتلا ہے اور اکثر غلطیاں کرتا رہتا ہے، لیکن اپنی غلطی کو چھپانے اور ایک اور مرتبہ اسے دہرانے کیلئے آئی ایم سوری جیسے الفاظ کا استعمال کرنا۔ ’’مجھے تم سے نفرت ہے“ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ تین لفظ بول دینے سے ہم اپنے نام نہاد دشمن سے بالکل قطع تعلق ہو سکتے ہیں ، لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوتا، جب کسی محبوب دوست سے جھگڑا ہو جائے تب کہنا کہ اب میں نے اس سے محبت کرنا چھوڑ دیا ہے جبکہ دل میں ابھی بھی اس کی محبت موجود ہو۔ ’’میں ٹھیک ہوں‘‘ جب بھی ہم سے کوئی پوچھتا ہے کیا حال ہے تو ہمارا ایک ہی جواب ہوتا ہے میں ٹھیک ہوں، حالانکہ بندہ جب شدید بیمار ہو تو تب بھی یہی جواب دینا جھوٹ ہے۔ اسی طرح جب کبھی ہم گر جائیں تو پاس موجود لوگ پوچھتے ہیں لگی تو نہیں اس پر ہمارا جواب ہوتا ہے نہیں بچت ہو گئی ہے اگر واقعی چوٹ لگی ہو تو یہ جھوٹ ہے۔ ’’کچھ نہیں‘‘ عام طور پر جب ہم کسی بات پر اداس ہوتے ہیں اور کوئی پوچھ لے کیا ہوا تو ہمارا جواب ہوتا ہے کچھ نہیں۔ کیا اس وقت سچ میں کچھ نہیں ہوتا یا ہمارے اندر ایک طوفان برپاہوتا ہے۔

جھوٹ بولنے کی طرح جھوٹ لکھنا بھی گناہ ہے۔ اپریل فول منانا گناہ ہے اور یہ احمقوں اور بے وقوفوں کا طریقہ ہے۔ یکم اپریل کو لوگوں کو جھوٹی باتیں بتاکر یا جھوٹی خبریں لکھ کر مذاق کیاجاتاہے جو کہ ناجائز وگناہ ہے، لہٰذا اس ناجائز و برے طریقے سے بچنا بہت ضروری ہے۔

مذاق میں بھی جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ بعض والدین بچوں کو ڈرانے کے لئے جھوٹی باتیں کرتے ہیں کہ فلاں چیز آرہی ہے مثلا بلی وغیرہ یا بہلانے کے لئے کہتے ہیں کہ ادھر آؤ ہم تمہیں چیز دیں گے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص سویا ہو تو اس کو اٹھانا کہ نماز کا ٹائم ہوگیا ہے اور جماعت میں صرف 5 منٹ باقی ہیں، حالانکہ ابھی اذان بھی نہیں ہوئی ہوتی یا پھر جماعت میں 5 سے زیادہ منٹ باقی ہوتے ہیں۔ توریہ یعنی لفظ کے جو ظاہری معنی ہیں وہ غلط ہیں مگر اس نے دوسرے معنی مراد لئے جو صحیح ہیں، ایسا کر نا بلا حاجت جائز نہیں اور حاجت ہو تو جائز ہے۔ توریہ کی مثال یہ ہے کہ آپ نے کسی کو کھانے کیلئے بلایا وہ کہتا ہے میں نے کھانا کھا لیا اس کے ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس وقت کا کھانا کھا لیا ہے مگر وہ یہ مراد لیتا ہے کہ کل کھایا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کی کوئی چیز چھپا لینا اور اس کے پوچھنے پر کہنا میرے پاس نہیں یہ بھی جھوٹ میں داخل ہے۔

بچوں کے جھوٹ بولنے کی چند مثالیں: اگر امی جان صبح اسکول میں جانے کے لئے اٹھاتی ہیں تو جھوٹا بہانہ کردیتے ہیں کہ میری طبیعت صحیح نہیں یا پھر میرے سرمیں درد ہے، یا پھر میرے پیٹ میں تکلیف ہے۔ اسی طرح جب انہیں اسکول کا سبق یاد کرنے کا کہا جائے تو جھوٹا عذر پیش کردیتے ہیں کہ مجھے نیند آرہی ہے، یا پھر مجھے فلاں تکلیف ہے۔ ایسے ہی جب ایک بچہ دوسرے بچے سے لڑائی جھگڑا کرلے یا کسی کومارے تو دریافت کرنے پر جھوٹ بول دیتاہے کہ میں نے تو نہیں مارا۔

چند ایسی مثالیں جو بظاہر تو جھوٹ لیکن حقیقت میں جھوٹ نہیں۔ اصل میں ایک عربی قاعدہ ہے لِلْاَکْثَرِ حُکْمُ الْکُل یعنی اکثر کا حکم سب پر ہوتا ہے۔ جیسے کہا جائے کہ اس وقت ساڑھے بارہ ہو چکے ہیں جبکہ حقیقت میں 11:25 یا پھر 27 منٹ ہوئے ہوں تو یہ جھوٹ نہیں، کیونکہ ساڑھے بارہ ہونے میں تھوڑا سا ہی وقت باقی ہے۔ اسی طرح کسی نے پوچھا اس وقت کہاں ہو تو جواب دیا جی میں مال روڈ پر ہوں حالانکہ حقیقت میں کہنے والا شخص مال روڈ سے تھوڑا سا پیچھے ہے تو چونکہ وہ مال روڈ بس پہنچنے ہی والا ہے اور مشہور جگہ بھی مال روڈ ہے اس لیے اس نے مال روڈ کا نام لے دیا، لیکن اگر وہ خود ابھی کلمہ چوک ہے اور بتاتا مال روڈ کا ہے تو اب یہ جھوٹ ہوگا۔

محاورہ جات: کچھ ایسے جملے ہوتے ہیں جو بس کیفیات کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے بولے جاتے ہیں اگر چہ وہ بظاہر جھوٹ ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ جھوٹ نہیں یعنی ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا جیسے کہا جائے میرا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے یعنی میرا دل بہت ہی زیادہ خوش ہوا۔ جیسے بہت زیادہ کام کرنے کے باجود کام کے مطابق فائدہ نہ ہو بلکہ تھوڑا فائدہ ہو تو کہا جاتا ہے: کھودا پہاڑ، نکلا چوہا! یہ بھی جھوٹ نہیں کیونکہ یہاں بس ایک کیفیت بتانا مقصود ہے، اسی طرح بہت سی اور بھی مثالیں ہیں۔


اللہ پاک اپنی مقدس کتاب قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ(۲۸)ترجمہ کنز الایمان:بے شک اللہ راہ نہیں دیتا اسے جو حد سے بڑھنے والا بڑا جھوٹا ہو۔(پ26، المومن:28)

جھوٹ ایک ایسا وصف ہے جسے ہر مذہب میں مذموم و قبیح سمجھا جاتا ہے۔جھوٹ کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا۔(حدیقہ ندیہ،4/10)

جھوٹ بولنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹ سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔

1-ایمان کے مخالف:آخری نبی ﷺ کا فرمان ہے:جھوٹ سے بچو!کیونکہ جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔ ( مسند امام احمد،2/468،حدیث:1913)

2-فرشتہ دور ہوجاتا ہے:حضور انور ﷺ کا فرمان ہے: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔ (ترمذی،3/392،حدیث:1979)

3-منافق کی نشانیاں:منافق کی تین نشانیاں ہیں:1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔2)جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ (مسلم ، ص 50،حدیث:59)

شرحِ حدیث:نفاق کا لغوی معنی:باطن کا ظاہر کے خلاف ہونا ۔اگر اعتقاد ااور ایمان کے بارے میں یہ حالت ہو تو اسے نفاق کفر کہتے ہیں اور اگر اعمال کے بارے میں ہو تو اسے نفاق عمل کہتے ہیں اور یہاں حدیث میں یہی مراد ہے۔ (فیض القدیر،1/593،تحت الحدیث:916)

4-اللہ پاک کے نزدیک کذاب:بے شک جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور جہنم تک لے جاتا ہے اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب(بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم،ص1405،حدیث:2607)

5-کامل مومن نہیں ہوتا:بندہ پورا مومن نہیں ہوتا جب تک مذاق میں بھی جھوٹ کو نہ چھوڑ دے اور جھگڑا کرنا نہ چھوڑ دے اگرچہ سچا ہو۔ (مسند امام احمد،ص268،حدیث: 8638)

یاد رہے!مذاق میں بھی جھوٹ بولنا گناہ ہے،نیز بات بات پر جھوٹ بولنے والے پر لوگ اعتبار کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔جھوٹا شخص دنیا میں بھی خسارہ اٹھاتا ہے اور آخرت میں بھی۔منقول ہے :جھوٹا شخص دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل جائے گا۔(جھوٹا چور،ص3)الامان والحفیظ۔لہٰذا ہمیں چاہئے کہ خود بھی جھوٹ جیسی بری صفت سے بچیں اور اپنے بچوں کو بھی اس سے بچنے کا ذہن دیں۔اللہ پاک ہم سب کو جھوٹ سے بچ کر صادق المصدوق ﷺ کے صدقے سچ بولنے والی بنائے۔آمین


آج ہم جھوٹ جیسی بڑی بُرائی اور گناہِ کبیرہ پر غورو فکر کر لیتے ہیں۔ سب سے پہلی دلیل تو روز ِروشن کی طرح  قرآنِ کریم سے ملتی ہےکہ اللہ کریم کی سب سے آخری اور سچی کتاب قرآنِ پاک میں جھوٹ سے بچنے کا حکم دیا ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)

حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖؕ- (پ17، الحج: 30- 31) ترجمہ کنز العرفان: پس تم بتوں کی گندگی سے دور رہو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ایک اللہ کے لئے ہر باطل سے جدا ہو کر (اور) اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے ۔

نبی پاک ﷺ نے بھی ہمیں جھوٹ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔

1-بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک مذاق میں بھی جھوٹ بولنا اور جھگڑا کرنا نہ چھوڑ دے اگرچہ سچا ہو ۔ ( جہنم میں لے جانے والے اعمال ،ص717 )

2۔بڑی خیانت تو یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے ایسی بات کہے جس میں وہ تجھے سچا سمجھ رہا ہو جبکہ تو اس سے جھوٹ بول رہا ہو۔ ( جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص718 )

3۔والدین کے ساتھ نیک سلوک عمر میں اضافہ کرتا ہے۔ جھوٹ رزق میں کمی کرتا اور دعا قضا کو ٹال دیتی ہے ۔

4۔جس نے کسی بچے سے کہا :ادھر آو ! میں تمہیں کچھ دوں گا پھر اسے کچھ نہیں دیا تو یہ بھی ایک جھوٹ ہے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 721)

5۔ اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے بات کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے اس کے لئے ہلاکت ہے ! اس کے لئے ہلاکت ہے۔

بے شک جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ اور جہنم میں جانے کی وجہ بن سکتا ہے۔ ہمیں علم ہونا چاہئے کہ سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا اور اللہ پاک کی رحمت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہو گیا ،اسی لئے جھوٹ بولنا شیطان کی پیروی کرنا ہے۔ جھوٹ بولنے والی اللہ پاک کی رحمتوں اور جنت سے دور ہو جاتی ہے ۔اس برائی سے اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو بچانے کے لئے اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ کبھی تو ہم جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کے گناہ میں مبتلا ہو جاتی ہیں، کبھی بے دھیانی میں، لاعلمی کی وجہ سے اور بے سوچے سمجھے بولنے کی وجہ سے جھوٹ بولنے کے گناہ میں پڑ جاتی ہیں۔

آج کل کے ماحول میں قدم قدم پر ہمیں جھوٹ بولنے کی گویا تربیت دی جا رہی ہے۔ ہم اپنی روزمرہ زندگی پر توجہ دیں تو بعض اوقات ہم شہرت حاصل کرنے کے لئے ،لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے، لوگوں کو خوش کرنے کے لئے جھوٹے چٹکلےاور اخلاقیات سے گرے ہوئے مذاق اور جھوٹ میں مبتلا ہو کر لوگوں کی جھوٹی توجہ، جھوٹی محبت، جھوٹ کے گناہ کر کے اپنے لئے جہنم کی آگ و عذاب کا انتظام کر رہی ہوتی ہیں۔

آج کل کے دور میں گھروں کے بڑے اور والدین اپنے بچوں کو بہلانے،وقتی طور پر خوش کرنے کے لئے جھوٹے وعدے اور جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔ فلاں کام کرلو ،فلاں جگہ جائیں گے، فلاں چیز گفٹ کریں گے جبکہ حقیقت میں اسے پورا کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا ،یوں بچپن ہی سے بچوں کے ساتھ جھوٹ بول کر ان کو جھوٹ کی تربیت دی جاتی ہے۔ کوئی کسی چیز کی قیمت پوچھے ،حسب ضرورت کم یا زیادہ بول دیتے ہیں :کہاں سے لی؟ مزے سے جھوٹ بول دیتے ہیں۔ کسی سے کام نکلوانا ہے تو جھوٹی تعریف اور جھوٹے ڈرامے کر لیتے ہیں ۔کوئی کام نہیں کرنا تو جھوٹی طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ کہیں نہیں پہنچ سکے یا لیٹ ہو گئے تو جھوٹا بہانہ بنا لیتے ہیں۔ کوئی کام نہیں ہو پا رہا تو جھوٹے سرٹیفکیٹ، جھوٹی رپورٹ ،جھوٹے بل بنوالیتے ہیں۔

جھگڑا ہو جائے جھوٹے الزام کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں ۔مال و مفاد حاصل کرنے کے لئے جھوٹی گواہیاں دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ دوسروں میں پھوٹ ڈلوانے، عزت گھٹانے کے لئے جھوٹے بہتان باندھ دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کا شاید کوئی مقام ہو جہاں جھوٹ نہیں بولا جاتا ۔بہت زیادہ فکر کا مقام ہے ۔اگر ہم نے اس گناہ کبیرہ یعنی جھوٹ سے بچنے کی کوشش نہیں کی، اس گناہ کے نتیجے میں ہونے والے روحانی، اخروی اور دنیاوی نقصانات کا شعور حاصل نہ کیا تو یہ معاشرہ اور ہماری آنے والی نسلیں رب کی ناراضی، آخرت کے خسارے کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار کی بے شمار کمزوریوں، بے یقینی، آپس میں کسی پر بھی اعتماد نہ ہونے اور مزید معاشرتی قدروں کے زوال اور تباہی کا سامنا کر سکتی ہیں۔

ہمیں آج ہی سے اپنی اصلاح پر غور و فکراور کوشش شروع کرنی ہو گی۔ خود بھی سوچ سمجھ کر کلام یعنی بات چیت کرنی ہے،لمبی لمبی باتیں کرنے کے بجائے مختصر اور جامع کریں، دوسروں سے بھی ایسے سوالات اور باتیں نہیں کرنی جن سے ان کو سچ بولنے میں آزمائش ہو۔علم دین حاصل کرنے اور اس شعور کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش جاری رکھنی ہے۔اپنے گھر والوں اور ارد گرد سب کے لئے role model بن کر پیارے آخری نبی ﷺ کی سنتوں پر چل کر عملی تربیت کرنی ہے۔ اللہ والوں کی صحبت کی برکتیں حاصل کرتے رہیں گی تو ہماری روح کی صفائی ہوتی رہے گی اور جھوٹ کی بدبو اور گندگی سے نجات حاصل ہو گی۔ آئیے! نیت کرتی ہیں کہ جھوٹ سے بچتی اور بچاتی رہیں گی۔ اللہ کریم ہمیں اخلاص کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کا فرمان ہے:جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے ۔آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ ( ترمذی،3/ 391،حدیث:1978)

بات کا حقیقت کے خلاف ہونا جھوٹ ہے۔جھوٹ اپنے بدترین انجام اور بُرے شعبے کی وجہ سے تمام بُرائیوں کی جڑ ہے۔اس سے چغلی کا دروازہ کھلتا ہے۔چغلی سے بغض پیدا ہوتا ہے ۔بغض سے دشمنی ہو جاتی ہے ۔جس کے ہوتے ہوئے امن و سکون قائم نہیں ہوتا۔سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔جھوٹ ایسی بُری عادت ہے کہ نبی ِکریم ﷺ نے جھوٹ کی عادت کو سب سے زیادہ نا پسند کیا ۔

جھوٹ کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی ٰ ﷺ:

1۔اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہو جاتے ہیں۔ (ترمذی،1972 )

2۔ یقیناً جھوٹ بُرائی کی رہنمائی کرتا ہے اور بُرائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے ۔( بخاری، حدیث:6094 )

3۔یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو ۔ (ابو داود، حدیث:4971 )

4۔ وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے تا کہ اس سے لوگ ہنسیں لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے ایسے شخص کے لئے بربادی ہو ایسے شخص کے لئے بربادی ہو ۔( ترمذی، حدیث:2315 )

5۔ جس میں چار خصلتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے تا کہ وہ اسے چھوڑ دے :جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ،جب بات کرے تو جھوٹ بولے ،جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے ۔(بخاری، حدیث:34) ہمیں چاہئے کہ جھوٹ نہ بولیں،ہمیشہ سچ بولنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں جھوٹ کی آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین


جھوٹ کا مطلب یہ ہےکہ حقیقت کے خلاف کوئی بات کی جائے ۔جب کہ سچ یہ ہے کہ حقیقت کے مطابق بات کی جائے ۔ہمیشہ سچ بولنا اور سچائی کا راستہ اپنانا جنت میں لے جائے گا جبکہ جھوٹ کا راستہ اپنانا جہنم میں لے جائے گا۔ (تعلیماتِ قرآن،ص36 )

سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا ؟شیطان ابلیس نے پہلا جھوٹ بولا تھا۔

احادیث مصطفٰے:

1-نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا کہ جھوٹوں پر الله پاک کی لعنت ہے۔

2-نبی کریمﷺ فرماتے ہیں :صدق کو لازم کر لو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اورجھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجورجہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ الله پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔

3-نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔(بہار شریعت، حصہ:16،ص158)

معاشرتی نقصان:معاشرتی نقصان یہ ہے کہ بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلے سے زیادہ ہے۔اس کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی قدم سے لغزش ہوتی ہے۔جھوٹ سے منہ کالا ہوتا ہے اور چغلی سے قبر کا عذاب ہوتا ہے۔ ہمیں معاشرتی نقصان سے بچنا چاہیے کیونکہ جھوٹ بولنے سے انسان دنیا میں ذلیل ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔جھوٹ بولنے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔جھوٹ بولنا انسان کوتباہ و بربادکرتا ہے ۔ (تعلیمات قرآن،ص 36)

مثالیں:الله پاک نے قرآنِ پاک میں جھوٹ کے متعلق وعید اور رسولِ پاک ﷺ نے اس کے بارے میں ارشادات بھی فرمائے ہیں، کسی کی بات کسی اور کے آگے بیان کرنا اور خود سے بھی بات ملانا تو یہ جھوٹ میں شمار کیا جاتا ہے ۔جھوٹ بولنے سے اللہ پاک کی لعنت پڑتی ہے اور اس کی بہت سی مثالیں ہیں اور وہ یہ ہیں:

جھوٹ کی مثالیں:جھوٹ یہ ہے کہ سچی بات کہہ دینا جس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہ ہو۔کوئی چیز خریدتے وقت کہنا :یہ مجھے فلاں سے اس سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے ۔اسی طرح بائع کا زیادہ رقم کمانے کے لیے قیمت ِخرید زیادہ بتانا ۔


جھوٹ کے معنی ہیں: سچ کا اُلَٹ۔

جھوٹ کی چند مثالیں: کوئی چیز خریدتے وَقْت اس طرح کہنا کہ یہ مجھے فلاں سے اس سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح بائع (Seller) کا زیادہ رقم کمانے کے لئے قیمتِ خرید (Purchase price)زِیادہ بتانا۔جعلی یا ناقص یا جن دواؤں سے شفا کا گمانِ غالب نہیں ہے ان کے بارے میں اِس طرح کہنا ”سو فیصدی شرطیہ عِلاج“ یہ جھوٹا مُبَالغہ ہے۔

وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰)ترجمہ کنزالایمان: اور اُن کے لئے دردناک عذاب ہے بدلہ اُن کے جھوٹ کا۔

صدر الافاضل علامہ سیِّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس آیت سے ثابت ہوا کہ جھوٹ حرام ہے اس پر عذابِ الیم (یعنی دردناک عذاب) مُرتب ہوتا ہے۔

”جھوٹ“ کے متعلق مختلف احکام:(1):جھوٹ بولنا گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ (2)جھوٹ کا معصیت (گناہ) ہونا ضروریاتِ دین میں سے ہے (لہٰذا جو اس کے گُناہ ہونے کا مطلقاً انکار کرے دائرہ اسلام سے خارِج ہو کر کافِر ومُرتد ہو جائے گا۔)

نوٹ: تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی اس میں گُناہ نہیں: ایک جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مُقَابِل کو دھوکا دینا جائز ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ دو مسلمانوں میں اِختلاف ہے اور یہ ان دونوں میں صلح کرانا چاہتا ہے،تیسری صورت یہ ہے کہ بی بی(زوجہ) کو خوش کرنے کے لئے کوئی بات خِلافِ واقع کہہ دے۔

5فرامین مصطفٰے:

٭جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گُناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گُناہ جہنّم کا راستہ دِکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب (یعنی بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔

٭مجھ پر جھوٹ باندھنا کسی اور پر جھوٹ باندھنے جیسا نہیں،لہٰذا جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

٭اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جو شخص قسم کھائے اور اس میں مچھر کے پَر کے برابر جھوٹ ملا دے تو وہ قسم تا یومِ قیامت (یعنی قِیامت کے دن تک) اُس کے دِل پر (سِیاہ) نکتہ بن جائے گی۔

٭مجھ پر جھوٹ باندھنا گناہ ِکبیرہ ہے۔

٭جھوٹی قسم کے دُنیوی نقصانات پر غور کیجئے کہ جھوٹی قسمیں گھروں کو ویران کر دیتی ہے۔

”جھوٹ“میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب:

٭مال کی حرص کہ خرید وفروخت میں رقم بچانے یا زیادہ مال کمانے کے لئے جھوٹ بولنا عام پایا جاتا ہے۔

٭مُبَالغہ آرائی (بڑھا چڑھا کر بیان کرنے) کی عادت: ایسے افراد حد سے بڑھ کر جھوٹی مُبَالغہ آرائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔آج کل اشیاکی مشہوری (Advertisement) میں اس طرح کی جھوٹی مُبَالغہ آرائی عام ہے۔

٭حُبِّ مدح یعنی اپنی تعریف کی خواہش، ایسے لوگ اپنی واہ واہ کے لئے جھوٹے واقعات بیان کرتے رہتے ہیں۔

٭فضول گوئی کی عادت: آج کل مُروّتاً جھوٹ بولنا بھی عام پایا جاتا ہے مثلاً کسی نے سوال کیا: ”ہمارے گھر کا کھانا پسند آیا؟“ تو مُروّت میں آ کر کہہ دیا: ”جی، بہت پسند آیا۔“ حالانکہ واقع میں اس کو کھانا پسند نہیں آیا تھا تو یہ بھی جھوٹ ہو گا۔

جھوٹ کی مذمت:

٭جھوٹ کی دُنیوی اور اُخروی تباہ کاریوں پر غور کیجئے مثلاً جھوٹے سے لوگ نفرت کرتے ہیں، اس پر سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے، جھوٹے پر لعنت کی گئی ہے اور جھوٹا دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل دیا جائے گا، اس طرح غور وفکر کرتے رہنے سے اِن شاءَ اللہ! سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کا ذِہن بنے گا۔

٭صرف ضرورت کی بات ہی کیجئے اور بےجا بولتے رہنے کی عادت سے چھٹکارا حاصِل کیجئے۔

٭مُبَالغہ کرنے کی عادت بھی ختم کیجئے اور بولنے سے پہلے سوچنے کی عادت اپنائیے۔

جھوٹ کی برائیاں: جھوٹ بولنا حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ جس نے جھوٹی قسم کھائی وہ سخت گنہگار ہوا، اس پر توبہ و اِستغفار فرض ہے مگر کفّارہ لازِم نہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس (یعنی جھوٹی قسم) کا کوئی کفّارہ نہیں اس کی سزا یہ ہے کہ جہنّم کے کھولتے دریا میں غوطے دیا جائے گا۔

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهٗؕ-اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِیْنَ(۶۸) ترجمہ کنزالایمان : اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے جب وہ اس کے پاس آئے کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں۔

نوٹ: جھوٹ کے متعلق مزید معلومات کے لئے بہارِ شریعت، حصہ 3، صفحہ 515 تا 519 اور رسالہ جھوٹا چور کا مُطَالعہ کیجئے۔


جھوٹ بولنا ظاہری گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔جھوٹ گناہوں کی جڑ ہے۔جھوٹ  بولنا گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔جھوٹ کا معصیت(گناہ) ہونا ضروریاتِ دین سے ہے۔لہٰذا جو اس کے گناہ ہونے کا مطلقاً انکار کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوکر کافر ومرتد ہوجائے گا۔ہم دنیا میں جو عمل کرتی ہیں ا س کے نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔اگر عملِ نیک ہوں تو اس کا نتیجہ بھی اچھا ہوگا۔اگر عمل برا ہوگا تو اس کا نتیجہ بھی برا ہی سامنے آئے گا۔چونکہ جھوٹ کا تعلق برے اعمال سے ہے تو اس کا نتیجہ بھی برا ہی سامنے آئے گا۔بسااوقات جھوٹ بولنے سے بظاہر فائدہ محسوس ہورہا ہوتا ہے مگر انجام بالآخر برا ہی ہوتا ہے۔اگر دنیا میں برا نتیجہ نہ بھی سامنے آئے تو قبر و آخرت میں اس کے سبب پکڑ ہوسکتی ہے۔

آیتِ مبارکہ:پارہ 17 سورۃ الحج آیت نمبر30 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجمہ کنز الایمان:اور بچو جھوٹی بات سے ۔

آیتِ مبارکہ:پارہ 14 سورۃ النحل کی آیت نمبر 105 میں ارشادِ باری ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان:جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔

صدرالافاضل حضرت مولانا مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:جھوٹ بولنا اور افترا کرنا (بہتان لگانا)بے ایمان لوگوں کا کام ہے۔(خزائن العرفان)

نیکیوں میں دل لگے ہر دم بنا عاملِ سنت اے نانائے حسین

جھوٹ سے بغض و حسد سے ہم بچیں کیجیے رحمت اے نانائے حسین

(وسائل بخشش،ص58)

جھوٹ کی تعریف:جھوٹ کا معنی ہے سچ کا الٹ۔اس سے مراد یہ ہے کہ حقیقت کے برعکس کوئی بات کی جائے۔

سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا؟سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا تھا۔حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا،اس لئے اس نے اپنے دل میں حسد پال لیا،انتقال کے متعلق سوچتا رہا، آپ کو نقصان پہنچانے کی تاک میں تھا ،چنانچہ موقع ملنے پر اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو وسوسہ ڈالا اور کہنے لگا:اے آدم!کیا میں تمہیں ایسے درخت کے بارے میں نہ بتاؤں جس کا پھل کھانے والے کو دائمی زندگی حاصل ہوتی ہے؟یہ کہہ کر شیطان نے اللہ پاک کی جھوٹی قسم کھاتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا:اس درخت میں یہ تاثیر ہے کہ اس کا پھل کھانے والا فرشتہ بن جاتا ہے ۔یوں وسوسوں کے ذریعے وہ دونوں کو اس درخت سے کھانے کی طرف لے آیا۔(سیرت الانبیا،ص100)

5 فرامینِ مصطفٰے:

1-جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب(بہت بڑا جھوٹا)لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم،ص1008)

دیکھا آپ نے! جھوٹ کتنی ہلاکت خیز بیماری ہے!انسان کے لگاتار جھوٹ بولنے کی وجہ سے اللہ پاک کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ہم میں سے ہرگز کوئی یہ نہیں چاہے گی کہ ہمارا نام تھانے میں مجرموں کے رجسٹر میں درج کردیا جائے اور اگر ایسا ہوجائے تو ہمارے دن کا چین اور راتوں کا سکون و اطمینان بر باد ہوجائے۔

2-سچ بولنا نیکی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور (گناہ) دوزخ میں لے جاتے ہیں۔(مسلم)

ہائے! نافرمانیاں، بدکاریاں، بے باکیاں آہ! نامے میں گناہوں کی بڑی بھرمار ہے

(وسائل بخشش،ص478)

3-نور کے پیکر،تمام نبیوں کے سرور ﷺ نے ارشاد فرمایا:خواب میں ایک شخص میرے پاس آیا اور بولا: چلئے!میں اس کے ساتھ چل دیا،میں نے دو آدمی دیکھے ان میں ایک کھڑا اور دوسرا بیٹھا تھا ،کھڑے ہوئے شخص کے ہاتھ میں لوہے کا زنبور تھا جسے وہ بیٹھے شخص کے ایک جبڑے میں ڈال کر اسے گدی تک چیر دیتا،پھر زنبور نکال کر دوسرے جبڑے میں ڈال کر چیرتا ،اتنے میں پہلا والا جبڑا اپنی اصلی حالت پر لوٹ آتا۔میں نے لانے والے شخص سے پوچھا:یہ کیا ہے؟اس نے کہا:یہ جھوٹا شخص ہے،اسے قیامت تک قبر میں یہی عذاب دیا جاتا رہے گا۔(جھوٹا چور،ص14)

اس روایت میں جھوٹ بولنے والوں کے لیے درسِ عبرت ہے،جھوٹ بول کر اس فانی دنیا میں وقتی کامیابی پانے والا پھولے نہیں سماتا ہے لیکن قبر و آخرت میں سوائے کفِ افسوس ملنے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا۔ذرا غور کیجیے!دنیا میں داڑھ کا درد نہ سہہ سکنے والا انسان آخرت میں جبڑے چیرے جانے پر ہونے والی تکلیف کو کس طرح برداشت کرے گا!

4-حضرت منصور بن معتمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے فرمایا:سچ بولاکرو اگرچہ تمہیں اس میں ہلاکت نظر آئے کیونکہ اس میں نجات ہے۔(مکارم الاخلاق،ص111)

5-صادق و امین ﷺ نے ارشاد فرمایا:کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس میں جھوٹ بول رہے ہو۔(ابو داود،4/381،حدیث:4971)

خطاؤں کو میری مٹا یا الٰہی! مجھے نیک خصلت بنا یا الٰہی!

(وسائل بخشش)

جھوٹ کی مثالیں:کوئی چیز خریدتے وقت اس طرح کہنا کہ یہ فلاں سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے۔اسی طرح اگر پوچھا جائے کہ اجتماع میں شرکت کی تھی؟تو کہہ دیا :جی ہاں۔حالانکہ اجتماع میں شریک نہیں ہوتا۔اسی طرح والدین بھی اپنےکم عمر بچوں سے جھوٹ بولتے ہیں جیسے: جلدی سوجاؤ ورنہ کتا یا بلی آجائے گی۔چھوٹے بچے کو بہلانے کے لئے یہ کہنا کہ” بیٹا چپ ہوجاؤ!کھلونے لاکر دوں گی“ جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔

تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے:1-جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکا دینا جائز ہے۔

2-دو مسلمانوں میں اختلاف ہے اور ان دونوں میں صلح کروانا چاہتا ہے۔3-زوجہ کو خوش کرنے کے لئے کوئی بات خلاف واقع کہہ دے۔(بہار شریعت،3/517،حصہ:16)

جھوٹ سے بچنے کے لئے:جھوٹ کی دنیوی اور اخروی تباہ کاریوں پرغور کیجیے مثلاً جھوٹ پر لعنت کی گئی ہے۔جھوٹے سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔جھوٹا دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل جائے گا۔اس طرح غور کرتے رہنےسے ان شاء اللہ سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کا ذہن بنے گا۔

میں فالتو باتوں سے رہوں دور ہمیشہ چپ رہنے کا اللہ! سلیقہ تو سکھادے

میں جھوٹ نہ بولوں کبھی گالی نہ نکالوں اللہ!مرض سے تو گناہوں کے شفا دے

(وسائل بخشش،ص115)


ہمیں جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔جھوٹ سے بچنا چاہیے۔جہاں تک ہوسکے ہمیں جھوٹ سے دور رہنا چاہئے کیونکہ جھوٹ سے دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان ہے۔دنیا میں کوئی آپ کی بات پر یقین نہیں کرے گا اور  آخرت میں جھوٹ کی سزا ملے گی۔آئیے!جانتی ہیں کہ جھوٹ کیا ہے اور اس بارے میں نبی کریم ﷺ نے کیا فرمایا ہے۔

جھوٹ کی تعریف:کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا،قائل گناہگار اس وقت ہوگا جبکہ(بلا ضرورت) جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔

سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا؟سب سے پہلے جھوٹ شیطان نے بولا تھا۔شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔تو اسی وجہ سے سب سے پہلے شیطان نے جھوٹ بولا۔

5 احادیث مبارکہ:

1-نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک کذّاب(بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم، ص1405، حدیث:2607)

تشریح:نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک کذّاب(بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔

2-منافق کی تین نشانیاں ہیں:1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔2)جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔

تشریح:اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب بھی کسی سے بات کرے تو جھوٹ بولے۔اگر وعدہ کرے تو اس وعدے کی خلاف ورزی کرے اور اسے پورا نہ کرے اور جب بھی اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے اور کہے:گم ہوگئی یا پھر چوری ہوگئی۔

3-نبی ِ کریم ﷺ نے فرمایا:تم بدگمانی سے بچوکیونکہ بلا شبہ یہ سب سے بڑی جھوٹی بات ہے۔

تشریح:اس کی وضاحت یہ ہے کہ جو کوئی بدگمانی کرتا ہے وہ سراسر جھوٹا ہوتا ہے۔اسی وجہ سے بدگمانی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے مثلاً یہ شخص بُرا ہے کہے یہ تو گمان کیا لیکن اب اگر وہ اچھا نکلے تو یہ بدگمانی جھوٹ ہوگی۔

4-نبی کریم ﷺ نے فرمایا:(بروز قیامت)تین شخصوں سے اللہ پاک کلام نہیں فرمائے گا ان میں ایک جھوٹا بادشاہ بھی ہے۔

تشریح:اس کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ پاک قیامت کے دن تمام لوگوں سے کلام فرمائے گا سوائے تین شخصوں کے اور ان میں سے ایک وہ بادشاہ ہے جو ہر وقت جھوٹ بولے۔

5-نبی کریم ﷺ نے فرمایا:آدمی کے گناہگار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کردے۔

تشریح:اس کی وضاحت یہ ہے کہ آدمی کے گناہگار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کردے،اس کی تحقیق نہ کرے کہ یہ بات سچی ہے یا جھوٹی،صحیح ہے یا غلط،بس سنتے ہی بغیر تحقیق کئے لوگوں کے سامنے بیان کردے۔

جھوٹ کی مثالیں:جھوٹ کی چند مثالیں یہ ہیں:بھوک ہونے کے باوجود من پسند چیز نہ ملنے کی وجہ سے کہنا:مجھے بھوک نہیں۔میں نے فریج سے چیز نہیں کھائی(حالانکہ کھائی تھی)۔یہ جھوٹ بول رہی ہے جبکہ معلوم ہے کہ وہ سچی ہے۔کل بخار کی وجہ سے ہوم ورک نہیں کرسکی (حالانکہ بخار نہیں تھا)۔ہوم ورک نہ کرنے کے باوجود کہنا:میں نے ہوم ورک کرلیا ہے۔میں نے تو اسے کچھ بھی نہیں کہا(حالانکہ کہا ہوتا ہے)۔

جھوٹ کے معاشرتی نقصانات:جھوٹ کے معاشرتی نقصانات یہ ہیں:جھوٹ بولنے والے سے لوگوں کا اعتبار ٹوٹ جاتا ہے۔جھوٹ بولنے والے کی کسی بھی بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا حالانکہ وہ سچ کہہ رہا ہو۔جھوٹ بولنے والے شخص سے سب لوگ نفرت کرتے ہیں۔جھوٹ بولنے والے کا سب لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور چڑاتے ہیں۔جھوٹ بولنے والے سے لوگ دور ہوجاتے ہیں اس کے قریب نہیں آتے۔کوئی بھی اسے اپنے پاس نہیں بٹھاتا۔کوئی بھی اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔جھوٹ بولنے والے سے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا۔جھوٹ بولنے والے شخص کو سب لوگ دھتکارتے ہیں۔


جھوٹ نہایت قبیح قسم کے گناہوں میں سے ہے اور نہایت بُرا عیب ہے۔جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی بُرائی کرتے ہیں ۔تمام ادیان میں یہ حرام ہے۔اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید کی ہے۔قرآنِ مجید میں بہت مواقع پر اس کی مذمت فرمائی  اور جھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت آئی۔ حدیثوں میں بھی اس کی برائی ذکر کی گئی ہے۔

جھوٹ کی تعریف:کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا،قائل گناہگار اس وقت ہوگا جبکہ (بلا ضرورت) جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔(76 کبیرہ گناہ)

سب سے پہلا جھوٹ کس نے بولا:سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے کہا: میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔(مراٰۃ المناجیح،6/453)

فرمانِ امیرِ اہلِ سنت: سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔اللہ پاک ہمیں اس شیطانی کام سے بچائے۔

جھوٹ کی مذمت پر 5 احادیث:

حدیث نمبر1:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے،اس کی بدبو کی وجہ سے جو آتی ہے۔

شرحِ حدیث:فرشتے سے مراد یا تو نیکیاں لکھنے والا فرشتہ ہے یا حفاظت کرنے والا فرشتہ یا کوئی خاص رحمت کا فرشتہ مراد ہے،گناہ لکھنے والا فرشتہ دور نہیں ہوتا۔میل سے مراد یا تو شرعی میل ہے یا تاحد نظر زمین۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی بری باتوں،نیک و بد اعمال میں خوشبو اور بدبو ہے بلکہ ان میں اچھی بری لذتیں بھی ہیں مگر یہ صاف دماغ والوں ،صاف طبیعت والوں کو ہی محسوس ہوتی ہیں۔اللہ رسول کے نام میں وہ لذت ہے جو کسی چیز میں نہیں۔(مراٰۃ المناجیح،ص322)

آنکھوں کا تارا نامِ محمد دل کا اجالا نامِ محمد

حدیث نمبر2۔حضرت سعد بن حضرمی سے روایت ہے،فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:

بری خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہو اور تو اس میں جھوٹا ہے۔

شرحِ حدیث:یعنی جھوٹ بہر حال برا ہے مگر اس شخص سے جھوٹ بولنا جو تمہیں سچا سمجھتا ہو ،تم پر اعتماد کرتا ہو ،یہ بہت ہی برا ہے کہ اس میں جھوٹ بھی ہے اور دھوکا فریب بھی۔یوں ہی اللہ رسول ﷺ پر جھوٹ باندھنا بھی بڑا جرم ہے کہ یہ جھوٹ بھی ہےاور بے حیائی،بے غیرتی،بے شرمی بھی ۔اللہ اپنا خوف اور اپنے حبیب ﷺ کی شرم نصیب کرے کہ یہ دو چیزیں ہی گناہوں سے بچاتی ہیں۔(مراۃ المناجیح،6/323)

حدیث نمبر3:حضرت ابو امامہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:مومن تمام خصلتوں پر پیدا کیا جاسکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔

شرحِ حدیث:اس فرمانِ عالی کے دو معنی ہوسکتے ہیں:ایک یہ کہ جھوٹ اور خیانت ایسی بری عادتیں ہیں کہ کسی مومن میں یہ چیزیں اصلی پیدائشی نہیں ہوسکتیں،اگر کوئی مومن جھوٹا اور خائن ہوگا تو عارضی طور پر ہوگا کہ جوجھوٹوں خائنوں کی صحبت میں رہ کر یہ جھوٹا یا خائن بن جائے گا۔دوسرے معنی یہ ہیں کہ مومن کو چاہئے کہ جھوٹا اور خائن عادۃ نہ بنے،ان عیبوں کی عادت نہ ڈالے،یہ دونوں اس کی شانِ ایمان کے خلاف ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،6/328)

حدیث نمبر4:حضرت صفوان بن سلیم سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ سے عرض کی گئی:مومن بزدل ہوسکتا ہے؟فرمایا:ہاں۔پھر عرض کی گئی:مومن کنجوس ہوسکتا ہے؟فرمایا:ہاں۔پھر عرض کی گئی:مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟فرمایا:نہیں۔(مراٰۃ المناجیح،6/328)

شرح حدیث:یعنی مسلمان میں بزدلی یا کنجوسی فطری طور پر ہوسکتی ہے کہ یہ عیوب ایمان کے خلاف نہیں لہٰذا مومن میں ہوسکتی ہیں،اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومن گاہے بہ گاہے جھوٹ بول تو سکتا ہے مگر بڑا جھوٹا، ہمیشہ کا جھوٹا ہونا، جھوٹ کا عادی ہونا مومن کی شان کے خلاف ہے۔مومن سے مراد کامل الایمان ہے۔

حدیث نمبر5:حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:جو جھوٹ چھوڑدے کہ جو باطل چیز ہے تو اس کے لئے جنت کے کنارے میں گھر بنایا جائے گا۔

شرحِ حدیث:یعنی جھوٹ ہے ہی باطل چیز ،اسے چھوڑنا ہی چاہئے۔کنارہ یعنی جنت کا ادنیٰ درجہ کیونکہ کنارہ ادنیٰ ہوتا ہے،درمیان اعلی مگر کنارے سے مراد جنت کا اندرونی کنارہ ہے نہ کہ بیرونی جنت۔(مراٰۃ المناجیح، ص318)

جھوٹ کے چند معاشرتی نقصانات:جھوٹا شخص منافق کہلاتا ہے۔جھوٹ بولنے والے کے اوپر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ایک سچ کو چھپانے کے لئے100 جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔جھوٹ کے دل میں خود بھی جھوٹ کھٹکتا ہے اور وہ خود بھی پریشانی کا شکار رہتا ہے۔جھوٹ سے لڑائی جھگڑے اور آپس کی رنجشیں جنم لیتی ہیں۔جھوٹے سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔

جھوٹ کی مثالیں:اگر کسی کی چیز گم ہوگئی اس سے پوچھا جائے:تم نے لی ہے؟دوسرا کہے:نہیں(جبکہ اس نے لی ہو)تو یہ جھوٹ ہے۔کسی کی کال ریسیو نہ کی ،اس نے وجہ پوچھی تو کہا:میں سورہا تھا یا نہا رہا تھا جبکہ واقعتاً ایسا نہ ہو تو یہ جھوٹ ہے۔اگر دروازے پر کسی نے آکر بچے سے کہا:اپنے بابا کو بلاؤ!اس نے آکر بابا سے کہا تو اس نے بچے سے کہا:انہیں کہہ دو بابا گھر پر نہیں ہیں یا سو رہے ہیں،تو یہ بھی جھوٹ ہے اور بچے کی غلط تربیت بھی۔


جھوٹ کے معنی: سچ کا الٹ۔حقیقت کے برعکس کوئی بات۔ جھوٹ بولنا گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔جھوٹ ایک ایسا مرض ہے جو ایمان کو کمزور اور ناتواں کرتا چلا جاتا ہے۔تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے:1)جنگ کی صورت میں۔2)صلح کروانے کے لئے۔3)زوجہ کو خوش کرنے کے لئے۔

اللہ پاک فرماتا ہے،ترجمہ:اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا۔

1- بارگاہِ رسالت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ ! جہنم میں لے جانے والا عمل کون سا ہے:فرمایا:جھوٹ بولنا۔جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو ناشکری کرتا ہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتا ہے۔مسند امام احمد،ص 589،حدیث:6652)

2-سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور(گناہ) دوزخ میں لے جاتا ہے۔(مسلم،ص1205،حدیث:36071)

3-نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جھوٹ سے بچو!کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب(بہت بڑا جھوٹا) لکھا دیا جاتا ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص28)

4-حضرت انس سے روایت ہے،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا ۔ (ترمذی، 3/ 400، حدیث:2000)

5-نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب(بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص28)


فی زمانہ جھوٹ بہت عام ہوتا جا رہا ہے گویا کہ یہ کوئی گناہ ہی نہ ہو، جھوٹ ایک ایسا بدترین گناہ ہے کہ اس کے بولنے والے کو قرآن پاک میں لعنتِ خداوندی کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے، یہ عادت انسان کو اتنا برا بنا دیتی ہے کہ نہ کوئی اس کو پسند کرتا نہ ہی اس کی بات کا یقین کرتا ہے، جھوٹ بولنے والا ہمیشہ پریشان، حسد اور تکلیف میں رہتا ہے اور سچ بولنے والا ہمیشہ خوش اور پُرسکون رہتا ہے۔ ہمارے پیارے دین اسلام میں تو جھوٹ کی بڑی مذمت بیان کی گئی ہے۔

جھوٹ کی تعریف: لفظ جھوٹ کو عربی میں کذب کہتے ہیں، خلاف واقعہ کسی بات کی خبر دینا، چاہے وہ خبر دینا جان بوجھ کر ہو یا غلطی سے ہو جھوٹ کہلاتا ہے، اگر خبر دینے والے کو معلوم ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو گنہگار ہوگا، پھر وہ جھوٹ اگر کسی کے لیے ضرر کا سبب بنے تو یہ گناہ کبیرہ ہوگا ورنہ صغیرہ گناہوں میں شمار ہوگا۔

پہلا جھوٹ کس نے بولا: پہلا جھوٹ بولنے والا کوئی انسان نہیں تھا بلکہ جھوٹوں اور برائیوں کا بادشاہ شیطان تھا، وہ شیطان جس نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کو جنت سے نکلوایا یہ کہہ کر کہ میں قسم کھاتا ہوں میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور یہ پھل تمہیں کبھی جنت سے نہیں نکلوائے گا، شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور جنت سے نکال دیئے گئے۔

حدیث 1۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہو جاتا ہے۔

حدیث 2۔ ایک حدیث میں ہمارے نبی ﷺ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یقینا جھوٹ لڑائی کی رہنمائی کرتا ہے اور لڑائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے تا آں کہ اللہ کے یہاں کذاب (بہت جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے۔(بخاری، حدیث: 6094)

حدیث 3۔رسول اکرم ﷺ جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیتے ہوئے فرمایا: ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔ (ابو داود، حدیث: 4971)

حدیث 4۔ وہ شخص تباہ ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے تاکہ اس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے ایسے شخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو۔(ترمذی، حدیث: 2315)

حدیث 5۔ ہلاکت ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔(ترمذی، حدیث: 2322)

جھوٹ کے معاشرتی نقصانات و مثالیں: جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے، لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے، دو آدمیوں کے درمیان عداوت و دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے، اس سے آپس میں ناچاقی بڑھتی ہے۔


کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا قائل گناہ گار اس وقت ہو گا جبکہ بلا ضرورت جان بوجھ کر  جھوٹ بولے۔(جھوٹ کی مذمت،ص3)

اے عاشقان رسول!ابھی آپ نے جھوٹ کی تعریف ملاحظہ فرمائی ابھی ہم جھوٹ کی جائز صورتیں عرض کرتے ہیں کہ کہاں جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی ان تین صورتوں میں گناہ نہیں؛1۔جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکہ دینا جائز ہے اس طرح جب ظالم ظلم کرتا ہو تو اس کے ظلم سے بچنے کے لئے بھی جھوٹ بولنا جائز ہے۔2۔دو مسلمانوں میں اختلاف ہے اور ان میں صلح کروانا چاہتا ہے اس صورت میں جائز ہے۔3۔بیوی کو خوش کرنے کے لیے کوئی بات خلافِ واقع کہہ دے تو بھی جائز ہے۔

مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں: جس اچھے مقصد کو سچ بول کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہو اور جھوٹ بول کر بھی تو اس کو حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولنا حرام ہے۔( بہار شریعت)

برائی کے دروازے کو سیراب کرنے والا: یزید بن میسرہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:جس طرح پانی درخت کی جڑوں کو سیراب کرتا ہے اسی طرح جھوٹ برائی کے ہر دروازے کو سیراب کرتا ہے۔

جھوٹ کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ:

1۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں؛ (1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے( 2) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے (3) اور جب امانت رکھوائی جائے تو خیا نت کرے۔(بخاری،حدیث 33)

2۔ تین لوگوں کی طرف اللہ پاک قیامت کے دن نظر رحمت نہیں فرمائے گا (1) بوڑھا زانی (2) جھوٹا بادشاہ (3) متکبر فقیر۔(مسند امام احمد،حدیث: 9594)

3۔ تمام عادتیں مومن کی فطرت میں ہو سکتی ہیں سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔(مسند اما م احمد،حدیث: 9594)

4۔ جس نے اپنے بیٹے سے کہا آؤ میں تمھیں کچھ دیتا ہوں پھر اسے کوئی چیز نہ دی تو اس کے لیے جھوٹ لکھ دیا جاتا ہے۔(مکارم الاخلاق،ص 122)

5۔جس نے میری طرف منسوب کرکےکوئی بات بیان کی حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ہے۔(جھوٹ کی مذمت،ص 26)