1: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یَا اَہْلَ الْاِسْلَام! تُوْبُوْا اِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَصُوْحَۃً فَاِنِّی اَتُوْبُ اِلَیْهِ فِی الْیَوْمِ مِائَۃَ مَرَّۃ اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے ہر روز اللہ کی طرف توبہ کرنے کی تعلیم دی ہے جو کہ استغفار کا ایک ذریعہ ہے۔

2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ پیغمبرِ اکرم ﷺ نے فرمایا: یا عائشہ! پیغمبر کا اول اعمال استغفار کرنا تھا۔ اس حدیث میں آپ کو پیغمبر کی سنت کا تابع بنانے کی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ استغفار کرنے سے ابتدا کرتے تھے۔

3۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: أستغفروا لی ربکم، إنّی استغفرت لکم مائۃ مرّۃ فی الیوم اس حدیث میں نبیوں کے استغفار کرنے کی عادت کا ذکر ہے اور وہ اپنی امت سے بھی استغفار کرنے کی توقع کرتے ہیں۔

یہ حدیثیں دینی تعلیمات دیتی ہیں کہ استغفار کی فضیلت کیا ہے اور اس کا اثر کیسے ہوتا ہے۔ ان حدیثوں کی روشنی میں استغفار کو روزمرہ کی عبادت کا حصہ بنانے کی تعلیم دی جاتی ہے جو ہمیں اللہ کی مغفرت اور برکت کی طرف بلاتی ہے۔

قرآن مجید میں استغفار کی اہمیت کی واضح دلائل پائی جاتی ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) (پ 29، نوح: 10) ترجمہ: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔ اسی طرح پیغمبرِ اکرم ﷺ نے بھی استغفار کی بہترین تعلیمات دیں۔ ان کی روایتوں میں استغفار کرنے کی فضیلت کی بات کی گئی ہے۔

استغفار کے فوائد:

1۔ گناہوں کی مغفرت: استغفار کرنے سے گناہوں کی مغفرت حاصل ہوتی ہے اور انسان کا رب وہ قبول کرلیتا ہے۔

2۔ دنیا اور آخرت میں برکت: استغفار کرنے سے دنیا اور آخرت میں برکت آتی ہے اور انسان کی روزگار میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔

3۔ روحانیت کی تقویت: استغفار کرنے سے انسان کی روحانیت بڑھتی ہے اور وہ اللہ کی طرف قربت حاصل کرتا ہے۔

4۔ توبہ کا ذریعہ: استغفار توبہ کا ایک ذریعہ ہے جس سے انسان اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے ان سے توبہ کرتا ہے اور اللہ کی رحمت کو حاصل کرنے کا راستہ ملتا ہے۔

5۔ سکون اور دل کی پکار: استغفار کرتے وقت دل کو سکون حاصل ہوتا ہے اور انسان روحانی اور جسمانی طور پر صحت مند رہتا ہے۔

6۔ مشکلات کا حل: استغفار کرنے سے ہمارے جذبات پر برکت آتی ہے اور ہم مشکلات اور تنگیوں کا بہتر حل تلاش کرسکتے ہیں۔

7۔ سبق آموزی: استغفار کرنے سے ہمیں گزشتہ اعمال کی طرف دھیان دینے کا موقع ملتا ہے اور ہم اپنی غلطیوں سے سبق اخذ کرتے ہیں تاکہ ان کو دوبارہ نہ دہرائیں۔

8۔ دوسروں کی مغفرت: اسلامی تعلیم کے مطابق اگر ہم کسی دوسرے کی خوشیوں کے لئے استغفار کریں تو ہماری دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اللہ ہمیں اجر دیتا ہے۔

انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا اس کے تحت وہ دانستہ ونادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے بہترین انسان وہ ہے جس کو گناہ کے بعد شرمندگی ہو وہ بارگاہ الہی میں استغفار کرے استغفار کے بے حد فضائل و فوائد ہیں جن کے بیان سے پہلے استغفار کے معنی سمجھتے ہیں، چنانچہ استغفار غفر سے بنا ہے اس کا مطلب چھپانا یا چھلکا و پوست وغیرہ۔ چونکہ استغفار کی برکت سے گناہ ڈھک جاتے ہیں اس لیے اسے استغفار کہتے ہیں۔

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: استغفار کے معنی ہیں گزشتہ گناہوں کی معافی مانگنا۔ (فیضان ریاض الصالحین، 1/166)

استغفار کا عمل اللہ ورسول ﷺ کو بے حد پسند ہے، احادیث مبارکہ میں استغفار کے بے شمار فضائل منقول ہیں، ان میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ

غم و تکلیف سے نجات: فرمانِ آخری نبی ﷺ: جس نے استغفار کو اپنے لیے ضروری قرار دیا تو اللہ اسے ہر غم وتکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

خوشخبری: خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

دلوں کے زنگ کی صفائی: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء (صفائی) استغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

بشارتِ جنت: اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّی لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَاعَبدُكَ وَاَنَا عَلٰی عَهدِكَ وَ وَعدِكَ مَا استَطَعتُ اَعُوذُبِكَ مِن شَرِّ مَا صَنَعتُ اَبُوءُلَكَ بِنِعمَتِكَ عَلَیَّ وَاَبُوءُبِذَنبِی فَاغفِرلِی فَاِنَّهٗ لَايَغفِرُالذُّنُوبَ اِلَّااَنتَ۔

ترجمہ:اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں اور بقدر طاقت تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں میں اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں مجھے بخش دے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔

جس نے اسے دن کے وقت ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ (بخاری،4/ 190، حدیث:6306)

کر مغفرت میری تیری رحمت کے سامنے

میرے گناہ ہیں یا خدا کس شمار میں

معلوم ہوا کہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنے سے بے شمار دنیوی اور دینی فوائد حاصل ہوتے ہیں اللہ پاک ہمیں پیارے آقا ﷺ کے صدقے کثرتِ استغفار کی عادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین

پیاری اسلامی بہنو! استغفار کے فضائل و فوائد کثیر ہیں۔ انسان تو بہت گناہ گار ہے دن بھر ڈھیروں گناہ کرتا ہے اپنے رب کی نا فرمانیاں کرتا ہے لیکن میرا رب کریم بڑا غفور الرحیم ہے کہ اگر کوئی سچے دل سے اس کے حضور معافی مانگ لے تو وہ معاف فرما دیتا ہے۔ آئیے حدیث مبارکہ کی روشنی میں استغفار کے چند فضائل و فوائد سنتے ہیں:

1) سید الاستغفار پڑھنے والے کے لیے جنت بشارت: حضرت شدّاد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خاتم المرسلین ﷺ نے فرمایا: یہ سید الاستغفار ہے: اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّی لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَاعَبدُكَ وَاَنَا عَلٰی عَهدِكَ وَ وَعدِكَ مَا استَطَعتُ اَعُوذُبِكَ مِن شَرِّ مَا صَنَعتُ اَبُوءُلَكَ بِنِعمَتِكَ عَلَیَّ وَاَبُوءُبِذَنبِی فَاغفِرلِی فَاِنَّهٗ لَايَغفِرُالذُّنُوبَ اِلَّااَنتَ۔

ترجمہ:اے اللہ تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں اور بقدر طاقت تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں میں اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں مجھے بخش دے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔

جس نے اسے دن کے وقت ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ (بخاری،4/ 190، حدیث:6306)

2) رضائے الہی کی برسات: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جسے اُس کا اونٹ چٹیل میدان میں گُم ہونے کے بعد اچانک مل جائے۔

3) دلوں کے زنگ کی صفائی: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اسکی جلاء(صفائی) استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

کر مغفرت مِری تِری رحمت کے سامنے

میرے گناہ یا خدا ہیں کس شمار میں

یا اللہ پاک ہمیں سچی توبہ کی توفیق عطا فرما اور ہمیں آئندہ گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین

اللہ انسان کا خالق مالک ہے اور اللہ کی ذات اس بات کے لائق ہے کہ بندہ ہر وقت اسکےسامنے سجدہ ریز رہے لیکن چونکہ انسان میں غلطی بھول چوک کا مادہ ہے اس لیے کبھی نہ کبھی بھول چوک ہو ہی جاتی ہے اس بھول چوک پر اللہ بندے کو صرف معاف کردے تو یہی اللہ کا بہت بڑا احسان ہے لیکن قربان جائیے اس مہربان رب کی ذات پر کہ بندہ جب کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے اور اسکے بعد اللہ سے توبہ استغفار کرتا ہے تو وہ صرف معاف ہی نہیں کرتا بلکہ معافی کے ساتھ بہت سے فضائل وانعامات سے بھی نوازتا ہے جن کا ذکر ہمیں قرآن و حدیث میں ملتا ہے۔

