محمد امان اویسی(درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان
امام احمد رضا حیدرآباد تیلنگانہ ہند)
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اللہ پاک نے
ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ار جس طرح اللہ پاک نے ہمیں کئی کاموں کا حکم دیا مثلا
: نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، سچ بولنا وغیرہ وغیرہ اسی طرح کئی کاموں سے منع بھی فرمایا
انہی میں سے جھوٹ بولنا بھی ہے۔ جھوٹ ایک باطنی بیماری ہے عام طور پر ہم ظاہری
گناہوں سے تو بچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن باطنی گناہوں کی اصلاح کی طرف ہمارا
رجحان بہت کم نظر آتا ہے اور آج کل جھوٹ مسلمانوں میں بھی عام ہوتا چلا جا رہا ہے۔
مومن کی شان جھوٹ سے کس قدر بلند اور پاک ہوتی ہے اس کا اندازہ اس فرمانِ مصطفے صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے لگائیے۔ چنانچہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی : یا رسولَ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! کیا مؤمن بزدل ہو سکتا ہے؟ اِرشاد فرمایا :
ہاں ، پوچھا گیا : کیا مؤمن بخیل ہو سکتا ہے؟ اِرشاد فرمایا : ہاں ، پوچھا گیا : کیا
مؤمن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد
فرمایا : نہیں۔ ( مُؤطّا امام مالک ، 2 / 468 ، حدیث : 1913 ) یعنی مسلمان میں
بزدلی یا کنجوسی فطری طورپرہوسکتی ہے کہ یہ عُیوب اِیمان کے خِلاف نہیں ، لہٰذا
مؤمن میں ہوسکتی ہیں۔ (ہاں!) مگر بڑا جھوٹا ، ہمیشہ کا جھوٹا ، جھوٹ کا عادی ہونا
مؤمن ہونے کی شان کے خِلاف ہے۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 6 / 477 )
ہم جھوٹ سے اسی صورت میں بچ سکتے ہیں جب ہمیں جھوٹ کی تعریف
پتا ہو آئیے پہلے جھوٹ کی تعریف سنتے ہیں۔ جھوٹ کی تعریف : کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا(جھوٹ
کہلاتا ہے)۔قائل(یعنی جھوٹی خبر دینے والا)گنہگار اس وقت ہوگا جبکہ(بلاضرورت)جان
بوجھ کر جھوٹ بولے۔( الحديقۃ النديہ ، القسم الثانی، المبحث الاول، 4/ 10)
اب اگر یہ سوال اگر کسی کے ذہن میں آئے کہ سب سے پہلا جھوٹ
کس نے بولا تو اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرت آدم علیہ
السّلام سے کہا میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔(مراٰۃ المناجیح ،6/453)آئیے
"اللہ" کے پانچ حروف کی نسبت سے جھوٹ کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ سنتے ہیں۔
حدیث (1) صحیح
بخاری و مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: صدق کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف
لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ
بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا
ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ
دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے،
یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم،کتاب البر...إلخ، باب قبح
الکذب...إلخ،ص1405،حدیث: 2607)
حدیث (2) ترمذی نے ابن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت کی، کہ
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، اس کی
بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے۔( سنن الترمذی،کتاب
البروالصلۃ، باب ماجاء في المراء،3/392،حدیث:1979)
حدیث (3) امام احمد نے حضرت ابوبکر رضی اللہُ عنہ سے روایت کی،
کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ
ایمان سے مخالف ہے۔(المسند للإمام أحمد بن حنبل،مسند
أبي بکر الصدیق،1/22،حدیث:16)
حدیث ( 4) بیہقی نے ابوبرزہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹ سے مونھ کالا ہوتا ہے اور چغلی سے
قبر کا عذاب ہے۔(شعب الإیمان ، باب في حفظ اللسان،4/208،حدیث: 4813 )
حدیث (5 ) فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : خواب میں ایک
شخص میرے پاس آیا اور بولا چلیے! میں اس کے ساتھ چل دیا، میں نے دو آدمی دیکھے ان
میں سے ایک کھڑا دوسرا بیٹھا تھا کھڑے ہوئے شخص کے ہاتھ میں لوہے کا زَنبور ( لوہے
کی سلاخ جس کا ایک طرف کا سرا مڑا ہوا ہوتا ہے) تھا جسے وہ بیٹھے شخص کے ایک جبڑے
میں ڈال کر اسے گدّی تک چیر دیتا پھر زنبور نکال کر دوسرے جبڑے میں ڈال کر چیر دیتا،
اتنے میں پہلے والا جبڑا اپنی اصل حالت پر لوٹ آتا ، میں نے لانے والے شخص سے
پوچھا : یہ کیا ہے؟ اس نے کہا : یہ جھوٹا شخص ہے اسے قیامت تک قبر میں یہی عذاب دیا
جاتا رہےگا۔ ( مساویٔ الاخلاق للخرائطی ، ص 76، حدیث 131 )
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! دیکھا آپ نے جھوٹ کی کتنی
نحوستیں ہیں احادیث مبارکہ میں کیسی کیسی وعیدیں آئی ہیں آئیے ہم اور آپ مل کر یہ
نیت کریں کہ آئندہ جھوٹ سے بچیں گے اگر آج تک کبھی بھی جھوٹ کا یا کوئی اور گناہ
کا ارتکاب ہو گیا ہو تو ہم اللہ پاک سے ان گناہوں سے توبہ کرتے ہیں اللہ پاک ہمیں
جھوٹ سے اور تمام برائیوں سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یا رب! نہ ضرورت کے سوا کچھ
کبھی بولوں
اللہ زباں کا ہو عطا قفل مدینہ
محمد دلنواز قادری (درجۂ دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ
فیضان اولیاء احمد آباد ہند)
جس طرح شریعتِ مطہرہ نے ہمیں اپنے ہاتھ پاؤں اور آنکھ و کان
کو گناہوں سے بچانے کی تاکید فرمائی اس سے کئی زیادہ زبان کو فضولیات اور جھوٹ
بولنے سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے کیوں کہ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے اور اسے
تمام ادیان میں مذموم جانا جاتا ہے اور قرآن و احادیث میں کئی مواقع پر جھوٹ کی
مذمت اور جھوٹ بولنے والے پر رب العالمین نے لعنت فرمائی ہے۔
اب آئیے جھوٹ کی
تعریف اور اس کی مذمّت پر مشتمل احادیثِ مبارکہ پڑھیے:
جھوٹ کی تعریف: کسی چیز کو اس کی حقیقت کے بر خلاف بیان کرنا جھوٹ کہلاتا
ہے
پہلا جھوٹا آدمی: حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان
مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔
اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جنت
میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤ البتہ اِس درخت کے قریب نہ جانا۔ شیطان
نے انہیں وسوسہ ڈالا اور کہنے لگا کہ تمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے اس لیے منع
فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ اور
اس کے ساتھ شیطان نے جھوٹی قسم کھا کر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ اس پر
انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے ، اس خیال سے حضرت حوا
رضی اللہ عنہا نے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت آدم علیہ السّلام کو دیا تو انہوں
نے بھی کھا لیا۔ (تفسیر صراط
الجنان، سورۃ البقرہ آیت 35،36) تو پتا چلا کہ سب سے پہلے جھوٹ بولنے والا شیطان مردود ہے۔
احادیث مبارکہ
(1) رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق
ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے
نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات
کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے
تو گالیوں پر اتر آئے۔(الصحیح البخاری،حدیث :34)
(2) رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا، کیا مومن بزدل ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں، پھر
عرض کی گئی، کیا مومن بخیل ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر کہا گیا، کیا مومن کذاب ہوتا
ہے؟ فرمایا: نہیں۔(بہار شریعت، 3/ 516)
(3) عبد اللہ بن عامر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے مکان میں تشریف فرما تھے میری ماں
نے مجھے بلایا کہ آؤ تمھیں دوں گی۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
کیا چیز دینے کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا، کھجور دوں گی۔ ارشاد فرمایا: اگر تو کچھ
نہیں دیتی تو یہ تیرے ذمہ جھوٹ لکھا جاتا۔(سنن ابی داؤد، 1/ 339 ،حدیث: 4993)
(4)فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کہ ہلاکت ہے
اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگو کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے
ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔(سنن ابی داؤد، 1/ 339 ،حدیث: 4992)
️(5)فرمانِ مصطفیٰ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، اس کی بدبو سے فرشتہ ایک
میل دور ہوجاتا ہے۔(ترمذی شریف ،2/545 ،حدیث: 1980)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو دیکھا آپ نے کہ جھوٹ ایک کیسی
خطرناک بیماری ہے کہ اس سے فرشتہ بھی ایک میل دور ہو جاتا ہے بد قسمتی سے آج ہمارے
معاشرے کے اندر جھوٹ ایسا عام ہو چکا ہے کہ اس کو برائی تصور کیا ہی نہیں جاتا،
ذرا غور کریں اگر کسی کا نام تھانے میں مجرموں کی فہرست میں درج کر دیا جائے تو اس
سے دن کا چین اور رات کی نیند ختم ہو جائے گی اور اسے یہ پسند نہیں ہوگا کہ میرا
نام مجرموں میں لکھا جائے اسی طرح ایک مسلمان کو یہ بھی پسند نہیں ہونا چاہیے کہ میرا
نام رب کی بارگاہ میں جھوٹا لکھا جائے کیوں کہ انسان جب مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے
تو اسے کذاب یعنی بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے تو عقلمند شخص وہی ہے جو خود بھی
جھوٹ سے بچے اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
اللہ پاک ہمیں جھوٹ سے بچنے اور ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق
عطا فرمائیں۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سمیع اللہ عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
امام احمد رضا حیدرآباد ہند)
پیارےاورمحترم اسلامی بھائیوں! جھوٹ بولنا ایسی بری عادت ہے
کہ ہر مذہب میں اسے "برائی" سمجھا جاتا ہے، ہمارے پیارے دینِ اسلام نے
اس سے بچنے کی بہت تاکید کی ہے۔قراٰنِ پاک نے کئی مقامات پر اس کی مذمّت بیان
فرمائی اور جھوٹ بولنے والوں پر خُدا کی لعنت بھی ہے۔ چنانچہ پارہ 17 سورة الحج
آيت نمبر 30 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور بچو جھوٹی بات سے۔(پ17،الحج:30)
ایک اور مقام پارہ 3 سورۃ اٰلِ عِمْران آیت 61 میں ارشاد
ہوتا ہے۔ لَّعْنَتَ اللّٰهِ
عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔( پ3، آلِ عمرٰن:61)
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی جھوٹ کی مذمّت پر کئی فرامینِ
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مذکور ہیں اُنہیں میں سے پانچ ذکر کیے جائیں
گے تاکہ ان کو پڑھ کے ہم اپنے آپ کو جھوٹ جیسی ذلیل عادت سے بچا سکیں۔ آئیے سب سے
پہلے جھوٹ کو سمجھ لیتے ہیں کہ جھوٹ کہتے کسے ہیں جھوٹ کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے
بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا۔ قائل گناہ گار اس وقت ہوگا جبکہ(بلا ضرورت)جان
بوجھ کر جھوٹ بولے۔( الحديقۃ النديہ، القسم الثانی،المبحث الاول، 4/ 10)
(1) سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنّت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ
بولنا فِسقو فُجور(گناہ)دوزخ میں لے جاتا ہے۔(صحیح مسلم،کتاب الادب،باب قبح
الکذب، ص1405 ،حديث:2607)
مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جھوٹا آدمی
آگے چل کر پَکّا فاسِق و فاجِر بن جاتا ہے،جھوٹ ہزارہا گناہوں تک پہنچا دیتا ہے۔ تجربہ
بھی اسی پر شاہد ہے۔ سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرتِ آدم علیہ السلام سے
کہا میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ مزید فرماتے ہیں: (جھوٹا) شخص ہر قِسم کے گناہوں میں
پھنس جاتا ہے اور قدرتی طور پر لوگوں کو اس کا اِعْتِبَار نہیں رہتا،لوگ اس سے
نفرت کرنے لگتے ہیں۔(مراٰةالمناجیح،6/453)
(2) مُنافِق کی تین نشانیاں ہیں:(1)جب بات کرے تو جھوٹ
بولے(2)جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور(3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خِیانت
کرے۔(مسلم،کتاب الایمان،بیان خصال المنافق،ص50،حدیث:59)
نِفاق کا لغوی معنٰی باطِن کا ظاہر کے خلاف ہونا ہے۔ اگر
اعتقاد اور ایمان کے بارے میں یہ حالت ہو تو اسے نِفاقِ کُفر کہتے ہیں اور اگر
اعمال کے بارے میں ہو تو اسے نِفاقِ عملی کہتے ہیں اور یہاں حدیث میں مُراد یہی
ہے۔(فیض القدیر،1/593،تحت الحدیث:916)
(3)تم بدگُمانی سے بچو کیونکہ بِلاشُبہ یہ سب سے بڑی جھوٹی بات
ہے۔ یہ حدیثِ پاک بُخاری و مُسلم دونوں میں ہے۔(مسلم,کتاب البروالصلاۃولاداب،باب
تحریم الظن والتجسس٠٠ا لخ،ص1382،حدیث:2563)بغیر کسی دلیل کے دل میں پیدا ہونے والی
تہمت کو بدگمانی کہتے ہیں۔(فیض القدیر،3/157،حدیث:2901)
(4)نہ دی ہوئی چیز
کا ظاہر کرنے والا دو جھوٹے کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔اس حدیثِ پاک کو امام مسلم
رحمۃُ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔(مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النھی عن التزویر
فی اللباس۔۔الخ،ص1177،حدیث:1230)
یعنی کوئی شخص امانت یا عارِیت کے اعلٰی کپڑے پہن کر پھرے
لوگ سمجھیں کہ اس کے اپنے کپڑے ہیں پھر بعد میں حال کھلنے میں بدنامی بھی ہو گناہ
بھی ایسے یہ بھی ہے جیسے کوئی فاسِق و فاجِر مُتّقی کا لباس پہن کر صوفی بنا پھرے
پھر حال کھلنے پر رُسوا ہو۔(مراٰۃ المناجیح،5/114)
جھوٹ سے بُغض و حَسد سے ہم بچیں
کیجیے رَحْمت اے نانائے حسین
پیارے اسلامی بھائیوں! جھوٹ بولنے میں نقصان ہی نقصان
ہے،جھوٹ بولنے سے منہ کالا ہوجاتا ہے،چھوٹی بات کہنا کبیرہ گناہ ہے،جھوٹ جب بندہ
جھوٹ بولتا ہے،اس کی بَدبُو سے فِرِشتہ ایک مِیل دور ہوجاتا ہے،جھوٹ بولنے والے قِیامت
کے دن اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ افراد میں شامل ہوں گے۔ جبکہ سچ
بولنے میں فائدہ ہی فائدہ ہے، سچ بولنے والا بُرائیوں سے بچے گا،جو اللہ پاک کے
نزدیک صدّیق ہوجائے اس کا خاتِمہ اچھا ہوتا ہے،وہ ہر قِسم کے عذاب سے محفوظ رہتا
ہے،ہر قِسم کا ثواب پاتا ہے،دُنیا میں بھی اسے سچّا کہنے،اچّھا سمجھنے لگتے ہیں،اُس
کی عزّت لوگوں کے دِلوں میں بیٹھ جاتی ہے۔
تو اسی لیے پیارے اسلامی بھائیوں! ہمیں بھی سچ بولنے کے عظیم
الشان فضائل اور دنیا و آخرت کے انعامات سے سرفراز ہونے اور جھوٹ کے بھیانک نتائج
سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاتے ہوئے سچ کا عادی بنانا ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں
بھی سچ بولنے اور جھوٹ سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
جھوٹ کے خلاف جنگ جاری رہے گی
نہ جھوٹ بولیں گے نہ بُلوائیں
گے! ۔ انشاء اللہ الکریم
محمد نور عالم (درجۂ دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ فیضان
اولیاء احمد آباد گجرات ہند)
جھوٹ ایسی بری چیز ہے جس کو کوئی مذہب پسند نہیں کرتا رہا،
ہمارا دین جو ایک کامل دین ہے اس نے ہمیں جھوٹ سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے، قراٰنِ
کریم اور احادیث مبارکہ میں جھوٹ کی مذمّت بیان کی گئی ہے۔ آئیے احادیث مبارکہ سے
جھوٹ کی مذمّت پر مشتمل چند فرامین مصطفیٰ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پیش
کرتا ہوں:۔
جھوٹ کی تعریف: کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا (جھوٹ کہلاتا ہے)۔قائل(یعنی جھوٹی خبر دینے
والا)گنہگار اس وقت ہوگا جب کہ (بلاضرورت)جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔( 76 کبیرہ گناہ،
ص 99 )
سب سے پہلے شیطان نے جھوٹ بولا۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کی
نسبت فرمایا گیا: وَ قَالَ مَا
نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ
اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ(۲۰) وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ(۲۱) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور کہنے لگا تمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے اسی لیے منع
فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ۔ اور
ان دونوں سے قسم کھاکر کہا کہ بیشک میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔(پ8،الاعراف:20،21)
حضرت ابوہریرہ سے
روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو ( روزے میں)
جھوٹی باتیں اور برے کام نہ چھوڑے تو اللہ پاک کو اس کے کھانا پانی چھوڑ دینے کی
کچھ پرواہ نہیں۔
یہاں جھوٹی بات سے مراد ہر ناجائز گفتگو ہے۔(مرآۃ المناجیح ،
3/170)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ منافق کی تین علامتیں ہیں جب گفتگو کرے تو جھوٹ
بولے اور جب وعدہ کرے تو خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
یہاں منافق سے اعتقادی منافق مراد ہیں، یعنی دل کے کافر
زبان کے مسلم، یہ عیوب ان کی علامتیں ہیں مگر علامت کے ساتھ علامت والا پایا جانا
ضروری نہیں۔ ( مرآۃ المناجیح ، 1/ 61)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز میں دعا مانگتے ہوئے کہتے تھے: الٰہی میں تیری پناہ
مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کے فتنہ سے اور تیری
پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے؎ الہی میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہ
اور قرض سے کسی نے عرض کیا حضور قرض سے اتنی زیادہ پناہ مانگتے ہیں تو فرمایا کہ
آدمی جب مقروض ہوتا ہے بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو خلاف
کرتا ہے۔
وضاحت :قرض بہت
سے گناہوں کا ذریعہ ہے عمومًا مقروض قرض خواہ کے تقاضے کے وقت جھوٹ بھی بولتے ہیں
اور گھر میں چھپ جاتے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح ، 2/72تا 73)
حضرت ابن عمر سے روایت ہے فرماتے ہیں، رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کی بدبو کے سبب
ایک میل دور ہوجاتا ہے۔(مرآۃ المناجیح،6/ 370)
ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا : بربادی ہے اُس کیلئے جو لوگوں کو ہنسانے کیلئے
جھوٹ بولے ، بربادی ہے اُس کے لئے ، بربادی ہے اُس کے لئے۔( ترمذی ، 4 / 142 ، حدیث
: 2322 )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے جھوٹ کتنی بری
عادت ہے کہ جھوٹے شخص سے فرشتے دور ہوتے ہیں اور لوگوں کا اعتماد اس پر ختم ہوجاتا
ہے، یوں جھوٹا آدمی دنیا و آخرت دونوں میں ذلت اٹھاتا ہے، اللہ کریم ہمیں جھوٹ سے
محفوظ رکھے۔اٰمین بجاہ النبی الکریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد مستقیم عطّاری (درجۂ دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ
فيضان عطار ناگپور ہند)
ہمارے معاشرے میں جھوٹ کو معمولی گناہ تصور کیا جاتا ہے
خواہ کوئی بھی معاملہ ہو چاہے وہ دنیاوی ہو یا دینی بلکہ بعض لوگ تو اسے گناہ ہی
نہیں سمجھتے جیسے کارو بار اور لین دین کے معاملات میں جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔
اسی طرح شادی یا رشتےداری کے معاملات میں اکثر لوگ جھوٹ سے کام لیتے ہیں ۔ بعض لوگ
اپنی انانیت کے تحفظ، عزت کے بچاؤ کے لیے بھی بلا جھجک جھوٹ بولتے ہیں ۔ اسی طرح
لوگ شہرت اور منصب کے حصول کے لیے جھوٹ بولنے کو معیوب نہیں سمجھتے۔ بعض لوگ جھوٹے
خوابوں کو بھی بیان کرتے ہیں جبکہ بعض لوگ دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے اللہ پاک
کی ذات اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہستی کے حوالے سے بھی جھوٹ
بولنے سے باز نہیں آتے۔ جبکہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں جھوٹ سے بچنے کا حکم فرمایا
ہے۔ چُنانچہ پارہ17 سُوْرَۃُ الْحَج آیت نمبر 30 میں اِرْشاد ہوتا ہے: وَ اجْتَنِبُوْا
قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بچو جھوٹی
بات سے۔(پ17،الحج:30)اور احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹ کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ
سچ بولنا نیکی ہے
اور نیکی جَنَّت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فِسْق وفُجُور ہے اور فِسق وفُجُور
(گناہ)دوزخ میں لے جاتا ہے۔(صحیح مسلم،کتاب الادب،باب قبح الکذب ، ص1405
،حديث:2607)
بیشک سچائی نیکی کی
طرف لے جاتی ہے اور نیکی جَنَّت کی طرف لے جاتی ہے اور بیشک بندہ سچ بولتا رہتا ہے
یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک صِدّیق یعنی بہت سچ بولنے والا ہوجاتا ہے۔ جبکہ جھوٹ
گُناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گُناہ جہنَّم کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک بندہ جُھوٹ
بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذّاب یعنی بہت بڑا جُھوٹا ہوجاتا
ہے۔(بخاری ، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالیٰ، 4/125، حدیث:6094)
بارگا ہِ رسالت میں
ایک شَخْص نے حاضِر ہوکر عَرْض کی: یارَسُولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!
جہنَّم میں لے جانے والا عَمَل کونسا ہے ؟ فرمایا: جُھوٹ بولنا، جب بندہ جھوٹ
بولتا ہے تو گُناہ کرتا ہے اور جب گُناہ کرتا ہے تو ناشُکری کرتا ہے اور جب ناشُکری
کرتا ہے تو جہنَّم میں داخِل ہوجاتا ہے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ
ابن عمرو بن العاص، 2/589، حدیث:6652)
نُورکے پیکر، تمام
نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرْشاد فرمایا: خَواب میں ایک
شَخْص میرے پاس آیا اور بولا: چلئے! میں اُس کے ساتھ چَل دِیا، میں نے دو(2)آدَمی
دیکھے، ان میں ایک کھڑا اور دُوسرا بیٹھا تھا ، کھڑے ہوئے شَخْص کے ہاتھ میں لَوہے
کا زَنْبُورتھا، جسے وہ بیٹھے شَخْص کے ایک جَبْڑے میں ڈال کر اُسے گُدّی تک چِیر
دیتا، پھر زَنْبُورنکال کر دُوسرے جَبْڑے میں ڈال کر چِیْرتا، اِتنے میں پہلے
والاجَبْڑا اپنی اَصْلی حالت پر لَوٹ آتا، میں نے لانے والے شَخْص سے پُوچھا: یہ کیا
ہے؟اُس نے کہا: یہ جُھوٹا شَخْص ہے، اِسے قِیامت تک قَبْر میں یہی عذاب دیا جا تا
رہے گا۔(جھوٹا چور، ص:14)
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مذاق میں جھوٹ بولنے
سے منع فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : یعنی بربادی ہے اُس کیلئے جو لوگوں کو ہنسانے کیلئے
جھوٹ بولے ، بربادی ہے اُس کے لئے ، بربادی ہے اُس کے لئے۔( ترمذی ، 4 / 142 ، حدیث
: 2322 )
اللہ پاک ہم سب کو جھوٹ اور جھوٹے لوگوں سے محفوظ رکھے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جھوٹ کے خلاف جنگ جاری رہے گی
نہ جھوٹ بولیں گے نہ بُلوائیں
گے! ۔ انشاء اللہ الکریم
محمد زبیر خان (درجۂ دورۃ الحدیث جامعۃُ المدینہ فیضان
اولیا احمد آباد ہند)
پیارے اسلامی بھائیوں! اللہ پاک کا بےشمار فضل و احسان ہے
کہ اُس نے ہمیں قوت گویائی عطا فرمائی اور گفتگو کرنے کی صلاحیت سے نوازا ہے ۔ یہ
اللہ پاک کی نعمت عظمیٰ میں ایک عظیم نعمت ہے ۔
ہم اس نعمت کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے بعض لوگ اِس کا درست
استعمال ( امر بالمعروف ونہی عن المنکر،مسلمانوں کی دلجوئی، حسن اخلاق )کر کے
بارگاہ رب میں مقبول ہوتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں درجات رفیعہ حاصل کرتے ہیں جب
کہ بعض لوگ اِس کا غلط استعمال (جھوٹ،غیبت،چغلی،دھوکہ) کرکے اللہ پاک کے غضب کو
ابھارتے ہیں اور اللہ پاک کے قہر کو دعوت دیتے ہیں ۔
جھوٹ بولنا حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے ہمارے
معاشرے میں اتنی کثرت سے جھوٹ بولا جانے لگا ہے کہ لوگ اس کو بالکل برا نہیں جانتے
ہیں۔بعض اوقات لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولا جاتا ہے۔بعض اوقات جھوٹ لوگوں کی
دل آزاری کا بھی سبب بنتا ہے ۔کثرت سے جھوٹ بولنے والے شخص پر لوگوں کا اعتماد ختم
ہو جاتا ہے۔بسا اوقات ایک جھوٹ چھپانے کے لئے بندہ کثیر جھوٹ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات ہماری پوری پوری مجالس جھوٹ پر مشتمل ہوتی ہیں ہمیں اللہ پاک کے قہر و
غضب سے ہمیشہ لرزاں و ترساں رہنا چائیے۔
پیارے اسلامی بھائیوں
آئیے پہلے جھوٹ کی تعریف ملاحظہ کرتے ہیں: خلاف واقع بات کو بیان کرنا جھوٹ کہلاتا
ہے۔ قراٰنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں جا بجا جھوٹ کی مذمت فرمائی گئی ہے ۔ اللہ
پاک نے قرآن مجید میں جھوٹ کی مذمت فرمائی ہے ۔ چنانچہ اللہ کریم کا فرمان ہے: وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بچو جھوٹی
بات سے۔(پ17،الحج:30)
تفسیر صراطالجنان: اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ یہاں جھوٹی
بات سے کیا مراد ہے، اس کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اپنی طرف سے چیزوں
کو حلال اور حرام کہنا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹی گواہی دینا ہے۔ تیسرا
قول یہ ہے کہ اس سے مراد جھوٹ اور بہتان ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد دورِ
جاہلیّت میں تَلْبِیَہ میں ایسے الفاظ
ذکر کرنا جن میں اللہ پاک کے لئے شریک کا ذکر ہو۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: 30، 8 / 223)
جھوٹی گواہی دینے اور جھوٹ بولنے کی مذمت
پر5اَحادیث: آیت کی مناسبت سے یہاں جھوٹی گواہی دینے اور جھوٹ بولنے کی
مذمت پر مشتمل5اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)حضرت خریم بن فاتک اسدی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبح کی نماز پڑھ کر کھڑے
ہوئے اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا : جھوٹی گواہی ہی شرک کے ساتھ برابر کر دی گئی۔
پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا
قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: پس تم بتوں کی گندگی سے دور رہو اور
جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ ایک اللہ کیلئے ہر باطل سے جدا ہو کر (اور)اس کے ساتھ کسی
کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے ۔( ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی شہادۃ الزور، 3 / 427، حدیث: 3599)
(2) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اُس کے لیے
جہنم واجب کر دے گا۔(ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب شہادۃ الزور، 3/ 123، حدیث: 2372)
(3)حضرت معاویہ بن حیدہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: اس کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹی بات کرتا ہے، اس کے لیے
ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء من تکلّم بالکلمۃ لیضحک
الناس، 4/ 141، حدیث: 2322)
(4) حضرت ابوبکر رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں: اے لوگو! جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔(مسند
احمد ،1/22،حدیث:16)
(5)حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس
آ کر کہنے لگے کہ جس شخص کو آپ نے (شبِ معراج) دیکھا کہ ا س کے جبڑے چیرے جا رہے
ہیں وہ بہت جھوٹا آدمی ہے، ایسی بے پرکی اڑاتا تھا کہ اس کا جھوٹ اطراف ِعالَم میں
پھیل جاتا تھا، پس قیامت تک اس کے ساتھ یہی کیا جاتا رہے گا۔ (بخاری، کتاب الادب،
باب قول اللہ تعالٰی: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، 4/ 126، حدیث: 6096)
حضرتِ سیِّدُنا امام عبدالرَّحمٰن ابنِ جَوزی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جب مومن
بِلاعُذر جھوٹ بولتا ہے تو اس کے مُنہ(Mouth)سے بدبُودار چیز نکلتی ہے، یہاں تک کہ وہ عرش پر پہنچ جاتی ہے اور
عرش اُٹھانے والے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ 80 ہزار فرشتے بھی
لعنت بھیجتے ہیں اور 80 خطائیں اس کے ذمہ لکھی جاتی ہیں، جن میں سب سے کم اُحد
پہاڑ کی مثل ہے۔(بستان الواعظین وریاض السامعین ،ص61)
پیارے اسلامی بھائیوں ! مذکورہ آیت اور احادیث مبارکہ سے
پتہ چلا کہ جھوٹ ایک مذموم صفت ہے جھوٹ کی کتنی ہلاکتیں قرآن و حدیث میں بیان ہوئیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم سچ بولنے کی عادت ڈالیں ہمیشہ سچ ہی بولیں۔سچ بول کر اللہ پاک کی
رضا حاصل کریں جھوٹ بول کر اللہ پاک کی ناراضگی مول نہ لیں ۔چنانچہ روایتوں میں
مذکور ہے : جو بندہ مخلوق کو راضی کرنے کے لیے اللہ پاک کو ناراض کرتا ہے تو اللہ
پاک اُس سے ناراض ہوتا ہے اور مخلوق کو بھی اس سے ناراض کر دیتا ہے اور جو بندہ
اللہ پاک کو راضی کرنے کے لیے مخلوق کو ناراض کرتا ہے تو اللہ پاک اُس سے راضی
ہوتا ہے اور مخلوق کو بھی اُس سے راضی کر دیتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں مرتے دم تک سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
معراج عالم عطّاری(درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان
مفتی اعظم ہند شاہجہاں پور یوپی ہند)
پیارے اسلامی بھائیو ! جھوٹ ایک عادت سیئہ ہے اور جھوٹ کی
مذمت پر آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث طیبہ موجود ہیں۔ ان میں
سے چند آپ کے نظر کے حوالے کرتا ہوں تا کہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ جھوٹ کتنی بری
عادت ہے اور اس سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
(1) امام عراقی اپنی کتاب تخریج الاحیاء میں حدیث پاک نقل
فرماتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ باہلی سے مروی ہے :بیشک جھوٹ نفاق کے دروازوں میں سے
ایک دروازہ ہے۔( تخریج الاحیاء، 3/165 ) یعنی جھوٹ نفاق کی علامت ہے ۔
(2) امام بخاری صحیح
بخاری میں ایک حدیث نقل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے بیشک صدق
(سچائی) یہ نیکی ہے اور نیکی یہ جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بندہ سچ بولتا رہتا ہے یہاں
تک کہ اللہ پاک کے نزدیک اسے صدیق (سچا) لکھ دیا جاتا ، اور جھوٹ یہ گناہ ہے اور
گناہ یہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک
کے نزدیک اسے کاذب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔
(3) امام سیوطی شافعی
جامع صغیر سے ایک حدیث نقل فرماتے ہیں کہ حضرت مجمع بن یحیی سے مروی ہے سچ بولو
اگرچہ تم اس میں ہلاکت دیکھو بیشک اس میں ہی نجات ہے اور جھوٹ سے پرہیز کرو اگرچہ
تم اس میں نجات دیکھو بیشک اس میں ہلاکت ہے۔( جامع صغیر،حدیث: 3238)
(4) امام ابن
حجر عسقلانی اپنی کتاب الاصابۃ میں حدیث نقل فرماتے ہیں ام معبد عاتکہ بنت خالد
خزاعیہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دعا کرتے تھے: اے
اللہ میرے دل کو نفاق سے پاک فرما اور میرے عمل کو ریا سے اور میری زبان کو جھوٹ
سے اور میری آنکھ کو خیانت سے بیشک تو آنکھوں کی خیانت کو اور جو کچھ دل میں پوشیدہ
ہے اسے جانتا ہے ۔( الاصابۃ،4/499)
(5) حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص سے مروی ہے کہ بارگاہ نبوی میں
ایک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جہنم
میں لے جانے والے اعمال کونسے ہیں ؟ فرمایا جھوٹ بولنا کہ بندہ جب جھوٹ بولتا ہے
تو اللہ پاک کی ناشکری کرتا ہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔
(مسند امام احمد بن حنبل،حدیث:6652)
پیارے اسلامی بھائیو ! ان احادیث طیبہ کی روشنی میں ہمیں اس
بات کا اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ جھوٹ کی کتنی مذمت بیان کی گئی ہیں بہر حال ہمیں
چاہیے کہ ہم ہر حال میں سچ بولیں کہ سچ کو آنچ نہیں ۔
محمد کامل عطّاری(درجۂ دورة الحدیث مرکزی جامعۃالمدینہ
فیضان کنزالایمان ممبئی ہند)
آج ہمارے معاشرے میں بہت برائیاں عام ہو رہی ہے ان میں سے ایک
برائی جھوٹ ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں جھگڑے فساد قتل و غارت اور دشمنی جنم
لیں رہی ہیں اور آپس میں لڑائیاں ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے دور ہوتے ہوئے نظر آرہے
ہیں۔ جھوٹ وہ بری خبیث صفت ہے جو پوری دنیا کے تمام مذاہب والے شدت سے ناپسند کرتے
ہیں بہت بڑا گناہ ہے۔ قراٰنِ کریم و الفرقان الحمید اور احادیث مبارکہ میں اس کی
بہت مذمت آئی ہے ۔
(1)فرمان رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو (روزہ رکھ کر) جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل
کرنا نہ چھوڑا تو اللہ پاک کو کوئی حاجت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے۔
(صحیح البخاری ،1/ 331 ،حدیث: 1903)
(2) رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہلاکت ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے
اور لوگو ں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت
ہے۔(سنن الترمذی،کتاب
الزھد، باب ماجاء من تکلم بالکلمۃ لیضحک الناس،4/142، حدیث: 2322)
(3)محبوب رب غفار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جھوٹ رزق کو تنگ کر دیتا ہے۔ (مساوئ الاخلاق لخرائطی، ص 70،حدیث: 117 )
(4)سرکار دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جو
کسی مسلمان کا مال ناحق دبانے کی خاطر (جھوٹی)قسم کھائے گا وہ اللہ پاک سے اس حال
میں ملے گا کہ وہ اس سے ناراض ہو گا۔ (صحیح المسلم
کتاب الایمان ، حدیث: 137 )
یقیناً جھوٹ ہمارے اخلاق کو پست کرتا اور فتنوں وفساد کا
باعث بنتا ہے جس ہمارے معاشرے کی خوشحالی بدحالی میں تبدیل ہو جاتی ہے ہم سب کو
جھوٹ سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ ہم ایک خوشگوار زندگی گزار سکے اللہ پاک جھوٹ
بولنے اور جھوٹ سننے سے محفوظ فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
جھوٹ کے خلاف جنگ جاری رہے گی
نہ جھوٹ بولیں گے نہ بُلوائیں گے! ۔ انشاء اللہ الکریم
محمد فرحان رضا(درجۂ دورۂ حدیث شریف جامعۃُ المدینہ
فیضانِ اولیاء احمد آباد ہند)
تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے جس نے ہمیں اشرف المخلوقات
بنانے کے ساتھ ساتھ ایک بہت پیاری نعمت زبان سے بھی نوازا، زبان اللہ پاک کی عظیم
نعمت ہے، اس کا درست استعمال دخولِ جنت کا سبب اور اس کا غلط استعمال جہنم میں
جانے کا سبب بن سکتا ہے، زبان کے غلط استعمال میں جھوٹ بولنا بھی ہے۔
جھوٹ کی تعریف :کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا جھوٹ ہے۔ (76 کبیرہ
گناہ، ص 99)
(1)مسلم شریف میں حضرت عبداللہ سے روایت فرماتے ہیں کہ رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے
جاتا ہے اور بے شک فسق و فجور جہنم تک لے جاتا ہے اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے
حتی کہ وہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ ( مسلم ،کتاب البر والصلہ و الادب
باب قبح الکذب، 2/325)
(2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے
وہ خواب بیان کیا جو دیکھا نہیں تھا تو اسے بروزِقیامت اس بات کی تکلیف دی جائے گی
کہ وہ جوَ کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگائے اور وہ ہر گز ایسا نہیں کر سکے
گا۔(بخاری شریف،کتاب التعبیر، باب، من کذب فی حلمہ، 2/ 1969،حدیث : 7042)
(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں (1) جب
بات کرے تو جھوٹ بولے (2)جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے(3) جب اس کے پاس امانت رکھی
جائے تو خیانت کرے۔( بخاری شریف کتاب الایمان، باب علامات المنافق، 1/10)
(4) رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا کیا
مومن بزدل ہوتا ہے ؟ فرمایا ہاں۔ پھر عرض کی گئی کیا مومن بخیل ہوتا ہے؟ فرمایا
ہاں۔ پھر کہا گیا کیا مومن کذاب ہوتا ہے؟ فرمایا نہیں ۔ ( مشکاۃ شریف ، باب حفظ
اللسان والغیبۃ والشتم،ص414 )
(5) امام ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فرشتہ ایک
میل دور ہو جاتا ہے۔(ترمذی ، کتاب البر والصلۃ، باب الصدق والکذب، 2/18)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے؟ جھوٹ بولنے کی کیسی
نحوست ہے، کہ جھوٹے شخص پر اللہ کی لعنت ہے، جھوٹا شخص جہنم کے قریب ہو جاتا ہے
اور اس سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے ، ہمیں چاہیے کہ ہم جھوٹ سے دور رہیں اور
سچ بولنے کی عادت ڈالیں۔
اللہ پاک ہمیں سچ کو اختیار کرنے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محسن کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اخلاق و کردار
کو سنوارنے اور ان کی تکمیل کے لیے تشریف لائے(۔خزائن العرفان، پ29، القلم، تحت
الآیۃ: 4) تاکہ انسانیت کو ہدایت
ملے اور وہ ابدی نعمتوں سے سرفراز ہو۔ آپ کی تعلیم میں یہ بھی ہے کہ بندہ ہمیشہ سچ
بولے ، اور جھوٹ سے بچے کہ یہ دنیا اور آخرت میں تباہی کا سبب ہے ۔ آج کل بد قسمتی
سے ہمارے معاشرے میں یہ مرض بڑتا جا رہا ہے ایسا ذہن بن گیا کہ جھوٹ کے بغیر ہمارا
کوئی کام ہوگا ہی نہیں۔ خدا کا خوف کرنا چاہئے کہ یہ گناہ کبیرہ( 75گناہ کبیرہ ، ص
99) اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔(مرآۃ المناجیح
،6/453)
جھوٹ کی تعریف: کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا۔ قائل گنہگار اس وقت
ہو گا جبکہ ( بلا ضرورت) جان بوجھ کر جھوٹ بولے۔ (الحديقۃ النديہ، القسم الثاني،
المبحث الاول، 4/ 10) مثلاً کیسی کا بھوکا ہونے کے باوجود یہ بولنا کہ بھوک نہیں۔
اس کا حکم: جھوٹ بولنا حرام ہے اور اس پر دردناک عذاب کی وعید ہے لہٰذا
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔( صراط الجنان تحت آیت10، پ2
البقرہ) قران مجید اور کثیر احادیث کریمہ میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
آئیے سچ کی عادت
اپنانے اور جھوٹ جیسے کبیرہ گناہ سے جان چھڑانے کے لیے چند فرامین مصطفی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش خدمت ہے ۔
(1) صحیح بخاری و مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے
مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: صدق کو لازم کرلو،
کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے آدمی برابر
سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے
نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے
اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ
بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم،کتاب
البر...إلخ، باب قبح الکذب...إلخ،ص1405،حدیث: 2607)
واقعی سچا آدمی سوسائٹی میں عزت پاتا اور قابل اعتماد ہو تا
ہے۔ برخلاف جھوٹے آدمی کے کہ اس کے لیے ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
(2) جس شخص میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے (1)
جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔(2)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ (3) جب معاہدہ کرے تو
اسے توڑ دے۔ (4)جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ اگر کسی کے اندر ان میں سے ایک عادت
پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک حصہ موجود ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔( بخاری،
کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب اثم من عاہد ثمّ غدر، 2/ 370، حدیث: 3178)
جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنا بے ایمانوں ہی کا کام
ہے۔( خازن، النحل، تحت الآیۃ: 105، 3/ 144، ملخصاً)
(3) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہلاکت
ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگو ں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے
ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔(سنن الترمذی،کتاب الزھد، باب ماجاء من تکلم بالکلمۃ
لیضحک الناس،4/142،حدیث: 2322 )۔
(4) بیہقی نے
ابوبرزہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: جھوٹ سے مونھ کالا ہوتا ہے اور چغلی سے قبر کا عذاب ہے۔(شعب الإیمان ، باب
في حفظ اللسان،4/208،حدیث: 4813 )
(5) ترمذی
نے ابن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا
ہے۔( سنن الترمذی،کتاب
البروالصلۃ، باب ماجاء في المراء،3/392،حدیث:1979)
پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں ! اپنی زبان کا قفل مدینہ
لگائے ، نہ انسانوں کو تکلیف دیجیے نہ کسی مخلوق کو، کہ مومن تو دوسروں کو راحت
پہنچاتا ہے نہ کی تکلیف۔ الله ہمیں اپنے نبی صادق الامین علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم
کے صدقے سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
محمد اشفاق رضا عطّاری (درجۂ رابعہ ، جامعۃُ المدینہ
فیضان عطار نیپال گنج نیپال )
جھوٹ ایک ایسا
گھناؤنا کردار ہے جسے دنیا میں کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ چاہے کسی بھی دھرم، مذہب،
سوسائٹی، سے تعلق رکھتا ہو۔ اسے اچھا فعل نہیں سمجھتا ہے۔ نہ کوئی اپنے ساتھ اس
معاملہ ہونے کو صحیح جانتا ہے۔ کذب بکنے والا چاہے کتنے ہی ہوشیار کیوں نہ ہو اور
اپنی کذب بیانی کو بہت آسانی کے ساتھ چھپا بھی لیتا ہو۔ لیکن پھر بھی ایک نہ ایک
دن لوگوں پر عیاں ہو ہی جاتا ہے۔ پھر کذب بیانی کرنے والا ہر جگہ ذلیل و رسوا ہوتا
ہے۔ اور کیوں نہ جس پر اللہ اور اس کے رسول اس کے فرشتے ، اور تمام انسانوں کی
لعنت ہو وہ ہمیشہ ذلیل ہی ہوگا۔ آپ نے دیکھا بھی ہوگا کوئی شخص بہت عزت و تکریم
اپنی جھوٹی باتوں کی وجہ سے پایا رہتا ہے لیکن جب لوگوں کو اس کی سچائی پتہ چلتی
ہے تو وہ کہی کا نہیں رہ جاتا ۔ یہ تو دینوی معاملہ ہے۔ آخرت میں اور بھی سخت
دردناک انجام ہونگے۔
اور مسلمانوں کو تو میرے کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے پہلے ہی تعلیم دے دی ہے کہ تم ہمیشہ کذب سے دور رہنا ،جھوٹ سے نفرت کرنا
اسے کبھی اختیار نہ کرنا ورنہ تمہارے لئے دنیا و آخرت دونوں میں خسارہ ہے ۔ اور
مسلمان کے لئے سب سے بڑی نقصان یہ ہے کہ کذاب سے اللہ اور اس کے رسول ناراض ہو
جاتے ہیں ۔ اللہ اکبر کبیرا !
اب آپ خود ہی غور
فرمائیں اور سوچیں ! یہاں سوچنے ہی کا مقام ہے غور و فکر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ لیکن
ہم آج دنیا کی محبت میں اتنے کھو گئے ہیں کہ ہمیں کسی چیز کی پرواہ ہی نہیں ہے کون
ناراض ہو رہا ہے ۔ کون نہیں ہو رہا ہے ۔ بس ہمیں دنیا کی رضا چاہئے چاہے جیسے حاصل
ہو جائے۔
آج لوگ جھوٹ بولنے میں شرم محسوس نہیں کرتے ہیں۔ کوئی کسی
کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بول رہا ہے۔ تو کوئی کسی کا مذاق اڑانے کے لیے ، تو کوئی
کسی پر الزام عائد کرنے کے لیے ، کذب کی تو کوئی حد ہی نہیں رہی گئی ہے ہر معاملے
ہنسی، مذاق، مسخری ، میں جھوٹ بولتے ہیں اور اس میں شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔ جبکہ
جھوٹ بولنا ایک بہت بڑا گناہ اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ اللہ
رب العزت ارشاد فرماتا ہے : لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔( پ3، آلِ عمرٰن:61) اور
ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں
کے ساتھ ہو۔(پ11،التوبۃ:119)
یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص
ہیں ، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہُ عنہ کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر رضی
اللہُ عنہما مراد ہیں۔ ابنِ جریج کہتے ہیں کہ اس سے مہاجرین مراد ہیں۔ حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی نیتیں
سچی رہیں ، ان کے دل اور اَعمال سیدھے رہے اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوۂ تبوک میں حاضر
ہوئے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: 119، 2 / 293)
(1)حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس
آ کر کہنے لگے کہ جس شخص کو آپ نے (شبِ معراج) دیکھا کہ ا س کے جبڑے چیرے جا رہے
ہیں وہ بہت جھوٹا آدمی ہے، ایسی بے پرکی اڑاتا تھا کہ اس کا جھوٹ اطراف ِعالَم میں
پھیل جاتا تھا، پس قیامت تک ا س کے ساتھ یہی کیا جاتا رہے گا۔ (بخاری، کتاب الادب،
باب قول اللہ: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، 4 / 126، حدیث: 6096)
(2) صحیح
بخاری و مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: صدق کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف
لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ
بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا
ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ
دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے،
یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم،کتاب البر...إلخ، باب قبح الکذب...إلخ،ص1405،حدیث: 2607)
(3) ترمذی نے انس رضی اللہُ
عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے (یعنی جھوٹ
چھوڑنے کی چیز ہی ہے)اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا
کرنا چھوڑا اور وہ حق پر ہے یعنی باوجود حق پر ہونے کے جھگڑا نہیں کرتا، اس کے لیے
وسط جنت میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اخلاق اچھے کیے، اس کے لیے جنت کے
اعلیٰ درجۂ میں مکان بنایا جائے گا۔( سنن الترمذی،کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء في المراء،3/400،حدیث:2000)
(4)حضرت سفیان بن اَسِید حَضْرَمی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے
،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں
سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی
المعاریض، 4 / 381، حدیث: 4971)
(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے
کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین
کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے، وہ اس سے
کہیں زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے۔(شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب
الایمان۔۔۔ الخ، 4 / 213، حدیث: 4832 )
اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ
فرماتے ہیں : مسلمان اس نفیس فائدے کو یاد رکھیں اور اپنے رب سے ڈریں جھوٹ اور غیبت
ترک کریں کیا معاذ اللہ منہ سے پاخانہ نکلنا کسی کو پسند ہوگا باطن کی ناک کھلے تو
معلوم ہو کہ جھوٹ اور غیبت میں پاخانے سے بدتر سڑاند ہو۔ جامع ترمذی بسند حسن
عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
فرماتے ہیں: اذا کذب العبد کذبۃ تباعد الملک عنہ مسیرۃ میل من نتن ماجاء
بہ رواہ ابن ابی الدنیا فی کتاب الصمت وابونعیم فی
حلیۃ الاولیاء عنہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔ ترجمہ جب کوئی
شخص جھوٹ بولتا ہے اُس کی بدبو کے باعث فرشتہ ایک میل مسافت تک اُس سے دُور ہوجاتا
ہے۔ کتاب الصمت میں ابن ابی الدنیا اور ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں روایت کیا۔
رضی اللہُ عنہ۔(فتاوی رضویہ، 1/970، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
لہذا مسلمانوں کو
چاہیے کہ اپنے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے ہوئے طریقوں پر
چلتے ہوئے اپنی زندگی کو بسر کرے۔ اور ہمیشہ صدق یعنی سچائی کا ساتھ دیں اور صدق
کا دامن کبھی اپنے ہاتھوں سے نہ چھوٹنے دیں۔ اللہ پاک ہمیں سچ بولنے اور سچائی کا
ساتھ دینے والا بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد مہتاب رضا (درجۂ دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ
فیضان اولیاء احمد آباد گجرات ہند)
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! یوں تو ہر گناہ اللہ پاک کی
لعنت کو دعوت دیتا ہے مگر کچھ گناہ ایسے ہیں جن کے کرنے پر اللہ پاک کی لعنت ہے
اور اس کی صراحت خود اللہ پاک نے فرمائی ہے۔ ان میں سے ایک گناہ جھوٹ ہے جس کے
متعلق اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱)ترجَمۂ
کنزُالایمان: تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔( پ3، آلِ عمرٰن:61)
اسی طرح حدیث میں بھی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے اس کی مذمت فرمائی ہے۔ آئیے پہلے ہم جھوٹ کی تعریف اور سب سے پہلے جھوٹ کس نے
بولا پھر اس کی مذمت پر پانچ حدیث سنتے ہیں :
جھوٹ : کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا۔ قائل جھوٹا اس وقت
ہوگا جبکہ (بلا ضرورت ) جان بوجھ کر جھوٹ بولے ۔ (76 کبیرہ گناہ ،ص99 )
سب سے پہلا جھوٹ : سب سے پہلا جھوٹ ابلیس نے بولا مختصر واقعہ یہ ہے حضرت
آدم علیہ السّلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت
آدم علیہ السّلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔ اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام
اور حضرت حوا رضی اللہُ عنہا سے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک
کھاؤ البتہ اِس درخت کے قریب نہ جانا۔ شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اور کہنے لگا کہ
تمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا
تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ اور اس کے ساتھ شیطان نے قسم کھاکر کہا کہ میں
تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ اس پر انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا
سکتا ہے ، اس خیال سے حضرت حوا رضی اللہُ عنہا نے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت
آدم علیہ السّلام کو دیا تو انہوں نے بھی کھا لیا۔ ( صراط الجنان ،البقرۃ: 35 - 36 )
رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جب
بندہ جھوٹ بولتا ہے اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہوجاتا ہے ۔( ترمذی شریف ،باب
ماجا ء فی الصدق والکذب ، 2/19 )
رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مومن
کی طبع میں تمام خصلتیں ہو سکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ۔ ( مشکوۃ شریف ، باب حفظ
اللسان والغیبۃ والشتم ،ص414)
رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹ
سے بچو کیونکہ جھوٹ ایمان سے مخالف ہے ۔ ( بہار شریعت ، 3/516 )
رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا کیا
مومن بزدل ہوتا ہے ؟ فرمایا: ہاں۔ پھر عرض کی گئی کیا مومن بخیل ہوتاہے؟ فرمایا: ہاں۔پھر
کہا گیا کیا مومن کذاب ہوتاہے؟ فرمایا نہیں ۔ ( مشکاۃ شریف، باب حفظ اللسان والغیبۃ
والشتم ، ص414)
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! آپ نے سنا کہ جھوٹ بولنے والے
پر اللہ کی لعنت ہے اور یہ بھی سنا کہ مؤمن بزدل اور بخیل ہو سکتے ہیں مگر جھوٹے
نہیں ہو سکتے اور مؤمن میں جھوٹ کی خصلت ہو ہی نہیں سکتی تو جو گناہ اللہ کی لعنت
کا سبب ہو اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اتنی مذمت فرمائی۔ کیونکر
مسلمان جھوٹ بول سکتا ہے اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سچ بولنے والے
کو خوش خبری دی ہے حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز
ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا۔ ( ترمذی شریف ابواب
البر الصلۃ عن رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باب ماجاءفی المراء، ص20،مجلس
برکات)
تو مسلمان کو چاہیے کہ جھوٹ چھوڑ دے اور سچ بول کر جنت کے
کنارے اپنا گھر بنائے اللہ ہم سب کو سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم