بروز قیامت بندے کے ہر عمل کا حساب ہوگا۔اس کی نیکی پر ثواب اور گناہ پر عذاب دیا جائے گا۔ اس سخت پریشانی کے وقت سب سے زیادہ ہلاکت میں جھوٹا شخص ہو گا۔جُھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے برعکس کوئی بات کی جائے۔(حدیقہ ندیہ،2/400) جھوٹ نہ صرف ایک اخلاقی برائی ہے بلکہ ایک گناہ کبیرہ اور تمام گناہوں کی جڑ ہے۔یہ وہ امر ہے جو ہر مذہب میں مذموم سمجھا جاتا ہے چنانچہ جھوٹ بولنے کی ممانعت قرآن پاک میں یوں بیان ہوئی: وَاجْتَنِبُوْاقَوْلَ الزُّوْرِ(الْحج:30) ترجمہ کنزالایمان: اور بچو جھوٹی بات سے۔ اس کےحوالے سے کثیر احادیث وارد ہوئی ہیں۔ جن میں سے 5 درج ذیل ہیں :

1۔ جُھوٹ بولنا مُنافِق کی عَلامتوں میں سے ایک نِشانی ہے۔( مسلم،ص50،حدیث:106)

2۔جھوٹ بولنے والےقِیامت کے دن،اللہ پاک کے نزدیک سب سے زِیادہ ناپسندیدہ اَفراد میں شامِل ہوں گے۔(کنز العمال،16،/36،حدیث: 44037)

3۔جُھوٹ ایمان کے مُخالِف ہے۔ (مسندامام احمد،1/22،حدیث: 16) چنانچہ ایک حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں کہ مسلمان میں بزدلی یا کنجوسی فطری طورپرہوسکتی ہے کہ یہ عُیوب اِیمان کے خِلاف نہیں،لہٰذا مؤمن میں ہوسکتے ہیں۔ (ہاں!) مگر بڑا جھوٹا،ہمیشہ کا جھوٹا ہونا،جھوٹ کا عادی ہونا مؤمن ہونے کی شان کے خِلاف ہے۔(مراٰۃ المناجیح،6/477)

4۔ جھوٹ سے بچو،کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم،ص1405،حدیث:2607)

حدیثِ پاک میں فرمایا گیا کہ بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اسے کذّاب (بہت زیادہ جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے یعنی اس کے لئے یہ حکم کر دیا جاتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے،فرشتوں پر اس کا جھوٹا ہونا ظاہر کردیا جاتا ہے اور زمین والوں کے دلوں میں بھی یہ بات ڈال دی جاتی ہے۔ (گناہوں کا سفیر،ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021)

5۔جب بندہ جُھوٹ بولتا ہے،اس کی بَدبُو سے فِرِشتہ ایک مِیْل دُور ہوجاتا ہے۔ (ترمذی،3/392،حدیث:1979)

اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے تو وہ کئی گناہوں سے بچ سکتا ہے۔عام طور پر دکان دار اپنے مال کو بیچنے کے لیے کہتا ہے کہ ہماری خرید ہی یہ ہے،خریدار کہتا ہے کہ یہ تو فلاں اتنے کا دے رہا ہے تاکہ دام کم کرواسکے،یہ بھی جھوٹ ہے۔جھوٹ کے حوالے سے بہت مشہور محاورہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس لئے وہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا آخر کار سچ سامنے آ ہی جاتا ہے اور اس صورت میں ایک جھوٹ بولنے سے آج تو وہ بچ سکتا ہے مگر کل دنیا میں نا صرف جھوٹ کے سبب سچ بولنے کی نسبت زیادہ ذلت اٹھانی پڑے گی بلکہ آخرت میں اس گناہ کبیرہ کے سبب الگ ہلاکت ہوگی۔ جھوٹ بولنے سے کام بنتے نہیں بگڑتے ہیں اس لیے ہمیں ہمیشہ سچ بولنا چاہیے کیونکہ سچ بولنے سے کام بگڑتے نہیں بن جاتے ہیں اور اس شخص کو اللہ پاک پسند فرماتا ہے جو سچ بولتا ہے۔ گر آپ میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے تو اُسے چھوڑ دیجئے اور سچی توبہ کرلیں۔اللہ پاک ہمیں جھوٹ جیسے گناہ سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن ﷺ