جھوٹ کی
مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ،از بنتِ اللہ
بخش،فیضان اعلیٰ حضرت،بلوچستان
کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا
قائل گناہ گار اس وقت ہو گا جبکہ بلا ضرورت جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔(جھوٹ کی مذمت،ص3)
اے عاشقان رسول!ابھی آپ نے جھوٹ کی تعریف
ملاحظہ فرمائی ابھی ہم جھوٹ کی جائز صورتیں عرض کرتے ہیں کہ کہاں جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی ان تین
صورتوں میں گناہ نہیں؛1۔جنگ کی صورت میں
کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکہ دینا جائز ہے اس طرح جب ظالم ظلم کرتا ہو تو اس کے ظلم سے بچنے کے لئے بھی جھوٹ بولنا جائز
ہے۔2۔دو مسلمانوں میں اختلاف ہے اور ان میں صلح کروانا چاہتا ہے اس صورت میں جائز
ہے۔3۔بیوی کو خوش کرنے کے لیے کوئی بات خلافِ واقع کہہ دے تو بھی جائز ہے۔
مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں: جس
اچھے مقصد کو سچ بول کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہو اور جھوٹ بول کر بھی تو اس کو حاصل
کرنے کے لیے جھوٹ بولنا حرام ہے۔( بہار شریعت)
برائی کے دروازے کو
سیراب کرنے والا: یزید بن
میسرہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:جس طرح پانی درخت کی جڑوں کو سیراب کرتا ہے اسی طرح جھوٹ برائی کے ہر دروازے کو سیراب کرتا ہے۔
جھوٹ کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ
ﷺ:
1۔ منافق کی
تین نشانیاں ہیں؛ (1)جب بات کرے تو جھوٹ بولے( 2) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے (3) اور جب امانت رکھوائی جائے تو خیا نت کرے۔(بخاری،حدیث 33)
2۔ تین لوگوں
کی طرف اللہ پاک قیامت کے دن نظر رحمت نہیں فرمائے گا (1) بوڑھا زانی (2) جھوٹا بادشاہ (3) متکبر فقیر۔(مسند
امام احمد،حدیث: 9594)
3۔ تمام عادتیں مومن کی فطرت میں ہو سکتی ہیں سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔(مسند اما م احمد،حدیث: 9594)
4۔ جس نے
اپنے بیٹے سے کہا آؤ میں تمھیں کچھ دیتا ہوں پھر اسے کوئی چیز نہ دی تو اس کے لیے جھوٹ لکھ دیا جاتا ہے۔(مکارم الاخلاق،ص
122)
5۔جس نے میری
طرف منسوب کرکےکوئی بات بیان کی حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ہے۔(جھوٹ کی مذمت،ص
26)