جھوٹ بولنا
ظاہری گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔جھوٹ گناہوں کی جڑ ہے۔جھوٹ بولنا گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام
ہے۔جھوٹ کا معصیت(گناہ) ہونا ضروریاتِ دین سے ہے۔لہٰذا جو اس کے گناہ ہونے کا
مطلقاً انکار کرے گا وہ دائرہ اسلام سے
خارج ہوکر کافر ومرتد ہوجائے گا۔ہم دنیا
میں جو عمل کرتی ہیں ا س کے نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔اگر عملِ نیک ہوں تو اس کا
نتیجہ بھی اچھا ہوگا۔اگر عمل برا ہوگا تو اس کا نتیجہ بھی برا ہی سامنے آئے گا۔چونکہ جھوٹ کا تعلق برے اعمال سے ہے
تو اس کا نتیجہ بھی برا ہی سامنے آئے گا۔بسااوقات جھوٹ بولنے سے بظاہر فائدہ محسوس ہورہا ہوتا ہے مگر انجام بالآخر برا ہی
ہوتا ہے۔اگر دنیا میں برا نتیجہ نہ بھی
سامنے آئے تو قبر و آخرت میں اس کے سبب پکڑ ہوسکتی ہے۔
آیتِ
مبارکہ:پارہ
17 سورۃ الحج آیت نمبر30 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجمہ
کنز الایمان:اور بچو جھوٹی بات سے ۔
آیتِ مبارکہ:پارہ
14 سورۃ النحل کی آیت نمبر 105 میں ارشادِ
باری ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا
یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵) ترجمہ
کنزالایمان:جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔
صدرالافاضل
حضرت مولانا مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:جھوٹ
بولنا اور افترا کرنا (بہتان لگانا)بے ایمان لوگوں کا کام ہے۔(خزائن العرفان)
نیکیوں
میں دل لگے ہر دم بنا عاملِ
سنت اے نانائے حسین
جھوٹ
سے بغض و حسد سے ہم بچیں کیجیے
رحمت اے نانائے حسین
(وسائل
بخشش،ص58)
جھوٹ کی تعریف:جھوٹ کا معنی ہے
سچ کا الٹ۔اس سے مراد یہ ہے کہ حقیقت کے
برعکس کوئی بات کی جائے۔
سب
سے پہلے جھوٹ کس نے بولا؟سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا
تھا۔حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا،اس لئے
اس نے اپنے دل میں حسد پال لیا،انتقال کے متعلق سوچتا رہا، آپ کو نقصان پہنچانے کی
تاک میں تھا ،چنانچہ موقع ملنے پر اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو وسوسہ ڈالا اور
کہنے لگا:اے آدم!کیا میں تمہیں ایسے درخت کے بارے میں نہ بتاؤں جس کا پھل کھانے
والے کو دائمی زندگی حاصل ہوتی ہے؟یہ کہہ کر شیطان نے اللہ پاک کی جھوٹی قسم کھاتے
ہوئے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا:اس درخت میں یہ تاثیر ہے کہ اس کا پھل کھانے
والا فرشتہ بن جاتا ہے ۔یوں وسوسوں کے
ذریعے وہ دونوں کو اس درخت سے کھانے کی طرف لے آیا۔(سیرت الانبیا،ص100)
5
فرامینِ مصطفٰے:
1-جھوٹ سے
بچو! کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور
آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب(بہت
بڑا جھوٹا)لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم،ص1008)
دیکھا آپ نے! جھوٹ کتنی ہلاکت خیز بیماری ہے!انسان کے لگاتار جھوٹ بولنے کی
وجہ سے اللہ پاک کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ہم میں سے ہرگز کوئی یہ
نہیں چاہے گی کہ ہمارا نام تھانے میں مجرموں کے رجسٹر میں درج کردیا جائے اور اگر
ایسا ہوجائے تو ہمارے دن کا چین اور راتوں کا سکون و اطمینان بر باد ہوجائے۔
2-سچ بولنا
نیکی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور (گناہ) دوزخ میں لے
جاتے ہیں۔(مسلم)
ہائے!
نافرمانیاں، بدکاریاں، بے باکیاں آہ!
نامے میں گناہوں کی بڑی بھرمار ہے
(وسائل
بخشش،ص478)
3-نور کے
پیکر،تمام نبیوں کے سرور ﷺ نے ارشاد فرمایا:خواب میں ایک شخص میرے پاس آیا اور
بولا: چلئے!میں اس کے ساتھ چل دیا،میں نے دو آدمی دیکھے ان میں ایک کھڑا اور دوسرا بیٹھا تھا ،کھڑے ہوئے
شخص کے ہاتھ میں لوہے کا زنبور تھا جسے وہ
بیٹھے شخص کے ایک جبڑے میں ڈال کر اسے گدی تک چیر دیتا،پھر زنبور نکال کر دوسرے
جبڑے میں ڈال کر چیرتا ،اتنے میں پہلا
والا جبڑا اپنی اصلی حالت پر لوٹ آتا۔میں نے لانے والے شخص سے پوچھا:یہ کیا ہے؟اس
نے کہا:یہ جھوٹا شخص ہے،اسے قیامت تک قبر میں یہی عذاب دیا جاتا رہے گا۔(جھوٹا چور،ص14)
اس روایت میں جھوٹ بولنے والوں کے لیے درسِ عبرت ہے،جھوٹ بول کر اس فانی دنیا میں وقتی کامیابی پانے والا پھولے
نہیں سماتا ہے لیکن قبر و آخرت میں سوائے کفِ افسوس ملنے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا۔ذرا غور کیجیے!دنیا میں
داڑھ کا درد نہ سہہ سکنے والا انسان آخرت میں جبڑے چیرے جانے پر ہونے والی تکلیف
کو کس طرح برداشت کرے گا!
4-حضرت منصور
بن معتمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے محبوب ﷺ نے فرمایا:سچ بولاکرو
اگرچہ تمہیں اس میں ہلاکت نظر آئے کیونکہ اس میں نجات ہے۔(مکارم الاخلاق،ص111)
5-صادق و امین
ﷺ نے ارشاد فرمایا:کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس
میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس میں جھوٹ بول رہے ہو۔(ابو
داود،4/381،حدیث:4971)
خطاؤں
کو میری مٹا یا الٰہی!
مجھے نیک خصلت بنا یا الٰہی!
(وسائل
بخشش)
جھوٹ کی مثالیں:کوئی چیز
خریدتے وقت اس طرح کہنا کہ یہ فلاں سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے۔اسی طرح اگر
پوچھا جائے کہ اجتماع میں شرکت کی تھی؟تو کہہ دیا :جی ہاں۔حالانکہ اجتماع میں شریک
نہیں ہوتا۔اسی طرح والدین بھی اپنےکم عمر بچوں سے جھوٹ بولتے ہیں جیسے: جلدی سوجاؤ
ورنہ کتا یا بلی آجائے گی۔چھوٹے بچے کو بہلانے کے لئے یہ کہنا کہ” بیٹا چپ ہوجاؤ!کھلونے لاکر دوں گی“ جبکہ ایسا
نہیں ہوتا۔
تین
صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے:1-جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مقابل
کو دھوکا دینا جائز ہے۔
2-دو مسلمانوں
میں اختلاف ہے اور ان دونوں میں صلح کروانا چاہتا ہے۔3-زوجہ کو خوش کرنے کے لئے
کوئی بات خلاف واقع کہہ دے۔(بہار شریعت،3/517،حصہ:16)
جھوٹ
سے بچنے کے لئے:جھوٹ
کی دنیوی اور اخروی تباہ کاریوں پرغور کیجیے مثلاً جھوٹ پر لعنت کی گئی ہے۔جھوٹے
سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔جھوٹا دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل جائے گا۔اس طرح غور کرتے
رہنےسے ان شاء اللہ سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کا ذہن بنے گا۔
میں
فالتو باتوں سے رہوں دور ہمیشہ چپ
رہنے کا اللہ! سلیقہ تو سکھادے
میں
جھوٹ نہ بولوں کبھی گالی نہ نکالوں اللہ!مرض
سے تو گناہوں کے شفا دے
(وسائل
بخشش،ص115)