جھوٹ ایک ایسا گھناؤنا کردار ہے جسے دنیا میں کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ چاہے کسی بھی دھرم، مذہب، سوسائٹی، سے تعلق رکھتا ہو۔ اسے اچھا فعل نہیں سمجھتا ہے۔ نہ کوئی اپنے ساتھ اس معاملہ ہونے کو صحیح جانتا ہے۔ کذب بکنے والا چاہے کتنے ہی ہوشیار کیوں نہ ہو اور اپنی کذب بیانی کو بہت آسانی کے ساتھ چھپا بھی لیتا ہو۔ لیکن پھر بھی ایک نہ ایک دن لوگوں پر عیاں ہو ہی جاتا ہے۔ پھر کذب بیانی کرنے والا ہر جگہ ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ جس پر اللہ اور اس کے رسول اس کے فرشتے ، اور تمام انسانوں کی لعنت ہو وہ ہمیشہ ذلیل ہی ہوگا۔ آپ نے دیکھا بھی ہوگا کوئی شخص بہت عزت و تکریم اپنی جھوٹی باتوں کی وجہ سے پایا رہتا ہے لیکن جب لوگوں کو اس کی سچائی پتہ چلتی ہے تو وہ کہی کا نہیں رہ جاتا ۔ یہ تو دینوی معاملہ ہے۔ آخرت میں اور بھی سخت دردناک انجام ہونگے۔

اور مسلمانوں کو تو میرے کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پہلے ہی تعلیم دے دی ہے کہ تم ہمیشہ کذب سے دور رہنا ،جھوٹ سے نفرت کرنا اسے کبھی اختیار نہ کرنا ورنہ تمہارے لئے دنیا و آخرت دونوں میں خسارہ ہے ۔ اور مسلمان کے لئے سب سے بڑی نقصان یہ ہے کہ کذاب سے اللہ اور اس کے رسول ناراض ہو جاتے ہیں ۔ اللہ اکبر کبیرا !

اب آپ خود ہی غور فرمائیں اور سوچیں ! یہاں سوچنے ہی کا مقام ہے غور و فکر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ لیکن ہم آج دنیا کی محبت میں اتنے کھو گئے ہیں کہ ہمیں کسی چیز کی پرواہ ہی نہیں ہے کون ناراض ہو رہا ہے ۔ کون نہیں ہو رہا ہے ۔ بس ہمیں دنیا کی رضا چاہئے چاہے جیسے حاصل ہو جائے۔

آج لوگ جھوٹ بولنے میں شرم محسوس نہیں کرتے ہیں۔ کوئی کسی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹ بول رہا ہے۔ تو کوئی کسی کا مذاق اڑانے کے لیے ، تو کوئی کسی پر الزام عائد کرنے کے لیے ، کذب کی تو کوئی حد ہی نہیں رہی گئی ہے ہر معاملے ہنسی، مذاق، مسخری ، میں جھوٹ بولتے ہیں اور اس میں شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔ جبکہ جھوٹ بولنا ایک بہت بڑا گناہ اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے : لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔( پ3، آلِ عمرٰن:61) اور ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو۔(پ11،التوبۃ:119)

یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں ، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہُ عنہ کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہُ عنہما مراد ہیں۔ ابنِ جریج کہتے ہیں کہ اس سے مہاجرین مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی نیتیں سچی رہیں ، ان کے دل اور اَعمال سیدھے رہے اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوۂ تبوک میں حاضر ہوئے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: 119، 2 / 293)

(1)حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ جس شخص کو آپ نے (شبِ معراج) دیکھا کہ ا س کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں وہ بہت جھوٹا آدمی ہے، ایسی بے پرکی اڑاتا تھا کہ اس کا جھوٹ اطراف ِعالَم میں پھیل جاتا تھا، پس قیامت تک ا س کے ساتھ یہی کیا جاتا رہے گا۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ: یا ایّہا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، 4 / 126، حدیث: 6096)

(2) صحیح بخاری و مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: صدق کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم،کتاب البر...إلخ، باب قبح الکذب...إلخ،ص1405،حدیث: 2607)

(3) ترمذی نے انس رضی اللہُ عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے)اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑا اور وہ حق پر ہے یعنی باوجود حق پر ہونے کے جھگڑا نہیں کرتا، اس کے لیے وسط جنت میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اخلاق اچھے کیے، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجۂ میں مکان بنایا جائے گا۔( سنن الترمذی،کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء في المراء،3/400،حدیث:2000)

(4)حضرت سفیان بن اَسِید حَضْرَمی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔(ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی المعاریض، 4 / 381، حدیث: 4971)

(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے۔(شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 4 / 213، حدیث: 4832 )

اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلمان اس نفیس فائدے کو یاد رکھیں اور اپنے رب سے ڈریں جھوٹ اور غیبت ترک کریں کیا معاذ اللہ منہ سے پاخانہ نکلنا کسی کو پسند ہوگا باطن کی ناک کھلے تو معلوم ہو کہ جھوٹ اور غیبت میں پاخانے سے بدتر سڑاند ہو۔ جامع ترمذی بسند حسن عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اذا کذب العبد کذبۃ تباعد الملک عنہ مسیرۃ میل من نتن ماجاء بہ رواہ ابن ابی الدنیا فی کتاب الصمت وابونعیم فی حلیۃ الاولیاء عنہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔ ترجمہ جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے اُس کی بدبو کے باعث فرشتہ ایک میل مسافت تک اُس سے دُور ہوجاتا ہے۔ کتاب الصمت میں ابن ابی الدنیا اور ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں روایت کیا۔ رضی اللہُ عنہ۔(فتاوی رضویہ، 1/970، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کو بسر کرے۔ اور ہمیشہ صدق یعنی سچائی کا ساتھ دیں اور صدق کا دامن کبھی اپنے ہاتھوں سے نہ چھوٹنے دیں۔ اللہ پاک ہمیں سچ بولنے اور سچائی کا ساتھ دینے والا بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم