کسی چیز کو اس کی حقیقت کے برعکس بیان کرنا جھوٹ ہے۔(دلچسپ معلومات،حصہ1،ص
201)
جھوٹ کے معنیٰ ہیں سچ کا اُلٹ۔(فرض علوم سوم،ص691)
جھوٹ کی مذمت پر 05 فرامینِ مصطفیٰ :
1)
جھوٹ انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے۔
2)
جھوٹ انسان کو رسوا کر دیتا ہے۔
3) جب
بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔
4) جھوٹے
گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ الله پاک اس کیلئے جہنم واجب کردے گا۔
5) جھوٹا
خواب سنانے والے کو جو کے دو دانوں میں گانٹھ لگانے کے تکلیف دی جائے گی جو وہ نہیں
کر سکے گا۔ اور ایک حدیث پاک میں جھوٹا خواب گھڑ کر سنانے والے کو جنت کی خوشبو سے
محرومی کی وعید سنائی گئی ہے۔(دلچسپ معلومات،حصہ
1،ص 209 تا 212)
پہلا جھوٹ کس نے بولا ؟سب سے پہلے جھوٹی قسم ابلیس نے
کھائی۔
05 احادیث شرح کیساتھ
(1) روایت ہے حضرت صفوان بن سلیم سے کہ رسول اللہ ﷺ سے
عرض کیا گیا کہ مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔پھر عرض کیا گیا :مومن کنجوس ہو
سکتا ہے ؟فرمایا: ہاں۔ پھرعرض کیا گیا: کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ فرمایا نہیں۔(مالک،بیہقی،شعب الایمان)
شرح: آپ تابعین
میں سے ہیں نہایت متقی پرہیزگار تھے۔یعنی مسلمان میں فطری طور پر بزدلی یا کنجوسی
ہوسکتی ہے کہ یہ عیوب ایمان کے خلاف نہیں لہٰذا مومن میں ہو سکتے ہیں۔ کذاب فرما کر اس طرف اشارہ ہے کہ مومن گا ہے بہ گا ہے جھوٹ
بول لے تو ہو سکتا ہے مگربڑا جھوٹا ہونا،جھوٹ کا عادی ہونا مومن ہونے کی شان کے
خلاف ہے۔
(2) روایت ہےحضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہاسے فرماتی ہیں: فرمایارسول اللہ ﷺ
نے:جھوٹاوہ نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرادے اورکہے خیر بات اورانہیں پہنچائے خیر
بات۔ (مسلم بخاری )
شرح:یہ ام
کلثوم بنت رسول الله نہیں بلکہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط ہیں۔یعنی جو مسلمان
دو لڑے ہوئے مسلمانوں کے درمیان جھوٹی خبریں پہنچا کر ان میں صلح کرادے تو وہ گنہگا
رنہیں اور یہ جھوٹ گناہ نہیں۔ خیال رہے کہ چند صورتوں میں جھوٹ جائز ہے۔ ان میں سے
ایک تو یہ،دوسرے کسی کا جان و مال محفوظ کرنے،دشمن سے بچانے کیلئے جھوٹ بولنا بلکہ
بعض جگہ جھوٹ عبادت ہے جیسے کسی متقی پرہیزگار کا اپنے کو گناہگار کہنا عبادت ہے۔
(3) روایت ہےبہزبن حکیم سےوہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی فرماتے ہیں :فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے کہ خرابی ہے اس کیلئے جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس سے قوم کو ہنسائے۔
اس کے لیے خرابی ہے۔ اس کے لیے خرابی ہے۔(احمد،ترمذی ابودود،دارمی)
شرح:بہز بن حکیم ابن معاویہ ابن حیدہ قشیری بصری تا بعی
ہیں۔ لوگوں کو ہنسانے کے لیے تو جھوٹ بولنا ہمیشہ ہی جرم بلکہ ڈبل جرم مگر لوگوں
کو ہنسانے کیلئے سچی بات کہنا اگر کبھی کبھی ہو تو جرم نہیں۔ خوش طبعی اچھی چیز ہے
مگر اس کا عادی بن جانا گناہ ہے۔ کسی پریشان یا مغموم کو ہنسا دینے کے لیے اچھی وسچی
دل لگی کی بات کہہ دینا ثواب ہے۔ ویل کے معنی ہیں: خرابی /افسوس۔دوزخ کے ایک طبقہ کا نام بھی ویل ہے،یہاں بمعنی خرابی
تین بار ویل فرمانے میں اس جانب اشارہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے دنیا میں بھی خرابی
ہے برزخ میں بھی آخرت میں بھی۔
(4) روایت ہے حضرت سفیان ابن اسد حضرمی سے فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ بری خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی
بات کرے جس میں تجھے سچا سمجھتا ہو اور تو اس میں جھوٹا ہے۔ (ابو داود)
شرح یعنی جھوٹ بہر حال برا ہے مگر اس شخص سے جھوٹ
بولنا جو تمہیں سچا سمجھتا ہو تم پر اعتما کرتا ہو یہ بہت ہی برا ہے کہ اس میں
جھوٹ بھی ہے اور دھوکا فریب بھی یوں ہی الله رسول سے جھوٹ بولنا بڑا ہی جرم ہے کہ یہ
جھوٹ بھی ہے بے حیائی بے غیرتی بے شرمی بھی،الله پاک اپنا خوف اپنےحبیب ﷺکی شرم نصیب
کرے کہ یہ دو چیزیں ہی گناہوں سے بچاتی ہیں۔
(5) روایت ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں: فرمایا رسول اللہﷺنے
کہ مومن تمام خصلتوں پر پیدا کیا جاسکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔(احمد،بیہقی،شعب
الایمان)
شرح: خلال سے مراد بری عادتیں ہیں۔ پہلی صورت میں معنی یہ
ہیں کہ جھوٹ اورخیانت ایسی بری عادتیں ہیں کہ کسی مومن میں یہ دونوں چیزیں اصلی پیدائشی
نہیں ہو سکتیں اگر کوئی مومن جھوٹا یا خائن ہوگا وہ عارضی طور پر ہوگا کہ جھوٹوں خائنوں
کی محبت میں رہ کر یہ جھوٹایا خائن بن جائے گا اس کے علاوہ اور عیوب مومن میں پیدائشی
ہو سکتے ہیں۔دوسری صورت میں یہ معنی ہیں کہ مومن کو چاہیے کہ جھوٹا یا خائن عادۃً نہ
بنےان عیبوں کی عادت نہ ڈالے یہ تو اس کی
شان کے خلاف ہیں۔ (مراٰة المناجیح)
جھوٹ کی پانچ مثالیں :(1)کوئی چیز خریدتے وقت اس طرح کہا کہ
مجھے فلاں سے اس سے کم قیمت میں مل رہی تھی حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے۔ (2) اسی
طرح بائع (Seller)
کا زیادہ رقم کمانے کیلئے قیمت خرید (Purchas price) زیادہ بتانا۔(3)جعلی یا ناقص دواؤں سےشفا
کا گمان غالب نہیں ہے ان کے بارے میں اس طرح کہنا سو فیصدی شرطیہ علاج یہ جھوٹا مبالغہ ہے۔ (فرض علوم
سیکھئے،ص591)(4)رات بجلی چلی گئی تھی اس لئے سبق یاد نہیں کر سکا( جبکہ یاد کرنے
کاسبب سستی،کھیل کود یا کچھ اور تھا)(5) درد نہ ہونے کے باوجود اُستاد سے کہنا: میرے
پیٹ میں درد ہورہا ہے مجھے چھٹی دے دیجیئے۔ (جھوٹا چور،ص24۔25)
جھوٹ کا حکم:جھوٹ بولنا گناہ اورجہنم میں لے جانے
والا کام ہے۔جھوٹ کامعصیت(گناہ)ہوناضروریات دین سے ہے۔لہٰذا جو اس کے گناہ ہونے کا مطلقا انکار
کرےدائرہ اسلام سے خارج ہو کر کافر و مرتد ہو جائے گا۔ (فرض علوم سیکھئے،600)
حکایت :جھوٹ بولنے والوں کے بچے سؤر بن گئے!حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کے پاس بہت سے بچے جمع ہو جاتے تھے آپ انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں
چیز تیار ہوئی ہے۔ تمہارے گھروالوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے۔ فلاں چیز تمہارے لیےبچا
کر رکھی ہے۔ بچے گھر جاتے روتے اور گھر والوں سے وہ چیز مانگتے گھر والے وہ چیز دیتے
اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا ہے؟ کہتے؟ (حضرت) عیسیٰ علیہ السلام نے۔ تو
لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ کے پاس آنے سے روکا اور کہا کہ وہ جادو گرہیں۔ (معاذ
الله)،اُن کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کر دیا۔ حضرت عیسی علیہ
السلام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: وہ یہاں نہیں ہیں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر اس
مکان میں کون ہے؟ لوگوں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا: یہ تو (بچے نہیں) سؤر ہیں۔فرمایا:
ایسا ہی ہوگا۔ اب جو دروازہ کھولا تو سب سؤر ہی سؤر تھے۔
جھوٹا دوزخ کے اندرکتے کی شکل میں:بے شک اللہ
پاک غیب اور چھپی ہوئی چیزوں کا جاننے والا ہے وہ جسے چاہتا ہے اُسے غیب اور چھپی
ہوئی چیزوں کا علم دیتا ہے جبھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام گھرمیں چھپائی ہوئی چیزوں
کے بارے میں بچوں کو خبر دے دیتے تھے۔ اس حکایت سےہمیں یہ بھی درس ملا کہ جھوٹ بہت
خراب چیز ہے۔ لوگوں نے جھوٹ بولا تو گھر میں چھپے ہوئے ان کے بچے بدلے میں خنزیر یعنی
سؤر بن گئے۔
حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہمیں یہ بات پہنچی
ہے کہ جھوٹا دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل جائے گا۔حسد کرنے والا جہنم میں سؤر کی
شکل میں بدل جائے گا اور غیبت کرنےوالا جہنم میں بندر کی شکل میں بدل جائے گا۔ (جھوٹا
چور،ص8تا11)
حدیث مبارکہ میں کن مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت ہے؟
(1)
جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکا دینا جائز ہے۔(2) دو مسلمانوں کے درمیان
صلح کرانےاور(3)اپنی بیوی کو راضی کرنے کیلئے(ان صورتوں میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے)(دلچسپ
معلومات،ص11،حصہ: 1)
حدیث مبارک میں منافق کی نشانیاں:جب بات کرے جھوٹ
بولے۔جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔ جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب جھگڑا کرے تو گالی دے۔ ( دلچسپ معلومات،ص 210،حصہ: 1)
جھوٹی بات پر کہنا: اللہ جانتاہے میں سچی ہوں!
حکم:کسی بھی جھوٹی بات پر اللہ پاک کو گواہ بنانا یاجھوٹی
بات پر جان بوجھ کر یہ کہنا کہ اللہ جانتا ہے یہ کلمہ کفر ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں: جو شخص کہے :اللہ پاک جانتا ہے کہ یہ
کام میں نے کیا ہے حالانکہ وہ کام اس نےنہیں کیا ہے تو اس نےکفر کیا۔(کفریہ کلمات
کے بارے میں سوال جواب،ص 581)
جھوٹ بولنے کے اسباب: (1)مال کا مرض:خرید و فروخت میں رقم
بچانے یا زیادہ مال کمانے کیلئے جھوٹ بولنا عام پایا جاتا ہے۔(1) مبالغہ آرائی
بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی عادت : ایسے افراد حد سے بڑھ کر جھوٹی مبالغہ آرائی میں
مبتلا ہو جاتے ہیں۔آج کل اشیا کی مشہوری( Advertisement)
میں اس طرح کی جھوٹی مبالغہ آرائی عام ہے۔(3)حب مدح یعنی اپنی تعریف کی خواہش: ایسے
لوگ اپنی واہ واہ کیلئے جھوٹے واقعات بیان کرتے رہتے ہیں۔(4)فضول گوئی کی عادت(5)آج
کل مروتاً جھوٹ بولنا بھی عام پایا جاتا ہے مثلاً کسی نے سوال کیا: ہمارے گھر کا کھاناپسند
آیا؟ تو مروت میں آکر کہہ دیا: جی۔ بہت پسند آیا۔ حالانکہ واقع میں اس کو کھانا پسند
نہیں آیا تھا تو یہ بھی جھوٹ ہو گا۔(فرض علوم سیکھئے،ص692)
جھوٹ چھوڑنے والےکے لئےحدیث پاک میں خوش خبری:حضور ﷺ کا
فرمانِ جنت نشان ہے:جس نے باطل جھوٹ بولنا چھوڑ دیا اس کے لئے جنت کے کنارے پر
مکان بنایا جائے گا۔(دلچسپ معلومات،حصہ1،ص 210)
فرمانِ مصطفٰے: جھوٹ میں کوئی بھلائی نہیں۔(جھوٹا چور،ص
21)
جھوٹ سے بچنے کے طریقے : (1)جھوٹ کی دُنیوی اور اُخروی
تباہ کاریوں پر غور کیجیئے مثلاً جھوٹے سے لوگ نفرت کرتے ہیں۔ اس پر سے اعتماد اُٹھ
جاتا ہے۔ جھوٹے پر لعنت کی گئی ہے اور جھوٹا دوزخ میں کتے کی شکل میں بدل دیا جائے
گا۔ اس طرح غوروفکر کرتے رہنے سے ان شاء الله سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کا ذہن بنے گا۔ (2)
زبان کا قفل مدینہ لگاتے ہوئے صرف ضرورت کی بات ہی کیجئے اور بے جا بولتے رہنے کی
عادت سے چھٹکارا حاصل کیجئے۔(3)مبالغہ کرنے کی عادت بھی ختم کیجئے اور بولنے سے پہلے
سوچنے کی عادت اپنائیے۔ (ظاہری گناہوں کی
معلومات،ص 23 تا 29)
نوٹ : جھوٹ کے متعلق مزید معلومات کے لئے بہار شریعت،حصہ
3ص 515 تا519 کا مطالعہ کیجئے۔
دعا:الله پاک ہمیں جھوٹ سے بچتے ہوئے ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