ابو یونس یوسف رضا (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ
قبا مسجد فیصل آباد، پاکستان)
(1) جس طرح جسمانی
امراض ہوتے ہیں اسی طرح باطنی امراض بھی ہوتے ہیں جسمانی امراض صحت کے لیے نقصان
کا باعث ہیں جبکہ باطنی بیماریاں ایمان اور روحانی زندگی کے لیے زہر قاتل ہیں ۔یوں
تو باطنی امراض بہت سے ہیں لیکن ان میں سے جھوٹ نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔
جھوٹ کی تعریف : کسی کے بارے میں حقیقت کے بر خلاف خبر
دینا(جھوٹ کہلاتا ہے) جھوٹ بولنے والا گنہگار اس وقت ہوگا جبکہ(بغیر ضرورت)جان
بوجھ کر جھوٹ بولے۔(حديقہ نديہ ، 4/ 10) سب سے پہلا جھوٹا :شیطان
نے سب سے پہلے جھوٹ بولا اور وہ بھی حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا رحمۃ اللہ
علیھا سے۔ ( الاعراف، آیۃ: 20) جھوٹ
ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی بیان کرتے ہیں تمام ادیان (دین کی
جمع) میں یہ حرام ہے ۔ اسلام نے اس سے بچنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے قرآن
مجید میں بہت سے مواقع پر جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی اور جو جھوٹ بولتے ہیں ان پر
خدا کی لعنت ہے. احادیث مبارکہ میں بھی اس کی برائی ذکر کی گئی۔اس ضمن میں میں 5
فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حاضر ہیں:
(1)اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ
عَنْہُ الْمَلَکُ مِیْلاً مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِہٖترجمہ: جب
آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے (سنن
الترمذی،3/392،حدیث:1979)تشریح: حضرت مفتی
احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: فرشتے سے مراد یا تو نیکیاں لکھنے
والا فرشتہ ہے یا حفاظت کرنے والا فرشتہ یا کوئی خاص رحمت کا فرشتہ، گناہ لکھنے
والا فرشتہ دور نہیں ہوتا فرشتوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا
ہے کہ اچھی بری باتوں نیک و بد اعمال میں خوشبو اور بدبو ہے بلکہ ان میں اچھی بری
لذتیں بھی ہیں مگر یہ صاف دماغ والوں کو صاف طبیعت والوں کو ہی محسوس ہوتی ہیں۔ (مرآۃ
المناجیح،ج6،حدیث4844)
(2) نبیِّ مکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹ سے بچو کہ جھوٹ ایمان سے
مخالف ہے۔(مسند احمد،1/22،حدیث16)
(3) حضور
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
فرماتے ہیں: بندہ پورا مؤمن نہیں ہوتا جب تک کہ مذاق میں بھی جھوٹ کو نہ چھوڑ
دے۔(مسند احمد،3/268،حدیث:8638)
(4) فرمان مصطفی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: یَطْبَعُ الْمُؤْمِنُ عَلَی الْخِلَالِ کُلِّہَا
اِلَّا الْخِیَانَۃَ وَالْکِذْبَیعنی مؤمن کی طبع میں تمام خصلتیں ہو
سکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ۔(یعنی مؤمن کی طبیعت میں نا خیانت ہے اور نہ ہی جھوٹ)
۔(مسند احمد،8/276، حدیث: 22232) تشریح : حکیم الامت مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ فرمان عالی میں یا تو نفی ہے یا پھر نہی،
پہلی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ مومن میں یہ دونوں چیزیں اصلی پیدائشی نہیں اگر
مومن جھوٹا یا خائن ہوگا تو عارضی طور پر ہوگا دوسری صورت میں یہ معنی ہے کہ مومن
کو چاہیے کہ جھوٹا اور خائن عادتاً نہ بنے۔ ان جیسوں کی عادت نہ ڈالے یہ دونوں
عادتیں اسکی شانِ ایمان کے خلاف ہیں۔ (مرآۃ المناجیح،ج6،حدیث:4860)
