افسوس! آجکل جھوٹ
بہت عام ہو گیا۔ بات بات پر جھوٹ بول دیتے ہیں اور اس کو بہت معمولی بات سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمیں غور کرنا چاہئے کہ جھوٹ
کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
(1)الله پاک
ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ
مُسْرِفٌ كَذَّابٌ0(پ24،المومن:28) ترجمہ کنزالایمان:بے شک الله راہ نہیں دیتااسے جو حد سے
بڑھنے والا بڑا چھوٹا ہو۔
(2)ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى
الْكٰذِبِيْنَ0(پ
3،اٰل عمران : 61)
ترجمہ:پھر
مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔
حدیث مبارکہ میں
جھوٹ بولنے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
1۔ بے شک جھوٹ فسق وفجورکی طرف لے جاتا ہے اور بے
شک فسق و فجور جہنم تک جاتا ہے۔ ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ پاک کے
نزدیک کذاب (بہت بڑا جھوٹا)لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم،ص1405،حديث:2607)
حدیثِ مبارکہ میں بیان ہوا کہ جھوٹ فسق کی طرف لے
جاتا ہے اور فسق جہنم تک لے جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ جہنم کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ہر مسلمان کی خواہش
یہی ہے کہ اسے جنت میں بلا حساب داخلہ نصیب ہو۔تو پھر یہ خواہش رکھتے ہوئے ہم جھوٹ
بھی بولیں،دیگر گناہ بھی کریں۔ہمیں اپنے افعال پر غور کرنا چاہئے۔
2۔منافق کی تین نشانیاں ہیں :(1)جب بات کرے تو جھوٹ
بولے(2) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے(3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جاتی ہے تو خیانت
کرے۔( مسلم،ص 50،حدیث: 59)
نفاق کالغوى معنى باطن کا ظاہر کے خلاف ہونا ہے۔اگر
اعتقاد اور ایمان کے بارے میں یہ حالت ہو تو اسے نفاق کفر کہتے ہیں اور اگر اعمال کے
بارے میں ہو تو اسے نفاق عملی کہتے ہیں اور یہا ں حدیث میں یہی مراد ہے۔ (فیض القدیر،1/593،تحت
الحديث:916)
3۔جھوٹ اور
خیانت کے علاوہ مومن کی طبیعت میں ہر بات ہو سکتی ہے۔ (مسندامام احمد،8/276،حدیث:
22232 )
4۔ جس میں چار خصلتیں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں
ان میں سے ایک خصلت ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے حتی کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ 1)جب اس
کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔3) جب وعدہ
کرے تو پورا نہ کرے اور4) جب جھگڑے تو گالی دے۔( بخاری،ص 25،حدیث: 34)
5۔ آدمی کے کناہگار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر
سنی سنائی بات کو بیان کردے۔(مسلم،ص8،حديث: 5)
اس پانچویں حدیث پر غور کریں آجکل تو سوشل میڈیا کا
زمانہ ہے جس کو جو خبر ملی اسے Share کر دیا جاتا
ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ پہلے اس Post کی تحقیق کریں آیا یہ خبردرست ہے یا نہیں !لیکن آج کل تو بس کوئی خبر ملنی
چاہئے ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ میرے فولوورز بن جائیں،میرے (Likes
)بڑھ
جائیں۔ جو ہر سنی ہوئی بات بغیر تحقیق کے آگے بیان کر دیتے ہیں ان کے لیے یہ حدیث
عبرت کے لیے کافی ہے۔
مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر کوئی ایک بار
جھوٹا مشہور ہو جائے تو چاہےپھر کتنی ہی سچی باتیں بولے لوگوں کا اس پر سے اعتماد
اٹھ جاتا ہے وہ اسے جھوٹا ہی کہتے ہیں۔
آئیے !جھوٹ کی تعریف بھی جان لیتے ہیں۔
جھوٹ کی تعریف: کسی کے بارے
میں خلافِ حقیقت خبر دینا۔ قائل گناہگار اس وقت ہوگا جبکہ(بلا ضرورت) جان بوجھ کر جھوٹ
بولے۔(الحدیقہ الندیہ،2/200)
کہاں جھوٹ بولنا جائز ہے ؟ تین
صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے:
(1)جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکا دینا
جائز ہے۔اسی طرح جب ظالم ظلم کرنا چاہتا ہو اس کے ظلم سے بچنے کے لیے بھی جائز ہے۔(2)دوسری
صورت یہ ہوگی کہ دو مسلمانوں میں اختلاف ہے اور یہ ان دونوں میں صلح کرانا چاہتا
ہے مثلا ایک کے سامنے یہ کہہ دے کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے تمہاری تعریف کرتا تھایا
اس نے تمہیں سلام کہلا بھیجا ہے اور دوسرے کے پاس بھی اسی قسم کی باتیں کرے تاکہ دونوں
میں عداوت کم ہو جائے اور صلح ہو جائے۔(3)تیسری صورت یہ ہے کہ بی بی کو خوش کرنے
کے لیے کوئی خلاف واقع بات کہہ دے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا :وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو
لوگوں کے درمیان میں اصلاح کرتا ہے،اچھی بات کہتا ہے اور اچھی بات پہنچاتا ہے۔
تو آئیے!یہ عہد کریں کہ کچھ بھی ہو جائے ہم جھوٹ نہیں
بولیں گے کہ ایک جھوٹ چھپانے کے لیے 70 جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔
جھوٹ
کے خلاف جنگ ! جاری رہے گی۔ ان
شاء الله