جھوٹ نہایت
قبیح قسم کے گناہوں میں سے ہے اور نہایت بُرا عیب ہے۔جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ ہر
مذہب والے اس کی بُرائی کرتے ہیں ۔تمام ادیان میں یہ حرام ہے۔اسلام نے اس سے بچنے
کی بہت تاکید کی ہے۔قرآنِ مجید میں بہت مواقع پر اس کی مذمت فرمائی اور جھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت آئی۔
حدیثوں میں بھی اس کی برائی ذکر کی گئی ہے۔
جھوٹ
کی تعریف:کسی
کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا،قائل گناہگار اس وقت ہوگا جبکہ (بلا ضرورت) جان
بوجھ کر جھوٹ بولے۔(76 کبیرہ گناہ)
سب
سے پہلا جھوٹ کس نے بولا:سب سے
پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرت آدم علیہ
السلام سے کہا: میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔(مراٰۃ المناجیح،6/453)
فرمانِ
امیرِ اہلِ سنت:
سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔اللہ پاک ہمیں اس شیطانی کام سے بچائے۔
جھوٹ
کی مذمت پر 5 احادیث:
حدیث نمبر1:حضرت ابن
عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرماتے
ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس سے ایک میل دور
ہوجاتا ہے،اس کی بدبو کی وجہ سے جو آتی ہے۔
شرحِ
حدیث:فرشتے
سے مراد یا تو نیکیاں لکھنے والا فرشتہ ہے
یا حفاظت کرنے والا فرشتہ یا کوئی خاص رحمت کا فرشتہ مراد ہے،گناہ لکھنے والا
فرشتہ دور نہیں ہوتا۔میل سے مراد یا تو شرعی میل ہے یا تاحد نظر زمین۔اس سے معلوم
ہوتا ہے کہ اچھی بری باتوں،نیک و بد اعمال میں خوشبو اور بدبو ہے بلکہ ان میں اچھی بری لذتیں بھی ہیں مگر یہ صاف دماغ والوں ،صاف طبیعت والوں کو ہی محسوس ہوتی ہیں۔اللہ
رسول کے نام میں وہ لذت ہے جو کسی چیز میں نہیں۔(مراٰۃ المناجیح،ص322)
آنکھوں
کا تارا نامِ محمد دل
کا اجالا نامِ محمد
حدیث
نمبر2۔حضرت سعد بن حضرمی سے روایت ہے،فرماتے ہیں:میں نے
رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
بری خیانت یہ
ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہو اور تو اس میں
جھوٹا ہے۔
شرحِ
حدیث:یعنی
جھوٹ بہر حال برا ہے مگر اس شخص سے جھوٹ بولنا جو تمہیں سچا سمجھتا ہو ،تم پر
اعتماد کرتا ہو ،یہ بہت ہی برا ہے کہ اس میں جھوٹ بھی ہے اور دھوکا فریب بھی۔یوں
ہی اللہ رسول ﷺ پر جھوٹ باندھنا بھی بڑا جرم ہے کہ یہ جھوٹ بھی ہےاور بے حیائی،بے
غیرتی،بے شرمی بھی ۔اللہ اپنا خوف اور اپنے حبیب ﷺ کی شرم نصیب کرے کہ یہ دو چیزیں ہی گناہوں سے بچاتی ہیں۔(مراۃ المناجیح،6/323)
حدیث
نمبر3:حضرت
ابو امامہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:مومن تمام خصلتوں پر پیدا
کیا جاسکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔
شرحِ
حدیث:اس
فرمانِ عالی کے دو معنی ہوسکتے ہیں:ایک یہ کہ جھوٹ اور خیانت ایسی بری عادتیں ہیں
کہ کسی مومن میں یہ چیزیں اصلی پیدائشی نہیں ہوسکتیں،اگر کوئی مومن جھوٹا اور خائن
ہوگا تو عارضی طور پر ہوگا کہ جوجھوٹوں خائنوں کی صحبت میں رہ کر یہ جھوٹا یا خائن
بن جائے گا۔دوسرے معنی یہ ہیں کہ مومن کو چاہئے کہ جھوٹا اور خائن عادۃ نہ بنے،ان
عیبوں کی عادت نہ ڈالے،یہ دونوں اس کی
شانِ ایمان کے خلاف ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،6/328)
حدیث
نمبر4:حضرت
صفوان بن سلیم سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ سے عرض کی گئی:مومن بزدل ہوسکتا
ہے؟فرمایا:ہاں۔پھر عرض کی گئی:مومن کنجوس ہوسکتا ہے؟فرمایا:ہاں۔پھر عرض کی
گئی:مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟فرمایا:نہیں۔(مراٰۃ المناجیح،6/328)
شرح حدیث:یعنی مسلمان
میں بزدلی یا کنجوسی فطری طور پر ہوسکتی
ہے کہ یہ عیوب ایمان کے خلاف نہیں لہٰذا مومن میں ہوسکتی ہیں،اس میں اس بات کی طرف
اشارہ ہے کہ مومن گاہے بہ گاہے جھوٹ بول تو سکتا ہے مگر بڑا جھوٹا، ہمیشہ کا جھوٹا
ہونا، جھوٹ کا عادی ہونا مومن کی شان کے خلاف ہے۔مومن سے مراد کامل الایمان ہے۔
حدیث
نمبر5:حضرت
انس سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:جو جھوٹ چھوڑدے کہ جو باطل چیز ہے تو اس کے
لئے جنت کے کنارے میں گھر بنایا جائے گا۔
شرحِ حدیث:یعنی جھوٹ ہے ہی
باطل چیز ،اسے چھوڑنا ہی چاہئے۔کنارہ یعنی جنت کا ادنیٰ درجہ کیونکہ کنارہ ادنیٰ ہوتا ہے،درمیان اعلی مگر کنارے سے مراد جنت کا اندرونی کنارہ ہے نہ کہ بیرونی
جنت۔(مراٰۃ المناجیح، ص318)
جھوٹ
کے چند معاشرتی نقصانات:جھوٹا شخص منافق کہلاتا
ہے۔جھوٹ بولنے والے کے اوپر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ایک سچ کو چھپانے کے لئے100
جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔جھوٹ کے دل میں خود بھی جھوٹ کھٹکتا ہے اور وہ خود بھی
پریشانی کا شکار رہتا ہے۔جھوٹ سے لڑائی جھگڑے اور آپس کی رنجشیں جنم لیتی
ہیں۔جھوٹے سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔
جھوٹ
کی مثالیں:اگر کسی کی چیز گم ہوگئی اس سے پوچھا جائے:تم نے لی ہے؟دوسرا کہے:نہیں(جبکہ اس نے لی ہو)تو یہ جھوٹ
ہے۔کسی کی کال ریسیو نہ کی ،اس نے وجہ پوچھی تو کہا:میں سورہا تھا یا نہا رہا تھا جبکہ واقعتاً ایسا نہ ہو تو یہ
جھوٹ ہے۔اگر دروازے پر کسی نے آکر بچے سے
کہا:اپنے بابا کو بلاؤ!اس نے آکر بابا سے
کہا تو اس نے بچے سے کہا:انہیں کہہ دو بابا گھر پر نہیں ہیں یا سو رہے ہیں،تو یہ بھی جھوٹ ہے اور بچے کی
غلط تربیت بھی۔