1۔ میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں۔

2۔ اے اللہ میرے گناہ بخش دے۔

3۔ اے میرے رب! حساب کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا۔

4۔ پاک ہے تو اور تیری ہی تعریف ہے میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف توبہ کرتا ہوں۔

5۔ اے میرے رب مجھے بخش دے میری توبہ قبول کر تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔

6۔ اے اللہ مجھے بخش دے مجھ پر رحم فرما مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما۔

7۔ میں بخشش مانگتا ہوں اللہ سے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ قائم رہنے والا ہے میں اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔

8۔ پاک ہے تو اے میرے اللہ! اے ہمارے رب! اور تیری ہی تعریف ہے اے میرے اللہ مجھے بخش دے۔

9۔ اے اللہ! میرے تھوڑے اور زیادہ پہلے اور پچھلے ظاہری اور چھپے ہوئے سارے گناہ بخش دے۔

10۔ اے میرے رب میں نے گناہ کردیا پس مجھے بخش دے۔

اپنے اوقات سے کچھ وقت اللہ سے توبہ استغفار کے لیے ضرور نکالیں کم از کم دن میں 27 مرتبہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤمِنِینَ وَالْمُؤمِنَات اور 100 مرتبہ أَسْتَغْفِرُ اللہ پڑھ لیں اس دھیان کے ساتھ اے اللہ میں کمزور ہوں حقوق اللہ حقوق العباد لازم ہیں لیکن میں ادا نہیں کر پارہی ہوں گناہ بھی ہورہے ہیں تو ہی میری مدد کر سکتا ہے تو ہی مجھے گناہوں سے بچالے اور حقوق اللہ حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین 

ہمارا دین اسلام ایک بہت ہی پیارا اور کامل دین ہے جس میں ہر ایک چیز کی مکمل وضاحت ہے جب لوگوں کو کسی کام پر ابھارنا ہو تو اس کام کے فضائل و فوائد بیان کئے جاتے ہیں تاکہ اس کو ادا کر کے اللہ پاک کی رضا حاصل کی جائے اور ثواب کا حقدار بناجائے اور اسی طرح جب کسی کام سے روکنا مقصود ہو تو اس کے متعلق ترہیب ونقصانات کو بیان کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس کام سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں چنانچہ اس موضوع میں استغفار کے فضائل و فوائد بیان کئے جارہے ہیں:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے دل پر بھی بعض اوقات پردہ سا آجاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (مراۃ المناجیح، 3/548)

نبی کریم ﷺ کا کثرت سے استغفار فرمانا امت کی تعلیم کے لیے تھا ورنہ آپ تو معصوم تھے اور اللہ نے آپ کے سبب متقدم و متأخرین کی لغزشوں کو معاف فرما دیا تھا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں ختم کر کے ایسے لوگوں کو لے آئے گا جو گناہ کریں پھر اللہ سے استغفار کریں پس اللہ ان کو معاف فرمائے گا۔

ہر مسلمان کی شان یہ ہے کہ استغفار کرے اور اللہ کی بارگاہ میں پناہ طلب کرے اور اس میں جس قدر ہو سکے جلدی کرے کیونکہ بندے اور رب کے درمیان یہی تعلق ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے استغفار کی پابندی کی اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ آسان فرما دیتا ہے اور ہر غم سے کشادگی عنایت فرماتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

استغفار اور اس پر ہمیشگی کا نتیجہ استغفار کرنے والے کے حق میں نکلتا اور دنیا و آخرت میں اس کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ اپنی وفات ظاہری سے پہلے یہ کلمات بہت پڑھتے تھے: سبحان اللہ و بحمدہ استغفر اللہ و اتوب الیہ

آخری عمر میں زیادہ سے زیادہ بھلائی جمع کرنی چاہیے۔ استغفار کے بعد توبہ کا ذکر در حقیقت اس کے مضمون کی تاکید کے لیے اور یہ بات ظاہر کرنے کے لیے ہے کہ استغفار کا اثر حاصل کرنے کے لیے توبہ کا خالص طور پر اعتماد ہے۔

حضرت زبیر بن عوّام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان مسرت نشان ہے: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)

اللہ پاک ہمیں کثرت سے استغفار کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین ثم آمین

استغفار کا معنیٰ: استغفار کا معنیٰ مغفرت طلب کرنا ہے جب بندۂ عاصی سے کوئی عصیاں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر سر زد ہو جائے اس پر معافی مانگنے کو استغفار کہتے ہیں۔

اِسْتِغْفار کا فوائد: استغفار کے بہت سے فوائد ہیں یہ انسان کو بارِ عصیاں سے رحمت حریم کبریا سے آشنا کرواتے ہوے خرد کی گتھیاں سلجھا کر خود گیر بنا دیتا ہے، گردشِ نجوم و افلاك عذاب مصیبتوں بیابانوں آفتوں محکومیِ روح و نفس کی رنجوری (بیماری) ٹل جاتی ہے، خیر وبرکت اور درجات زہد وتقویٰ وقار اور برد باری روزی مال و اولاد جسمانی و روحانی قوت دیں و دنیا کی سعادتوں میں اضافہ الغرض ماہیٔ بے آب کو سکوں کی بحروں سے آشنا کرا دینے کا نام ہے۔

آقا ﷺاور اِسْتِغْفار کی كثرت: استغفار ایسی عبادت ہے جسکی کثرت صاحب مازاغ کیا کرتے استغفار سے محبت کا انداز کچھ یوں ہے کہ فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ (مشکوۃ المصابیح،1/434، حدیث:2323)

حضرت سعید بن ابی بردہ اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں رسول اکرم ﷺ تشریف لائے سبھی بیٹھے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی صبح طلوع نہیں ہوتی مگر میں اس میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔(مصنف ابن ابی شیبہ، 7/172، حدیث: 3507)

استغفار تیغ دو پیکر (دو دھاری تلوار) ہے اور یہی عالم لاہوت (فنا فی الله کا درجہ) کا راز قوت دین اور عناصر افقیہ کا طائر ہے۔

ہمارے روشن بصر اسلاف جن کا اک اشارہ قم باذن اللّه ہوتا تو شہر خموشاں میں زندگی کی روح پیدا کر دیتے دین کا بھید حکیمُ الاُمّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ کچھ یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی لئے حضور انور ﷺ اس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور انور ﷺ معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا۔ (مراۃ المناجیح، 3/353)

بقائے ایمان: ایمان کی تقویم کی حنا بندی استغفار کی کثرت سے ہوتی ہے بغیر استغفار کے انسان کا دل ظلمت کدے کی ماند ہوتا ہے جو بوقلمونی (رنگارنگی) دنیا میں غرق ہوتا ہے مگر اے ملت بیضا (مسلم قوم) ڈرو یوم النشور (قیامت کا دن) سے جب بغیر توبہ کیے جیے جانے کا حساب ہو گا اور ایسے شکستہ بال استغفار کی رب کو کوئی حاجت نہیں جس میں محض دکھاوا یا پل بھر کا پچھتاوا شامل ہو حضرت رابعہ بصریہ کا ارشاد ہے کہ: ہمارا استغفار ایک اور استغفار کا محتاج ہے، یعنی گناہوں سے سچے دل سے استغفار نہیں کرتے۔

امام غزالی کا ارشاد ہے: استغفار سے قبل ندامت ضروری ہے، ورنہ یہ ا ستغفار جو ندامت کے بغیر ہو، وہ اللہ کے ساتھ استہزاء کے مترادف ہے۔ (روح کی بیماریوں کا علاج، ص 76)

تریاقِ قلبِ زہر ہلاہل: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لوہے کی طرح دلوں کا بھی ایک زنگ ہے اور اس کا پالش استغفار ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے اگر وہ گناہ چھوڑکر توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگرگناہ پرگناہ کئے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے یہی وہ رین ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔(ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

عذاب الہی سے بچنے کا ذریعہ: نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندہ عذاب الہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ استغفار کرتارہتا ہے۔

ارشادِ باری ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ( پ 9، الانفال: 33) ترجمہ:اور اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگ رہے ہوں۔

ہر رنج و الم سے نجات: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کثرت سے استغفار کرے تو اللہ اس کا ہر رنج دور کردےگااور ہر تکلیف سے اس کو نجات دے گااور اس کو ایسی جگہ سے روزی دےگا کہ اسے گمان تک نہ ہوگا۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

اللہ کو محبوب عمل: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تم لوگوں کو ختم کرکے دوسری قوم کو لے آئے گاوہ گناہ کرکے اللہ سے استغفار کریں گے اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا۔

