سمیع اللہ عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
امام احمد رضا حیدرآباد ہند)
پیارےاورمحترم اسلامی بھائیوں! جھوٹ بولنا ایسی بری عادت ہے
کہ ہر مذہب میں اسے "برائی" سمجھا جاتا ہے، ہمارے پیارے دینِ اسلام نے
اس سے بچنے کی بہت تاکید کی ہے۔قراٰنِ پاک نے کئی مقامات پر اس کی مذمّت بیان
فرمائی اور جھوٹ بولنے والوں پر خُدا کی لعنت بھی ہے۔ چنانچہ پارہ 17 سورة الحج
آيت نمبر 30 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور بچو جھوٹی بات سے۔(پ17،الحج:30)
ایک اور مقام پارہ 3 سورۃ اٰلِ عِمْران آیت 61 میں ارشاد
ہوتا ہے۔ لَّعْنَتَ اللّٰهِ
عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔( پ3، آلِ عمرٰن:61)
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی جھوٹ کی مذمّت پر کئی فرامینِ
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مذکور ہیں اُنہیں میں سے پانچ ذکر کیے جائیں
گے تاکہ ان کو پڑھ کے ہم اپنے آپ کو جھوٹ جیسی ذلیل عادت سے بچا سکیں۔ آئیے سب سے
پہلے جھوٹ کو سمجھ لیتے ہیں کہ جھوٹ کہتے کسے ہیں جھوٹ کی تعریف یہ ہے کہ کسی کے
بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا۔ قائل گناہ گار اس وقت ہوگا جبکہ(بلا ضرورت)جان
بوجھ کر جھوٹ بولے۔( الحديقۃ النديہ، القسم الثانی،المبحث الاول، 4/ 10)
(1) سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنّت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ
بولنا فِسقو فُجور(گناہ)دوزخ میں لے جاتا ہے۔(صحیح مسلم،کتاب الادب،باب قبح
الکذب، ص1405 ،حديث:2607)
مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جھوٹا آدمی
آگے چل کر پَکّا فاسِق و فاجِر بن جاتا ہے،جھوٹ ہزارہا گناہوں تک پہنچا دیتا ہے۔ تجربہ
بھی اسی پر شاہد ہے۔ سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرتِ آدم علیہ السلام سے
کہا میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ مزید فرماتے ہیں: (جھوٹا) شخص ہر قِسم کے گناہوں میں
پھنس جاتا ہے اور قدرتی طور پر لوگوں کو اس کا اِعْتِبَار نہیں رہتا،لوگ اس سے
نفرت کرنے لگتے ہیں۔(مراٰةالمناجیح،6/453)
(2) مُنافِق کی تین نشانیاں ہیں:(1)جب بات کرے تو جھوٹ
بولے(2)جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور(3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خِیانت
کرے۔(مسلم،کتاب الایمان،بیان خصال المنافق،ص50،حدیث:59)
نِفاق کا لغوی معنٰی باطِن کا ظاہر کے خلاف ہونا ہے۔ اگر
اعتقاد اور ایمان کے بارے میں یہ حالت ہو تو اسے نِفاقِ کُفر کہتے ہیں اور اگر
اعمال کے بارے میں ہو تو اسے نِفاقِ عملی کہتے ہیں اور یہاں حدیث میں مُراد یہی
ہے۔(فیض القدیر،1/593،تحت الحدیث:916)
(3)تم بدگُمانی سے بچو کیونکہ بِلاشُبہ یہ سب سے بڑی جھوٹی بات
ہے۔ یہ حدیثِ پاک بُخاری و مُسلم دونوں میں ہے۔(مسلم,کتاب البروالصلاۃولاداب،باب
تحریم الظن والتجسس٠٠ا لخ،ص1382،حدیث:2563)بغیر کسی دلیل کے دل میں پیدا ہونے والی
تہمت کو بدگمانی کہتے ہیں۔(فیض القدیر،3/157،حدیث:2901)
(4)نہ دی ہوئی چیز
کا ظاہر کرنے والا دو جھوٹے کپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔اس حدیثِ پاک کو امام مسلم
رحمۃُ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔(مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النھی عن التزویر
فی اللباس۔۔الخ،ص1177،حدیث:1230)
یعنی کوئی شخص امانت یا عارِیت کے اعلٰی کپڑے پہن کر پھرے
لوگ سمجھیں کہ اس کے اپنے کپڑے ہیں پھر بعد میں حال کھلنے میں بدنامی بھی ہو گناہ
بھی ایسے یہ بھی ہے جیسے کوئی فاسِق و فاجِر مُتّقی کا لباس پہن کر صوفی بنا پھرے
پھر حال کھلنے پر رُسوا ہو۔(مراٰۃ المناجیح،5/114)
جھوٹ سے بُغض و حَسد سے ہم بچیں
کیجیے رَحْمت اے نانائے حسین
پیارے اسلامی بھائیوں! جھوٹ بولنے میں نقصان ہی نقصان
ہے،جھوٹ بولنے سے منہ کالا ہوجاتا ہے،چھوٹی بات کہنا کبیرہ گناہ ہے،جھوٹ جب بندہ
جھوٹ بولتا ہے،اس کی بَدبُو سے فِرِشتہ ایک مِیل دور ہوجاتا ہے،جھوٹ بولنے والے قِیامت
کے دن اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ افراد میں شامل ہوں گے۔ جبکہ سچ
بولنے میں فائدہ ہی فائدہ ہے، سچ بولنے والا بُرائیوں سے بچے گا،جو اللہ پاک کے
نزدیک صدّیق ہوجائے اس کا خاتِمہ اچھا ہوتا ہے،وہ ہر قِسم کے عذاب سے محفوظ رہتا
ہے،ہر قِسم کا ثواب پاتا ہے،دُنیا میں بھی اسے سچّا کہنے،اچّھا سمجھنے لگتے ہیں،اُس
کی عزّت لوگوں کے دِلوں میں بیٹھ جاتی ہے۔
تو اسی لیے پیارے اسلامی بھائیوں! ہمیں بھی سچ بولنے کے عظیم
الشان فضائل اور دنیا و آخرت کے انعامات سے سرفراز ہونے اور جھوٹ کے بھیانک نتائج
سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاتے ہوئے سچ کا عادی بنانا ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں
بھی سچ بولنے اور جھوٹ سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
جھوٹ کے خلاف جنگ جاری رہے گی
نہ جھوٹ بولیں گے نہ بُلوائیں
گے! ۔ انشاء اللہ الکریم