(5) سرکار مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جھوٹ سے منہ کالا ہوتا ہےاور
چغلی سے قبر کا عذاب ہوتا ہے ۔ ( شعب الایمان،4/208،حدیث:4813)
؎میں
جھوٹ نہ بولوں کبھی گالی نہ نکالوں
اللہ
مرض سے تو گناہوں کے شِفا دے(وسائلِ بخشش)
اللہ
پاک ہمیں جھوٹ جیسے موذی مرض سے محفوظ رکھے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ
علیہ وآلہ وسلم
محمد عطاء بن محمد شہزاد( درجۂ خامسہ،جامعۃُ المدینہ
فیضان جمال مصطفی لانڈھی کراچی، پاکستان)
کسی کے بارے میں خلافِ
حقیقت خبر دینا جھوٹ کہلاتا ہے۔ جھوٹی خبر دینے والا گنہگار اس وقت ہوگا جبکہ جان
بوجھ کر جھوٹ بولے۔(حديقہ نديہ، القسم الثانی،المبحث الاول،4/10)
کائنات میں سب سے پہلا
جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے کہا:میں تمہارا خیرخواہ
ہوں.اور اب یہ جھوٹ ہمارے معاشرے میں اس طرح عام ہوچکا ہے کہ انسان اسے گناہ ہی
نہیں سمجھتا ہم روز نہ جانے کتنے جھوٹ بولتے ہیں آج کے اس دور میں اپنے فائدے کے
لیے اور مذاق میں ہر لمحہ انسان جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہا ہے، حالانکہ ہر شخص یہ
اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے انسان کو دس جھوٹ اور بولنے پڑتے
ہیں یہ جھوٹ چاہے جان بوجھ
کر بولا جائے یا انجانے میں لوگوں کے درمیان فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑے کا سبب
بنتا ہے اور بسا اوقات تو پورے معاشرے کو ہی تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔جھوٹ
ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں بالخصوص اسلام نے اس سے
بچنے کی بہت تاکید کی، جہاں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹ بولنے والوں پر
لعنت فرمائی وہیں احادیث میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی، آئیے ان میں سے پانچ
فرامین مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں:
(1)بارگاہ رسالت میں ایک
شخص نے حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جہنم میں لے جانے والا
عمل کونسا ہے؟فرمایا جھوٹ بولنا جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور جب
گناہ کرتا ہے تو ناشکری کرتا ہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہو جاتا
ہے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل،مسند عبد اللہ ابن عمرو بن العاص،رقم:2256)
(2)رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب انسان جھوٹ بولتا ہے تواس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل
دور ہو جاتا ہے۔ (سنن ترمذی،حدیث:1972)
(3)رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہلاکت ہے اس کے لئے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے
کے لئے جھوٹ بولتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہے،اس کے لیے ہلاکت ہے۔(سنن الترمذي،کتاب
الزھد، باب ماجاء من تکلم بالکلمۃ لیضحک الناس،الحدیث: 2322 ،ج 4 ،ص 142)
(4) رسول اﷲ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :مومن کی طبیعت میں تمام خصلتیں ہوسکتی ہیں سوائے خیانت
اور جھوٹ کے۔(المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث ابی امامۃ الباھلی، الحدیث: 22232 ،ج 8 ،ص 276)
(5)رسول اﷲﷺ نے فرمایا: جھوٹ سے
بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔ (سنن الترمذی،کتاب الزھد، باب ماجاء من تکلم
بالکلمۃ لیضحک الناس،الحدیث: 2322،ج 4 ،ص 142
)میٹھے میٹھے اسلامی
بھائیو! جھوٹ سب گناہوں کی جڑ اور ایک شیطانی عمل ہے، اگر کوئی شخص جھوٹ سے بچنے
کا پختہ ارادہ کر لے تو سچ کی برکت سے دیگر کئی گناہوں سے بھی بچ سکتا ہے۔ جھوٹ
بولنے والا اللہ کا ناپسندیدہ بندہ اور اس کی لعنت کا مستحق بن جاتا ہے اور دنیا و
آخرت میں ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ دیگر گناہوں کے
ساتھ ساتھ "جھوٹ" کے خلاف بھی اعلان جنگ کرتے ہوئے تمام گناہوں سے بچنے
کی کوشش جاری رکھیں۔
راناعلی حسنین(درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ غوث
اعظم چھانگا مانگا لاہور، پاکستان)
ہمارے معاشرے میں ایک بہت بُری بیماری پائی جاتی ہیں۔جس کو
ہرکوئی ناپسند کرتا ہے۔وہ بیماری کثرت کے ساتھ پائی جاتی ہے اور وہ ہے
"جھوٹ"جھوٹ باطنی بیماریوں میں سے ایک مرض ہے اور اس کا علاج بہت ضروری
ہے۔جھوٹ یہ کبیرہ یعنی بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔جھوٹ ایسی بُری چیز ہے کہ ہر
مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں ۔کیوں کہ ہم سب چاہتے ہیں کہ میرے ساتھ کوئی جھوٹ
نہ بولے ۔ ہر ماں یہ چاہتی ہیں کہ میرا بچہ جھوٹ نہ بولے ہر باپ کی یہ خواہش ہوتی
ہیں کہ میری اولاد جھوٹ نہ بولے ۔اور تمام ادیان میں یہ حرام ہے اسلام نے اس سے
بچنے کی بہت تاکید فرمائی ہیں ۔جھوٹ کے بارے میں بہت سخت وعیدیں ہیں ۔ قرآن مجید
میں بہت مواقع پرجھوٹ کی مذمت بیان کی گئے ہےجھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت آئی
ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت
ڈالیں۔(پ
3،اٰل عمرٰن:61)اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ
پاک نے جھوٹوں پر بہت سخت لعنت فرمائی ہے۔ قرآن پاک میں اور بھی کئی مقامات پر
اللہ عزوجل نے جھوٹ کی مزمت بیان فرمائی ہے۔اس کے علاوہ حدیثوں میں بھی اسکی برائی
بیان کی گئی ہے ،اس کے متعلق بعض احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
(1)ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا کہ طبع (یعنی طبیعت) میں تمام خصلتیں ہوسکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ
:یعنی یہ دونوں چیزیں ایمان کے خلاف ہیں ،اور مومن کو ان سے دور رہنے کی بہت ضرورت
ہے۔(بہارشریت جلد۳الف، حصہ۱۶،ص ۵۱۶،حدیث۵)
(2)اللہ عزوجل کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:کہ جو شخص اللہ عزوجل کی قسم کھائے اوراس میں مچھر کے پرکے برابرجھوٹ ملادے
تو قیامت کے دن وہ قسم اس کے دل پر سیاہ نکتہ بن جائے گی۔ (احیاء العلوم ،جلد3،حدیث10،ص408)
(3)نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بندہ جب جھوٹ بولتا رہتا ہےاور اس
وقت اس میں خوب کوشش کرتا رہتا ہے۔یہاں تک کہ اللہ عزوجل کے ہاں اسے کذاب یعنی سب
سے بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (احیاء العلوم ،جلد۳،حدیث5،ص407)
اللہ پاک ہمیں ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے جھوٹ سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے۔آمین
سچ کا الٹ جھوٹ ہے ، کسی چیز کو اس کی
حقیقت کے برعکس بیان کر نا،جھوٹ کہلاتا ہے۔
جھوٹ کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی
صلی اللہ علیہ وسلم:
(1) حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹ انسان کو برائی کی طرف لے جاتا اور
برائی جہنم کی طرف لی جاتی ہے۔(الترغیب والترھیب ، کتاب الادب وغیرہ)
(2) تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا دفرمایا :جھوٹ
انسان کو رسوا کردیتا ہے۔ (الترغیب فی الصدق الترہیب من الکذب،3/368)
(3) نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جب بندہ
جھوٹ بولتا ہے ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔ (ترمذی ، کتاب
البروالصلۃ ، باب ماجا ء فی الصدق والکذب ، ۳3/392،حدیث:1979)
(4) حضرت حاتم اصم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جہنم میں
جھوٹا شخص کتے کی شکل میں، حسد کرنے والا سؤر کی شکل میں، چغل خور اور غیبت کرنے
والا بندر کی شکل میں بدل دیا جائے گا۔( تنبیہ المغترین، الباب الثالث ، ص199)
(5) عبداللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہ سے روایت حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ
اﷲ تعالیٰ اُس کے لیے جہنم واجب کر دے گا۔ ابن ماجہ ، کتاب الاحکام ، باب شہادة
الزور،3/123،حدیث:73)
جھوٹ دورِ حاضر کی ایک ایسی برائی ہے
جوا نتہائی کثرت سے عام ہوتی جارہی ہے اس کی عمومیت (Generality) اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہمارے
معاشرے کے کئی افراد اس کے بولنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔
جھوٹ کسے کہتے ہیں :جھوٹ کی تعریف(Definition) یہ ہے:کسی کے بارے میں خلافِ
حقیقت خبر دینا۔(76 کبیرہ گناہ، صفحہ 99)
پہلا جھوٹ کس نے بولا :سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ
حضرت آدم علیہ السلام سے کہا : میں تمہار اخیر خواہ ہوں۔مراة المناجیح ، جلد6 صفحہ453)جیسا
کہ قرآن کر یم میں ہے:
وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ
النّٰصِحِیْنَۙ(۲۱)ترجمہ کنزالایمان :
اور ان سے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔(پارہ8، سورۃ الاعراف ،آیت:21، تفسیر صراط الجنان ،جلد3، ص285
(1) منافق کی
نشانی :جھوٹ ایک ایسی بر ی خصلت (Bad habit)
ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منافقت کی نشانیوں میں شمار فرمایا:فرمانِ
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:منافق کی تین نشانیاں ہیں:۱۔ جب بات کرے تو جھوٹ
بولے۔۲۔جب وعدہ کرے تو پور انہ کرے۔ ۳۔ جب امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔(بخار
ی جلد1، مکتبہ انعامیہ ،کتاب الایمان ،باب علامۃ المنافق، حدیث:33، ص 61)
(2) برکت ختم ہوجاتی ہے :جھوٹ جس معاملے یا کاروبار میں ہو اس
سے بر کت کو مٹا دیتاہے۔
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقائے
دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خرید وفروخت کرنے والے فریقین کو اختیار ہے جب تک وہ
الگ نہ ہوں اگر وہ سچ بولیں اور عیوب کو بیان کردیں تو ان کی بیع خرید و فروخت میں
برکت ہوگی اور اگر جھوٹ بولیں اور عیوب کو چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت مٹا دی
جائے گی۔(مسلم ،جلد2، کتاب البیوع، باب ثبوت خیار المجلس للمتبابعین ،حدیث:3857
مکتبہ انعامیہ،بخاری، جلد1، ص478 ،حدیث:2082)
(3) جھوٹے کے منہ کی بو :حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے حبیب حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب بندہ
جھوٹ بولتا ہے تو اس کے جھوٹ کی بو کسی وجہ سے فرشتہ ایک عمل دور ہوجاتا ہے۔(ترمذی
،جلد2، باب ماجاء فی الصدق والکذب حدیث: 1970، ص 525، مکتبہ القاسمیہ)ہمیں جو جھوٹ
و غیبت کی بدبو محسوس نہیں حوتی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس سے مانوس ( یعنی اس کے
عادی ) ہوگئے ہیں۔(غیب کی تباہ کاریاں، صفحہ 134
(4) رزق میں تنگی :جھوٹ کی ایک نحوست یہ بھی ہے کہ اس کے
سبب بندے کے رزق میں تنگی ہوجاتی ہے۔محبوب رب غفار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:جھوٹ رزق کو تنگ کردیتا ہے(احیاء العلوم ،جلد3، ص407)
(5) نظرِ رحمت سے محرومی :جھوٹ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ
جھوٹا قیامت کے دن اللہ عزوجل کی نظر رحمت سے محروم رہے گا۔اللہ پاک کے آخری نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ بروزِ قیامت اللہ عزوجل
نہ ان سے کلام کرے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا۔احسان جتانے والا ، جھوٹی
قسم کھا کر اپنا سامان بیچنے والا۔ (تکبر سے) اپنا تہبند ( ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے
والا۔(احیا العلوم ،جلد3، ص408)
پیارے اسلامی بھائیوں جھوٹ میں دنیا و
آخرت کا فقط خسارہ ہی خسار ہ ہے اگر یہ خبیث عادت ہم میں ہے تو آئیں اور ابھی اس
سے توبہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے چھوڑ دینے کا عظم کرتے ہیں۔فرمانِ
آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم:جو جھوٹ چھوڑ دے جو کہ باطل شے ہے تو اس کے لئے جنت
کے کنارے میں ایک گھر بنایا جائے گا۔(ترمذی ،جلد2، باب ماجا فی المراء ،حدیث :
1990، ص527)اللہ پاک ہم سب کو جھوٹ سے بچنے اور اس سعادت کو حاصل کر نے کی توفیق
عطا فرمائے۔ امین
الیاس اسد عطاری مدنی (مدرس فیضان آن لائن اکیڈمی فیضانِ
مدینہ ملتان پاکستان)
فرمانِ باری تعالیٰ: وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجمہ کنزالایمان :اور بچو جھوٹی بات
سے۔ ( پارہ17، سورہ حج، آیت:30)
معزز قارئین :دینِ اسلام کا یہ حسن ہے کہ اپنے
ماننے والوں(ایمان والوں) کے واسطے کثیر احکام شرعیہ وفرعیہ جاری فرمائے ہیں اور
بہت سے احکام ہیں جن سے ممانعت کا حکم دیا ہے تاکہ حقیقی کلمہ گو مسلمان ان احکام
کی تعمیل کرے اپنی دنیا و عقبیٰ کو سنوار سکے اور فلاح و بہبود کا حقدار ٹھہرے اور
یاد رہے ان احکام میں سے ایک حکم جھوٹ سے بچنے کا بھی ہے کیونکہ کذب بیانی قبیح
ترین عمل ہے لہذا مسلمان کو چاہیے کہ اپنے قول وفعل یا کسی بھی انداز سے جھوٹ کا
ارتکاب نہ کرے ( کذب جھوٹ) سے اجتناب کرنا ہر مسلمان صاحبِ ایمان کے واسطے لازم و
ضروری ہے۔
جھوٹ کیاہے؟:بات کا حقیقت کے خلاف ہونا جھوٹ ۔(
حدیقہ ندیہ،2/400)
جھوٹ کے متعلق پانچ فرامین مصطفی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :
(1) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان
: کبیرہ گناہ یہ ہیں: (۱)اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا (۲) والدین کی نافرمانی
کرنا(۳) کسی جان کو ( ناحق) قتل کرنا(۴) اور جھوٹی قسم کھانا۔ ( صحیح البخاری ،کتاب
الایمان والنذور، حدیث:6675)
(2) ذاتِ حق تعالیٰ عزوجل کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس نے کسی مسلمان کے خلاف ایسی گواہی دی جس کا وہ اہل
نہیں تھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ ( المسند للامام احمد بن حنبل، مسند ابی
ہریرہ رضی اللہ عنہ، حدیث:10622، جلد3، ص585)
(3) دو جہاں کے تاجور سلطان بحرو بر صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمانِ عظمت نشان ہے: تم پرسچ بولنا لازم ہے کیونکہ یہ نیکی کے ساتھ ہے اور یہ
دونوں جنت میں( لے جاتے ہیں) اور جھوٹ سے بچو کیوں کہ یہ گناہوں کے ساتھ ہے اور یہ
دونوں جہنم میں (لے جاتے) ہیں۔(الاحسان ترتیب صحیح ابن حبان، باب الکذب ، حدیث 5704،
جلد7، ص494)
(4) فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم:منافق کی 3نشانیاں
ہیں (۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے(۳) جب عہد کرے
تو عہد شکنی کرے۔( صحیح بخار ی کتاب الایمان، باب علامات المنافق ، حدیث:34۔38 ص6)
(5) فرمانِ حضرت صادق و امین نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم جب بندہ حھوٹ بولتا ہے تو اس سے آنے والی بدبو کی وجہ سے فرشتے ایک میل دور
چلے جاتے ہیں۔ ( جامع الترمذی، ابواب البروالصلة باب ماجا فی الصدق والکذب ،حدیث:1972،
ص1850)
ذات ِحق تعالیٰ عزوجل ہمیں جھوٹ جیسی
لعنت سے بچنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے اور کلام و تکلم بمطابق حقیقت کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علی وسلم
حمزہ عطّاری (مدرس فیضان آن لائن اکیڈمی فیضانِ مدینہ
حیدر آباد ،پاکستان)
جھوٹ بولنا، ایک بری عادت ہے اور
کبیرہ گناہ ہے جس کی مذمت میں قرآن پاک بالکل سیدھے سادھے الفاظ میں فرماتا ہے : لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) ترجَمۂ
کنزُالایمان: تو جھوٹوں پر اللہ
کی لعنت ڈالیں۔(پ3،اٰل عمرٰن:61)تو یہ آیت مبار کہ جھوٹ کے قبیح ترین ( بہت بر ا) ہونے
پردلالت کرتی ہے۔اسی تناظر میں عالمِ انسانیت کے عظیم Roll Model تمام نبیوں کے سردار سب سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے
اقوال (Sayings) اور افعال (Acts) کے ذر یعے حضرت انسان کی تربیت
میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔احادیث مبار کہ کے عظیم ذخائر میں سے چند فرامین
مصطفی پیش کیے جاتے ہیں:
(1)جب بات کرے تو جھوٹ
بولے:منافق کی خصلتوں ،عادتوں میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ با ت کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ بولنے والے کو چاہیے کہ جھوٹ
بولنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ وہ کتنا برا کام کررہا ہے۔( بخاری:6095)
(2) اور بے شک آدمی ضر ور جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ
وہ اللہ پاک کے یہاں کذاب ( بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔( ابوداؤد:4489)
(3) حدیث ِ مبارکہ :جو جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھے
وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے(مسند امام اعظم ، ج ،38، ص 325) کسی حدیث مبارکہ
میں جھوٹ ملا دینا یا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہی نہیں اسے آپ کا فرمان
کہہ کر بیان کرنا واقع بڑا جرم ہے کہ اس چیز میں چند لوگوں کا نقصان نہیں بلکہ
پوری امت کا نقصان ہے۔
(4) ایک مقام پربندہ مؤمن کو ہر وقت جھوٹ سے بچنے کی
نصیحت کرتے ہوئے مر بی انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مؤمن تمام
خصلتوں کا عادی ہوسکتا ہی مگر جھوٹ اور خیانت کا عادی نہیں ہوسکتا۔( مسند احمد، 5،حدیث:252)
محترم Readers آئیے کوشش کرتے ہیں اور نیت صادق کرتے ہیں کہ اب جھوٹ نہیں بولیں گے، اور
دوسروں کو جھوٹ سے بچنے کی نصیحت بھی کریں گے ان شا اللہ عزوجل ۔
مبشر رضا عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروق اعظم ، لاہور)
اللہ پاک کی رضا پانے اور حصولِ جنت
کے لئے ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچنا بے حد ضروری ہے جس طرح کچھ گناہ باطنی ہوتے