سنت آدم اور ذلت اہرمن(شیطان): یہ سنتِ آدم ہے جس طرح اقبال نے ابلیس کی سرکشی کو یوں بیان کیا:

کر گیا سر مست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبُو

ابلیس کی ناا میدی اور تقنطو کے طوفاں میں طمانچے کا سبب اسکی بے باکی ہے، چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ شیطان نے کہا کہ اے رب! قسم ہے تیری عزت کی کہ میں تیرے بندوں کو بہکاتا ہی رہوں گا، جب تک کہ ان کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی، اس پر اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی اور رتبہٴ بلندی کی قسم ہے، میں ان کو بخشتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے۔(مسند امام احمد، 4/58، حدیث: 11337)

لہٰذا شیطان اور اسکے لشکر کے خلاف استغفار ایک آڑ ہے تو سنت آدم کو زندہ مکمل توجہ ندامت اور یکسوئی کے ساتھ استغفار کی کثرت کی جائے، حدیث شریف میں آتا ہے: توبہ ندامت اور شرمندگی کا نام ہے۔ (ابن ماجہ، 4/492، حدیث: 4252)

کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہو گی کڑی

مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ہرچہ بر تو آید از ظلماتِ غم غم چوں بینی زود استغفار کن

آن زیباکی و گستاخی است ہم غم بامر خالق آید کارکن

ترجمہ: اے انسان جو کچھ تجھ پر غم و مصائب اور ظلماتِ غم آتے ہیں وہ سب تیری بیباکی اور نافرمانی اور گستاخی کے سبب آتے ہیں، پس جب تو غم اور مصائب دیکھے تو جلد استغفار کر، کیونکہ یہ غم خدا کے حکم سے آتا ہے،

کثرت سے استغفار کرنے والے: حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہت عمدہ حالت ہے، اس شخص کے لئے جو (قیامت کے دن) اپنے اعمال نامے میں کثیر استغفار پائے۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ جو شخص چاہے کہ قیامت کے دن اس کا اعمال نامہ اس کو خوش کردے تو اس کو کثرت سے توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہئے۔(مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)

خود افروزی اعمال: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نگرانی کرنے والے دو فرشتے (یعنی اعمال لکھنے والے) کسی بھی دن جب اللہ جل شانہ کے حضور (کسی کا اعمال نامہ) پیش کرتے ہیں اور اس کے اول و آخر میں استغفار لکھا ہوتا ہے تو اللہ جل شانہ کا ارشاد ہوتا ہے کہ میں اپنے بندہ کا وہ سب کچھ بخش دیا جو اس اعمال نامہ کے اول و آخر کے درمیان ہے۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اکرم ﷺ سے میں نے یہ سنا ہے کہ: جو شخص مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے استغفار کرے، اللہ اس کے لئے ہر مومن اور ہر مومنہ کے( استغفار) کے عوض ایک نیکی لکھ دے گا۔

کشادگی کا ذریعہ: چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص استغفار میں لگا رہے، اللہ اس کے لئے ہر دشواری سے نکلنے کا راستہ بنادے گا اور ہر فکر کو ہٹاکر کشادگی فرمادے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا، جہاں سے اس کو دھیان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

مستغفرین اور پلٹ آنے والوں سے رب خوش ہوتا ہے: حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: بندے کا یوں پکارنا سید الاستغفار ہے، اے اللہ تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں جہاں تک طاقت رکھتا ہوں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں اور میں اپنے کئے ہوئے عمل کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں ان نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر کیں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، پس تو مجھے معاف کر دے، بے شک تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں۔ جو شخص یہ کلمات استغفار دن میں دل کے یقین سے کہے اور شام ہونے سے پہلے اسے موت آ جائے، تو وہ جنتی ہے اور جو اسے یقین کے ساتھ رات کو پڑھے اور صبح ہونے سے پہلے اسے موت آجائے، تو وہ جنتی ہے۔ (بخاری،4/ 190، حدیث:6306)

نامہ اعمال میں وسعت: حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہت عمدہ حالت ہے، اس شخص کے لئے جو (قیامت کے دن) اپنے اعمال نامے میں کثیر استغفار پائے۔ (مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)

استغفار بعض گناہ کبیرہ کی بخشش کا ذریعہ ہے: نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کہا: أَسْتَغْفِرُ اللّہَ الّذِیْ لَا الَہَ الَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ تو اللہ اس کے گناہ کو معاف فرمادے گااگرچہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگا ہو۔(ترمذی، 5/ 336، حدیث: 3588)

قبر میں میت کیلئے تحفہ: نبی اکرم ﷺ جب کسی میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس ٹھہر کر فرماتے: اپنے بھائی کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرواور اس کے ثابت قدمی کی دعا کروکیوں کہ اس وقت اس سے سوال کیا جائے گا۔

جانے وہ کون لوگ ہیں جنكی ہوتی ہے استغفار قبول

کاش ہمیں بھی مل جائے یہ سعادت بصدقہ زھراء بتول

اللہ کی بارگاہ سے استغفار کرنے کے بے شمار دینی اور دنیاوی فوائد حاصل ہوتے ہیں استغفار کے بارے میں ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے: وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۱۱۰) (پ 5، النساء: 110) ترجمہ:اور جو کوئی برا کام کرے تو یا اپنی جان پر ظلم کرے تو پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔ اور ارشاد فرمایا: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ( پ 9، الانفال: 33) ترجمہ:اور اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگ رہے ہوں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔ وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى (پ 11، ہود: 3) ترجمہ: اور کہ اپنے رب سے معافی مانگوپھر اس کی طرف توبہ کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لیے لازم کر لیا تو اللہ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گااور اسے جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

دلوں کے زنگ کی صفائی: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد: فرمایا بےشک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگتا ہے اور اس کی جلا یعنی صفائی استغفار ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

خوش کرنے والاعمل: حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہےاس کا اعمال نامہ اسے خوش کرے تو اسے چاہئے کہ استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)

خوشخبری: حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خوش خبری ہے اس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)


آج کل کے دور میں وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے تقریباً ہر شخص کو وقت کی کمی کی شکایت ہوتی ہے، لیکن اگر ہم اپنے روزمرہ کے معاملات پر غور کریں تو ہمارے دن کا بیشتر حصہ فضول باتوں، تبصروں اور کاموں میں گزر جاتا ہے بلکہ معاذ اللہ لوگوں کی برائیاں اور غیبتیں کر کے ہم اسی وقت کو گناہوں بھرا بنا دیتے ہیں حالانکہ اسی وقت کو ہم ذکر اللہ کرنے میں گزاریں تو ان شاء اللہ نیکیوں کا خزانہ ہاتھ آئے گا۔ اب یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم اپنے وقت کو ذکر اللہ کر کے جنت کا سامان کریں یا گناہوں میں صرف کر کے جہنم کے حقدار بنیں۔ ذکر اللہ کے بہت سے فضائل و فوائد ہیں اور اس میں کئی اذکار شامل ہیں انہیں میں سے ایک ذکر استغفار کرنا بھی ہے۔ آئیے استغفار کے متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلاء (یعنی صفائی) استغفار کرنا ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

2۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ اس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

3۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)

4۔ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: خوشخبری ہے اس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)

اللہ ہمیں کثرت سے ذکر اللہ کرنے والا بنائے۔ آمین

انسان سے گناہ ہو ہی جاتے ہیں لیکن خدانخواستہ اگر گناہ ہو جائیں تو توبہ واستغفار کرلینی چائیے اوراللہ تو بہت رحیم و کریم ہے جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) (پ 29، المزمل: 20) ترجمہ: اور اللہ سے بخشش مانگو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس کے علاوہ اللہ پاک پارہ 2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 222 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمہ: بے شک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔ اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی استغفار کے بہت سے فضائل بیان فرمائے گئے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیے ان شاء اللہ ان کو پڑھنے کے بعد آپ کا توبہ واستغفارکرنے کا ذہن بنے گا۔

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی صفائی استغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا نامۂ اعمال اسے خوش کرے تو آئیے اس کے متعلق ایک حدیث پڑھئے چنانچہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی نبی کریم ﷺ کا فرمان مسرت نشان ہے: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اس کو چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔ (مجمع الزوائد، 10/437، حدیث:18089)

حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہ مدینہ قرار قلب و سینہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوشخبری ہے اس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)آئیے ہم بھی نیت کر لیتے ہیں کہ آئندہ سے ہم بھی استغفار کی کثرت کریں گی۔ ان شاء اللہ

امیر اہلسنت دامت برکاتم العالیہ نے استغفار کی تر غیب دلاتے ہوئے مدنی انعامات کے رسالے میں بھی اس کو شامل فرمایا ہے نیت کیجیئے اس نیک عمل پر روزانہ اور پابندی کے ساتھ عمل کریں گی۔

