محمدارحم
رضا عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
اللہ پاک نے ثواب اور نیکیوں والے کام کو معین فرمادیا ہے
اسی طرح گناہوں والے کام کو بھی معین فرمادیا ہےلیکن جب انسان کوئی کام کرتا ہے تو
وہ اس میں اپنے لئے فائدے اور نقصانات کو دیکھتا ہے اسی وجہ سے قرآن پاک اور
احادیث مبارکہ میں کسی کام کو کرنے کے فضائل بیان کئے گئے اسی حوالے سےیہاں ایک
خاص کام توبہ اور استغفار کرنے کے فضائل اور فوائد بیان کئے جارہے ہیں۔
استغفار کے حوالے فرامین مصطفی ٰ:
اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
بیشک میں بھی دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم،کتاب الذکر
والدعاءوالتوبہ والاستغفار،باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ، ص1449،
حدیث:2702)
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: جس نے استغفار کو لازم پکڑلیا تو
اللہ اس کی تمام مشکلوں میں آسانی ہر غم میں آزادی اور بے حساب رزق عطا فرماتا
ہے۔(سنن ابی داؤد،کتاب الوتر،باب فی الاستغفار، 2/122، حدیث:1518)
(1)جس نے اپنے
اوپر استغفار کو لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی کو دور فرمائے گا اور ہر
تنگی سے اسے راحت عنایت فرمائے گااور ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا کہ جہاں سے اُسے
گمان بھی نہ ہوگا۔
(2)بےشک لوہے کی طرح دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور اُس کی
صفائی اِستغفار کرنا ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار،حدیث 3819)
(3)جو اِس بات کو پسند کرتا ہے کہ اُس کا نامہ اعمال اُسے
خوش کرے تو چاہئے کہ وہ اِستغفار میں اضافہ کرے۔ (نوادرالاصول،ص 541، حدیث775)
مغفرت سے استغفار مراد ہے کسی کا عیب چھپالینا مغفرت ہے
اور سزانہ دینا معافی ہے۔(معجم اوسط، باب الالف، 1/245، حدیث:839)
ایک بزرگ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:ایک بار نصف رات گزر جانے
کے بعد میں جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا۔راستے میں میں نے دیکھا کے چار آدمی ایک
جنازہ اٹھائے جارہے ہیں میں سمجھ کے شاید انہوں نے اس کو قتل کیا ہے اور اس کی لاش
کو ٹھکانے لگانے جارہے ہیں جب وہ میرے نزدیک آئے تو میں نے ہمت کر کے پوچھا کیا تم
نے اس کو خود قتل کیا ہے یا کسی اور نے اب تم اس کو ٹھکانے لگانے جارہے ہوانہوں نے
کہا نہ ہم نے اس کو قتل کیا ہے نہ ہی یہ مقتول ہے بلکہ ہم مزدور ہے اور اس کی ماں
نے ہمیں مزدوری دینی ہے وہ اس کی قبر کے پاس ہمارا انتظار کر رہی ہے میں تجسس میں
آگیا اور ان کے ساتھ قبرستان گیا اور دیکھا کہ ایک قبر کے پاس ایک بوڑھی عورت کھڑی
تھی۔ میں اس عورت کے قریب گیا اور پوچھا کے آپ اپنے بیٹے کو دن کے وقت میں یہاں کیوں
نہیں لائیں تو اس عورت نے کہا کے یہ جنازہ میرے بیٹے کا ہے اور یہ شرابی اور گناہ
گار تھا ہر وقت شراب کے نشے اور گناہ کے دلدل میں غرق رہتا تھا جب اس کی موت کا
وقت قریب آیا تو اس نے مجھے تین نصیحتیں کیں( ۱) جب میں مرجاؤں تو میری گردن میں
رسی ڈال کر گھر کے اردگرد گھسیٹنا اور لوگوں سے کہنا کے گنہگاروں اور نافرمانوں کی
یہی سزا ہوتی ہے(۲)مجھے رات کے وقت میں دفن کرنا کیونکہ جو بھی میرے جنازے کو
دیکھے گا لعن طعن کرے گا (۳)جب مجھے قبر میں رکھنے لگو تو میرے ساتھ اپنا ایک سفید
بال بھی رکھ دینا کیونکہ اللہ سفید بالوں سے حیا فرماتا ہے ہوسکتا ہے کے وہ مجھے
اس کی وجہ سے عذاب سے بچالے۔جب یہ مر گیا تو پہلی وصیت کے مطابق گردن میں رسی ڈالی
تو غیب سے آواز آئی!اے بوڑھیا اسے یوں مت گھسیٹو اللہ نے اسے اپنے گناہ پر شرمندگی
کی وجہ سے معاف فرمادیا ہے۔ میں نے نمازے جنازہ پڑھی اور اس بوڑھی عور ت کا بال اس
کے ساتھ رکھ کر قبر میں رکھا۔ تو اس کا جسم حرکت میں آیا اور کفن سے ہاتھ اٹھایا
اور آنکھے کھولی ہمیں مخاطب کر کے مسکراتے ہوئے کہا: اے شیخ! ہمارا رب بڑا غفور
الرحیم ہے وہ احسان کرنے والوں کو بھی بخش دیتا ہے اور گناہ گاروں کو بھی معاف کردیتا
ہے یہ کہہ کر اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں اور ہم اس کی قبر پر مٹی ڈال
کر واپس آگئے۔(حکایات الصالحین، ص78)
ہمیں بھی چاہیے کہ
ہر وقت اللہ پاک سے توبہ کرتے رہیں اور اس کی نعمت پر شکر اداکرتے رہیں۔
استغفار ایک بہت ہی اہم عمل ہے جو ہمیں اللہ سے مغفرت کی
دعا کرنے کا موقع دیتا ہے۔یہ ہمیں اپنے گناہوں کو تسلیم کرنے اور ان سے توبہ کرنے
کا ذریعہ بنتا ہے۔استغفار کرنے سے ہمارے دل کی پاکی، روح اور ذہن کی صفائی میں
اضافہ ہوتا ہے۔استغفار اللہ کی بخشش کا دروازہ ہے اور ہمیں نیکیوں کی طرف رجوع
کرنے کا راستہ دکھاتا ہے۔
استغفار کرنے کی فضیلتوں کے بارے میں احادیث سننا بہت اہم
ہے۔آئیے استغفار کے حوالے سے کچھ احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(1)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں
ایک دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر 6858)
(2)حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
فرماتے ہوئے سنا: اللہ کہتا ہے: اے آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے
گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا،
چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں، مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں
ہے، اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب
کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پرواہ نہ ہو گی۔اے آدم کے بیٹے!
اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھر مجھ سے ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح
کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا (اور تجھے بخش
دوں گا)۔ (جامع ترمذی، حدیث نمبر 3540)
(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں
نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایک مجلس میں سو مرتبہ
(یہ استغفار کہتے ہوئے ) شمار کرتے تھے:رَبِّ اغْفِرْلِی وَتُبْ عَلَیَّ
اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ یعنی اے
میرے رب! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما۔بے شک تو بہت توبہ قبول کرنے والا،
نہایت مہربان ہے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3814)
(5)حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مبارک ہو اس شخص کو جسے اپنے نامہ اعمال میں زیادہ
استغفار ملا۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3818)
ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ استغفار کے بہت فضائل ہیں
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جو ہم سے خطائیں ہوئیں ان کی اللہ تبارک و تعالیٰ سے معافی
مانگیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتے رہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھنے اور اس پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
محمد
عاطف انصاری (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
انسان جو ہے وہ ایک خطا کا پتلا ہے بعض اوقات نہ چاہتے
ہوئے بھی وہ اتباع شیطان کے سبب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس صورت میں بندہ کو چاہیے
کہ وہ اپنے کئے ہوئے گناہ پر نادم ہو کر اپنے رب کی بارگاہ میں یہ امید کرتے ہوئے
حاضر ہو کہ رب تعالیٰ گناہ کو معاف فرمادے گا۔ توبہ و استغفار کرے کیو نکہ اللہ
تعالیٰ استغفار کو پسند فرماتا ہے۔ہمارے موضوع کا نام بھی استغفار ہی ہے چونکہ
ہمارا موضوع استغفا ر ہے تو سب سے پہلے ہمیں استغفار کا طریقہ آنا چاہیے اس کے لئے
چند شرطیں ہیں۔
استغفار کی شرائط: اپنے گناہوں پر استغفار کرنے کیلئے 3 شرائط ہیں:(1) بندہ اپنی کی ہوئی خطا
کا اقرار کرے(2)بندہ اپنی کی ہوئی خطا پر شرمندہ ہو(3)بندہ اپنی کی ہوئی خطا کو
آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے کہ وہ دوبارہ ایسا نہیں کرے گا۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ اپنا دست قدرت پھیلاتا ہے رات میں تاکہ
استغفار کرے دن کو گناہ کرنے والا اور اللہ پاک اپنا دست قدرت پھیلا تا ہے دن میں
تاکہ استغفار کرے رات کو گناہ کرنے والا۔(مسلم)
غلام
حسین عطاری (درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان اہل یبت لیاری کراچی، پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیو! موجودہ دور میں علم دین سے دوری بہت
زیادہ ہوگئی ہے جس کے سبب لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ ہم جو یہ کام کر رہیں ہیں آیا
کہ اس میں کوئی غیر شرعی بات تو نہیں میرا یہ کرنا گناہ تو نہیں یہ بات یاد رہے کہ
انسان خطا کار ہے ہر دن انسان سے چھوٹے بڑے گناہ ہوتے رہتے ہیں بندہ بچنے کی بہت
کوشش کرتا ہے لیکن پھر بھی نفس و شیطان کے دھوکے میں آ کر گناہوں کا شکار ہوجاتا
ہے اسی لیے ہمیں ہر وقت اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہئے
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے سے بے شمار
دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل ہوتے ہیں ان میں سے کچھ پیش خدمت ہیں:
ہر
تنگی سے چھٹکارا:رسول اﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو
استغفار کو اپنے اوپر لازم کرلے تواﷲاس کے لیے ہرتنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے
نجات دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(ابوداؤد،ابن
ماجہ)
بہت خوبیاں:حضرت عبداللہ بن بسر فرماتے ہیں، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: اس کے لئے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔ (ابن
ماجہ)
اللہ پاک توبہ قبول فرماتا ہے:حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عبَّاس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ
رَسُوْلُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر ابنِ آدم کے
پاس سونے کی ایک وادی ہو توچاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو
مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو اللہ پاک سے توبہ کرے تو اللہ پاک اس کی
توبہ قُبول فرماتاہے۔(مسلم)
دن میں 100 مرتبہ استغفار:نَبِیّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے
لوگو!اللہ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش چاہو بے شک میں روزانہ 100 مرتبہ اللہ پاک کے
حضور توبہ کرتا ہوں۔ (مسلم)
پیارے اسلامی بھائیو! ساری احادیث سے استغفار کے دینی و دنیوی
فوائد معلوم ہوئے لیکن ان میں آخر الذکر حدیث سے استغفار کی اہمیت بھی پتا چلتی ہے
کہ اللہ کے نبی تو معصوم ہوتے ہیں یعنی ان کو گناہ کا خیال ہی نہیں آ سکتا اب جو
نبیوں کا بھی سردار ہو جب پیارے آقاصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دن میں 100 بار
استغفار کر رہے ہیں تو ہم تو کسی گنتی میں ہی نہیں ہمیں تو ہر وقت استغفار کرنا چاہئے
اللہ پاک ہمیں کثرت سے توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس دنیا میں بے شمار مخلوقات کو پیدا
فرمایا ہے، کوئی حیوان کی شکل میں ہے، کوئی جنات کی شکل میں ہے تو کوئی انسان کی
شکل میں ہے، بیشک ان تمام مخلوق میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا لیکن انسان خطا
کا پتلا ہے، کہیں نہ کہیں انسان خطا کر بیٹھتا ہے مگر اس خطا پر شرمندہ ہونا اور اس
سے توبہ کرنے میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے اور اسی استغفار کرنے میں رب کی رضا
ہے، اسی سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ
جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا
اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجَمۂ کنزُ
الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں
اور پھراللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ
قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5، النسآء: 64)
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کے بندہ گناہ کرنے کے بعد استغفار
کرے تو اللہ اسے بخش دے گا۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ
یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ
فَضْلٍ فَضْلَهٗؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر
اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا(فائدہ) دے گا ایک ٹھہرائے وعدہ تک اور ہر
فضیلت والے کواس کا فضل پہنچائے گا۔(پ11، ھود:3)
آیات مبارکہ کے بعداحادیث شریف میں کئی جگہ استغفار کی فضیلت
کو بیان کیا گیا ہے ایک حدیث مبارکہ بیان کرتے ہے: عَنْ اَبِي
سَعِيْدِنِ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم قَالَ کَانَ فِي بَنِي اِسْرَائِيْلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً
وَتِسْعِيْنَ اِنْسَانًا ثُمَّ خَرَجَ یَسْأَلُ فَأَتَی رَاھِبًا فَسَأَلَهُ
فَقَالَ لَهُ ھَلْ مِنْ تَوْبَةٍ قَالَ لَا فَقَتَلَهُ فَجَعَلَ یَسْأَلُ فَقَالَ
لَهُ رَجُلٌ ائْتِ قَرْیَةَ کَذَا وَکَذَا فَاَدْرَکَهُ الْمَوْتُ فَنَاءَ
بِصَدْرِهِ نَحْوَہا فَاخْتَصَمَتْ فِيْهِ مَلَائِکَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِکَةُ
الْعَذَابِ فَاَوْحَی اللهُ اِلَی ھَذِهِ اَنْ تَقَرَّبِي وَاَوْحَی اللهُ اِلَی
ھِذِهِ اَنْ تَبَاعَدِي وَقَالَ قِيْسُوْا مَا بَيْنَہما فَوُجِدَ اِلَی ھَذِهِ اَقْرَبَ
بِشِبْرٍ فَغُفِرَلَهُ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ اخرجه البخاري
حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: بنی اسرائیل میں سے ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے اور پھر مسئلہ
پوچھنے نکلا تھا (کہ اس کی توبہ قبول ہو سکتی یا نہیں)۔ وہ ایک راہب کے پاس آیا
اور اس سے پوچھا: کیا (اس گناہ سے) توبہ کی کوئی صورت ممکن ہے؟ راہب نے جواب دیا:
نہیں۔ اس نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا۔ پھر اس نے ایک اور شخص سے پوچھا تو اس نے
بتایا کہ تم فلاں بستی (میں جہاں نیک لوگ رہتے ہیں) جاؤ (ان کے ساتھ مل کر توبہ
کرو۔) وہ اس بستی کی طرف روانہ ہوا لیکن ابھی نصف راستے میں بھی نہیں پہنچا تھا کہ
اس کی موت واقع ہو گئی۔رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا کہ کون اس کی
روح لے جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو حکم دیا کہ اس کی لاش کے قریب ہو جائے
اور دوسری بستی کو حکم دیا کہ اس کی لاش سے دور ہو جائے۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں
سے فرمایا: اب دونوں کا فاصلہ دیکھو جس طرف کا فاصلہ کم ہو اسے اس بستی کے رہنے
والوں کے حساب میں ڈال دو۔ اور جب فاصلہ ناپا گیا تو اس بستی کو (جہاں وہ توبہ
کرنے جا رہا تھا) ایک بالشت لاش سے زیادہ قریب پایا اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔ یہ
حدیث متفق علیہ ہے۔
ان آیات و حدیث سے معلوم ہوا کے بندہ کتنے ہی گناہ کیوں نہ
کرلے اگر اپنے رب سے توبہ واستغفار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا اور
اسے بخش دے گا۔
محمد مدثر
رضوی عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)
استغفار کی تعریف: اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوتے ہوئے اللہ
پاک سے معافی طلب کرنا استغفار کہلاتا ہے۔
استغفارسے پریشانیاں دور ہوتی ہیں: حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم
کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا
فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ
ہوگا۔(ابن ماجہ، صفحہ 257، حدیث: 3819)
اعمال نامہ میں خوشی کا سبب:حضرت سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہےکہ
اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ نامہ اعمال میں استغفار کا اضافہ
کرے۔(معجم اوسط، صفحہ 245، حدیث 839)
استغفار کرنے والے
کے لئے خوشخبری:
حضرت عبدالله بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے
شہنشاہ مدینہ قرار قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا
کہ خوشخبری ہے اس کے لئے جو اپنے اعمال میں استغفار کو کثرت سے دیکھے۔(مراٰۃ
المناجیح، جلد3، حدیث:2356)
استغفار دل کے زنگ کو دور کرنے کا سبب:ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: گناہ مومن کے دل میں کالا داغ پیدا کرتا ہے اور اس کے لئے توبہ
و استغفار ایسی ہے جیسے زنگ آلود لوہے کے لئے صیقل۔(تفسیر نعیمی، جلد 3، صفحہ 306)
استغفار کے سبب گناہ معاف: ترمذی شریف میں ہے کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے: اے بندے اگر تیرے
گناہ بادل تک پہنچ جائیں پھر تو استغفار کرے تو میں بخش دوں گا اور کوئی پرواہ نہ
کروں گا۔(تفسیر نعیمی، جلد 3، صفحہ 306)
پیارے اسلامی بھائیو! دیکھئے کہ استغفار کے کس قدر فضائل و
برکات ہیں اس لئے ہمیں کثرت سے استغفار کرنا چاہئے۔ بعض روایات میں ہے کہ ہمارے آقا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے تو سوچئےہمیں
کتنا استغفار کرنا چاہئے۔اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
انسان میں شر کی دوطاقتیں ہوتی ہیں، ایک انسانی نفس جو
اندرونی طاقت ہے اور دوسرا شیطان جو کہ بیرونی طاقت ہے، یہ دونوں طاقتیں انسان کو
گناہوں کی طرف راغب کرتی ہیں، اس لیے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان سے کچھ نہ
کچھ غلطیاں اور گناہ صادر ہوجاتے ہیں،کیوں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔سوائے انبیائے
کرام علیہم السلام کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں، ان سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا، وہ
ان دونوں شر کی طاقتوں سے محفوظ ہوتے ہیں، انہیں جو نفس عطا کیاجاتا ہے، وہ نفس
مطمئنہ ہوتا ہے، حالت نوم میں بھی ان کا دل بیدار رہتا ہے، اور ان کا مزاح بھی
اتنا پاکیزہ ہوتا ہے کہ حق کے دائرے سے باہر نہیں ہوسکتا۔
توبہ و استغفار کی فضیلت:انسان چونکہ خطا کا پتلا ہے تو ان خطاؤں کےازالے کے لیے
قرآن کریم میں راہنمائی کی گئی ہے، چنانچہ اللہ پاک سورۂ آل عمران میں ارشاد
فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً
اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا
لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ
یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی
جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے
سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں۔(پ4،آلِ عمرٰن:135)
اس آیت میں اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کسی سے گناہ سرزد
ہوجائے تو اسے چاہیے فوراً اللہ کو یاد کرے،ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں،یہ لوگ
گناہ کے بعد فوراً توبہ اور استغفار کرنے لگتے ہیں، اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں،
گناہوں پر جمتے نہیں ہیں، ایسے لوگوں کو اللہ مغفرت اور دخول جنت سے نوازے گا۔
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت انس رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو شیطان رونے لگا اور شیطان نے کہا: اے
میرے رب، تیری عزت وجلال کی قسم! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں
گی اور وہ زندہ رہیں گے، میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا، تو اللہ نے فرمایا: میری
عزت وجلال کی قسم! جب تک میرے بندے مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے،میں مسلسل ان کو
بخشتا رہوں گا۔
اس حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم شمار کیا
کرتے تھے کہ حضورنبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک مجلس کے اندرسو سو
مرتبہ یہ کلمہ دہراتے تھے۔اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بے شک
تو توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔(سنن ابو داؤد، رقم: 1516)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب نماز سے فارغ ہوتے تو (پہلے) تین مرتبہ استغفار کرتے
اور (پھر) یہ دعا پڑھتے: اللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ
تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ۔(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کی قسم! میں دن میں ستر بار سے
زیادہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا اور توبہ کرتا ہوں۔(صحیح بخاری)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ رب
العزت اپنے نیک بندوں کا جنت میں مرتبہ بڑھائے گا۔ انسان کہے گا کہ اے میرے
پروردگار! یہ درجہ مجھے کیسے نصیب ہوا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تیرا لڑکا تیرے
لئے استغفار کرتا رہا ہے۔اس لئے تجھے یہ بلند درجہ نصیب ہوا۔(مسند امام احمد)
آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ ابلیس
نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قسم کھا کر کہا کہ میں تیرے بندوں کو اس وقت تک
گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا جب تک ان کے جسم میں روح ہو گی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے
جلال اور عزت کی قسم کھا کر فرمایا۔جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں
بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد)
ان احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم المعصومین ہونے کے باوجود امت کو ترغیب دلانے
کے لیے دن میں کئی مرتبہ استغفار کا اہتمام فرمایا کرتے،اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ
ہم بھی زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کریں اور اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی
طلب کریں۔اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین