استغفار کا معنیٰ: استغفار
کا معنیٰ مغفرت طلب کرنا ہے جب بندۂ عاصی سے کوئی عصیاں دانستہ یا غیر دانستہ طور
پر سر زد ہو جائے اس پر معافی مانگنے کو استغفار کہتے ہیں۔
اِسْتِغْفار کا فوائد: استغفار
کے بہت سے فوائد ہیں یہ انسان کو بارِ عصیاں سے رحمت حریم کبریا سے آشنا کرواتے
ہوے خرد کی گتھیاں سلجھا کر خود گیر بنا دیتا ہے، گردشِ نجوم و افلاك عذاب مصیبتوں
بیابانوں آفتوں محکومیِ روح و نفس کی رنجوری (بیماری) ٹل جاتی ہے، خیر وبرکت اور درجات
زہد وتقویٰ وقار اور برد باری روزی مال و اولاد جسمانی و روحانی قوت دیں و دنیا کی
سعادتوں میں اضافہ الغرض ماہیٔ بے آب کو سکوں کی بحروں سے آشنا کرا دینے کا نام
ہے۔
آقا ﷺاور اِسْتِغْفار کی كثرت: استغفار
ایسی عبادت ہے جسکی کثرت صاحب مازاغ کیا کرتے استغفار سے محبت کا انداز کچھ یوں ہے
کہ فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے
اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ (مشکوۃ المصابیح،1/434، حدیث:2323)
حضرت سعید بن ابی بردہ اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا
سے روایت کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں رسول اکرم ﷺ تشریف لائے سبھی بیٹھے ہوئے تھے تو آپ
ﷺ نے فرمایا: کوئی صبح طلوع نہیں ہوتی مگر میں اس میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔(مصنف
ابن ابی شیبہ، 7/172، حدیث: 3507)
استغفار تیغ دو پیکر (دو دھاری تلوار) ہے اور یہی
عالم لاہوت (فنا فی الله کا درجہ) کا راز قوت دین اور عناصر افقیہ کا طائر ہے۔
ہمارے روشن بصر اسلاف جن کا اک اشارہ قم
باذن اللّه ہوتا
تو شہر خموشاں میں زندگی کی روح پیدا کر دیتے دین کا بھید حکیمُ الاُمّت مُفتی
احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ کچھ یوں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: توبہ و استغفار
روزے نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی لئے حضور انور ﷺ اس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور
انور ﷺ معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا۔ (مراۃ المناجیح، 3/353)
بقائے ایمان: ایمان کی
تقویم کی حنا بندی استغفار کی کثرت سے ہوتی ہے بغیر استغفار کے انسان کا دل ظلمت
کدے کی ماند ہوتا ہے جو بوقلمونی (رنگارنگی) دنیا میں غرق ہوتا ہے مگر اے ملت بیضا
(مسلم قوم) ڈرو یوم النشور (قیامت کا دن) سے جب بغیر توبہ کیے جیے جانے کا حساب ہو
گا اور ایسے شکستہ بال استغفار کی رب کو کوئی حاجت نہیں جس میں محض دکھاوا یا پل
بھر کا پچھتاوا شامل ہو حضرت رابعہ بصریہ کا ارشاد ہے کہ: ہمارا استغفار ایک اور
استغفار کا محتاج ہے، یعنی گناہوں سے سچے دل سے استغفار نہیں کرتے۔
امام غزالی کا ارشاد ہے: استغفار سے قبل ندامت
ضروری ہے، ورنہ یہ ا ستغفار جو ندامت کے بغیر ہو، وہ اللہ کے ساتھ استہزاء کے
مترادف ہے۔ (روح کی بیماریوں کا علاج، ص 76)
تریاقِ قلبِ زہر ہلاہل: حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لوہے کی طرح دلوں کا
بھی ایک زنگ ہے اور اس کا پالش استغفار ہے۔ (مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن بندہ جب گناہ
کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے اگر وہ گناہ چھوڑکر توبہ واستغفار
کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگرگناہ پرگناہ کئے جاتا ہے تو وہ
سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھاجاتی ہے یہی وہ رین ہے جس کا
ذکر قرآن مجید میں ہے۔(ترمذی، 5 / 220، حدیث: 3345)
عذاب الہی سے بچنے کا ذریعہ: نبی
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندہ عذاب الہی سے محفوظ رہتا ہے جب تک وہ استغفار
کرتارہتا ہے۔
ارشادِ باری ہے: وَ
مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ
مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳)
( پ 9، الانفال: 33) ترجمہ:اور اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگ
رہے ہوں۔
ہر رنج و الم سے نجات: نبی
اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کثرت سے استغفار کرے تو اللہ اس کا ہر رنج دور کردےگااور
ہر تکلیف سے اس کو نجات دے گااور اس کو ایسی جگہ سے روزی دےگا کہ اسے گمان تک نہ
ہوگا۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)
اللہ کو محبوب عمل: نبی
اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم لوگ گناہ نہ
کرو تو اللہ تم لوگوں کو ختم کرکے دوسری قوم کو لے آئے گاوہ گناہ کرکے اللہ سے استغفار
کریں گے اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا۔
سنت آدم اور ذلت اہرمن(شیطان): یہ
سنتِ آدم ہے جس طرح اقبال نے ابلیس کی سرکشی کو یوں بیان کیا:
کر گیا سر مست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبُو
ابلیس کی ناا میدی اور تقنطو کے طوفاں میں طمانچے
کا سبب اسکی بے باکی ہے، چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور
اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ شیطان نے کہا کہ اے رب! قسم ہے تیری عزت کی کہ میں
تیرے بندوں کو بہکاتا ہی رہوں گا، جب تک کہ ان کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی،
اس پر اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی اور رتبہٴ بلندی
کی قسم ہے، میں ان کو بخشتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے۔(مسند
امام احمد، 4/58، حدیث: 11337)
لہٰذا شیطان اور اسکے لشکر کے خلاف استغفار ایک آڑ
ہے تو سنت آدم کو زندہ مکمل توجہ ندامت اور یکسوئی کے ساتھ استغفار کی کثرت کی
جائے، حدیث شریف میں آتا ہے: توبہ ندامت اور شرمندگی کا نام ہے۔ (ابن ماجہ، 4/492،
حدیث: 4252)
کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہو گی کڑی
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ہرچہ بر تو آید از ظلماتِ غم غم چوں بینی زود استغفار کن
آن زیباکی و گستاخی است ہم غم بامر خالق آید کارکن
ترجمہ: اے انسان جو کچھ تجھ پر غم و مصائب اور
ظلماتِ غم آتے ہیں وہ سب تیری بیباکی اور نافرمانی اور گستاخی کے سبب آتے ہیں، پس
جب تو غم اور مصائب دیکھے تو جلد استغفار کر، کیونکہ یہ غم خدا کے حکم سے آتا ہے،
کثرت سے استغفار کرنے والے: حضرت
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہت
عمدہ حالت ہے، اس شخص کے لئے جو (قیامت کے دن) اپنے اعمال نامے میں کثیر استغفار
پائے۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ جو شخص چاہے کہ قیامت کے دن اس کا اعمال نامہ اس
کو خوش کردے تو اس کو کثرت سے توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہئے۔(مجمع الزوائد، 10/437،
حدیث:18089)
خود افروزی اعمال: حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نگرانی کرنے والے دو فرشتے
(یعنی اعمال لکھنے والے) کسی بھی دن جب اللہ جل شانہ کے حضور (کسی کا اعمال نامہ)
پیش کرتے ہیں اور اس کے اول و آخر میں استغفار لکھا ہوتا ہے تو اللہ جل شانہ کا
ارشاد ہوتا ہے کہ میں اپنے بندہ کا وہ سب کچھ بخش دیا جو اس اعمال نامہ کے اول و
آخر کے درمیان ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ
رسول اکرم ﷺ سے میں نے یہ سنا ہے کہ: جو شخص مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے
استغفار کرے، اللہ اس کے لئے ہر مومن اور ہر مومنہ کے( استغفار) کے عوض ایک نیکی
لکھ دے گا۔
کشادگی کا ذریعہ: چنانچہ حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص
استغفار میں لگا رہے، اللہ اس کے لئے ہر دشواری سے نکلنے کا راستہ بنادے گا اور ہر
فکر کو ہٹاکر کشادگی فرمادے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا، جہاں سے اس کو
دھیان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)
مستغفرین اور پلٹ آنے والوں سے رب خوش
ہوتا ہے: حضرت
شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: بندے کا یوں پکارنا سید
الاستغفار ہے، اے اللہ تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے ہی مجھے
پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں جہاں تک طاقت رکھتا ہوں تیرے عہد اور وعدے
پر قائم ہوں اور میں اپنے کئے ہوئے عمل کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں ان
نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر کیں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا
ہوں، پس تو مجھے معاف کر دے، بے شک تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں۔
جو شخص یہ کلمات استغفار دن میں دل کے یقین سے کہے اور شام ہونے سے پہلے اسے موت آ
جائے، تو وہ جنتی ہے اور جو اسے یقین کے ساتھ رات کو پڑھے اور صبح ہونے سے پہلے
اسے موت آجائے، تو وہ جنتی ہے۔ (بخاری،4/ 190، حدیث:6306)
نامہ اعمال میں وسعت: حضرت عبداللہ
بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہت عمدہ حالت
ہے، اس شخص کے لئے جو (قیامت کے دن) اپنے اعمال نامے میں کثیر استغفار پائے۔ (مجمع
الزوائد، 10/437، حدیث:18089)
استغفار بعض گناہ کبیرہ کی بخشش کا
ذریعہ ہے: نبی
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کہا: أَسْتَغْفِرُ اللّہَ الّذِیْ لَا
الَہَ الَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوْبُ اِلَیْہِ تو
اللہ اس کے گناہ کو معاف فرمادے گااگرچہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگا ہو۔(ترمذی، 5/ 336،
حدیث: 3588)
قبر میں میت کیلئے تحفہ: نبی
اکرم ﷺ جب کسی میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس کے پاس ٹھہر کر فرماتے: اپنے بھائی
کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرواور اس کے ثابت قدمی کی دعا کروکیوں کہ اس وقت اس سے
سوال کیا جائے گا۔
جانے وہ کون لوگ ہیں جنكی ہوتی ہے
استغفار قبول