میری پیاری اسلامی بہنو! ہم انسان ہیں ہم سے گناہ ہو جاتے ہیں لیکن ہمیں گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور گناہ ہو جانے کی صورت میں فوراً نیکی کر لینی چاہیے کہ وہ نیکی اس گناہ کا کفارہ بن جائے۔ ایک حدیث پاک میں ہے: تم جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو اور گناہ کرنے کے بعد نیکی کر لیا کرو وہ اس گناہ کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں گناہوں سے بچتے ہوئے زندگی گزارنے اور زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنا اللہ پاک کی توفیق سے ہےاور اللہ پاک کا اپنے بندے کو معاف کر کے اس سے راضی ہو جانا کسی نعمت سے کم نہیں ہے بلکہ یہی اصل نعمت ہے، اسی لیے حدیث میں بھی اور قرآن کریم میں بھی اس کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیشک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی جلا (یعنی صفائی) استغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)

2۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شیطان نے خدا سے کہا: اے میرے رب مجھے تیری عزت کی قسم! جب تک انسانوں کی روحیں ان کے جسم میں ہیں میں ان کو بھٹکاتا اور گمراہ کرتا رہوں گا تو رب العالمین نے فرمایا کہ مجھے میری عزت و جلال کی قسم ہے جب تک انسان استغفار کرتا رہے گا میں اسے ہمیشہ بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، 4 / 59، حدیث:11244)

3۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے اور اگر وہ مزید گناہ کرتا ہے تو اس سیاہی میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سیاہی اس کے دل پہ چھا جاتی ہے۔ (ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)

4۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک جنت میں بندے کو ایک درجہ عطا فرمائے گا بندہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب مجھے یہ درجہ کیسے ملا؟ رب کریم فرمائے گا اس استغفار کے بدلے جو تیرے بیٹے نے تیرے لیے کی۔(مسند امام احمد، 3/584، حدیث:10715)

5۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہ مدینہ کو فرماتے ہوئے سنا خوش خبری ہے اس شخص کے لیےجو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ استغفار بندے کے حق میں نجات اور گناہوں جیسی بیماری کا علاج ہے۔

فوائد: اللہ پاک کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ استغفار گناہوں کو مٹانے کا سبب ہے۔ استغفار نیکیوں میں اضافے کا سبب ہے۔ اللہ پاک استغفار کرنے والوں کو تنگی سے راحت عطا کرتا ہے۔ استغفار کرنے کی وجہ سے تنگی دور ہوتی ہے۔

اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


صراط الجنان میں ہے جو گناہ ہو چکے ان سےمعافی مانگنا استغفار کہلاتا ہے۔ گناہوں سے توبہ کرنا پرہیزگاروں کا وصف ہے۔ احادیث مبارکہ میں استغفار کے کثیر فضائل و فوائد بیان ہوئے چند پیش خدمت ہیں:

1 ) بہترین دعا استغفار ہے۔

2) جو استغفار کو اپنے پر لازم کر لے تو اللہ پاک اس کے لیے ہر تنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں سے روزی دے گا جہاں سے گمان بھی نہ ہو۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)

اِستغفار کرنے والے کو رب تعالیٰ یہ تمام نعمتیں غیبی خزانہ سے عطا کرتا ہے۔ مرآة المناجیح میں ہے کہ استغفار کے کلمات روزانہ زبان سے ادا کرے چاہے گناہ کرے یا نہ کرے۔ (مراة المناجیح،3/562)

نوٹ: بہتر یہ ہے کہ نماز فجر کے وقت سنت فجر کے بعد فرض سے پہلے ستر بار استغفار کرے کہ یہ وقت استغفار کے لئے بہت موزوں ہے اور بہت مجرب عمل ہے۔ جیساکہ رب تعالیٰ فرماتا ہے: وبالاسحار ھم يستغفرون (مراة المناجیح،3/562)

3 )اس کے لیے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔ یعنی اس نے مقبول استغفار بہت کئے ہوں مقبول استغفار وہ ہیں جو دل کے درد اور آنکھوں کے آنسو اور اخلاص سے کیے جائیں۔