ہیں: جیسے تکبر، ریاکاری وغیرہ ۔اسی طرح بعض گناہ ظاہری بھی ہوتے ہیں جیسے جھوٹ۔
جھوٹ کی تعریف: کسی چیز کو اس کی حقیقت کے برعکس (یعنی
خلاف ِواقع)بیان کرنا۔(حدیقہ ندیہ،2/200)
جھوٹ کے احکام:جھوٹ بولنا گناہ اور جہنم میں لے جانے
والا کام ہے۔ یاد رہے تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ یعنی اس میں گناہ نہیں:
ایک جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکا دینا جائز ہے۔ دوسری صورت یہ ہے
کہ دو مسلمانوں میں اختلاف (لڑائی) ہے اور یہ ان دونوں میں صلح کرانا چاہتا ہے۔ تیسری
صورت یہ ہے کہ بی بی ( زوجہ) کو خوش کرنے کیلئے کوئی بات خلافِ واقع کہہ دے۔(بہار
شریعت،3/517،ملتقطاً)
اسی طرح قراٰن و حدیث میں جھوٹ کی
مذمت بیان کی گئی جیسے قراٰنِ مجید میں منافقین کے متعلق فرمایا گیا ہے: ﴿ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا
یَكْذِبُوْنَ(۱۰)﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: اور ان کے لیے
درد ناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا۔(پ1، البقرۃ: 10) صدر الافاضل علامہ سید محمد
نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہوا کہ جھوٹ
حرام ہے اس پر عذابِ اَلِیم ( دردناک عذاب) مرتب ہوتا ہے۔ ( تفسیر خزائن
العرفان،ص5)احادیث میں بھی جھوٹ کی مذمت بیان کی گئی ہے، آپ بھی پانچ احادیث
ملاحظہ کیجئے:
(1)جھوٹے کے لئے رسوائی: حضور تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹ انسان کو رسوا کر دیتا ہے۔(الترغیب والترہیب،3/369،حدیث:28)
(2)کذّاب لکھ دیا جاتا ہے: حضور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور
گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی
کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں کذّاب( یعنی بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا
جاتا ہے۔(مسلم،ص1078،حدیث:6639)
(3)ایمان کے مخالف: رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جھوٹ ایمان کےمخالف ہے۔ (شعب الایمان،4/206،حدیث:4804)
(4)جھوٹے کی ہلاکت:حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:ہلاکت ہے اس کے لئے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو
ہنسانے کے لئےجھوٹ بولتا ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے۔( ترمذی،4/142،حدیث:2322)
(5)جہنم واجب کر دے گا: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اس
پر جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ،3/123، حدیث: 2373)
پیارے اسلامی بھائیو! ذرا غور سے سوچئے
کہ جھوٹ کا حاصل کیا؟ محض دنیاوی فائدہ !جب کہ اس کے بدلے اللہ اور رسول کی ناراضی،
مخلوق کی بیزاری، اعتبار کی خرابی اور دنیا و آخرت کی رسوائی اور جہنم کا ٹھکانہ،جھوٹ
نے کبھی کسی کو شائستگی نہیں بخشی بلکہ دنیا و آخرت کی رسوائی کا سبب ہوتا ہے۔
جھوٹ سے بچنے کا طریقہ: جھوٹ سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ
جھوٹ کی دنیاوی اور اُخروی تباہ کاریوں پر غور کرے کہ جھوٹے سے لوگ نفرت کرتے ہیں،
اس پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور جھوٹ شیطانی کام ہے کہ سب سے پہلے جھوٹ ابلیس لعین
نے بولا۔اس طرح سوچنے سے جھوٹ سے بچنے کا ذہن بنے گا۔اِن شآءَ اللہ
اللہ پاک ہمیں جھوٹ سے بچنے اور سچ بولنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم