جھوٹ کی
مذمت پر 5 فرامینِ مصطفٰے از بنت جعفر، بہار مدینہ آفیسر کالونی فیصل آباد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! ناچاقیوں
اور آپس کی اَن بَن کا ایک اہم سبب جھوٹ بولنا بھی ہے۔
جھوٹ کی تعریف :
کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا جھوٹ کہلاتا ہے۔قائل(یعنی جھوٹی خبر
دینے والا)گنہگار اس وقت ہوگا جبکہ بلاضرورت جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔(حديقہ ندیہ،4/
10)
احادیث کی روشنی میں جھوٹ کی مذمت: آئیے!احادیثِ مبارکہ
میں بَیان کردہ جھوٹ کی مختلف تباہ کاریاں سنتے
ہیں،چنانچہ
جھوٹ کے بھیانک نتائج: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو
سے فِرِشتہ ایک مِیْل دور ہوجاتا ہے۔ (ترمذی، 3/392، حدیث1979) جھوٹ بولنا سب سے
بڑی خیانت ہے۔(ابوداود،4/381، حدیث: 4971) جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔(مسند امام احمد،
1/22، حدیث:16) لوگوں کوہنسانے کےلیے جھوٹ بولنے والے کیلئے ہلاکت ہے۔ (ترمذی،4/142،
حدیث:2322) لوگوں کو ہنسانے کےلیے جھوٹ بولنے
والا دوزخ کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جوآسمان و زمین کے درمیانی فاصلے سے زِیادہ ہے۔ (شعب الایمان، 4/213، حدیث:4832)
جھوٹ بولنے سے منہ کالا ہوجاتاہے۔ (شعب الایمان،4/208، حدیث: 4813) جھوٹی بات
کہنا کبیرہ گناہ ہے۔ (معجم کبیر،18/140، حدیث:293 ملخصا) جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی
ہے۔ (مسلم، ص 50، حدیث:106) جھوٹ بولنے والے قیامت کے دن اللہ کریم کے نزدیک سب سے
زیادہ ناپسندیدہ افراد میں شامل ہوں گے۔ (کنز العمال،16/39، حدیث:44037)
پیاری پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے کہ جھوٹ آخرت کیلئے کتنی نقصان دہ
چیز ہے۔ اس لیےعقل مند وہی ہے کہ جو جھوٹ سے پیچھا چھڑا کر ہمیشہ سچ کا دامَن
تھامے رہے۔ سچ بولنے سے ہم نہ صِرف جھوٹ کی اِن وعیدوں سے بچ سکیں گی بلکہ سچ
بولنے کے فوائد سے بھی مالامال ہوں گی۔
سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ
حضرت آدم علیہ السلام سے کہا میں تمہارا
خیر خواہ ہوں۔
جھوٹ کی مذمت پر فرامین مصطفیٰ :
1۔ایک حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے، لہٰذا اللہ کے
رسول ﷺ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا ہے۔ حدیث ملاحظہ فرمائیے:
’’عَنْ صَفْوَان بْنِ سُلَيْمٍ اَنَّہٗ قِيْلَ لِرَسُوْلِ اللہِ اَ
يَکُوْنُ الْمُـؤمِنُ جَبَاناً؟ فَقَالَ: ’’نَعَمْ.‘‘ فَقِيْلَ لَہٗ: اَ يَکُونُ
الْمُـؤمِنُ بَخِيْلاً؟ فَقَالَ: ’’نَعَمْ‘‘. فَقِيْلَ لَہٗ: اَ يَکُوْنُ
الْمُـؤمِنُ کَذَّاباً؟ فَقَالَ: ’’لاَ‘‘ (مؤطا امام مالک، حدیث :3630) ترجمہ:حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھاگیا:
کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا: ہاں۔ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان
بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ نےجواب دیا: ہاں۔ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا
ہے؟ آپ نے جواب دیا: نہیں (اہلِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)۔
2۔ایک حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو محمد عربی ﷺنے نفاق کی علامات قرار
دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلتِ نفاق
سے متصف ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:
’’اَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِيْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ کَانَتْ
فِيہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِيْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی
يَدَعَہَا: إِذَا اؤتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا عَاہَدَ
غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ.‘‘ (صحیح بخاری، حدیث : 34)ترجمہ: جس میں چار
خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی
جائے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑدے: جب اس کے پاس امانت
رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب
لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے۔
’’إِذَا کَذَبَ العَبْدُ تَبَاعَدَ
عَنْہُ الْمَـلَکُ مِيْلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِہٖ‘‘ (سنن ترمذی :1972)ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بدبو آتی ہے
اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے۔
3۔ایک حدیث میں پیارے نبی ﷺ نے جھوٹ کو فسق و فجور
اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے۔
جھوٹ کی مثالیں: عام طور پر بولے جانے والے جھوٹ جنہیں جھوٹ سمجھا
ہی نہیں جاتا، ویسے عموماً ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اکثر و بیشتر مختلف مواقع پر
جھوٹ بولتے رہتے ہیں، لیکن کچھ جھوٹ ایسے بھی ہیں جو اکثر بولے جاتے ہیں، مگر ان
کو جھوٹ سمجھا نہیں جاتا، مثلا ”میں معافی چاہتا یا چاہتی ہوں“ ہم اس حقیقت سے بھی
واقف ہیں انسان غلطی کا پتلا ہے اور اکثر غلطیاں کرتا رہتا ہے، لیکن اپنی غلطی کو
چھپانے اور ایک اور مرتبہ اسے دہرانے کیلئے آئی ایم سوری جیسے الفاظ کا استعمال
کرنا۔ ’’مجھے تم سے نفرت ہے“ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ تین لفظ بول دینے سے ہم اپنے
نام نہاد دشمن سے بالکل قطع تعلق ہو سکتے ہیں ، لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوتا، جب کسی
محبوب دوست سے جھگڑا ہو جائے تب کہنا کہ اب میں نے اس سے محبت کرنا چھوڑ دیا ہے
جبکہ دل میں ابھی بھی اس کی محبت موجود ہو۔ ’’میں ٹھیک ہوں‘‘ جب بھی ہم سے کوئی
پوچھتا ہے کیا حال ہے تو ہمارا ایک ہی جواب ہوتا ہے میں ٹھیک ہوں، حالانکہ بندہ جب
شدید بیمار ہو تو تب بھی یہی جواب دینا جھوٹ ہے۔ اسی طرح جب کبھی ہم گر جائیں تو
پاس موجود لوگ پوچھتے ہیں لگی تو نہیں اس پر ہمارا جواب ہوتا ہے نہیں بچت ہو گئی
ہے اگر واقعی چوٹ لگی ہو تو یہ جھوٹ ہے۔ ’’کچھ نہیں‘‘ عام طور پر جب ہم کسی بات پر اداس
ہوتے ہیں اور کوئی پوچھ لے کیا ہوا تو ہمارا جواب ہوتا ہے کچھ نہیں۔ کیا اس وقت سچ
میں کچھ نہیں ہوتا یا ہمارے اندر ایک طوفان برپاہوتا ہے۔
جھوٹ بولنے کی طرح جھوٹ لکھنا بھی گناہ ہے۔ اپریل فول منانا گناہ ہے اور یہ
احمقوں اور بے وقوفوں کا طریقہ ہے۔ یکم اپریل کو لوگوں کو جھوٹی باتیں بتاکر یا
جھوٹی خبریں لکھ کر مذاق کیاجاتاہے جو کہ ناجائز وگناہ ہے، لہٰذا اس ناجائز و برے
طریقے سے بچنا بہت ضروری ہے۔
مذاق میں بھی جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ بعض والدین بچوں کو ڈرانے کے لئے جھوٹی
باتیں کرتے ہیں کہ فلاں چیز آرہی ہے مثلا بلی وغیرہ یا بہلانے کے لئے کہتے ہیں کہ
ادھر آؤ ہم تمہیں چیز دیں گے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص سویا
ہو تو اس کو اٹھانا کہ نماز کا ٹائم ہوگیا ہے اور جماعت میں صرف 5 منٹ باقی ہیں،
حالانکہ ابھی اذان بھی نہیں ہوئی ہوتی یا پھر جماعت میں 5 سے زیادہ منٹ باقی ہوتے
ہیں۔ توریہ یعنی لفظ کے جو ظاہری معنی ہیں وہ غلط ہیں مگر اس نے دوسرے معنی مراد
لئے جو صحیح ہیں، ایسا کر نا بلا حاجت جائز نہیں اور حاجت ہو تو جائز ہے۔ توریہ کی مثال یہ ہے کہ آپ نے کسی کو کھانے
کیلئے بلایا وہ کہتا ہے میں نے کھانا کھا لیا اس کے ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس وقت کا
کھانا کھا لیا ہے مگر وہ یہ مراد لیتا ہے کہ کل کھایا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کی کوئی
چیز چھپا لینا اور اس کے پوچھنے پر کہنا میرے پاس نہیں یہ بھی جھوٹ میں داخل ہے۔
بچوں کے جھوٹ بولنے کی چند مثالیں: اگر امی جان صبح اسکول میں جانے کے لئے اٹھاتی ہیں تو
جھوٹا بہانہ کردیتے ہیں کہ میری طبیعت صحیح نہیں یا
پھر میرے سرمیں درد ہے، یا پھر میرے پیٹ میں
تکلیف ہے۔ اسی طرح جب انہیں اسکول کا سبق یاد
کرنے کا کہا جائے تو جھوٹا عذر پیش کردیتے ہیں کہ مجھے نیند آرہی ہے، یا پھر مجھے فلاں تکلیف ہے۔ ایسے ہی جب ایک بچہ دوسرے بچے سے لڑائی جھگڑا کرلے یا کسی کومارے
تو دریافت کرنے پر جھوٹ بول دیتاہے کہ میں نے تو نہیں مارا۔
چند ایسی مثالیں جو بظاہر تو جھوٹ لیکن حقیقت
میں جھوٹ نہیں۔ اصل میں ایک عربی قاعدہ ہے لِلْاَکْثَرِ حُکْمُ الْکُل یعنی اکثر کا حکم سب پر ہوتا ہے۔ جیسے
کہا جائے کہ اس وقت ساڑھے بارہ ہو چکے ہیں جبکہ حقیقت میں 11:25 یا پھر 27 منٹ
ہوئے ہوں تو یہ جھوٹ نہیں، کیونکہ ساڑھے بارہ ہونے میں تھوڑا سا ہی وقت باقی ہے۔ اسی طرح کسی نے پوچھا اس وقت کہاں ہو تو جواب دیا
جی میں مال روڈ پر ہوں حالانکہ حقیقت میں کہنے والا شخص مال روڈ سے تھوڑا سا پیچھے
ہے تو چونکہ وہ مال روڈ بس پہنچنے ہی والا ہے اور مشہور جگہ بھی مال روڈ ہے اس لیے
اس نے مال روڈ کا نام لے دیا، لیکن اگر وہ خود ابھی کلمہ چوک ہے اور بتاتا مال روڈ
کا ہے تو اب یہ جھوٹ ہوگا۔
محاورہ جات: کچھ
ایسے جملے ہوتے ہیں جو بس کیفیات کو سمجھنے یا سمجھانے کے لیے بولے جاتے ہیں اگر
چہ وہ بظاہر جھوٹ ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ جھوٹ نہیں یعنی ان پر کوئی گناہ
نہیں ہوتا جیسے کہا جائے میرا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے
یعنی میرا دل بہت ہی زیادہ خوش ہوا۔ جیسے بہت زیادہ کام کرنے کے باجود کام کے
مطابق فائدہ نہ ہو بلکہ تھوڑا فائدہ ہو تو کہا جاتا ہے: کھودا پہاڑ، نکلا چوہا! یہ
بھی جھوٹ نہیں کیونکہ یہاں بس ایک کیفیت بتانا مقصود ہے، اسی طرح بہت سی اور بھی
مثالیں ہیں۔