4 ) دل بھی لوہوں کی مانند زنگ آلود ہو جاتے ہیں ان کی جلا استغفار ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)جیسے لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے اسی طرح گناہ کرتے کرتے دل بھی آہستہ آہستہ سیاہ اور پھر آخرکار زنگ آلود ہو جاتا ہے اور استغفار کرنے سے یہ زنگ دور ہوتا اور گناہوں کی آلودگی سے پاک ہوتا ہے۔

5) زمین میں دو امن نامے ہیں: میں امن ہوں اور اِستغفار امن ہے۔ مجھے تو اٹھا لیا جائے گا۔ لیکن استغفار والا امن باقی رہ جائے گا۔ پس تم پر ہر نئے وقوعہ اور ہر گناہ کے وقت استغفار لازم ہے۔

در حقیقت یہ حدیث آیت ذیل کی تفسیر ہے: ترجمہ: جب تک آپ ان میں موجود ہیں اللہ ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا اور جب تک وہ اپنے گناہوں پر استغفار کرتے رہیں گے تب بھی اللہ ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا۔ کیونکہ حضور ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں نیز آپ کی ہی بدولت ہم گناہ گار عذاب سے بچے ہوئے ہیں۔ علامہ علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے(خازن، 2/193، تحت الآیۃ: 33)

اللہ رب العزت ہمیں ہر وقت توبہ واستغفار کرتے رہنے کی توفیق دے۔

فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: وَاللہ إِنِّي لَاسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ اكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً ترجمہ: خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں تو بہ کرتا ہوں۔

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ کریم کے سارے ہی انبیائے کرام علیہم السلام معصوم ہیں، وہ گناہوں سے پاک ہیں اور رسولِ اکرم جناب محمد مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو سب انبیاء و رسل کے سردار ہیں پھر بھی معصوم ہونے کے باوجود آپ علیہ السّلام اللہ پاک سے استغفار طلب کیا کرتے:

استغفار کے 5 فضائل و فوائد احادیث کی روشنی میں:

(1) استغفار سے گناہ معاف ہوتے ہیں: إنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ: وَ عِزَّتِكَ يَا رَبِّ، لَا أَبْرَحُ أُغْوِي عِبَادَكَ مَادَامت أَرْوَاحُهُمْ فِي أَجْسَادِهِمْ قَالَ الرَّبُّ: وَ عِزَّتِي وَجَلَالِي لَا أَزَالَ أغْفِرْلَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُونِي شیطان نے بارگاہِ الٰہی میں کہا: اے اللہ! مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رہیں گی گمراہ کرتارہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(احمد بن حنبل، المسند، 3: 29، رقم:11257)

(2) استغفار سے ہر غم سے نجات مشکلات میں آسانی اور رزق میں برکت ہوتی ہے: چنانچہ حدیث مبارکہ ہے:عَنْ عَبْدِ اللہ بْن عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله وسلم: مَنْ لَزِمَ الْإِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللهُ لَهُ مِنْ ضِيقٍ مَخْرَجًا وَمِنْ كُلِّ هَمِّ فَرَجاً، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهِ، وَقَالَ الْحَاكِمُ: هَذَا حَدِيتٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص پابندی کے ساتھ استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر غم سے نجات اور ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کے وہم و خیال میں بھی نہ ہو۔

(3) استغفار سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: إِنَّ لِلْقُلُوْبِ صَدَأَ كَصَد الْحَدِيدِ وَجِلَاؤُهَا صلى الله وسلم عليه الْإِسْتِغْفَارُ۔رَوَاهُ الطَّبَرَانِي وَالْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادِهِ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوہے کی طرح دلوں کا بھی ایک زنگ ہے اور اس کا پالش استغفار ہے۔

(4) استغفار دلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ، إِذَا أَذْنَبَ، كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ - فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ۔فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتَّى تَغْلَفَ قَلْبُهُ فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَهُ اللهُ فِي كِتَابِهِ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوْبِهِمْ مَّاكَانُوايكسبون حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:

مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور گناہ) سے ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔(لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیاده (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ ران (زنگ) ہے کا ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا ہے:

كَلَّا بَلْٚ- رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴) ترجمہ کنزالایمان: کوئی نہیں بلکہ اُن کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔ (پ30، المطففین: 14)

(5)استغفار بعض گناہ کبیرہ کی بخشش کا ذریعہ ہے: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ جس نے کہا:استغفر الله الذی لا الہ الا ہو الحَيُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف فرما دے گا اگر چہ وہ میدان جنگ سے بھاگا ہو۔ (سنن ابوداؤد)