(1) جس طرح جسمانی امراض ہوتے ہیں اسی طرح باطنی امراض بھی ہوتے ہیں جسمانی امراض صحت کے لیے نقصان کا باعث ہیں جبکہ باطنی بیماریاں ایمان اور روحانی زندگی کے لیے زہر قاتل ہیں ۔یوں تو باطنی امراض بہت سے ہیں لیکن ان میں سے جھوٹ نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔

جھوٹ کی تعریف : کسی کے بارے میں حقیقت کے بر خلاف خبر دینا(جھوٹ کہلاتا ہے) جھوٹ بولنے والا گنہگار اس وقت ہوگا جبکہ(بغیر ضرورت)جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔(حديقہ نديہ ، 4/ 10) سب سے پہلا جھوٹا :شیطان نے سب سے پہلے جھوٹ بولا اور وہ بھی حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا رحمۃ اللہ علیھا سے۔ ( الاعراف، آیۃ: 20) جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی بیان کرتے ہیں تمام ادیان (دین کی جمع) میں یہ حرام ہے ۔ اسلام نے اس سے بچنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے قرآن مجید میں بہت سے مواقع پر جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی اور جو جھوٹ بولتے ہیں ان پر خدا کی لعنت ہے. احادیث مبارکہ میں بھی اس کی برائی ذکر کی گئی۔اس ضمن میں میں 5 فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حاضر ہیں:

(1)اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْہُ الْمَلَکُ مِیْلاً مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِہٖترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے (سنن الترمذی،3/392،حدیث:1979)تشریح: حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: فرشتے سے مراد یا تو نیکیاں لکھنے والا فرشتہ ہے یا حفاظت کرنے والا فرشتہ یا کوئی خاص رحمت کا فرشتہ، گناہ لکھنے والا فرشتہ دور نہیں ہوتا فرشتوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اچھی بری باتوں نیک و بد اعمال میں خوشبو اور بدبو ہے بلکہ ان میں اچھی بری لذتیں بھی ہیں مگر یہ صاف دماغ والوں کو صاف طبیعت والوں کو ہی محسوس ہوتی ہیں۔ (مرآۃ المناجیح،ج6،حدیث4844)

(2) نبیِّ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹ سے بچو کہ جھوٹ ایمان سے مخالف ہے۔(مسند احمد،1/22،حدیث16)

(3) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: بندہ پورا مؤمن نہیں ہوتا جب تک کہ مذاق میں بھی جھوٹ کو نہ چھوڑ دے۔(مسند احمد،3/268،حدیث:8638)

(4) فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: یَطْبَعُ الْمُؤْمِنُ عَلَی الْخِلَالِ کُلِّہَا اِلَّا الْخِیَانَۃَ وَالْکِذْبَیعنی مؤمن کی طبع میں تمام خصلتیں ہو سکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ۔(یعنی مؤمن کی طبیعت میں نا خیانت ہے اور نہ ہی جھوٹ) ۔(مسند احمد،8/276، حدیث: 22232) تشریح : حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ فرمان عالی میں یا تو نفی ہے یا پھر نہی، پہلی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ مومن میں یہ دونوں چیزیں اصلی پیدائشی نہیں اگر مومن جھوٹا یا خائن ہوگا تو عارضی طور پر ہوگا دوسری صورت میں یہ معنی ہے کہ مومن کو چاہیے کہ جھوٹا اور خائن عادتاً نہ بنے۔ ان جیسوں کی عادت نہ ڈالے یہ دونوں عادتیں اسکی شانِ ایمان کے خلاف ہیں۔ (مرآۃ المناجیح،ج6،حدیث:4860)

(5) سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جھوٹ سے منہ کالا ہوتا ہےاور چغلی سے قبر کا عذاب ہوتا ہے ۔ ( شعب الایمان،4/208،حدیث:4813)

؎میں جھوٹ نہ بولوں کبھی گالی نہ نکالوں

اللہ مرض سے تو گناہوں کے شِفا دے(وسائلِ بخشش)

اللہ پاک ہمیں جھوٹ جیسے موذی مرض سے محفوظ رکھے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم