محمد مستقیم عطّاری (درجۂ دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ
فيضان عطار ناگپور ہند)
ہمارے معاشرے میں جھوٹ کو معمولی گناہ تصور کیا جاتا ہے
خواہ کوئی بھی معاملہ ہو چاہے وہ دنیاوی ہو یا دینی بلکہ بعض لوگ تو اسے گناہ ہی
نہیں سمجھتے جیسے کارو بار اور لین دین کے معاملات میں جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔
اسی طرح شادی یا رشتےداری کے معاملات میں اکثر لوگ جھوٹ سے کام لیتے ہیں ۔ بعض لوگ
اپنی انانیت کے تحفظ، عزت کے بچاؤ کے لیے بھی بلا جھجک جھوٹ بولتے ہیں ۔ اسی طرح
لوگ شہرت اور منصب کے حصول کے لیے جھوٹ بولنے کو معیوب نہیں سمجھتے۔ بعض لوگ جھوٹے
خوابوں کو بھی بیان کرتے ہیں جبکہ بعض لوگ دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے اللہ پاک
کی ذات اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہستی کے حوالے سے بھی جھوٹ
بولنے سے باز نہیں آتے۔ جبکہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں جھوٹ سے بچنے کا حکم فرمایا
ہے۔ چُنانچہ پارہ17 سُوْرَۃُ الْحَج آیت نمبر 30 میں اِرْشاد ہوتا ہے: وَ اجْتَنِبُوْا
قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بچو جھوٹی
بات سے۔(پ17،الحج:30)اور احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹ کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ
سچ بولنا نیکی ہے
اور نیکی جَنَّت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فِسْق وفُجُور ہے اور فِسق وفُجُور
(گناہ)دوزخ میں لے جاتا ہے۔(صحیح مسلم،کتاب الادب،باب قبح الکذب ، ص1405
،حديث:2607)
بیشک سچائی نیکی کی
طرف لے جاتی ہے اور نیکی جَنَّت کی طرف لے جاتی ہے اور بیشک بندہ سچ بولتا رہتا ہے
یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک صِدّیق یعنی بہت سچ بولنے والا ہوجاتا ہے۔ جبکہ جھوٹ
گُناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گُناہ جہنَّم کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک بندہ جُھوٹ
بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذّاب یعنی بہت بڑا جُھوٹا ہوجاتا
ہے۔(بخاری ، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالیٰ، 4/125، حدیث:6094)
بارگا ہِ رسالت میں
ایک شَخْص نے حاضِر ہوکر عَرْض کی: یارَسُولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!
جہنَّم میں لے جانے والا عَمَل کونسا ہے ؟ فرمایا: جُھوٹ بولنا، جب بندہ جھوٹ
بولتا ہے تو گُناہ کرتا ہے اور جب گُناہ کرتا ہے تو ناشُکری کرتا ہے اور جب ناشُکری
کرتا ہے تو جہنَّم میں داخِل ہوجاتا ہے۔(المسندللامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ
ابن عمرو بن العاص، 2/589، حدیث:6652)
نُورکے پیکر، تمام
نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرْشاد فرمایا: خَواب میں ایک
شَخْص میرے پاس آیا اور بولا: چلئے! میں اُس کے ساتھ چَل دِیا، میں نے دو(2)آدَمی
دیکھے، ان میں ایک کھڑا اور دُوسرا بیٹھا تھا ، کھڑے ہوئے شَخْص کے ہاتھ میں لَوہے
کا زَنْبُورتھا، جسے وہ بیٹھے شَخْص کے ایک جَبْڑے میں ڈال کر اُسے گُدّی تک چِیر
دیتا، پھر زَنْبُورنکال کر دُوسرے جَبْڑے میں ڈال کر چِیْرتا، اِتنے میں پہلے
والاجَبْڑا اپنی اَصْلی حالت پر لَوٹ آتا، میں نے لانے والے شَخْص سے پُوچھا: یہ کیا
ہے؟اُس نے کہا: یہ جُھوٹا شَخْص ہے، اِسے قِیامت تک قَبْر میں یہی عذاب دیا جا تا
رہے گا۔(جھوٹا چور، ص:14)
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مذاق میں جھوٹ بولنے
سے منع فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : یعنی بربادی ہے اُس کیلئے جو لوگوں کو ہنسانے کیلئے
جھوٹ بولے ، بربادی ہے اُس کے لئے ، بربادی ہے اُس کے لئے۔( ترمذی ، 4 / 142 ، حدیث
: 2322 )
اللہ پاک ہم سب کو جھوٹ اور جھوٹے لوگوں سے محفوظ رکھے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جھوٹ کے خلاف جنگ جاری رہے گی
نہ جھوٹ بولیں گے نہ بُلوائیں
گے! ۔ انشاء اللہ الکریم