جھوٹ کے معنی
ہیں: سچ کا اُلَٹ۔
جھوٹ کی چند مثالیں: کوئی
چیز خریدتے وَقْت اس طرح کہنا کہ یہ مجھے فلاں سے اس سے کم قیمت میں مل رہی تھی
حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح بائع (Seller)
کا زیادہ رقم کمانے کے لئے قیمتِ خرید (Purchase price)زِیادہ
بتانا۔جعلی یا ناقص یا جن دواؤں سے شفا کا گمانِ غالب نہیں ہے ان کے بارے میں اِس
طرح کہنا ”سو فیصدی شرطیہ عِلاج“ یہ جھوٹا مُبَالغہ ہے۔
وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا
یَكْذِبُوْنَ(۱۰)ترجمہ کنزالایمان: اور اُن کے لئے
دردناک عذاب ہے بدلہ اُن کے جھوٹ کا۔
صدر الافاضل
علامہ سیِّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس آیت سے
ثابت ہوا کہ جھوٹ حرام ہے اس پر عذابِ الیم (یعنی دردناک عذاب) مُرتب ہوتا ہے۔
”جھوٹ“ کے متعلق مختلف احکام:(1):جھوٹ
بولنا گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ (2)جھوٹ کا معصیت (گناہ) ہونا ضروریاتِ
دین میں سے ہے (لہٰذا جو اس کے گُناہ ہونے کا مطلقاً انکار کرے دائرہ اسلام سے
خارِج ہو کر کافِر ومُرتد ہو جائے گا۔)
نوٹ: تین صورتوں میں
جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی اس میں گُناہ نہیں: ایک جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے
مُقَابِل کو دھوکا دینا جائز ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ دو مسلمانوں میں اِختلاف ہے
اور یہ ان دونوں میں صلح کرانا چاہتا ہے،تیسری صورت یہ ہے کہ بی بی(زوجہ) کو خوش
کرنے کے لئے کوئی بات خِلافِ واقع کہہ دے۔
5فرامین
مصطفٰے:
٭جھوٹ سے بچو!
کیونکہ جھوٹ گُناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گُناہ جہنّم کا راستہ دِکھاتا ہے اور آدمی
برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے
نزدیک کذاب (یعنی بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔
٭مجھ پر جھوٹ
باندھنا کسی اور پر جھوٹ باندھنے جیسا نہیں،لہٰذا جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ
اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
٭اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جو شخص قسم کھائے اور اس
میں مچھر کے پَر کے برابر جھوٹ ملا دے تو وہ قسم تا یومِ قیامت (یعنی قِیامت کے دن
تک) اُس کے دِل پر (سِیاہ) نکتہ بن جائے گی۔
٭مجھ پر جھوٹ باندھنا گناہ ِکبیرہ ہے۔
٭جھوٹی قسم کے
دُنیوی نقصانات پر غور کیجئے کہ جھوٹی قسمیں گھروں کو ویران کر دیتی ہے۔
”جھوٹ“میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب:
٭مال کی حرص
کہ خرید وفروخت میں رقم بچانے یا زیادہ مال کمانے کے لئے جھوٹ بولنا عام پایا جاتا
ہے۔
٭مُبَالغہ
آرائی (بڑھا چڑھا کر بیان کرنے) کی عادت: ایسے افراد حد سے بڑھ کر جھوٹی
مُبَالغہ آرائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔آج کل اشیاکی مشہوری (Advertisement)
میں اس طرح کی جھوٹی مُبَالغہ آرائی عام ہے۔
٭حُبِّ مدح یعنی اپنی تعریف کی خواہش، ایسے لوگ اپنی واہ واہ کے لئے جھوٹے
واقعات بیان کرتے رہتے ہیں۔
٭فضول
گوئی کی عادت:
آج کل مُروّتاً جھوٹ بولنا بھی عام پایا جاتا ہے مثلاً کسی نے سوال کیا: ”ہمارے
گھر کا کھانا پسند آیا؟“ تو مُروّت میں آ کر کہہ دیا: ”جی، بہت پسند آیا۔“ حالانکہ
واقع میں اس کو کھانا پسند نہیں آیا تھا تو یہ بھی جھوٹ ہو گا۔
جھوٹ
کی مذمت:
٭جھوٹ کی دُنیوی اور اُخروی تباہ کاریوں
پر غور کیجئے مثلاً جھوٹے سے لوگ نفرت کرتے ہیں، اس پر سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے،
جھوٹے پر لعنت کی گئی ہے اور جھوٹا دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل دیا جائے گا، اس
طرح غور وفکر کرتے رہنے سے اِن شاءَ اللہ! سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کا ذِہن بنے
گا۔
٭صرف ضرورت کی بات ہی کیجئے اور بےجا بولتے رہنے
کی عادت سے چھٹکارا حاصِل کیجئے۔
٭مُبَالغہ
کرنے کی عادت بھی ختم کیجئے اور بولنے سے پہلے سوچنے کی عادت اپنائیے۔
جھوٹ کی برائیاں: جھوٹ بولنا حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ جس نے جھوٹی قسم کھائی وہ سخت گنہگار ہوا، اس پر
توبہ و اِستغفار فرض ہے مگر کفّارہ لازِم نہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس (یعنی جھوٹی قسم) کا کوئی کفّارہ نہیں اس کی سزا یہ ہے
کہ جہنّم کے کھولتے دریا میں غوطے دیا جائے گا۔
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ
كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهٗؕ-اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى
لِّلْكٰفِرِیْنَ(۶۸) ترجمہ
کنزالایمان : اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے
جب وہ اس کے پاس آئے کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں۔
نوٹ:
جھوٹ
کے متعلق مزید معلومات کے لئے بہارِ شریعت، حصہ 3، صفحہ 515 تا 519 اور رسالہ
جھوٹا چور کا مُطَالعہ کیجئے۔